روشن ہر شام کی طرح اس شام بھی اپنے ذہن پر کئی خیالات کا بوجھ اٹھائے آفس کی چھٹی کے بعد چرچ گیٹ اسٹیشن پرلوکل ٹرین کا انتظار کر رہا تھا۔
EPAPER
Updated: April 14, 2025, 12:27 PM IST | Aqib Zamir | Chakhli,Buldhana
روشن ہر شام کی طرح اس شام بھی اپنے ذہن پر کئی خیالات کا بوجھ اٹھائے آفس کی چھٹی کے بعد چرچ گیٹ اسٹیشن پرلوکل ٹرین کا انتظار کر رہا تھا۔
روشن ہر شام کی طرح اس شام بھی اپنے ذہن پر کئی خیالات کا بوجھ اٹھائے آفس کی چھٹی کے بعد چرچ گیٹ اسٹیشن پرلوکل ٹرین کا انتظار کر رہا تھا۔ گھریلو مسائل میں الجھا ہوا روشن کا ذہن ہمیشہ اس کے ساتھ سفر کرنے والی ایک لڑکی کو دیکھ کر تھوڑی دیر کیلئےسنبھل جاتا اور سارے پریشان کن خیالات اس کے ذہن سے غائب ہو جاتے۔ وہ لڑکی واقعی کسی خوبصورت خواب جیسی تھی۔
ویسے تو وہ ہمیشہ اپنے ہاتھ میں موبائل فون اور کانوں میں ہیڈفون لگا کر مشغول نظر آتی مگر آ ج روشن کی قسمت عروج پر تھی کیونکہ آج وہ تنہا بھی، نہ فون ہاتھ میں تھا نہ ہیڈفون کان میں۔ حد تو اس وقت ہوئی جب اس نے بھی روشن کی طرف اسی انداز سے دیکھا جس انداز سے روشن اسے ہر روز دیکھا کرتا تھا۔ لوکل جیسے ہی پلیٹ فارم پر رُکی ایک بھیڑ تیزی کے ساتھ ٹرین کی طرف لپکی۔ روشن اور وہ حسینہ آج ایک ساتھ ایک دروازے سے ٹرین میں داخل ہوئے۔ روشن دروازے کے پاس والے اینگل سے پیٹھ لگا کر کھڑا ہو گیا اور لڑکی روشن کے سامنے والی سیٹ سےٹک کر کھڑی ہو گئی۔ چرچ گیٹ سے ٹرین چلی، مرین لائنس، چرنی روڈ، گرانٹ روڈ سے ممبئی سینٹرل آتے آتے دونوں نے ایک دوسرے کی طرف اس طرح مسکرا کر دیکھنا شروع کر دیا کہ جیسے وہ ایک دوسرے کیلئے تیار ہوں۔ آج پہلی بار روشن اس لڑکی کو اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔ وہ واقعی خوبصورت تھی۔ بھورے بال، گُلابی رنگت، کتابی نقشہ، خوبصورت کشمیری لڑکیوں جیسے گال، سفید ہتھیلیاں، بدن پر قیمتی لباس اور پاؤں میں قیمتی سینڈل سے باہر نکلتی ہوئیں سفید سفید بے عیب انگلیاں اسے کسی سحر میں مبتلا کررہی تھیں۔ ویسے روشن بھی کچھ کم نہیں تھا۔ اونچا قد اور سوٹ بوٹ پہننے والا بالکل کسی افسر کے مانند۔ بس وہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں اکاؤنٹنٹ تھا لیکن اس کی تنخواہ بھی اچھی خاصی تھی۔
مہا لکشمی، لوور پریل اور پربھا دیوی اسٹیشن آتے آتے دونوں میں اشارے شروع ہو گئے۔ دادر اسٹیشن پر لڑکی کو اترنا تھا تبھی اس لڑکی نے اپنے پرس سے ایک وزیٹنگ کارڈ نکالا اور جیسے ہی دادر اسٹیشن پر ٹرین رُکی، اندر کی بھیڑ باہر جانے لگی اور باہر کی بھیڑ اندر آنے لگی، اسی دوران لڑکی نے دروازے سے اترتے وقت وزیٹنگ کارڈ روشن کو تھما دیا اور یہ جا وہ جا۔ اب کیا تھا روشن کی تو جیسے لاٹری لگ گئی۔ وہ ایک انجانی خوشی سے پھولا نہیں سمارہا تھا۔ اب اسے ٹرین کی رفتار بہت دھیمی لگ رہی تھی۔ اس بس انتظار تھاکہ جلد سے جلد وہ گھر پہنچے اور اس لڑکی کو فون کرے۔ اسٹیشن گزر رہے تھے اوراس خوبصورت حسینہ کی ہر ادا روشن کی آنکھوں کے سامنے رقص کر رہی تھی۔ اسی خواب و خیال میں کئی اسٹیشن گزرگئے اور ملاڈ آگیا۔ وہ طوفانی رفتار سے ٹرین سے اترا۔ اسٹیشن سے چھ منٹ کے پیدل فاصلے پر گیارہ منزلہ بلڈنگ کی چوتھی منزل پر وہ شاندار ون بی ایچ کے فلیٹ میں اپنی بیوی گوَری کے ساتھ رہتا تھا۔ یہ فلیٹ اس نے بینک سے قرض لے کر خریدا تھا، جس کی قسطوں کا بار اب تک اس کے سر پر تھا لیکن وہ کارڈ ملنے کے بعد وہ یہ باتیں تقریباً بھول گیا تھا۔
بیل بجاتے ہی گھر کا دروازہ کھلا، میلی کچیلی ساڑی پہنی ہوئی گھریلو خاتون گوَری نے دروازہ کھولا۔ روشن بنا کچھ کہے اندر داخل ہو گیا۔ اپنا بیگ رکھا اور خود صوفے پر بیٹھ گیا۔ گوَری کچن سے پانی کا گلاس لے کر لوٹی اور روشن کو دیا ہی تھا کہ روشن نے پوچھا۔ ’’بینک سے کوئی آدمی آیا تھا؟‘‘’’ہاں ! آیا تھا اور قسط لے گیا۔ ‘‘ گوَری نے مسکرا کر جواب دیا۔ ’’پیسے لے گیا ! کہاں سے آئے؟‘‘ روشن کے چہرے پر حیرانی تھی۔ ’’پاپا سے کہہ کر میں نے اپنے زیور گروی رکھ د ئیے۔ ‘‘ یہ کہہ کر گوری سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ ’’ کیا! زیور گروی رکھ دیے؟ یہ کیا کردیا تم نے، پاپا کیا سوچیں گے میرے بارے میں ؟‘‘ اس نے بہت اداس ہو کر گوَری سے یہ کہا اور ایک گھونٹ لے کر گلاس ٹیبل پر رکھ دیا۔ ’’روشن پچھلے کئی مہینوں سے ان قسطوں نے ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں سوچنے اور بات کرنے کا موقع تک نہیں دیا، ہر وقت تم انہی قسطوں میں الجھے رہتے ہو۔ ‘‘ گوری نے یہ کہہ کر اپنا ہاتھ روشن کے ہاتھ پر رکھا اور کہا’’زیور پھر بن جائیں گے مگر ہمارا یہ انمول رشتہ اگر ٹوٹ گیا تو دوبارہ کبھی نہیں بن پائے گا۔ ‘‘ ’’لیکن۔ ۔ ۔ ‘‘’’لیکن ویکن نہیں۔ ۔ ۔ دو ہی قسطوں کے تو بات ہے، پھر کیا ٹینشن۔ ‘‘گوری نے روشن کی بات کاٹ کر بڑے اطمینان بخش لہجے میں کہا۔ ’’اچھا چلو فریش ہو جاؤ مجھے بھی بھوک لگی ہے۔ ‘‘ گوَری اٹھی اور فرش پر رکھا ہوا روشن کا بیگ لے کر بیڈ روم میں چلی گئی۔
روشن ایک لمبی سانس بھر کر صوفے سے اٹھا اور باتھ روم کی طرف بڑھا تو اس نے دیکھا کہ بہت سارے کپڑے ہیں جو ابھی بھیگ رہے ہیں اور دھونے باقی ہیں۔ اس نے انہیں نظر انداز کیا اور ہاتھ منہ دھو کر اپنے بیڈ روم کی طرف بڑھا۔ اس کی نظر کچن کی طرف اٹھی۔ اس نے دیکھا کہ بہت سارے برتن دھو کر سلیقے سے رکھے ہوئے ہیں۔ پھر وہ بیڈ روم میں داخل ہوا اور تولیہ سے اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے جیسے ہی اپنے بیڈپر دیکھا تو پایا کہ اس کے کئی کپڑے استری کر کے تیار رکھے ہوئے ہیں۔ کھاتے وقت روشن گوری کے ہاتھ کی انگلیوں کو دیکھ رہا تھا جو گھسی گھسی اور کٹی کٹی نظر آرہی تھیں۔ پھر جب کھانا ختم ہوا تو گوری برتن سمیٹنے لگی، اس دوران روشن کی نظر گوَری کے پیروں پر پڑی اس نے دیکھا کہ گوَری کی ایڑیوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ یہ سب دیکھ کر روشن کو اس خوبصورت حسینہ کے خدو خال یاد آگئے تھے جو آج اس کے بہت قریب تھی اور جس کا فون نمبراس کی جیب میں موجود تھا۔
جیسے تیسے رات کے دس بجے۔ یہ روشن کی سگریٹ نوشی کا وقت تھا۔ لٰہذا وہ اپنی عمارت کی چھت پر گیا۔ اس نے سگریٹ جلائی، ایک لمبا کش لیا اور دھواں آسمان کی طرف اُڑا کر گوری کے خدوخال اور ٹرین والی حسینہ کے حسن کے درمیان موازنہ کرنے لگا مگر تھوڑی ہی دیر میں اس کی آنکھوں کے سامنے اپنے گھر کا وہ منظر آن کھڑا ہوا جو آج شام اس نےگھر میں دیکھا تھا۔ اس نے دوبارہ سگریٹ کا زوردار کش لگایا اور اپنی جیب سے اس حسینہ کا وزیٹنگ کارڈ نکال کر اسے غور سے دیکھا پھر دھواں آسمان کی طرف اڑایا اور اس کارڈ کو اپنے ہاتھ سے مسل کر پھینک دیا اور من ہی من کہنے لگا’’خواب کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو وہ خواب ہی رہتا ہے، تم جیسی ہو حقیقت ہو اور میں اس حقیقت میں خوش ہوں۔ ‘‘