• Sat, 15 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہاتھوں کے نشان

Updated: February 10, 2025, 2:08 PM IST | Ismail Nerekar | Thane

میری پتنی کو پتاجی کی یہ حرکت سخت ناگوار گزرتی تھی اور سچ کہوں تو پتاجی کی یہ حرکت مجھے بھی اچھی نہیں لگتی تھی۔ اس لئے میں نے کئی بار ان سے کہا کہ گندے ہاتھوں سے دیوار کا سہارا لینے سے، انکے ہاتھوں کے نشانات، خوبصورت دیوار کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

میں چلتے چلتے اکثر لڑکھڑا جاتے تھے۔ ہم نے کچھ مہینوں پہلے اپنا فلیٹ نہایت قیمتی رنگ و روغن سے آراستہ کروایا تھا۔ میں اور میری پتنی جب بھی پتاجی کو واش روم آتے جاتے دیکھتے تو ہمارا مشاہدہ تھا کہ پتاجی اکثر لڑ کھڑا تے وقت، اپنے ہاتھ دیوار پر رکھ کر سہارا لیتے اور آگے بڑھ جاتے۔ اسکی وجہ سے، دیوار پر انکی ہتھیلی اور انگلیوں کے نشانات ثبت ہوتے رہتے۔ میری پتنی کو پتاجی کی یہ حرکت سخت ناگوار گزرتی تھی اور سچ کہوں تو پتاجی کی یہ حرکت مجھے بھی اچھی نہیں لگتی تھی۔ اس لئے میں نے کئی بار ان سے کہا کہ گندے ہاتھوں سے دیوار کا سہارا لینے سے، انکے ہاتھوں کے نشانات، خوبصورت دیوار کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں۔ اسکے باوجود، پتاجی اپنی عادت سے باز نہیں آئے۔ شاید اپنی عمر کی وجہ سے وہ میری ہدایات بھول جاتے ہوں گے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ان باتوں کو اہمیت ہی نہیں دیتے ہوں۔ حالانکہ میں جانتا ہوں کہ وہ اپنی جوانی میں بہت نفاست پسند واقع ہوئے تھے۔ ایک دن ہم سب ہال میں بیٹھے گپ شپ کررہےتھے۔ شاید پتاجی کے سر میں درد ہورہاتھا۔ پتاجی اٹھے اور الماری سے درد بھگانے والے تیل کی شیشی کھولی اور کچھ تیل ہاتھ میں لے کر اپنی پیشانی پر مل دیا اور شیشی بند کرکے واش روم کی طرف چل دیئے۔ اور جاتے وقت حسب معمول دیوار کا سہارا لیتے ہوئے اپنی روغن زدہ انگلیوں اور ہتھیلی کے نشانات دیوار پر چھوڑ گئے۔ ظاہر ہے کہ تیل والی ہتھیلی اور انگلیوں کے نشانات واضح طور پر دیوار پر ابھر آئے تھے۔ یہ دیکھ کر میری پتنی غصہ سے پھٹ پڑی اور مجھے برا بھلا کہنے لگی۔ اسوقت میں بھی اپنا غصہ برداشت نہیں کر سکا۔ میں نے سخت لہجے میں پتاجی سے کہا کہ اب اسکے بعد، وہ دیوار کو چھونے کی بھی کوشش نہ کریں۔ انھوں نے حسرت بھری نظروں سے میری طرف دیکھا۔ انکی آنکھوں میں خجالت اور شرمندگی کے آثار نظر آئے۔ یہ دیکھ کر مجھے بھی بہت پشیمانی ہوئی اور میں نے اپنی نظریں جھکالیں۔ افسوس تو بہت ہوا، لیکن زبان سے کچھ کہنے کی مجھے ہمت نہیں ہوئی۔ میں اپنے پتاجی کو سر جھکائے، واپس جاتے دیکھتا رہا۔ 
اس واقعہ کے بعد سے پتاجی نے دیوار کا سہارا لینا بند کردیا لیکن ایک دن وہ واش روم جاتے ہوئے دیوار کے پاس ہی گر پڑے اور پھر بستر سے ایسے لگ گئے کہ کچھ دنوں بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ میں صرف دل مسوس کر رہ گیا کہ آخری وقت میں پتاجی سے معافی بھی نہیں مانگ سکا۔ اس واقعہ کے کچھ مہینوں بعد ہمارے فلیٹ کے رنگ و روغن کے لئے میں نے ایک اچھے پینٹر کو بلایا۔ پینٹنگ کے دوران جب وہ نشان زدہ دیوار کو صاف کرنے اور کھرچنے پہنچا تو میرے بیٹے نے اسے روک دیا۔ اس نے کہا’’ ان نشانات کو مت مٹائو ! یہ میرے پیارے دادو کی نشانیاں ہیں ۔ ‘‘ پینٹر اپنے کام میں ماہر اور ایک اچھا آرٹسٹ بھی تھا۔ اس نے بیٹے کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ وہ بے فکر ہوجائے۔ ان نشانات کو ایک خراش بھی نہیں آئیگی۔ اس نے دیوار کے ان نشانات کے گرد ایک حصار کھینچ کر اسے خوبصورت ڈیزائن اور دلکش رنگوں سے کچھ ایسا سجا دیا کہ ہمارے گھر آنے والا ہر شخص، اس شاہکار کی تعریف کئے بنا نہیں رہتا تھا۔ 
وقت کے ساتھ ساتھ، میری عمر بھی ڈھلنے لگی۔ میں بھی بوڑھا ہونے لگا تھا۔ ایک روز اپنے گھر میں چلتے چلتے مجھے احساس ہوا کہ میں لڑکھڑارہا ہوں۔ اور مجھے کسی سہارے کی ضرورت ہے۔ لیکن اپنے پتاجی کو یاد کرتے ہوئے کہ میں نے انکے ساتھ کیسا سلوک کیا تھا، میں نے اپنے آپ کو کسی دیوار کا سہارا لینے سے روک لیا۔ لیکن میرے بیٹے نے میرے چہرے سے، میری کیفیت کو بھانپ لیا۔ اور وہ بار بار کہتا کہ میں بلاجھجک دیوار کا سہارا لے کر چلوں تاکہ کسی ممکنہ حادثے سے بچا جاسکے۔ اس وقت مجھے ایک خوشگوار احساس ہوا کہ میرا بیٹا میرے ساتھ ہے۔ میرے لئے فکر مند ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں نے کچھ عرصہ قبل اپنے ناتواں پتاجی کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ میری پوتی بھی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ وہ دوڑی دوڑی آئی اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ننھے کندھے پر رکھا اور مجھے سہارا دیتے ہوئے واش روم تک پہنچا دیا۔ اس وقت میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امڈ پڑا۔ میں سوچنے لگا اگر میں نے بھی اپنے پتاجی کو اس طرح سہارا دیا ہوتا تو شاید وہ کچھ اور سال جی لیتے! اسی شام چائے پیتے وقت، میری پوتی اپنی ڈرائنگ بک لے آئی۔ اسے میز پر کھول کر اس نے مجھے وہ صفحہ بتایا جس پر اس نے ہمارے گھر کی اس دیوار کی پینٹنگ کو اپنی ڈرائنگ بک میں نقل کیا تھا ۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسکی ڈرائنگ ٹیچر اور پرنسپل نے اس کی بہت تعریف کی تھی۔ یہ سنتے ہی میں اپنے آنسو نہیں روک پایا۔ ایک فرحت بخش احساس کے ساتھ، دل کے کسی گوشہ سے ایک بازگشت سنائی دی کہ کاش! ہر بچہ میری پوتی کی طرح اپنے بزرگوں کا احترام کرنا سیکھے۔ 
( کہانی کا مرکزی خیال بنگالی ادب سے ماخوذ ہے۔ )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK