• Sun, 02 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہم نے میتھی بیچی

Updated: February 02, 2025, 2:07 PM IST | Anil Awachat / Dr. Ziaul Hasan | Mumbai

اونور کے جس اسکول میں ہم پڑھا کرتے تھے وہاں لرکوں کے لئے بیسک کورس زراعت اور لڑکیوں کے لئے سوت کاتنا تھا۔ میری بہنیں اسکول سے لوٹتے وقت روزانہ اپنے ساتھ تکلی اور پونی لایا کرتی تھیں۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

اونور کے جس اسکول میں ہم پڑھا کرتے تھے وہاں لرکوں کے لئے بیسک کورس زراعت اور لڑکیوں کے لئے سوت کاتنا تھا۔ میری بہنیں اسکول سے لوٹتے وقت روزانہ اپنے ساتھ تکلی اور پونی لایا کرتی تھیں۔ پونی بیلنے کا تختہ بھی ان کے پاس تھا۔ میں اُن سے منت سماجت کرکے کاتنے کے لئے سوت مانگتا تو وہ یہ کہہ کر ٹال دیا کرتیں کہ ’یہ سرکاری سوت ہے۔ ‘ ایک دن بڑی بہن ریکھا اسکول سے سوت کاتنے کا گھڑی نما چرخے کا باکس لے آئی۔ جب وہ استعمال نہیں کررہی ہوتی تب مجھے وہ چرخہ چلانے کی اجازت تھی۔ ہم لڑکوں کے زراعتی بیسک کورس کے اوزار جیسے کھرپی، کدال، پھاؤڑا وغیرہ تھے جنہیں گھر لانا ممکن نہیں تھا۔ ہمیں زراعت کے بارے میں لکھ لکھ کر بیاضیں بھرنا پڑتی تھیں۔ مثلاً کھیت کی مٹی کو ضائع ہونے سے کیسے بچایا جائے؟ کھیتی کے مختلف کام کس کس طرح کئے جاتے ہیں ؟ مٹی کی کتنی قسمیں ہوتی ہیں ؟ پانی جذب کرلینے والی مٹی کیا ہوتی ہے؟ اور کھاد کی مختلف اقسام جیسے خشک موضوعات ہمارے نصاب میں شامل تھے۔ ان میں لوہے اور لکڑی کے پل کا فرق سمجھنا اور سمجھانا ہمارے لئے آسان تھا۔ 
  لڑکیوں کو اسکول میں کپاس تول کر دی جاتی تھی۔ سوت کاتنے کے بعد اس کا وزن مع کچرے کے پہلے کئے گئے وزن کے برابر ہونا ضروری تھا اس لئے لڑکیاں کپاس سے نکلنے والا کچرا ایک پڑیا میں محفوظ رکھتی تھیں۔ وزن کم ہوجانے کی صورت میں ریکھا اس میں تھوڑی سی مٹی ملا دیا کرتی تھی۔ چنانچہ کبھی کبھی کچرا اور کپاس دونوں کا مجموعی وزن پہلی بار کے وزن سے بڑھ جایا کرتا تھا۔ اس طرح کے دلچسپ واقعات ہمارے زراعتی بیسک کورس میں پیش نہیں آتے تھے۔ دوپہر میں ہم لڑکوں کو کھیت پر لے جایا جاتا۔ اتنی دیر ہمیں پڑھنے لکھنے کی چھٹی مل جایا کرتی تھی لیکن میں ٹھہرا ایک برہمن کا لڑکا۔ کلاس میں سب سے پیچھے بیٹھنے والے بڑی عمر کے لڑکے تو بڑی تیزی سے کھیتی کے کام کرکے نکل جاتے لیکن میں نحیف و لاغر کی طرح ہمیشہ اُن سے پیچھے رہتا۔ ہماری کلاس میں چار پانچ لڑکیاں بھی تھیں جو کھیتی کے کاموں میں مجھ سے بہت آگے تھیں۔ 
  ایک مرتبہ ہماری کلاس کے طلبہ نے اسکول کے کھیت میں میتھی کی فصل اگائی۔ گروجی نے ایک دن کلاس میں بتایا کہ میتھی کی کیاریاں ہراج کی جائینگی۔ اُس وقت میں قطعی نہیں جانتا تھا کہ ’ہر ّاج‘ کیا ہوتا ہے؟ تھوڑی دیر بعد گروجی نے بولی لگانا شروع کی جس کے جواب میں کلاس کے بڑے بڑے لڑکے دو آنے اور تین آنے کہتے جارہے جارہے تھے۔ پتہ نہیں اچانک مجھے کیا سوجھی، یکایک میری زبان سے نکلا: ’’ساڑھے تین آنے۔ ‘‘ وہاں موجود سب لوگ حیران ہوکر میری طرف دیکھنے لگے۔ انہیں تعجب ہورہا تھا کہ اس برہمن لڑکے نے آخر کیا سوچ کر ’ساڑھے تین آنے ‘ لگائی۔ ۔ گروجی بولے ’’بامن بھائی! بولی تو لگادی مگر کیا تم یہ کام کرپاؤ گے؟‘‘ میں بضد ہوگیا اور کسی تجربہ کا شخص کی طرح پراعتماد لہجہ میں کہا : ’ساڑھے تین آنے۔ ‘ اس پر گروجی نے تین مرتبہ بولی دہرائی : ’’ساڑھے تین آنے ایک…دو…تین‘‘ لیکن کلاس کا کوئی بھی لڑکا اس رقم سے آگے نہیں بڑھا۔ انٹرویل کے دوران میں نے ایک دوست سے پوچھا : ’’بتاؤ اب مجھے کیا کرنا ہے؟‘‘ اُسے مجھ پر ترس آگیا۔ وہ بولا ’’اب تجھے ان کیاریوں سے میتھی چن چن کر اس کی گڈیاں بنانی ہوں گی اور پھر گاؤں میں لے جا کر انہیں فروخت کرنا ہوگا۔ ‘‘ میں گھبرا گیا، فوراً اس سے پوچھا : ’’تو کیا گاؤں کی سڑکوں پر گھوم گھوم کر بیچنا پڑے گا؟‘‘ وہ بولا : ’’ ہاں، سر پر ٹوکرا رکھ کر بازار میں آواز لگاتے ہوئے…‘‘ یہ سن کر میں اور زیادہ پریشان ہوگیا۔ کیونکہ اس حالت میں لوگ مجھے عجیب نظروں سے دیکھیں گے اور کہیں : ’’ ارے! یہ تو ڈاکٹر کا لڑکا ہے!‘‘ (ان عجیب نظروں کا خوف آج تک قائم ہے اس لئے اس عمر میں بھی میں گاؤں کی ہوٹل میں جانے سے کتراتا ہوں ) کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں ؟ مجھے پریشان دیکھ کر اسی دوست نے ہمت بڑھائی، بولا ’’گھبراؤ مت، میں تمہاری مدد کروں گا۔ ‘‘ پھر ہم دونوں کھیت پہنچے۔ میتھی چنتے چنتے ذہن میں بار بار یہ سوال آرہا تھا کہ آخر کیوں میں نے ساڑھے تین آنے کی بولی لگائی؟ میتھی کی گڈیاں باندھنے کے لئے دوست نے کہیں سے گھائے پات نامی گھاس کے لمبے لمبے پتے لے آئے۔ مجھے اس کی بالکل معلومات نہیں تھی البتہ دوست کو بچپن ہی سے اس کا تجربہ تھا۔ میتھی کی گڈیاں بناتے بناتے میرے تصور میں بار بار پتاجی آجاتے۔ پتہ نہیں وہ کیا کہیں گے؟ اس کے علاوہ مجھے اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ بڑی بہن ریکھا اور اس کی سہیلیاں کس طرح میرا مذاق اڑائیں گی۔ میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ میتھی بیچ کر سارے پیسے خاموشی سے گروجی کو دے دوں گا۔ گھر میں قطعی اس کا تذکرہ نہیں کروں گا۔ بے چارے اُس دوست نے میری اتنی مدد کی تھی کہ میں اس سے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ’’میتھی کا ٹوکرا تم اپنے سر پر رکھ لو۔ ‘‘ چنانچہ میں نے اپنے سر پر رکھ لیا اور دونوں نکل پڑے۔ راستوں سے گزرتے ہوئے دوست آواز لگا رہا تھا: ’’میتھی لے لو، میتھی لے لو، ایک آنے میں دو گڈیاں۔ ‘‘ اب میری ہچکچاہٹ کچھ کم ہوچکی تھی، اس لئے وقفہ وقفہ سے میں بھی ’’میتھی لے لو، میتھی لے لو‘‘ کی آواز لگانے لگا۔ جب ہم گاؤں کے اہم راستوں سے گزرتے تو میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ چونکہ دوپہر کا وقت تھا، اس لئے چاروں طرف خاموشی تھی۔ میتھی کا ٹوکرا سر پر لئے ہوئے مجھے اپنے گاؤں کا منظر کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ مرہٹوں کی گلی سے گزرتے ہوئے تو کچھ محسوس نہیں ہوا لیکن برہمن گلی اور گاؤں کے بازار سے گزرتے وقت مَیں نظریں نیچی کرکے آواز لگاتا۔ پتہ نہیں اس حالت میں کن کن لوگوں نے مجھے دیکھا۔ اس دوران میتھی خریدنا تو چھوڑیئے، کسی شخص نے ہم سے یہ تک نہیں پوچھا کہ ’’دیکھیں تمہاری میتھی کیسی ہے؟‘‘
  آخر تھک ہار کر ہم ماروتی مندر کے چبوترے پر جا کر بیٹھ گئے۔ دوست سے پوچھا : ’’اب اس کا حل بتاؤ۔ ‘‘ وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا: ’’تمہارے گھر والوں کو راضی کر لو کہ ساری بھاجی خرید لیں۔ ‘‘ یہ حل میری مرضی کے خلاف تھا۔ لیکن مجبوری تھی، اگر میں ایسا نہ کرتا تو گروجی کو ساڑھے تین آنے کہاں سے لا کر دیتا؟ آخر ہمت کرکے میتھی کا ٹوکرا لئے گھر آیا۔ پتاجی بنگوئی میں بیٹھے آرام کررہے تھے۔ ٹوکرا میں نے دہلیز کے ایک کونے میں رکھ دیا۔ پھر ڈرتے ڈرتے پتاجی کو ساری داستان سنائی۔ وہ بولے : ’’واہ برخوردار! کل تم ہوائی جہاز خرید کر لاؤ گے اور مجھ سے کہو گے لائیے ہزار روپے۔ ‘‘ (آج سوچتا ہوں تو ہنسی آتی ہے کہ کیا اس وقت جہاز کی قیمت صرف ہزار روپے تھی؟) میں اندر گیا اور ماں سے ضد کرنے لگا کہ وہ میری لائی ہوئی ساری میتھی کی بھاجی خرید لیں۔ آخر انہوں نے اس ’’مسئلہ ٔ میتھی‘‘ کو پتاجی کے سامنے رکھا۔ وہ بولے : ’’مگر ٹوکرا بھر میتھی کی بھاجی لے کر ہم کیا کریں گے؟‘‘ ’’اب جانے بھی دو، تمہارے لڑکے نے اس کے لئے بولی لگائی تھی۔ ‘‘ ماں میری تائید کرنے لگیں۔ آخر پتاجی نے ساڑھے تین آنے میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے تاکید کی: ’’آئندہ ایسی حرکت نہیں کرنا ورنہ میرے لئے کوئی مسئلہ کھڑا ہوجائے گا۔ ‘‘
 میرے سر سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر چکا تھا۔ پیسے لے کر میں دوڑا دوڑا اسکول پہنچا۔ میرا دوست وہاں پہنچ چکا تھا۔ شاید اس نے میتھی بیچنے کی داستان سنا دی تھی۔ اس لئے میرے کلا س میں داخل ہوتے ہی سب ہنسنے لگے۔ گروجی نے پوچھا: ’’بامن بھائی! کتنے روپے کا منافع ہوا؟‘‘ میں نے خاموشی سے ساڑھے تین آنے اُن کی میز پر رکھ دیئے۔ اتنے میں اسکول چھوٹنے کی گھنٹی بج گئی۔ ریکھا اور اس کی سہیلیوں کا سامنا نہ ہو اس لئے شام ہونے تک میں باہر کھیلتا رہا۔ اندھیرا چھا جانے کے بعد گھر گیا۔ ریکھا مجھے دیکھ کر ہنستے ہوئے بولی : ’’مجھے سب پتہ چل گیا۔ تم اپنے سر پر میتھی کا ٹوکرا لئے راستے سے گزر رہے تھے۔ بھاری وزن سے تمہاری گردن ٹیڑھی ہوچکی تھی۔ ‘‘ ماں نے شکایتی لہجہ میں کہا : ’’تیری میتھی کی گڈیوں میں کتنی گھاس تھی رے بابا۔ ‘‘
 کھانے کیلئے میں ابھی بیٹھا ہی تھا کہ پتاجی گھر میں داخل ہونے۔ انہوں نے پکی ہوئی میتھی کی کڑھائی چمٹے سے پکڑ کر اٹھائی اور میری پلیٹ کے قریب لا کر رکھتے ہوئے بولے: ’’برخوردار۔ یہ تمہاری کمائی کی بھاجی ہے، اسے تم ہی کو ختم کرنا ہے۔ ‘‘ ریکھا اور چھوٹی بہن تو ہنسنے کے لئے تیار بیٹھی تھیں۔ میں نے ندامت سے اپنا سر جھکا لیا۔ 
  پرسوں میں بچوں کو لے کر اپنے وطن آیا ہوا تھا۔ گھومتے گھومتے ہم لوگ اسکول کے کھیت کے قریب پہنچ گئے۔ میں نے جوش بھرے لہجہ میں کہا : ’’مکتے! دیکھو یہ ہے ہمارے اسکول کا کھیت، اس کھیت میں ہم کاشت کیا کرتے تھے۔ ‘‘ اتنے میں میری نظر کونے کی ایک کیاری پر پڑی۔ میں نے بچوں کو بتایا کہ ’’ان کیاریوں میں ہم میتھی اگایا کرتے تھے اور اسے بیچ کر پیسے کمایا کرتے تھے۔ ‘‘ مکتی خوش ہوکر بولی : ’’تب تو بہت مزہ آتا ہوگا بابا۔ ‘‘ 
 میری زبان سے نکلا : ’’ہاں ! سچ مچ بہت مزہ آتا تھا۔ ‘‘


مشہور مراٹھی ادیب، صحافی، شاعر اور مصور انل اوچٹ (۱۹۴۴ء تا ۲۷؍جنوری ۲۰۲۲) پونا ضلع کے اونور میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم فرگیوسن کالج میں ہوئی۔ ۱۹۶۸ء میں بی جے میڈیکل کالج پونا سے انہوں نے ایم بی بی ایس کیا۔ ان کے ادبی سفر کا آغاز ۱۹۶۹ء سے ہوا۔ مختلف موضوعگات پر انہوں نے ۴۰؍ سے زائد کتابیں لکھی ہیں جن میں ایک شعری مجموعہ بھی شامل ہے۔ ان کی چار کتابیں انگریزی میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ مختلف سماجی سرگرمیوں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی شریک حیات ڈاکٹر سنندا اوچٹ کے ساتھ مل کر منشیات کی عادی افراد کی بازآبادکاری کے لئے پونا میں ایک سینٹر قائم کیا تھا۔ انہیں کئی اعزازات اور ایوارڈس سے نوازا گیا۔ ۲۰۱۰ء میں انہیں مراٹھی ادب اطفال کا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا۔ ۲۰۱۳ء میں ان کی سماجی خدمات کے اعتراف میں اُس وقت کے صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے ہاتھوں انہیں اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ زیرنظر مضمون ان کی کتاب ’جگنیا تیل کاہی‘ (۲۰۰۵ء) سے لیا گیا ہے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK