تیسرے جشن اردو میں شرکت کرنے والی اہم شخصیات کے تاثرات ، سبھی نے قمر صدیقی اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کی اور ان کی کاوشوں کو دل کھول کر سراہا۔
EPAPER
Updated: January 20, 2025, 2:34 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
تیسرے جشن اردو میں شرکت کرنے والی اہم شخصیات کے تاثرات ، سبھی نے قمر صدیقی اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کی اور ان کی کاوشوں کو دل کھول کر سراہا۔
گزشتہ دنوں عروس البلاد کی ادبی و تہذیبی فضا ممبئی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو اور معروف ادبی مجلہ’ اردو چینل‘ کے اشتراک سے منائے جانے والے سہ روزہ جشن اردو کی روشنیوں اور خوشبوئوں سے منور و معطر رہی۔ اس سہ روزہ جشن میں اردو ادب، تہذیب و نقافت کے کئی عمدہ نمونے پیش کئے گئے جن پر پورے ملک سے آنے والے مہمانان اور ممبئی و اطراف سے پہنچنے والے سامعین و قارئین عش عش کر اٹھے۔ جس طرح سے دہلی میں اردو کی مشہور ویب سائٹ اور ادارہ ’ریختہ ‘ کی جانب سےیک روزہ یا دورزہ جشن اردو منایا جاتا ہے اور اس میں مختلف پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں اسی طرح کے اور اسی طرز کے پروگراموں کی ضرورت ممبئی میں بھی محسوس کی جارہی تھی جسے معروف شاعر و مدیر قمر صدیقی اور ان کی ٹیم نے بخوبی پورا کیا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر دہلی والوں کے پاس ریختہ کا پروگرام ہے جو شمالی ہندکے اردو حلقوں میں معروف و مقبول ہے تو ممبئی والوں کے پاس بھی’ جشن ِاردو‘ ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف جنوبی ہند ہی نہیں بلکہ شمالی، مغربی اور مشرقی ہند کے لوگوں کو بھی اپیل کرتا ہے۔ یہ جشن نہ صرف اردو زبان و ادب کا ہے بلکہ اردو کی پوری تہذیب کا ہے اور اسی لئے قمر صدیقی اور ان کی ٹیم جس میں قاسم ندیم، عبداللہ امتیاز، ذاکر خان ذاکر، وسیم عقیل شاہ اور دیگر شامل ہیں، کوچوطرفہ مبارکبادیں پیش کی جارہی ہیں۔ وہ اس لئے بھی قابل مبارکباد ہیں کہ اگر ریختہ کے پروگرام سے اس کا موازنہ کیا جائے تو وہاں پوری ایک کارپویٹ ٹیم موجود ہےجس کے پاس فنڈنگ کی بھی کوئی کمی نہیں ہے لیکن یہاں جشن اردو منانے کے لئے نہ فنڈ ہے اور نہ کارپویٹ ٹیم اور نہ اس پیمانے کے وسائل لیکن ان چند افراد نے مل کر اس سال کے جشن کو جس پیمانے پرمنعقد کیا وہ اچھے اچھوں کی کاوشوں کو بہت بودا بنادیتا ہے۔ یاد رہے کہ جشن اردو کا یہ تیسرا سال تھا اور ہر گزرتے سال کے ساتھ اس کے انعقاد سے لے کر اس کے معیار تک سبھی اس بات کی گواہی دے رہیں کہ بقول غالب :
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب=ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
یہ محسوسات صرف ہمارے ہیں ایسا نہیں ہے بلکہ اس جشن میں شامل ہونے والے تقریباً ہر ایک مہمان، ہر ایک سامع، ہر ایک شائق اردو اور ہر ایک طالب علم کے ہیں۔ ہم نے اس جشن میں شامل ہونے والے ایسے ہی چند اہم افراد سے گفتگو کی جو ذیل میں پیش کی جارہی ہے۔
عالمی شہرت یافتہ درسگاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ( دہلی) کے شعبہ اردو کے صدر، معروف ناقد اور شاعرپروفیسر احمد محفوظ نے جشن اردو کے شاندار انعقاد کیلئے قمر صدیقی اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دی اور کہا کہ ’’جشن اردو صرف ایک پروگرام نہیں تھا بلکہ یہ پوری تہذیب اورثقافت کا نادر نمونہ تھا۔ مہاراشٹر اور ممبئی میں اردو کی صورتحال سے ہم خاصے لطف اندوز بھی ہوئے اور ہمیں یہ حوصلہ بھی ملا کہ اردو کے ختم ہونے کی جو باتیں کی جاتی ہیں وہ محض ڈھکوسلہ ہیں کیوں کہ اگر اردو کی تہذیب اور اس زبان کے عروج کو دیکھنا ہے تو مہاراشٹر چلے جائیں ۔ وہاں یہ زبان نہ صرف زندہ ہے بلکہ پھل پھول رہی ہے اور ہمیں طمانیت کا احساس بھی دلارہی ہے۔ ‘‘ پروفیسر احمد محفوظ نے بتایا کہ وہ تقریباً ۲؍ دن اس جشن میں شامل رہے۔ اس دوران انہیں تقریباً سبھی پروگرام اچھے لگے لیکن جس پروگرام سے وہ خصوصی طور پر لطف اندوز ہوئے وہ معروف شاعر اوراتنے ہی مقبول کوئز ماسٹر حامد اقبال صدیقی کا کوئز پروگرام تھا جو نہ صرف معلومات پر مبنی تھا بلکہ انہوں نے بہت دلچسپ انداز میں اسے پیش بھی کیا۔
کولکاتا سے تشریف لائے معروف شاعر و ادیب ڈاکٹر احمد معراج نے ہمیں بتایا کہ ’’ میں نے پہلی مرتبہ مہاراشٹر کے کسی ادبی و ثقافتی پروگرام میں شرکت کی تھی۔ مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنا معیاری اور دلچسپ پروگرام ہو گا۔ قمر صدیقی اور ان کی ٹیم کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے کہ انہوں نے قومی و عالمی سطح کا پروگرام بہت کم مین پاور کے ساتھ نہ صرف ترتیب دے دیا بلکہ اسے کامیاب بھی بنالے گئے۔ ‘‘انہوں نے کہا کہ جو اکیڈمک سطح کے پروگرام تھے وہ تو معیاری تھے ہی لیکن دلچسپیوں کو برقرار رکھنے، نوجوانوں کو شامل کرنے اور طلبہ کی بڑی تعداد کی شرکت کو یقینی بنانے کے لئے جو پروگرام کئے گئے ان کا بھی جواب نہیں تھا۔ خاص طور پر اوپن مائک سیشن میں جس طرح سے نئے لکھنے والوں کو ان کی تخلیقات پیش کرنے کا موقع دیا گیا ہمارے خیال میں یہ سلسلہ اردو حلقوں میں متعارف کروانے کا سہرا بھی قمر صدیقی اور ان کی ٹیم کے سر جائے گا۔ ڈاکٹر احمد معراج نے یہ بھی کہا کہ ادبی صلاحیتوں کو فروغ دینے اور ان کی ادبی تربیت کیلئے اس طرح کے پروگرام ہوتے رہنے چاہئیں جس سے پڑھنے والوں کو لکھنے والوں سے ملاقات کا موقع ملتا رہتا ہے۔
حیدر آباد سے تشریف لانے والےپروفیسر ابوشحیم خان نے جشن اردو کو نہایت کامیاب پروگرام قرار دیا اور بتایا کہ ’’اتنے بڑے پیمانے پر اتنا شاندار پروگرام منعقد کرنا اور وہ بھی بغیر کسی سرکاری فنڈنگ یا کارپوریٹ فنڈنگ کےہنسی کھیل نہیں ہے۔ میرے خیال میں تو قمر صدیقی کا نام باقی رکھنے کے لئے اردو چینل جیسا معیاری رسالہ ہی کافی تھا، انہیں اس سنگلاخ زمین پر چلنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن وہ کہتے ہیں ناکہ اگر کسی چیز سے جنون کی حد تک محبت ہو توپھر دیوانہ کچھ نہیں دیکھتا اور یہی حال قمر صدیقی کا ہے۔ وہ اردو زبان سے دیوانہ وار محبت کرتے ہیں اور اس کے لئے ہر خطرہ مول لینے کو تیار رہتے ہیں۔ ‘‘پروفیسر ابو شحیم خان کے مطابق اردو زبان کی خاصیت اس کا ’انکلوسیو ‘ ہونا ہے۔ یہ زبان سبھی کو اپنے ساتھ جوڑتی ہے اور ہمارے خیال میں ممبئی و اطراف کے لئے جشن اردو سبھی کو جوڑنے والا پلیٹ فارم بن گیا ہے۔
عمر رجب سیکنڈری اسکول کے مدرس راشد فیض نے ہم سے گفتگو میں کہا کہ ’’جشن اردو جیسے پروگرام منعقد ہوتے رہنے چاہئیں کیوں کہ ان کی وجہ سے کچھ وقت کے لئے ہی سہی اردو پرگفتگو شروع ہو جاتی ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ زندہ لوگوں کی زندہ زبان ہے۔ ‘‘ راشد فیض کے مطابق اس پروگرام سے اردو کی مختلف اصناف کو بھی فائدہ ہوتا ہے کیوں کہ جو پروگرام منعقد ہوتے ہیں ان سےطلبہ کو اچھا خاصا ایکسپوژر مل جاتا ہے۔ اوپن مائک جیسے سیشن ہوتے ہیں جہاں طلبہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں، کوئز پروگرام ہوتا ہےجو معلوماتی بھی ہوتا ہے اور دلچسپ بھی۔ ساتھ ہی بیت بازی جیسے شاندار پروگرام ہوتے ہیں جو طلبہ میں شعر کا ذوق پیدا کرتے ہیں۔ جشن اردو اس لئے بھی قابل مبارکباد ہے کہ یہاں پر، ممبئی سے بیت بازی کی ختم ہوتی تابناک روایت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساتھ ہی سورت سے تشریف لائے ولی خان صاحب نے جو ۹۰؍ یا ۹۵؍ فیصد رعایت پر کتابیں فروخت کیں وہ بھی شاندار تجربہ تھا۔
ممبئی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ایم اے (پار ٹ ون ) اور صحافت کے ڈپلوما کورس کی طالبہ سیدبنت زہرہ نے دوران گفتگو کہا کہ ’’میں تینوں ہی دن شریک تھی اور ہر دن یہی محسوس ہوا کہ اس زبان کے شیدائی جو پوری دنیا میں ہیں یونہی نہیں ہیں۔ اردو زبان و تہذیب میں وہ کشش اور جاذبیت ہے کہ یہ ہر کسی کو اپنی جانب نہ صرف متوجہ کرتی ہے بلکہ اسے اپنابنالیتی ہے۔ ‘‘ بنت زہرہ کے مطابق انہیں معروف فلم رائٹر و ادیب جاوید صدیقی کا ’میرا ادبی سفر ‘ پروگرام بہت پسند آیا۔ ساتھ ہی جو مشاعرہ منعقد کیا گیا تھا وہ روایت سے بالکل ہٹ کر تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ اب اس کی تقلید دوسرے ادارے بھی کریں گے۔