• Sun, 20 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مرزا غالب سے انٹرویو

Updated: October 20, 2024, 1:34 PM IST | Naresh Kumar Shad | Mumbai

زندگی اپنی جو اس طور پہ گزری غالب = ہم بھی کیا یاد کریں گےکہ خدا رکھتے تھے

Mirza Ghalib. Photo: INN
مرزا غالب۔ تصویر : آئی این این

میں : کیا یہ واقعہ ہے کہ آپ کے والد محترم عبداللہ بیگ آپ کی طرح اہل قلم یا اہل خرابات میں سے نہیں بلکہ اہل سیف میں سے تھے۔ اور ان کا انتقال بھی ایک مہم میں بندوق کی گولی کھا کر ہوا تھا۔ نیز آپ کا سلسلۂ نسب شاہانِ توراں افرا سیاب اور پشنگ سے ملتا ہے؟
غالب : سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
  کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے
میں : معاف کیجیے گا قبلہ! میں نے محض انٹرویو کے شروعات کی غرض سے یہ بات پوچھ لی ورنہ آپ کی شاعری ہی کے بارے میں آپ سے کچھ دریافت کرنا مقصود ہے۔ حقیقت میں آپ کا پورا اردو کلام موتیوں میں تولنے کے قابل ہے۔ رشید احمد صدیقی نے سچ کہا ہے کہ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ سلطنت نے کیا دیا تو میں بے تکلف تین نام لوں گا۔ غالبؔ، اردو اور تاج محل! آپ کے مجموعہ کلام کی سی غیر معمولی اہمیت اور مقبولیت آج تک اردو کے کسی دوسرے شعری مجموعے کو نصیب نہیں ہو سکی۔ اردو کے علاوہ دنیا کی بے شمار متمدن زبانوں میں بھی اس کے بےشمار ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ آپ اپنے آپ کو ’’ہزار گلشن نا آفریدہ‘‘ کا عندلیب کہیں لیکن ہمارے اس دور کے ایک مشہور شاعر تلوک چند محروم کے بقول، 
گل زارِ سخن سے پھول جو چنتے ہیں 
بلبل کی نوا میں تیری لے سنتے ہیں 
مفہوم ترا سمجھ نہیں پاتے جو
وہ بھی تیرے اشعار پہ سر دھنتے ہیں 
غالب : گر خاموشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
   خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے
میں : آپ کی خوشی سر آنکھوں پر حضور! لیکن اس تمہید سے میرا مقصد آپ سے یہ دریافت کرنا ہے کہ آپ کی اپنی نظر میں آپ کے چند ایسے منتخب اردو اشعار کون سے ہیں جو آپ کے شاعرانہ کمال کی پوری نمائندگی کرتے ہیں۔ 
غالب : فارسی بیں تا ببینی نقش ہائے رنگ رنگ
   بگزر از مجموعۂ اردو کہ بے رنگ من است
میں : لیکن عالی جناب! آپ جسے بے رنگ کہہ رہے ہیں وہ مجموعہ ہمارے لئے تو رنگوں کی ایک کان سے کم نہیں۔ اس کے متعلق ہمارے ایک نوجوان ناقد خلیل الرحمن اعظمی نے پیش گوئی کی ہے کہ اس شاعری کے ایک سے زیادہ رنگ ہیں ، جوں جوں زمانہ گزرتا جائے گا، اس میں رنگوں کا اضافہ ہوتا جائے گا۔ حد تو یہ ہے کہ ملحد ہوں ، صوفی ہوں یا فلسفی، مارکس کے پجاری ہوں یا فرائڈ کے پیروکار، سبھی کو آپ کے اشعار کے پیمانوں میں اپنے اپنے عقائد کے رنگ جھلکتے دکھائی دے جاتے ہیں ؟
غالب : دل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
   کام یاروں کا بقدر لب و دنداں نکلا
میں : لیکن گستاخی معاف! چند ایسے شارحینِ کرام بھی ہیں جو آپکے بعض اشعار کو بے معنی قرار دیتے ہیں۔ 
غالب : نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
    نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی
میں : آپ نے ٹھیک کہا ہے کہ آپ کے اشعار ’’گنجینۂ معنی کے طلسم‘‘ ہیں۔ انہیں سمجھنا کار طفلانہ نہیں۔ آپ اسے خود میری شوخیٔ طفلانہ پر ہی محمول کیجئے لیکن یہ کہنے کی جسارت تو میں بھی کروں گا کہ آپ کےاس قسم کے اشعار:
غنچہ تا شگفتن ہا برگ عافیت معلوم
با وجودِ دل جمعی خوابِ گل پریشاں ہے
مجھے بھی کچھ مبہم سے نظر آتے ہیں۔ 
غالب: میرے ابہام پہ ہوتی ہے تصدق توضیح
   میرے اجمال سے کرتی ہے تراوش تفصیل
میں : اس میں کیا شک ہے قبلہ و کعبہ!
 سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں 
 خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں 
جیسے سدا بہار اور حکیمانہ شعر کہہ کر آپ نے اردو شاعری کے خزانے میں جو بیش بہا اضافہ کیا ہے، اس کی وجہ سے اگر آپ کی شخصیت کو ’’گلِ نغمہ‘‘ اور ’’پردۂ ساز‘‘ سے تعبیر کیا جائے تو نامناسب نہ ہوگا۔ 
غالب : نے گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
    میں ہوں اپنی شکست کی آواز
میں : اللہ اللہ اتنی دل شکستگی اور مایوسی! جوش ملیح آبادی نے آپ کے بارے میں واقعی سچ کہا ہے کہ آج غالب کو پوجا جا رہا ہے، کل جب وہ زندہ تھا تو اسی دہلی میں اکثر و بیشتر آدھا پاؤ گوشت اور ایک پاؤ شراب کے لئے ترستا رہا۔ آج ملک کے بڑے بڑے دولت مند اس کے مزار کی زیارت کے لئے آتے ہیں۔ کل جب وہ زندہ تھا تو اسے خود امراء کے دروازوں پر جانا پڑتا تھا۔ 
غالب : زندگی اپنی جو اس طور پہ گزری غالب
  ہم بھی کیا یاد کریں گےکہ خدا رکھتے تھے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK