• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عصمت بابا

Updated: August 26, 2024, 2:31 PM IST | Ghani Gazi | Mumbai

ایک ہفتہ پہلے ہی مجھ سے پندرہ دنوں کی چھٹی کے لئے عریضہ لکھوایا تھا۔ وہ اپنے وطن روانہ ہونے والے تھے۔ ٹکٹ بک ہوچکا تھا مگر دو دن پہلے ہی موت کے فرشتے نے انہیں اس وطن میں پہنچایا دیا جہاں سے کوئی واپس نہیں لوٹتاہے۔ ا

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

نام تو ان کا عصمت اللہ ارشاد شاہ تھا مگر اساتذہ اور بچے انہیں عصمت بابا کہہ پکارتے تھے۔ وہ بھی بابا کہنے والوں سے اس طرح محبت سے پیش آتے جیسے سچ مچ باپ بیٹے ایک دوسرے سے بات کررہے ہوں۔ صبح سویرے جب بچے اسکول میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے صدر دروازہ پر بابا کو سلام کرتے۔ بابا بھی بڑی محبت سے جواب دیتے اور ہاتھ بھی ملاتے تھے۔ کسی کے سر پر ہاتھ پھیر دیا کسی کا کان پکڑ ا، کسی بچے کو ٹا ٹا کہہ دیا اور کسی کو اچھا اچھا ....کہہ کر ٹال دیا۔ اس وقت بابا کا رویہ نہایت نرم پھول کی طرح ہوتاتھا لیکن جب وقفہ کی چھٹی ہوتی تو بابا دروازہ پر دربان کی طرح کھڑے ہوجاتے۔ ایک ایک بچہ کو غور سے دیکھتے۔ کہیں کوئی بچہ بستہ لے کر فرار نہ ہوجائے اور اگر کوئی کاپیاں، کتابیں لئے نظر آتاتو اسے فور۱ً واپس کرتے اور جب تک وہ کاپیاں کتابیں اپنے بستہ میں رکھ کر نہیں لوٹتا باہر جانے کی اجازت نہ دیتے۔ چھوٹے ہی نہیں بڑے بچے بھی ان سے ڈرتے تھے۔ عصمت بابا صبح سے ساڑھے بارہ بجے تک اسکول کے صدر دورازہ پر کھڑے رہتے ۔ جب بچے وقفہ کی چھٹی میں ناشتہ میں مصروف جاتے تو بابا اسٹاف روم میں آتے اور چائے کی ایک گرم گرم پیالی سے تازہ دم ہوجاتے۔ 
بینک سے اسکول کی رقم نکالنا اور جمع کرنا انہیں کے ذمہ تھا مگر آج تک ایک نئے پیسے کی کمی بیشی نہیں ہوئی۔ پانچوں وقت کی نماز پابندی سے ادا کرتے۔ صبح و شام تلاوت ضرور کرتے تھے۔ دو سال پہلے ان کے جوان بیٹے کو غنڈوں نےمہا لکشمی پل سے نیچے پھینک دیا تھا۔ اس پر بھی بابا نے صبر کیا۔ اپنی خاندان والوں اور اپنی بیوی کو جس طرح دلاسا د یا وہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ 
ایک ہفتہ پہلے ہی مجھ سے پندرہ دنوں کی چھٹی کے لئے عریضہ لکھوایا تھا۔ وہ اپنے وطن روانہ ہونے والے تھے۔ ٹکٹ بک ہوچکا تھا مگر دو دن پہلے ہی موت کے فرشتے نے انہیں اس وطن میں پہنچایا دیا جہاں سے کوئی واپس نہیں لوٹتاہے۔ اپنے بڑے بیٹے اقبال کے ہمرا ہ عرب مسجد میں نماز مغرب ادا کرنے کے بعد اس سے وعدہ کیا کہ کل اس کی بیوی اور بچی سے ملیں گے۔ پرنسپل صاحب سے کہا کہ وطن جانے سے پہلے ان کے گھر آنا چاہتےہیں۔ مگر یہ کل پھر انہوں نے نہیں دیکھا۔ 
مغرب کے بعد بچوں کو لے کر دعوت میں گئے۔ کھانا کھایا اور نکڑ پر کسی ہوٹل میں اپنے ایک عزیز کو چائے پر لے گئے۔ اس سے پہلے کہ چائے کا گلاس چھوتے ایک طرف لڑھک گئے۔ لوگ دوڑے۔ اٹھایا مگر جسم ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ 
وہ اپنے بچوں کی خوشحالی کے لئے کام کرنا چاہتے تھے۔ بہت سادہ زندگی گزارتے، بہت کم خرچ کرتے۔ اب تو زمین کی بوائی کے لئے جارہے تھے، خدا نے بلوالیا۔ وہ بچے بہت اداس ہیں جو بابا کے ڈر سے قمیص کے نیچے کاپیاں اور کتابیں چھپا کر لے جاتے اور اسکول سے فرار ہوجاتے تھے۔ آج ان سب بچوں کی آنکھیں نم ہیں۔ بچوں کو بستہ لے جانے سے روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں مگر پھر بھی کوئی بچہ بستہ لے کر اسکول سے نہیں بھاگا۔ 
اب انہیں بابا کی اہمیت کا احساس ہورہا ہے ! آج ان کے احترام میں جب سب بچے قطار میں اوپر چڑھ رہے اور نیچے اتر رہے ہیں توکسی کی قمیص کے نیچے کاپی کتاب نہیں ہے۔ سبھی اسکول کے صدر دروازہ کو دیکھ کر بابا کہہ کر رہ جاتے ہیں تب بابا کی روح کو کتنا سکون ملا ہوگا۔ سچائی، محنت اور محبت کا جو چراغ جلا کربابا گئے ہیں اس کی روشنی سے بچوں کے دل و دماغ آج بھی روشن ہیں۔ بابا کہنے کو تو اسکول کے چوکیدار تھے، مگر انسان عہدہ سے نہیں بلکہ کام سے چھوٹا یا بڑا ہوتا ہے۔ چھوٹے سے بڑے تک سبھوں کے غمزدہ چہرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ ایک مخلص انسان تھے۔ وہ انسان جو اوپر سے سخت مگر اندر سے بہت نرم ہوتاہے۔ اسکول کی چوکیداری تو چھوٹ گئی مگر دلوں پران کی چو کیداری ہمیشہ ہمیشہ قائم رہے گی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK