مالیگاؤں میں وائس آف اردو کے زیراہتمام منعقد ہ ادبی میلے ’’رشک بہاراں ‘‘ میں مشہور ادبی شخصیت جاوید صدیقی نے نئے لکھنے والوں کی رہنمائی کرتے ہوئےکہا۔
EPAPER
Updated: February 16, 2025, 12:50 PM IST | Mumbai
مالیگاؤں میں وائس آف اردو کے زیراہتمام منعقد ہ ادبی میلے ’’رشک بہاراں ‘‘ میں مشہور ادبی شخصیت جاوید صدیقی نے نئے لکھنے والوں کی رہنمائی کرتے ہوئےکہا۔
جب میں پچھلے سال پاکستان گیا تھا اور وہاں کے لکھنے والوں سے ملاقات کی تھی جن میں نئے لکھنے والے بھی تھے تو ان سب کی جانب سے ایک بات یہ سامنے آئی تھی کہ ہندوستان میں اردو میں نیا افسانہ نہیں لکھا جا رہا ہے اور اگر کچھ لکھا بھی جا رہا ہے تو کچھ پرانے لوگ ہی ہیں جو لکھ رہے ہیں ، لیکن آج جن ہانچ افسانہ نگاروں کو میں نے سنا تو مجھے محسوس ہوا کہ وہ لوگ جھوٹ بول رہے تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پورے ہندوستان کی کیا بات کریں یہاں مالیگاؤں میں بھی اتنے اچھے تجربے کئے جا رہے ہیں۔ آج کی نشست میں مَیں نے چار افسانچے سنے، افسانچے کو محض اس لئے کہ وہ افسانچہ ہے خارج نہیں کیا جا سکتا، جیسے غزل کے شعر کے دو مصرعے ہوتے ہیں یا جیسے چار مصرعوں کا قطعہ ہوتا ہے، افسانچے کی بھی اپنی اہمیت ہے کیونکہ کم لفظوں میں اپنی بات کہنا مشکل ہوتا ہے۔ دوران نشست ایک افسانہ بھی سنا جس میں مسلم معاشرہ کی خامیوں کو موضوع بناتے ہوئے یہ نکتہ اجاگر کیا گیا ہے کہ معاشرہ کے جن لوگوں کو فعال یونا چاہئے تھا وہ کس طرح غیر فعال ہو کر رہ گئے ہیں۔ مجھے یہ افسانے سنتے ہوئے واقعی بہت اچھا لگا اور میں کوشش کروں گا کہ اتنے اچھے افسانے سننے کیلئے آئندہ سال بھی مالیگاؤں آؤں۔
مجھے یہاں بتایا گیا ہے کہ اس ہال میں (عمائدین شہر اور مہمانوں کے علاوہ) بڑی تعداد میں طلباء اور طالبات بھی ہیں جو یہ جاننا ہیں کہ کیسے لکھا جائے۔ کل بھی ایک صاحب مجھ سے ملے تھے جو جاننا چاہتے تھے کہ میں کیسے لکھتا ہوں۔ جو لوگ کہانیاں لکھ رہے ہیں یا دوسرے ادبی کام کررہے ہیں ان کے بارے میں تو میں کچھ کہوں گا نہیں، البتہ جو لوگ لکھنا چاہتے ہیں، جو اس معاملے میں پرجوش ہیں ان سے چند باتیں ضرور عرض کرنا چاہوں گا۔ لکھنا مشکل تو نہیں ہے مگر اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ لکھنے کیلئے پڑھنا ضروری ہے اور جتنا آپ پڑھیں گے اتنا ہی آپ کی تحریروں میں نکھار پیدا ہوگا مگر آج کے دور میں مطالعہ گویا متروک ہوچکا ہے۔ لوگ پڑھنا چھوڑ چکے ہیں۔ لکھنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر آپ پڑھنا نہ چاہیں اور لکھتے رہیں تو یہ عمل ایسا ہوگا جیسے آپ بینک کے اپنے کھاتے میں رقم تو جمع نہ کریں مگر رقم نکالنے پر اصرار کریں۔ اس لئے لکھنے والوں کو پڑھنا چاہئے۔ عصری ادب پڑھیں، کلاسیکی ادب پڑھیں، غیر زبانوں کا ادب پڑھیں اور مطالعہ کو معمول بنا لیں۔
پاکستان کے کراچی میں میں آرٹ کاؤنسل دیکھنے گیا تھا جہاں معلوم ہوا کہ بہت سے ادیبوں نے اپنا پورا پورا کتب خانہ، کتابوں کا پورا سرمایہ کاؤنسل کو وقف کردیا ہے۔ وہاں میں نے دیکھا کہ مشتاق احمد یوسفی صاحب کا کلیکشن بھی ہے۔ جب میں اسے دیکھنے کے ارادہ سے آگے بڑھا تاکہ معلوم ہوسکے کہ یوسفی صاحب کون سی کتابیں پڑھتے تھے تو میں نے پایا کہ ان میں کوئی کتاب ایسی نہیں تھی جس میں یوسفی صاحب نے نشانات نہ لگائے ہوں اور کتاب کے حاشئے پر نوٹس نہ لکھے ہوں۔ سوچئے وہ شخص جس کی تحریروں کی مثال دی جاتی ہے وہ دوسروں کو پڑھتا تھا تو کتنی توجہ اور انہماک کے ساتھ پڑھتا تھا۔
سوال یہ ہے کہ یوسفی ایسا کیوں کرتے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ دوسروں کی تحریروں سے کچھ سیکھنا، کچھ حاصل کرنا اور کچھ Absorb کرنا چاہتے تھے۔ اس سے آپ کو یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہئے کہ لکھنے کیلئے پڑھنا بہت ضروری ہے۔
مطالعہ تین مراحل میں ہونا چاہئے، پہلی مرتبہ کتاب کو تیزی سے پڑھ جائیں تاکہ آپ اس کے مشمولات سے لطف اندوز ہوں۔ دوسری مرتبہ اسے ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھ کر پڑھیں اور تیسری مرتبہ جب پڑھیں تو اس کا تجزیہ کرنا آپ کا مقصد ہونا چاہئے۔ اس دوران آپ کو محسوس کرنا ہوگا کہ کون سی بات آپ کو اپیل کررہی ہے، جون سی چیز آپ کے دل کو چھو رہی ہے اور کتاب آپ سے کیا کہہ رہی ہے کیونکہ میرا خیال ہے کہ ہر کتاب اپنے قاری سے کچھ نہ کچھ کہتی ہے۔ وہ کچھ نہ کچھ Communicate کرتی ہے۔ میں مورالیٹی کی بات نہیں کررہا ہوں صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ ہر کتاب کچھ نہ کچھ کہتی ہے، اسے سنئے، اس کی بات پر توجہ دیجئے۔
جہاں تک لکھنے کا سوال ہے تو لکھنا مشکل نہیں ہے بلکہ مارک ٹوین نے تو کہا تھا کہ لکھنے کیلئے کاغذ ضروری ہے اور قلم ضروری ہے، بس، یہ چیزیں آپ کے پاس ہیں تو آپ لکھ سکتے ہیں مگر اس کے علاوہ جو چیزیں درکار ہوتی ہیں میرے خیال میں وہ تین (چیزیں ) ہیں۔ یہ میرا ذاتی تجربہ بھی ہے اور جو میں نے اب تک کی زندگی میں پڑھا ہے اس سے اخذ کیا گیا نتیجہ بھی ہے۔ سب سے پہلے ایک رائٹر جو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہے تصور، تخیل یعنی Imagination جسے قوت متخیلہ کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کا تخیل مضبوط ہے اور جو کچھ بھی آپ سوچتے ہیں اسے ذہن کے اسکرین پر دیکھ بھی پاتے ہیں تو اس سے آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔
دوسری چیز جو ایک نو آموز قلمکار کیلئے بہت ضروری ہے وہ ہیں الفاظ۔ الفاظ ہی ہیں جو آپ کے تخیل کو دوسروں تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ جو الفاظ ہیں وہ آپ کو کہاں سے ملیں گے، ظاہر ہے کہ کتابوں سے ملیں گے اسی لئے میں نے ابتداء میں عرض کیا کہ لکھنے کیلئے پڑھنا ضروری ہے اور جب آپ پڑھیں گے تو بہت سی دوسری چیزوں کے علاوہ الفاظ بھی ملیں گے یا ان سے آپ کی دوستی گہری ہوگی۔
(اس تقریر کا دوسرا حصہ آئندہ ملاحظہ کیجئے)