• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

کتاب اور دیمک کا مکالمہ

Updated: January 13, 2025, 5:49 PM IST | Ghani Gazi | Mumbai

اردو کی ایک قدیم لائبریری میں لکڑے کی درجنوں مقفل الماریاں کتابوں سے بھر ی پڑی ہیں۔ صدر دروازہ بھی برسوں سے بند ہے۔ الماریوں کے دروازوں کو چھید کر دیمکیں اندر داخل ہوگئیں اور کتابوں پر حملہ آور ہیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

اردو کی ایک قدیم لائبریری میں لکڑے کی درجنوں مقفل الماریاں کتابوں سے بھر ی پڑی ہیں۔ صدر دروازہ بھی برسوں سے بند ہے۔ الماریوں کے دروازوں کو چھید کر دیمکیں اندر داخل ہوگئیں اور کتابوں پر حملہ آور ہیں۔ 
کتاب : سن بہن ! اب تو ترس کھا ! تم مجھے دن بدن چھلنی کرتی جارہی ہو اب مجھ سے دردبرداشت نہیں ہوتا۔ میں مرجاؤں گی۔ 
دیمک:تم کیا چاہتی ہو کہ میں مر جاؤں ! زندہ رہنے کیلئے یہ خوراک ضروی ہے! تمہارے نرم و نازک اوراق سے بہتر اور عمدہ غذا کہاں ملے گی۔ 
کتاب: اور بھی تو الماریاں ہیں نا ! وہاں چلی جاؤ یہاں میری جان کے پیچھے کیوں پڑی ہو ؟
دیمک: دوسری الماریوں میں میری بہنیں مصروف کار ہیں۔ ہم سب نے اتفاق رائے سے ایک ایک الماری بانٹ لی ہے۔ میں کسی کے حصہ کی خوراک چھین نہیں سکتی۔ میرا رزق تو تمہارے میلے کچیلے کاغذوں ہی میں رکھاہے۔ 
کتاب : میرے کاغذوں کو میلا کچیلا نہ کہو۔ میں جب یہاں لائی گئی تھی تو سفید براق چمکدار لباس میں نئی نویلی دلہن کی طرح سجی سنوری تھی۔ برسوں 
بیت گئے تو اب وہ چمک دمک باقی نہیں رہی۔ 
دیمک : اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ تم کو کوئی منہ لگانے کو تیار نہیں ۔ میرا شکر ادا کرو کہ میں منہ بھی لگارہی ہوں۔ تمہارے اپنے تو حال بھی نہیں پوچھتے۔ میں تورات دن تمہارے ساتھ توہوں ! 
کتاب : میں مصیبت کی ماری برسوں سے قید و بند کی زندگی گزار رہی ہوں۔ جس نے مجھے لکھا وہ دنیا سے چلا گیا اورمجھے پل پل مرنے کو چھوڑ گیاہے۔ نہ میں باہر نکل سکتی ہوں نہ تیرے جبر سے نجات پانے کا کوئی راستہ ہے۔ 
دیمک : تم فضول مجھ پر الزام دھر رہی ہو۔ تمہیں جن کے لئے لکھ گیا وہ تو غائب ہیں۔ وہی تو تمہارے اصل ملزم ہیں ۔ تمہاری بربادی انہیں کی وجہ سے ہے۔ اپنے شوق کی خاطر تمہیں کاغذ پر اتار کر خوب صورت رنگین سرورق چڑھاکر اس قید خانے میں ڈھکیل دیا گیا جیسے کوئی ناجائز بچہ کو یتیم خانے کے چبوترے پر چھوڑکر رفو چکر ہوجاتاہے۔ 
کتاب : اتنی کڑوی کسیلی باتیں تو نہ سناؤ !تم تو زخموں پر نمک پاشی کر رہی ہو۔ الماری میں سیکڑوں کتابیں ہیں تم ان کے پاس جاؤ مجھے چھوڑ دو۔ میں داستانوں کی بہت قیمتی کتاب ہوں، ضائع ہوگئی تو پھر نا یا ب ہو جاؤں گی۔ 
دیمک: الماری میں تمہاری پڑوسی کتابوں سے میری دوسری بہنیں بھوک مٹارہی ہیں۔ کتنے دنوں سے میں تمہارے اوراق چٹ کر رہی ہوں مگر ختم نہیں ہو رہے ہیں۔ اب معلوم ہوا کہ ان میں طویل داستانیں پوشیدہ ہیں جو برسہا برس تک سنائی جاتی تھیں ۔ میں بھی قسمت کی ماری کس دلدل میں پھنس گئی۔ شاعری کی کتاب ہوتی تو لذت بھی آتی اور جلد ختم بھی ہو جاتی۔ ‘‘ 
کتاب :بہن ! میں دن بدن نحیف ہوتی جارہی ہوں۔ پورا بدن زخموں سے چور ہے۔ سسک رہی ہوں ۔ ممکن ہے کوئی پڑھا لکھاشیدائی میری آہ و بکا سن کرآجائے مجھے اس قید سے آزاد کرادے میں کھلی ہوا میں سانس لوں و گر نہ میری سانسوں کی ڈور ٹوٹنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا میری بات مانو! مجھ پر رحم کرو۔ 
د یمک : تم جن کے لئے آراستہ پیراستہ کی گئی تھی جس نے تمہیں قلم کے ذریعے کاغذ پر اتار ا تھا تمہیں جن شائقین زبان پر ناز تھا وہ توتمہاری طرف جھانک کر بھی دیکھنے کو تیار نہیں ! بھلا میں تم پر رحم کرنے والی کون ہوتی ہوں ؟ نہ میں پڑھی لکھی ہوں نہ ہی اردو جانتی ہوں نہ ہی تمہاری شیدا ہوں ۔ تم پر ترس کھاؤں گی توبھوکوں مر جاؤں گی۔ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا توکھائے گا کیا ؟
کتاب : مجھے تڑپا تڑپا کر موت کے حوالے کر کے بھلاتجھے کیا ملے گا؟ میرے اپنے تودشمن ہوگئے وہ مجھے بے یار ومددگار چھوڑعیش کررہے ہیں۔ وہ تو خیرانسان ہیں سنگ دل بھی ہوسکتے ہیں مگر تو انسان نہیں !کیا میرے درد کا تجھے ذرا بھی احساس نہیں ! مہربانی کرو مجھے بخش دے ایک نہ ایک دن اس قید سے مجھے ضرور آزادی ملے گی۔ 
دیمک: تم آزادی کے خواب نہ دیکھو تو اچھا ہے۔ آزاد ہوکر بھی کیا کروگی ؟ کیا پڑھنے والے ہار پھول لے کر تمہارے استقبال کو کھڑے ہیں ؟ نہیں ایسا سوچنا بھی مت ! البتہ ردی والے ترازو پلڑے اور خالی بوریاں لئے موجود ہوں گےلیکن الماریوں کے تالے کھلتے ہی وہ ناک پر کپڑا اورسر پر پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑے ہوں گے۔ انہیں تو ردّی چاہئے برادہ لے کر وہ کیا کریں گے ؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK