کورونا وباء کے دوران تبدیل ہوتے رویوں اور رشتوں کے تناظر میں تحریر فکر انگیز افسانہ
EPAPER
Updated: December 23, 2024, 12:24 PM IST | Shahroz Khawar | Mumbai
کورونا وباء کے دوران تبدیل ہوتے رویوں اور رشتوں کے تناظر میں تحریر فکر انگیز افسانہ
بوڑھا اپنی آرام کرسی میں دھنسا سوچ رہا ہے کہ کمرہ خالی کیوں ہے ـــ گھر کے سارے افراد کہاں چلے گئے ـــ؟آج تو گھر سے باہر نکلنا منع ہے ـــ ! نہیں معلوم کیا بیماری پھیلنے والی ہے ـــ ! دوسرے کمرے سے بھی کسی کی آواز نہیں آرہی ہے ـــ۔
ہاں ! ہلکی ہلکی کچھ الگ آوازیں ضرور آرہی ہیں ـــ جیسے دور، بہت دور کہیں سے گولیوں کی تڑا تڑ .... تڑا تڑ کی آوازیں آتی ہیں ـــ۔ ایسی آوازیں اس نے جوانی میں سنی تھیں ـــ بلکہ اکثر سنتا رہتا تھا ـ۔ پہاڑیوں کے دامن میں ایسی آوازوں کی بازگشت اور بھی خوفناک ہوتی تھیں ـــ۔ دوسرے دن میڈیا سے پتہ چلتا کہ کچھ آتنک وادیوں کو فوجیوں نے بڑی بہادری سے مار گرایا ہے ـــ
کمرے میں ایک لڑکا داخل ہوا ـــ’’ اے بچے ــــ ادھر آؤ ‘‘’دادا جی جلدی بولو ....... ‘‘’’ارے یہ سب کہاں چلے گئے ہیں ـــ؟ ‘‘’’ گیلری میں .....‘‘ کہتے ہوئے لڑکا کچن میں داخل ہو گیا اور ہاتھ میں تھالی لیے تیزی سے نکل کر گیلری کی طرف چلا گیا ـــبوڑھا کچھ اور کہنا چاہتا تھا ـــ لیکن وہ تو رُکا ہی نہیں ـــ چلا گیا۔
پانچ بج رہے تھے۔ ـــ فلاں نے پانچویں منزل کی طرف خوب تالیاں اچھالیں ـــ۔ دوسری منزل سے فلاں فیملی کی گیلری کی طرف شنکھ بجائے گئے ـــ۔ کیا منظر تھا ـــ سب خوش تھے۔ ـــ تالیاں، ـــ تھالیاں ، ـــ شنکھ، ـــ سیٹیاں ـــ اور ان سب کے شور میں کتنے ہی دلوں کی دھڑکنیں ہوا میں تحلیل ہوکر رہ گئیں ـــ۔ اتوار کے شور شرابے کے بعد احتیاطی تدابیر کی تشہیر کے ساتھ ہی عمارت خاموش ہوچکی تھی۔ ـــ سب ایک دوسرے کے لئے اچھوت ہوگئے تھے ـــ کئی دن گزر گئے۔ ـــ کئی لوگ عمارت سے اسپتال پہنچائے گئے۔ ـــ کئی لاشیں اسپتال سے قبرستان پہنچائی گئیں ـــ۔
آج پھر اچانک ایمبولینس کے سائرن کی آواز گونجی ـــ۔ کوئی چونک پڑا ـــ
کوئی گیلری کی طرف لپکا ـــ۔ فلاں کے بدن میں چیونٹیاں رینگ گئیں۔ فلاں نے کپکپاتے ہاتھوں سے چشمہ اٹھایا ــ۔ ـ فلاں کا پیشاب رک گیا۔ فلاں نے بیٹھے بیٹھے اپنے پیر سمیٹ لئے۔ فلاں نے قدموں کی چاپ سے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ کس فلیٹ کی جانب کارروائی ممکن ہے۔ ـــ
بوڑھے نے سگریٹ کا ایک لمبا کش کھینچ کر دھویں کے مرغولے ہوا میں چھوڑے اور کمرے میں موجود خوف زدہ چہروں پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے کان کے آلے کی طرف ہاتھ بڑھایا ـــ۔ دروازہ کھلنے بند ہونے کی ہلکی سی آواز آئی ـــ۔ کارروائی مکمل ہوئی۔ ـــ ایمبولینس کے سائرن کی آواز بتدریج کم ہوتے ہوئے ختم ہوگئی ـــ۔
عمارت میں دھڑکنے والے دلوں کی رفتار معمول پر آئی ـــ۔ فلاں نے اپنے پیر پھیلائے ــ۔ فلاں نے گیلری خالی کردی ـــ۔ فلاں کرسی پر ڈھیر ہوگیاـ۔ فلاں نے جسم پر ہاتھ پھیرے ـــ۔ فلاں نے چشمہ اتار کر ٹیبل پر رکھاـ۔ ــ فلاں نے اپنے ہاتھوں پر سیناٹائزر لگایا۔ بوڑھے نے کان میں آلہ ٹھیک کر کے خوف زدہ چہروں سے سوال کیا ـــ!
’’پھر کسی کو لے گئے ـــ؟‘‘ایک شخص نے اثبات میں سر ہلایا ــ۔ پھر سوال ہوا ’’کسے ... ؟‘‘کسی نے بیزاری سے کہا ’’اب لے گئے ہوں گے کسی کو دادا جی.....‘‘بوڑھے نے کوئی اور سوال کرنا مناسب نہیں سمجھا لیکن ماضی میں کہیں کھو گیا ـ۔ ــ
وہ جوان تھا۔ ـــ سیب کے باغ میں محنت کرتا تھا۔ ـــ جب کبھی فوجیوں کی گاڑی آکر گروپ کے کسی فرد کو کھینچتے ہوئے لے جاتی تو کوئی بھی مزاحمت نہیں کرتا تھا۔ ـــ اُن لوگوں نے مزاحمت نہ کرنا پرانے مزدوروں سے سیکھا تھا ـــ لیکن انہیں یہ پتہ ہوتا تھا کہ کِسے کھینچتے ہوئے لے جایا گیا ہے۔ ـــ
بوڑھے سے رہا نہیں گیا، اس نے سوال کرنا مناسب سمجھا ـــ۔ ’’کچھ تو نام ہوگا اس کا ؟‘‘جواب ملا ’’دادا جی، فلاں ‘‘بوڑھا جانتا تھا کہ میری تسلی کے لیے ایک نام گھڑ لیا گیا ہے۔ وہ بہت زیادہ بے چین ہوجانا چاہتا تھا لیکن خاندان والوں کی طرف سے دلجوئی کی امید نہ ہونے پر اس نے بے چین ہونے کا ارادہ ترک کردیا ـــ۔
بھلا ایسے خوف کے ماحول میں کوئی کتنے سوالوں کا جواب دیتا۔ ویسے بھی بوڑھے کو اپنے بیٹے سے ہمیشہ یہی شکایت رہتی ہے کہ وہ اور اس کے بیوی بچے، بوڑھے کی بالکل فکر نہیں کرتے ـ۔ ــ فکر تو چھوڑ ئیے، بوڑھے کا گمان ہے کہ وہ اپنی کرسی سے اٹھے گا اور زیادہ دیر تک کرسی خالی رہی تو بیٹے بہو کرسی تک فروخت کردیں گے ـــ کیوں کہ بیٹا کئی بار نئی کرسی کا لالچ دے چکا ہے ـ۔ ــ پہلے تو بوڑھا گھر میں ٹہلتا تھا۔ ـــ کبھی کبھی نیچے گارڈن میں بھی چلا جاتا تھا لیکن مدت سے ایک انجانے خوف نے اسے کرسی تک محدود کردیا ہے اور جب سے بیٹے نے نئی کرسی کی بات کی ہے، تب سے تو اسے اپنی دنیا چھن جانے کا خوف ستانے لگا ہے ـــ چونکہ بالکل ایسا ہی خوف وہ برف پوش پہاڑوں کے دامن میں رہنے والوں کی آنکھوں میں دیکھ چکا ہے اس لئے اس کا گمان واجبی ہے ـــ۔
کمرے میں سبھی ٹی وی کی طرف متوجہ ہیں ، بوڑھا بھی ـــ۔ وہ ٹی وی کی دھندلی تصویروں سے اندازہ لگا رہا ہے کہ کیا بات ہورہی ہے۔ ـــ بیٹے نے اونچی آواز میں بوڑھے کو مخاطب کیا ـــ ’’ماسک ...... ماسک کیوں نہیں لگاتے آپ ؟‘‘بہو گھور کر دیکھنے لگی۔ ـــ بوڑھے نے ہڑبڑا کر ماسک منہ پر لیا ـــ
کچھ دیر کے بعد بوڑھے نے ہمت جٹا کر سوال کیا۔ ’’کیا بات چل رہی ہے ٹی وی پر ‘‘، کسی نے اکتاہٹ کا اشارہ دیا ـــ۔ کوئی جھنجھلا کر رہ گیا ـ۔ اب بیٹا ہی ہے کہ ڈانٹ ڈانٹ کر خبر سنائے۔ ’’ مہاماری بڑھتی ہی جارہی ہے ـــ بوڑھے زیادہ مررہے ہیں ـــ۔ ‘‘بہو اوڑھنی میں منہ دبا کر ہنسی روکنے کی کوشش کرنے لگی ـــ۔
’’ہاسپیٹل میں صحیح انتظام نہیں ہے ـــ اچھے لوگ بھی وہاں جاکر مر جاتے ہیں ..... ایسے حالات ہیں ....... بس ....‘‘پوتا چھیڑتے ہوئے بولا ’’دادا جی، کھانسی یا چھینک آئے تو فوراً بتانا ـــ۔ ‘‘’’ وہ تو ہمیشہ کی بیماری ہے‘‘، بوڑھے نے کہا ـــ’’ وہ جو بھی ہو، اگر کوئی ایسا مریض ہو تو پولیس کو خبر کرنا ضروری ہے، ورنہ سزا ملے گی ـــ۔ ‘‘سب مسکرا کر ٹی وی کی طرف متوجہ ہوگئے ـــ
برفیلی وادیوں میں بھی ایسا ہوتا تھا ـــ سب منہ پھیر کر اپنی اپنی زندگی میں چلے جاتے تھے ـــ۔ کچھ دیر بعد ٹی وی بند ہوگیا ـــ
بوڑھا کھانسنا چاہتا ہے لیکن پوتا دیکھ رہا ہے۔ بیٹا اور بہو کھڑکی کے پاس کھڑے آپس میں کھسر پھسر کررہے ہیں۔ ـــ ٹھیک ہے ـــ جو بات کرنی ہے کریں ـــ لیکن بار بار بوڑھے کی طرف کیوں دیکھ رہے ہیں۔ بوڑھے نے سگریٹ ہاتھ میں لیا، لیکن کچھ سوچ کر پھر رکھ دیا ـ۔ ــ
اب اسے چھینک آنے والی ہے ـــ وہ دھندلائی آنکھوں سے کمرے کا مشاہدہ کررہا ہے۔ ـــ وہ چھینکنا نہیں چاہتا ـــ لیکن اس کے چاہنے سے کیا ہوتا ہے ـــ۔ عمارت کے ہر فلیٹ میں محصور ہر آدمی ایک دوسرے کے بارے میں کچھ نہ کچھ سوچ رہا ہے۔ ـــ جیسے بوڑھا سوچ رہا ہے کہ آخر ایمبولینس کسے لے گئی ہوگی ـــ؟فلاں کو فکر ستانے لگی کہ اگر مسٹر فلاں کو لے گئے ہوں گے تو میرے بزنس کا کیا ہوگا .... ؟
فلاں سوچ رہا ہے کہ تیسرے منزلے کی طرف سے کھڑ کھڑ کی آواز آئی تھی ـــ۔ فلاں بے چین ہے .... کہیں وہ تو نہیں ـــ۔ فلاں نے کچھ اور سوچا ـــ
فلاں نے کیا کیا سوچ لیا ـــ۔ فلاں نے کچھ بھی نہیں سوچا ـ۔ بوڑھا بھی سوچ رہا ہے کہ اگر مجھے چھینک آئی ....اور اچانک.....’’ آااا چھی ی ی .. ی ....‘‘ سب چونک کر بوڑھے کی طرف دیکھنے لگے ـــ۔ بوڑھے نے دونوں ہاتھوں سے کرسی پر گرفت مضبوط کرلی .....