Inquilab Logo Happiest Places to Work

حب الوطنی کے نغموں کی شناخت منوج کمار

Updated: April 07, 2025, 12:24 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

منوج کمار نے اپنی فلموں میں حب الوطنی کے جو نغمےپیش کئے وہ بے جا فخر اور جنگجویانہ خیالات کے حامل نہیں بلکہ روزمرہ کے مشکل حالات کے باوجود ملک کے تئیں جذبۂ محبت کو بیدار رکھنے کا اعلان کرتے تھے، ’’ میرے دیش کی دھرتی‘‘ سے لے کر’’اے وطن اے وطن‘‘ تک ہرنغمہ شاہکار ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ہندی فلم انڈسٹری میں حب الوطنی سے لبریز فلموں اورنغموں کا ایک اہم کردار رہا ہے اور اس کے ذریعے فلمساز عام شہریوں میں حب الوطنی کے جذبے کو آج بھی بلند کرتے ہیں لیکن آج کے دور کے حب الوطنی کے نغموں اور ماضی کے حب الوطنی کے نغموں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آج کے دور کے بارے میں ہم بلاشبہ کہہ سکتے ہیں کہ فی الحال جو نغمے حب الوطنی کے نام پر لکھے جارہے ہیں یا فلموں میں پیش کئے جارہے ہیں ان میں حب وطن سے زیادہ وطن پرستی اور جنگجویانہ جذبات کا اظہار ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ نغمے ملک کی مدح میں نہیں کہے گئے ہیں اور نہ تعمیرِ ملک ان کا موضوع ہے بلکہ یہ محض ان خیالات و جذبا ت کی تسکین ہے جس کے ذریعے ہم اپنے اوپر بےجا فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر ہم ماضی کے حب الوطنی کے نغموں کو دیکھیں تو وہ نغمے شہریوں کو ترغیب دینے، ملک کی تعمیر و ترقی میں شامل ہونے اور روزمرہ کے مشکل حالات کے باوجود ملک کے تئیں جذبۂ محبت کو بیدار رکھنے کا اعلان کرتے تھے۔ آج جس جذبے کو حب الوطنی کا نام دیا جارہا ہے اس کے برعکس حب الوطنی کی اصل تصویر پیش کرنے والے اداکار منوج کمار نے اپنی فلموں کے ذریعے جو پیغام دیا وہ نہ صرف قابل تقلید ہے بلکہ اس پیغام کو عام کرنے کے لئے انہوں نے جو نغمے اپنی فلموں میں شامل کئے وہ ہمارے خیال میں حب الوطنی کے اصل گیت ہیں۔ ہر چند کہ زیادہ تر گیت ہندی میں ہیں لیکن وہ ہندی اور اردو کی ادبی روایتوں کے امین بھی ہیں۔ 
منوج کمار کے کرداروں نے وطن سے محبت، قربانی اور دیہی ہندوستان کی سادگی کو اس قدر خوبصورتی سے پیش کیا کہ وہ کب منوج کمار سے ’’بھارت کمار‘‘ بن گئے پتہ ہی نہیں چلا۔ اس میں جہاں ان کی فلموں کی تھیم نے سب سے اہم کردار ادا کیا وہیں ان کی فلموں کے نغموں نے اسے بام عروج پر پہنچایا۔ ان کی فلموں میں استعمال ہونے والے حب الوطنی کے خیال اور اس کے لئے نغموں کی شروعات ۱۹۶۵ء میں ریلیز ہونے والی ان کی فلم ’شہید‘ سے ہوئی جو بھگت سنگھ کی شہادت پر مبنی تھی۔ اس فلم کے تقریباً سبھی نغمے سپر ہٹ رہے لیکن ’ اے وطن اے وطن‘ اور ’میرا رنگ دے بستي چولا‘ آج بھی سامعین کے سینوں کو حب وطن کے جذبات سے پُر کردیتے ہیں۔ اس فلم کے گیت پریم دھون نے تحریر کئے تھے جو حب الوطنی پر مبنی گیت لکھنے کے ماہر کہے جاتے تھے۔ انہوں نے جب ’اے وطن اے وطن ہم کو تیری قسم‘ لکھا ہو گا تو شائد انہیں بھی اندازہ نہیں ہو گا کہ وہ تاریخ  رقم کررہے ہیں۔ یہ گیت حب الوطنی کے گیتوں میں ممتاز مقام کا حامل بن گیا ہے۔ اس فلم کے تمام نغموں میں سے صرف ایک گیت ’سرفروشی کی تمنا ‘ بسمل عظیم آبادی کا تحریر کردہ تھا اور وہ بھی سپرہٹ ہواتھا۔ 
 منوج کمار پر فلمایا گیا جو گیت سب سے زیادہ مشہور ہوا وہ ’میرے دیش کی دھرتی ‘ تھا۔ یہ گیت اور فلم ’اُپکار ‘منوج کمار نےاس وقت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی ایماء پر بنائی تھی جس میں منوج کمار نے ’جے جوان جے کسان‘ کے شاستری جی کے نعرے کو عملی جامہ پہنایا تھا۔ اس گیت کو گلشن بائورا نے لکھا تھا۔ یہ گیت آج بھی حب الوطنی کے نغموں کی فہرست میں سب سے اوپر شمار ہوتا ہے۔ فلم’ اپکار‘نے ایک نئے منوج کمار کو یعنی ’بھارت کمار‘ کو جنم دیا۔ اس فلم میں ان کا نام بھارت کمار تھا اور اس کے بعد انہوں نے جتنی بھی فلمیں بنائیں ان میں اپنا نام ’بھارت کمار‘ ہی رکھا جو بعد ازاں ان کی شناخت کا حصہ بن گیا۔ 
منوج کمار خود اردوداں تھے جبکہ ان کے والد اردو کے شاعر تھے، اسی لئے ادب اور زبان کی شیرینی ان کے لہو میں شامل تھی۔ وہ روزنامہ انقلاب کے قاری بھی تھے۔ ان پر فلمایا گیا جو دوسرا گیت بہت مشہور ہوا وہ فلم ’پورب اور پچھم ‘ کا گیت ’ہے پریت جہاں کی ریت سدا ‘ ہے ۔ یہ نغمہ لکھا تھا اندیور نے جبکہ آواز ان کے پسندیدہ گلوکار مہندر کپور کی تھی۔ یہ گیت جسے ہم ہندی زبان کی نظم بھی کہہ سکتے ہیں ادبی چاشنی سے لبریز ہے۔ اس کے نغمہ نگار نے ملک کی مکمل تاریخ کا احاطہ اس گیت میں کردیا ہے۔ اس کے علاوہ حب وطن پر منوج کمار کی فلم میں شامل کیا گیا جو گیت مشہور ہوا وہ فلم کرانتی کا نغمہ تھا۔ منوج کمار نے اپنے پسندیدہ اداکار دلیپ کمار کے ساتھ یہ فلم بنائی تھی جو جنگ آزادی پر مبنی تھی۔ اس فلم میں انہوں نے ایک گیت ’ اب کے برس تجھے دھرتی کی رانی کردیں گے ‘ کا استعمال کیا تھا۔ یہ گیت معروف نغمہ نگار سنتوش آنند نے لکھا تھا۔ اس میں بھی حب الوطنی کے جذبہ کا بہت عمدہ اظہار ہے۔ 
ان گیتوں سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ حب الوطنی کے گیت جتنے اہم ہیں اتنی ہی اہمیت ان کی پیشکش اور ان کے الفاظ کی بھی ہے۔ ماضی کے جتنے بھی نغمہ نگاروں نے حب الوطنی پر گیت لکھے ان کے یہاں وطن سے محبت کا جذبہ تو کارفرما تھا ہی ساتھ ہی وہ قومی یکجہتی کو بھی فروغ دینا چاہتے تھے۔ اسی لئے منوج کمارحب الوطنی کے گیتوں کی شناخت بن گئے۔ انہوں نے اپنی فلموں میں محض چند گیت ہی حب وطن پر استعمال کئے لیکن جتنے گیت استعمال کئے وہ سبھی شاہکار ہیں۔ انہوں نے جہاں اپنی فلموں کے ذریعے حب الوطنی کا پیغام دیا وہیں ان گیتوں کے ذریعے قومی یکجہتی کو بھی فروغ دیا اور یہ بھی بتایا کہ ادبی دائرے میں رہتے ہوئے شاہکار گیت کیسے لکھے جاسکتے ہیں۔ منوج کمار کی فلموں کے نغمے سننے کے بعد ہر کسی کو یہی احساس ہوتا ہے کہ حب الوطنی کا جذبہ جنگجوئیت یا بے جافخر کا محتاج نہیں ہے بلکہ تن تنہا یہ ملک کے شہریوں کو راغب کرسکتا ہے۔ اس کے لئے صرف ضرورت ہے ایسے نغموں کی آپسی بھائی چارہ کو فروغ دیں لیکن کسی دوسرے کے تئیں نفرت میں اضافہ نہ کریں۔ منوج کمار نے اپنی فلموں کے نغموں کے ذریعے یہی پیغام دیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK