اُس کی ساری زندگی اسی ندی کے قریب گزری تھی یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں، کہ اُس کی زندگی اسی ندی سے منسلک تھی۔ وہ دھوبی تھا اور یہ سب کچھ اُس کی ہمسائیگی میں تھا۔
EPAPER
Updated: March 23, 2025, 12:56 PM IST | Hamza Hassan Sheikh | Mumbai
اُس کی ساری زندگی اسی ندی کے قریب گزری تھی یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں، کہ اُس کی زندگی اسی ندی سے منسلک تھی۔ وہ دھوبی تھا اور یہ سب کچھ اُس کی ہمسائیگی میں تھا۔
پچھلے دس یا اس سے بھی کچھ زیادہ سالوں سے، ہر دن بوڑھا زیادہ تر وقت ندی کے کنارے بیٹھا رہتا۔ اُس کی عمر بیاسی برس تھی اور اب اُس نے کام کاج چھوڑ دیا تھا۔ ندی، بالکل اُس کے گھر کے سامنے تھی اور کچھ صدیاں پُرانی تھی۔
اُس کی ساری زندگی اسی ندی کے قریب گزری تھی یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں، کہ اُس کی زندگی اسی ندی سے منسلک تھی۔ وہ دھوبی تھا اور یہ سب کچھ اُس کی ہمسائیگی میں تھا۔ سرکاری طور پر، یہ علاقہ جہاں وہ رہتے تھے، ایک گاؤں کا حصہ تھا۔ لیکن اس کو ایک مجموعی احساس نے گھیرا ہوا تھا، بہت عرصے تک، یہ ہمسائے اُن کو ایک ہی گاؤں سمجھتے آئے تھے۔ درحقیقت، لوگوں کے ذہنوں میں سرحدیں کھینچی ہوئی تھیں جن کے نقشے میں کوئی آثار نہیں تھے۔
سمندر کے قریب ایک علاقہ تھا، جو کاراوامچھیروں سے تعلق رکھتا تھا۔ مچھیرے اور راہدادھوبی عمومی طور پر دوست تھے۔ مچھیروں کے درمیان جان لیوا لڑائیاں تھیں جن کا اختتام قتل و غارت پر ہی ہوتا تھا۔ ایک خاندان سے ہونے والی موت، دوسرے خاندان میں موت کا سبب بنتی تھی اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہتا۔ لیکن دھوبی بہت متحد تھے۔ وہ ہمیشہ مچھیروں کی مدد کرتے جو بھی اُن سے بن پڑتا۔ ہر بندہ دھوبیوں کو چھیڑنے سے خوف کھاتا۔ چاہے ایک اکیلا شخص ہی کیوں نہ ہو، وہ کھڑا ہو جاتا اور انتہائی بے رحمی کا مظاہرہ کرتا۔ صرف انہوں نے علاقے کے پہلے سرمایہ دار کا مقابلہ کیا تھا جب اُس نے غریب لوگوں کی زمینیں زبردستی ہڑپ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اُن کی مزاحمت نے گوریلا جنگ کی شکل اختیار کر لی تھی جسے ایک داستان کی طرح بیان کیا جاتا تھا۔
ایسے واقعات کے علاوہ، مچھیرے بہت ہی امن پسند لوگ تھے اور وہ ہمیشہ مضبوطی سے منصفی کے احساس کے ساتھ انصاف کا ترازو تھامے رکھتے۔ وہاں گرجے کے ساتھ، لوگوں کا ایک اور گروہ بھی رہ رہا تھا۔ وہ کاشت کاروں کی نسل سے تعلق رکھنے کا دعوی کرتے تھے لیکن اُن کے نزدیک کسی قسم کے بھی دھان کے کھیت نہ تھے۔ وہ چند ہی خاندانوں پہ مشتمل تھے لیکن زیادہ زمین کے وہی مالک تھے۔ وہ سارے گاؤں سے الگ تھلگ رہتے تھے۔ اُن میں سے کچھ مرد، کولمبو کے کچھ دفاتر میں، کلرک کی نوکری کرتے تھے لیکن دوسرے دیہاتیوں کو وہ ایسا احساس دیتے جیسے کہ وہ شہر میں بڑی بڑی ملازمتوں پہ کام کرتے ہیں۔
در حقیقت، یہ لوگ جو گووی گاما، ایک اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے کا دعوی کرتے تھے کیونکہ یہ گاؤں میں، سب سے زیادہ غیر محفوظ لوگ تھے، اور یہی وہ لوگ تھے جو لوگوں کے درمیان زیادہ تر تکلیف کا باعث بنتے تھے۔ گاؤں کے اس مختصر تعارف کا مقصد صرف یہ ہے کہ صرف یہی وہی دُنیا تھی جس کے بارے میں ہمارے بوڑھے کو حقیقت میں پتہ تھا۔
جیسا کہ ۱۹۴۸ء میں سری لنکا کو آزادی دی گئی، اُس حساب سے ہم بوڑھے کی عمراُس وقت اکتالیس برس شمار کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اکتالیس برس تک سلطنت برطانیہ کا شہری رہا تھا۔ اُس نے جلد ہی کام کرنا شروع کر دیا تھااور جلد شادی کر لی تھی۔ جب اُس کی پہلی بیوی، پہلے بچے، ایک خوبصورت لڑکی کو جنم دینے کے بعد اس دار فانی سے رخصت ہوئی تو اُس نے اُس کی بہن سے دوسری شادی کر لی۔ آزادی کے وقت، اُس کے آخری بچے کا جنم ہوا تھا، کل ملا کر اُس کے سات بچے تھے جن میں سے دو چھوٹی عمر میں ہی وفات پا گئے تھے۔
اس سب کے باوجود، یہ آدمی جو اپنی یادوں کا بے حد شوقین تھا، بمشکل ہی کبھی برطانوی لوگوں یا اُن کی حکومت کے بارے میں بولا تھا۔ یہ نہیں کہ وہ بیوقوف تھا۔ اگرچہ اُس کی بیشتر تعلیم غیر رسمی سی تھی لیکن اُس کا دماغ بہت تیز تھااور وہ ملائمت سے زندگی کے احساسات کو الفاظ میں ڈھالتا۔ وہ اپنی یاداشت کے اس حصے کو سچ مچ بُھول جانے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ اس کو یاد رکھنا اُس کے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔ اُس کے شعور کی گہرائی میں، یہ سارے احساسات اُسے بہت گھائل کرتے اور وہاں اُس نے برطانوی لوگوں کو دفن کر دیا تھا۔
اُس نے بہت سکون اور غیر یقینی کیفیت میں، سب کچھ دیکھا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اُس نے سب کچھ بامقصد اور جان بوجھ کر کیا تھا۔ لیکن یہ بالکل اُسی طرح ہی ہوا تھا جیسے ایک کچھوے کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ سر اپنے خول میں چھپا لیتا ہے اورپھر سب کچھ آوازوں، جسم کے دوسرے حصوں اور پھر اپنی آنکھوں کے ساتھ جانچتا ہے۔ جب سب کچھ ختم ہو جاتا ہے، یہ دوبارہ چلنا شروع کر دیتا ہے جیسے اس نے کوئی خطرہ کبھی محسوس ہی نہیں کیا۔
ایسی یاداشت میں، صرف وہی سب شامل نہیں تھا جو براہ راست تجربے سے حاصل ہوا تھا بلکہ اس میں وہ سب کچھ بھی شامل تھا جو پہلے والی نسلوں نے اپنے اُوپر بیتنے والے تجربات سے اُسے بتایا تھا۔ اگر ایسی کوئی چیز ہے، جسے مشترکہ خطرے کی مترداف یاداشت کہا جا سکے تو بوڑھے آدمی کی نسل کے پاس ایسی ہی یاداشت تھی۔ لیکن وہ بالکل پُرسکون رہتے تھے جیسے اُن کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ بوڑھے نے یہ سب کچھ اپنے بچوں اورپوتوں کو بتایا تھا اور دوسرے بچوں کو بھی، کہ جب وہ جوان تھا توجنگل میں بے شمار پھل تھے۔ وہ بتایا کرتا کہ وہ جنگل سے کیسے بڑا اور پکا ہوا کٹھل توڑ کر لاتا تھا، وہ جتنا کھا سکتا، کھا لیتا اور باقی بچا ہوا پرندوں کی خوراک کے لیے رکھ چھوڑتا۔
وہ اپنی لکڑی کی کشتی کے بارے میں بھی بتاتاجس میں وہ شام کو مچھلیاں پکڑنے کے لیے دریا پر سفر کیا کرتااور اس میں اُس کا ایک دوست بھی ہمیشہ ساتھ ہوتا۔ وہ بتاتا کہ وہ کتنی زیادہ مچھلیاں پکڑتے اورکیسے کبھی کبھار تو بہت ہی بڑی مچھلی پکڑی جاتی۔ وہ سبھا چاول اور دال کا بھی بتاتاجو اُن دنوں میں بہت سستا ہوا کرتے تھے۔ وہ امیر لوگوں کے عجیب و غریب مزاحیہ ملبوسات کے بارے میں بھی بات کرتا جو وہ پہنا کرتے اور اس طرح کی اور بہت سی مزاحیہ باتیں جو ریس کورس میں ہوتی تھیں جہاں وہ اور اُس کے کچھ دوست جایا کرتے تھے جب بھی اُن کو موقعہ ملتا۔ جب کبھی بھی اُس کے پاس بتانے کے لیے کچھ نیا نہ ہوتا تو وہ بار بار ان کو دہراتا، جیسا کہ اُس نے اس ندی میں کئی بار، مہینہ در مہینہ یا سال درسال بہت اُونچی اور بہت ہی نیچی موجزن لہروں کو دیکھا تھا۔
یہ ندی اُس کے لیے امن کی جگہ تھی جب تک کہ وہاں پہ کچھ نہ ہوا۔ تقریباً ایک ماہ کے قلیل عرصے کے دوران، ندی نے بوڑھے کو بے چین کر کے رکھ دیا اور بالآخر وہ اس سے بدظن سا ہو گیا جیسے یہ کوئی آسیب زدہ جگہ ہو۔ ایک دن، جب وہ ندی کے قریب اپنی جگہ پر گیا تو وہاں پر ایک ہجوم جمع تھا جو ندی کی جانب دیکھ رہا تھا اور باقی لوگ بھی ندی کی طرف آ رہے تھے۔ ندی میں کسی شخص کی لاش تھی۔ اگرچہ معمول میں نہیں، لیکن کبھی کبھار یہاں پہ لاشیں تیرتی رہتی تھیں جب کوئی ڈوب جاتا یا کوئی خودکشی کرتا یا جب کبھی کسی کوقتل کیا جاتا۔ کچھ دیہاتی جلد ہی یہ لاش باہر نکالتے اور پھر پولیس کو اطلاع کرتے اوربس پھر معاملہ ختم ہوجاتا۔
لیکن اس واقعے کے بعد، آنے والے کچھ ہفتوں میں، یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ فوج نوجوانوں کو قتل کر رہی ہے۔ اب کوئی بھی لاش ندی سے باہر نہ نکالتا۔ یہ اُونچی لہر پہ باہر نکل آتی اور چھوٹی لہر پہ واپس چلی جاتی۔ بوڑھا اس کو دیکھنے کے لیے ندی کے قریب تک نہ گیا۔ لیکن کچھوے کے سے انداز میں وہ ہر چیز سے باخبر تھا۔ وہ گہری نیند سونے والا شخص تھا لیکن اُس دن وہ نہ سو پایا۔ جب وہ کچھ دیر کے لیے نیند کی وادی میں جاتاتو اُسے ندی میں، اپنے چھوٹے بیٹے کی لاش تیرتی ہوئی نظر آتی اور وہ فوراً نیند سے بیدار ہو جاتا۔ بار بار یہی ہوتا رہا، یہاں تک کہ صبح کا سورج نکل آیا اور پھر یقیناً وہ نہ سو سکا جیسے اس وقت سونا بہت ہی شرم کی بات تھی جب صبح کو ایک روشن سورج چمک رہا ہو۔
اگلے دن، وہ ندی کے قریب بیٹھنے کے بجائے اپنے گھر کے سامنے بیٹھا۔ صبح بالکل سُکون سے گزر گئی لیکن دوپہر میں، ایک اور لاش وہاں تیرتی ہوئی پائی گئی۔ اُس رات، وہ ایک تیز چیخ کے ساتھ اُٹھ بیٹھا۔ وہ اس خواب کو واضح طور پر یاد رکھ سکتا تھا جس نے اُسے چیخنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اُس نے یسوع کا ایک بڑا مجسمہ دیکھا، جسے گڈ فرائیڈے پیشن سروس کے بعد ایک جگہ لٹایا گیا تھا، اُس نے اُسے ندی میں تیرتے ہوئے دیکھا۔ وہ اور اُس کاچھوٹا بیٹا دوچوروں کی طرح، یسوع کے مجسمے کے دونوں جانب تھے۔
آنے والے ہفتوں میں، وہاں پر بے شمار لاشیں دیکھی گئیں اور دو دفعہ تو ایک ہی دن میں چار سے پانچ افراد کی لاشیں وہاں سے نکالی گئیں۔ بوڑھے نے ہر ایک کو اپنے خواب میں، ندی میں تیرتے ہوئے دیکھا جنہیں وہ اپنے بچپن سے جانتا تھا، جن سے وہ پیار کرتا تھا۔ ایک خوفزدگی نے اُس کے چہرے پر اپنا بسیرہ کر لیا تھا۔ اب وہ کچھ بھی نہیں بولتا تھا۔ اُس میں ایک پُرانی یاداشت نے جاگنا شروع کر دیا۔ اُس نے خواب میں کچھ بدیسی لوگوں کوبندوقوں اور تلواروں کے ساتھ دیکھا جو اُس کے گاؤں میں فساد کرا رہے تھے۔ وہ ننھے منے اور نوزائیدہ بچوں کو قتل کر رہے تھے اور ہر کسی کو اذیت دے رہے تھے۔
بوڑھے کودوبارہ ندی کے قریب کبھی بھی نہ دیکھا گیا۔
(عالمی ادب کے اردو تراجم)