Inquilab Logo Happiest Places to Work

نیا بجٹ

Updated: April 07, 2025, 12:26 PM IST | Mushtaq Karimi | Mumbai

دادا جان(روہانسی آواز کے ساتھ):اےمیرے مولا تیرا کیا کرم ہے۔ ان معصوم بچوں نے بھی غریبوں کا درد محسوس کر لیا ہے۔ یہ درد ہم سب کا درد ہے۔ پوری انسانیت کا درد ہے اور ہم سب مل کر اس درد کی دوا کریں گے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

کردار :زید(طالب علم )، دادا جان (زید کے دادا)، فیضان (زید کا دوست)، ام ایمن اور علینہ (زید کی بہنیں )
(پردہ اٹھتا ہے)  دادا جان کتاب پڑھ رہے ہیں کہ اچانک زید نیند سے جاگ جاتا ہے۔ 
زید:دادا جان! میں نے آج ایک عجیب خواب دیکھا۔ 
داداجان: (کتاب سے نظریں زید کی طرف پھیرتے ہوئے) اچھا بھئ ادھر رمضان شروع ہوئے، ادھر تمہیں خواب بھی نظر آنے لگے۔ 
زید:دادا جان میری بات کا یقین کیجئے نا۔ 
دادا جان:(چھیڑتے ہوئے) چلیے بھئ ہم نے یقین کر لیا۔ اب یہ بھی بتائے دیتے ہیں کہ آپ نے خواب میں کیا کیا دیکھا۔ خوبصورت شرٹس، نیلی، کالی، ہری گلابی، دلکش جینس، امپورٹیڈ شوز، خوبصورت گاگل..... میاں ! دادا نہیں ہے پاگل۔ (دادا جان نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا) 
زید:خواب میں ہم نے ایسا کچھ بھی نہیں دیکھا دادا جان۔ جو کچھ بھی دیکھا وہ خوش کرنے والا نہیں بلکہ دکھ دینے والا تھا۔ 
دادا جان:(فکر مندی کے ساتھ) زید کیا تم نے سچ مچ کوئی ڈرائونا خواب دیکھا ہے؟
زید: سپنا ایسا تھا جس میں کوئی اپنا بہت پریشان نظر آرہا تھا۔ وہ مجھے بڑی امید بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ میلی میلی کٹی پھٹی شرٹ، گالوں پر آنسوؤں کے ریلے اور الجھے الجھے بال۔ اس نے دونوں ہاتھ میری جانب پھیلا رکھے تھے۔ میں نے جوں ہی آگے بڑھ کر اسے گلے لگانے کی کوشش کی تو وہ غائب ہو گیا دادا جان اور میری آنکھ کھل گئی۔ 
دادا جان (حیرت و تجسس کیساتھ):وہ پریشان حال کون تھا بیٹے؟ 
زید:وہ میرا دوست فیضان تھا داداجان! جو پاس کی جھوپڑ پٹی میں رہتا ہے۔ لگتا ہے وہ کسی پریشانی میں ہے۔ مجھے جلدی وہاں لے کر چلیے نا۔ 
دادا جان:مگر زید لاک ڈاؤن چل رہا ہے۔ ہم وہاں نہیں جا سکتے۔ 
زید:فون تو لگا سکتے ہیں نا داداجان، تو چلیے فون لگائیے مجھے بے چینی ہو رہی ہے۔ (زید نےاپنی بیاض سے فیضان کا فون نمبر دادا جان کو دیا۔ دادا جان نے فون لگایا۔ )
فیضان :ہیلو..... جی میں فیضان بول رہا ہوں ۔ السلام علیکم 
دادا جان:وعلیکم السلام فیضان! میں زید کا ددّو بول رہا ہوں ۔ کیسے ہو تم؟ 
فیضان(غمگین لہجے میں ) :میں تو ٹھیک ہوں دادا جان مگر کچھ دنوں سے ابو بہت بیمار ہیں۔ کھانسی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ 
دادا جان:فکر نہ کرو بیٹے ان شا اللہ تمہارے ابو ٹھیک ہو جائیں گے۔ یہ لو زید سے بات کرو۔ 
فیضان:السلام و علیکم 
زید:و علیکم السلام..... فیضان:زید کیسے ہو تم؟ 
زید:میں تو اچھا ہوں دوست مگر شاید تم ٹھیک نہیں ہو؟ 
فیضان:ہاں دیکھونا زید! آن کی آن میں یہ کیا ہو گیا۔ کمبخت لاک ڈاؤن کیا لگا مانو ہماری قسمت پر تالا ہی لگ گیا۔ پہلے ابو بیمار ہو گئے، پھر ان کا ٹھیلا بھی بند ہوگیا۔ اب تو امی کی سلائی مشین بھی آواز نہیں کرتی۔ ہر سمت بس سناٹا ہے. ہاں مگر کبھی کبھی ایمبولینس کا سائرن ضرور بج اٹھتا ہے۔ 
زید:تم فکر نہ کرو فیضان! ان شا اللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ 
(دوسرے دن دادا جان کمپیوٹر پر کچھ کام کر رہے ہیں بڑے ہی خوشگوار موڈ میں زید کمرے میں داخل ہوتا ہے )
زید:دادا جان آج میں نے پھر خواب دیکھا۔ 
دادا جان:کیا وہی خواب پھر نظر آیا؟ 
زید:جی نہیں دادا جان میں نے دیکھا کہ ہم نے ماہ رمضان میں بڑی قربانی دی ہے۔ 
داداجان(حیرت سے):رمضان میں قربانی!.... میں کچھ سمجھا نہیں ؟ 
زید:دادا جان میں نے دیکھا کہ ہم نے رمضان میں نہ نئے کپڑے خریدےاور نہ جوتے چپل اور تو اور ہم نے گھر خرچ بھی کم کر کے بہت بڑی رقم بچا لی۔ 
داداجان:اچھا تو اتنی بڑی رقم جو بچ گئی۔ اس کا ہم نے کیا کیا میاں ؟ (دادا جان نے مسکراتے ہوئے بھنویں اوپر چڑھالیں ) 
زید:وہ رقم ہم نے فیضان کے گھر خرچ اور اس کے ابو کے علاج کے لئے دے دی۔ (دادا جان اپنی کرسی سے اٹھ کر دونوں ہاتھوں سے زید کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کا ماتھا چومتے ہیں۔ ) 
دادا جان:میرے پیارے زید! یہ خواب نہیں حقیقت ہے۔ آج ہی سحری کے بعد میں نے اپنے گھر کا نیا بجٹ بنایا ہے۔ بڑی رقم بچ رہی ہے اور صرف اتنا ہی نہیں زید میں نے اپنے دوستوں کو بھی فون کیا۔ انھیں بھی یہ بات بتائی۔ سب خوشی خوشی راضی ہو گئے۔ بہت بڑی رقم جمع ہو جائے گی۔ جس سے ہم فیضان اور اس کے آس پاس رہنے والے مسلم غیر مسلم سبھی بھائیوں کی مدد کریں گے۔ (یہ سنتے ہی زید خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور اپنے دادا جان کے سینے سے چمٹ جاتا ہے ) 
زید:دادا جان آپ کتنے اچھے ہیں۔ اسی لیے تو سب آپ کو مسٹر ہمدرد کہتے ہیں ۔ (دادا یہ سن کربہت جذباتی ہو جاتے ہیں )
دادا جان:ہاں تو پھر زید صاحب اس مرتبہ عید ہم بہت سادگی سے منائیں گے۔ 
(اچانک ام ایمن کمرے میں داخل ہوتی ہے ) 
ام ایمن:دادا جان ہم نے سب کچھ سن لیا ہے۔ آپ کے ساتھ ہم بھی اس نیک کام میں شریک ہونا چاہتے ہیں ۔ یہ رہا میرا گلّہ، اس رقم کوبھی امداد میں شامل کر لیجئے۔ 
علینہ :دادا جان یہ رہی میری انعام کی رقم اسے بھی غریبوں میں تقسیم کر دیجئے۔ امی نے کہا کہ ایساکرنے سے مجھے اللہ کی طرف سےبہت بڑا انعام ملے گا۔ 
(دادا جان کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں اس سے پہلے ہی ام ایمن بول پڑتی ہے) 
ام ایمن:اور ہاں دادا جان ہم عید سادگی سے نہیں بلکہ بڑی شان سے منائیں گے۔ سبھی تو ہوں گے ہمارے ساتھ امیر، غریب، بیمار، یتیم سب۔ 
دادا جان(روہانسی آواز کے ساتھ):اےمیرے مولا تیرا کیا کرم ہے۔ ان معصوم بچوں نے بھی غریبوں کا درد محسوس کر لیا ہے۔ یہ درد ہم سب کا درد ہے۔ پوری انسانیت کا درد ہے اور ہم سب مل کر اس درد کی دوا کریں گے۔ (دادا جان تمام بچوں کو اپنی بانہوں میں بھر لیتے ہیں۔ پردہ گرتے گرتے یہ شعر فضا میں گونجتا ہے) 
سحر انسانیت کا ہے تقاضا دہر فانی میں 
کسی کے کام آجائے تو اپنی زندگی دے دو

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK