• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ نگار کا افسانہ

Updated: December 25, 2023, 1:06 PM IST | Muhammad Rafi Ansari | Mumbai

ہمارے بچپن اور نوجوانی میں ’بیسویں صدی‘ نام کا ایک ادبی رسالہ ہوا کرتا تھا یہ رسالہ پڑھوں لکھوں کے علاوہ ہم جیسے طالب علموں میں بھی مقبول تھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ہمارے بچپن اور نوجوانی میں ’بیسویں صدی‘ نام کا ایک ادبی رسالہ ہوا کرتا تھا یہ رسالہ پڑھوں لکھوں کے علاوہ ہم جیسے طالب علموں میں بھی مقبول تھا۔ اس میں سند یافتہ(سند یافتہ سے مراد یہاں ڈگری ہولڈر ہے) لکھنے والوں کی کہانیاں اور نظمیں ، غزلیں ان کی ڈگریوں کے ساتھ شائع کی جاتی تھیں ۔ جو لوگ اس میں شائع ہونے کے لئے اپنے سند یافتہ ہونے کا انتظار کرتے تھے ان میں اس بندہ کا شمار بھی ہوتا ہے۔اس کے ایڈیٹر دیگرایڈیٹروں سے مختلف ان معنوں میں تھے کہ وہ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔وہ کبھی مسکراہٹ اور ٹوپی کے بغیر نہیں دیکھے گئے۔، نام ان کا خوشتر گرامی تھا۔پستہ قد لیکن جن کے قدو قامت کا اندازہ کرنا مشکل تھا۔فر کی ٹوپی پہن کر دلّی کی شان بڑھاتے تھے۔ ان کی دعوتِ مرغ و ماہی کی شہرت دور تک اور ان کے دستر خوان کی مہک بھی بہت دور تک تھی۔ رسالہ کے ہر دوسرے شمارے میں ان کی تصویردعوتِ طعام باذوق قارئین کے ذوق و شوق کو بڑھاتی اورلکھنے والوں کو دلّی کی سیر پر اُکساتی۔
اردو کا بول بالا تھااور خوشتر صاحب کا ہر باکمال اہلِ قلم ہم پیالہ و ہم نوالہ۔خوش اسلوبی اور خوش خلقی کے ساتھ ساتھ صاف گوئی کی صفت سے بھی آنجناب متصف تھے۔ایک شاعر تھے نریش کمار شادؔ۔مشاعروں میں آنکھ بند کر کے اپنا کلام سناتے تھے مگر سامعین کا اس پر کوئی خراب اثر نہیں پڑتا تھا۔ سب انھیں دیکھے بغیر بھی شوق سے سنتے اور سر دھنتے ۔بلا نوش تھے۔خوشترؔصاحب ان کی رندانہ بے اعتدالیوں پراکثر ڈانٹ پلاتے مگراس کے جواب میں شاد ؔمسکرا کر رہ جاتے۔ ایک دن جنابِ شادؔ نے خوشتر صاحب کی صاف گوئی کی خامی کی ایسی حامی بھری کہ خوشترصاحب کو بیسویں صدی کے صفحہ پر داد دینی پڑی۔شادؔ نے خوشتر کویہ شعر لکھ بھیجا تھا ؎
صاف گوئی کی ایک خامی ہے= ورنہ خوشتر بڑا گرامی ہے
بیسویں صدی میں مخصوص قسم کے اشتہار بھی شائع ہوتے تھے۔ مثلاً’ حضرت آسی رام نگری مناسب حقِ محنت پر افسانوں پر اصلاح کا کام بھی کرتے ہیں ۔ضرورت مند اُن سے پتہ ذیل پر رابطہ کرسکتے ہیں۔ اس رسالہ کا مشہور کالم ’تیرونشتر‘ تھا۔ اس میں ملک کے سیاسی حالات پر خوشتر گرامی کا مختصر تبصرہ ہوتا اور تبصرہ کی مناسبت سے تصویر بھی ہوتی۔ ۱۹۷۴ء میں اس کا ایک انتخاب کتابی شکل میں شائع ہوا تو دھوم مچ گئی۔ اس کتاب کاپیش لفظ کرشن چندر نے تحریر کیا تھا، لکھا تھا ’’بیسویں صدی سامنے آتا ہے تو گمان ہوتا ہے خوشتر گرامی مسکرا رہے ہیں ۔خوشتر گرامی کا کتابی چہرہ دیکھ کر خیال ہوتا ہے ’بیسویں صدی‘ کے اوراق کُھل رہے ہیں۔‘‘
 مجھے رسالہ ’بیسویں صدی ‘ پڑھتے پڑھتے اوردادا جان سے کہانی سنتے سنتے کہانی لکھنے کی ترغیب ملی۔دادا حکیم تھے۔ ان کی کہانیاں بھی حکمت سے پُر ہوتی تھیں۔ وہ ہاضمے کا چورن بناتے تھے۔ چنانچہ یہ کہانیاں بھی بہ آسانی ہضم ہو جاتی تھیں۔ ان کی کہانی میں کوئی نہ کوئی نٹ کھٹ بچّہ ضرور ہوتا۔وہی بچّہ میری دلچسپی کا باعث رہا۔میں نے ان سے سنے ایک قصہ سے تحریک پاکر ایک کہانی لکھی تھی۔ یہ کہانی عبدالحمید بوبیرے صاحب کے رسالہ ’صبحِ اُمید‘ کے سالنامہ میں شائع ہوئی۔
اُس زمانے میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد نسبتاً کم تھی،مگر ماشاء اللہ خوب لکھا پڑھا جارہا تھا۔ گھر کے آنگن میں محفلِ قصّہ گوئی منعقد ہوتی۔ اخبارات، رسالے اور کتابیں مل بانٹ کر پڑھے جاتے ۔مشہور ہفت روزہ اردو بلٹز کے صفحۂ اول پر جلی حرفوں میں لکھی تحریر اب تک دل پر نقش ہے’ اپنا اخبار مل بانٹ کر پڑھا کرو۔‘کتابیں خریدنے کا بھی چلن تھا۔ مل جل کر لائبریری قائم کرنے میں اہلِ محلّہ کا جوش و خروش قابلِ دید ہوتا۔ شاید ہی کوئی محلّہ لائبریری سے خالی رہا ہو۔ میرے گھر کے سامنے بھی ایک لائبریری تھی۔جس کے ناظم اعلیٰ سے میرے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے۔ مجھے کتاب پڑھنے والے بھانت بھانت کے لوگوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یومیہ ایک ناول ختم کرنے والوں کے مقابلہ میں ماہانہ ایک کتاب ختم کرنے والے قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اُن سے لائبریری کو اچھی خاصی آنی ہو جاتی تھی۔ جس دارالطالعہ کو ایسے دس بالغ نظر قاری مل جاتے اس کا بیڑہ پارہوجاتا۔ اس دارالمطالعہ میں بہت سے رسالوں کے علاوہ رسالہ بیسویں صدی بھی منگوایا جاتا تھا۔ مجھے برسوں اس رسالہ کے پہلے قاری ہونے کا شرف حاصل رہا۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب میں نے اپنا پہلا باقاعدہ افسانہ اسی رسالہ کو بغیر کسی کومطلع کئے اور دکھائے بذریعہ ڈاک بھیج دیا تھا۔ پھر کیا ہوا؟کچھ دنوں بعد جوابی ڈاک سے افسانے کی اشاعت کی منظوری کا کارڈ (جو وزیٹنگ کارڈ سے مشابہ تھا) دستیاب ہوا۔ اس کارڈ کے ملنے کی خوشی مجھے ابھی تک محسوس ہوتی ہے۔ یہ کارڈ مجھے عید کارڈ سے بھی بھلا معلوم ہواتھااوراسے میں نے اپنی شادی کارڈ کے چھپنے تک سنبھال کر رکھا تھا۔یہ افسانہ آج سے نصف صدی پیشتر مئی۱۹۷۰ء کے شمارہ میں شائع ہوا تھا۔قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اسی ماہ ہمارے شہر میں فرقہ وارانہ فساد برپا ہوگیا(حالانکہ افسانہ محبت کے موضوع پر تھا)۔ پڑھنے والوں کے کئی خطوط ملے۔ہر خط میں یہ سوال کیا گیا تھا کہ وہاں کے حالات کیسے ہیں ؟چونکہ افسانہ رومانی تھا اور حالات بے سروسامانی کے تھے اس لئے میں عجیب صورتحا ل سے دوچار تھا۔ ایک خط مجھے نہیں بھولتا۔اسے ایک پروفیسر صاحب نے تحریر کیا تھا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ’ ’ جناب !آپ کا شہر جل رہا ہے اورآپ نیرو کی طرح بانسری بجا نے میں محو ہیں۔ ہونا تو یہ چا ہئے تھا کہ آپ شہر آشوب لکھتے۔‘‘میں نے اس خط کے بھید نہ کھولے اسے صیغۂ راز میں رکھا۔
 بیسویں صدی میں دس پندہ برسوں میں میرے دس پندرہ افسانے شائع ہوئے۔ رسالہ بیسویں صدی کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں افسانہ نگارکی تحریر، ان کا نام و پتہ اور ایڈیٹر کے نام ان کا خط بھی شائع ہوتا تھا۔ اس کا فائدہ لکھنے والے کے علاوہ دوسرے ضرورت مندوں کو بھی ہوجاتاتھا۔ تخلیق کاروں کو جو خطوظ لکھے جاتے تھے وہ بڑے دلچسپ ہوتے تھے۔واضح ہو کہ یہ سب کے سب محبت نامے ہی نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ خبر نامے، شکایت نامے، اورہدایت نامے ہوتے تھے۔بیشتر خطوط رائے دینے والوں کے نہیں بلکہ چندہ لینے والوں کے ہوتے تھے۔بعض بامروت لفافے میں منی آرڈر فارم بھی ملفوف کردیتے تاکہ سخی کو رحمت کرنے میں زحمت نہ ہو۔قلمی تعاون کی جگہ مالی تعاون کا مطالبہ جلی حرفوں میں ہوتا۔ ملک میں جہاں جہاں اردو پڑھنے پڑھانے کا معقول نظم تھا وہاں وہاں رسالہ پہنچتا تھا۔ انھیں دنوں ہمارے اسکول کے اساتذہ اور طلبہ کی ایک ٹیم تعلیمی سیر کے سلسلہ میں کشمیر گئی۔ وہاں دکانِ آئینہ ساز کے مالک کو جب پتہ چلا کہ یہ سیلانی ’بھیونڈی‘ سے آئے ہیں تو ذکر خیر بیسویں صدی سے ہوتا ہوا دور تک یعنی اس عاجز تک پہنچا۔
ایک اور رسالہ تھا جس کا نام ’شمع‘ تھا ۔اس میں بڑے لکھنے والوں کی بے باک تحریریں شائع ہوکر پورے عالم میں چھا جاتی تھیں۔ شمع کے پروانوں کا کوئی شمار نہ تھا۔ یہ اردوکا واحد رسالہ تھا جو چھپنے کے بعد بڑی تعداد میں چُھپ جاتا تھا۔اس کے مدیران کی ایک فوج تھی۔ یہ بڑے زمانہ شناس تھے۔قاری کی نبض پکڑنا بھی جانتے تھے اور ادب کی سمت و رفتار کو متعین کرنے پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ہر مختصر کہانی کی پیشانی پر لکھا ہوتا ’مختصر مختصر کہانی دو ہی صفحہ میں مکمل‘۔ یہ تحریر ‘لکھنے اور پڑھنے والوں کے لئے بھی ایک طرح سے خوش کُن ہوتی تھی۔شمع کامسافر( جو غالباًاس کے ایڈیٹر تھے)بڑے تیز طرار،ہوشیاراور بے باک تھے۔اُڑتی چڑیا کے پر گن لیتے تھے۔فلم والوں کی خبر لے کر پروانوں کو خبر دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتے تھے۔شمع ادبی معمہ ادارہ شمع کی ایسی پیشکش تھی جس کا کوئی جواب پیدا نہ کر سکا۔ ایک مرتبہ ایڈیٹر صاحب سے اس کی تعدادِ اشاعت کے بارے میں ایک قاری نے پوچھا کہ رسالہ کتنا چھپتا ہے؟ تو جناب ایڈیٹر نے فرمایا کہ ’اتنا کہ آپ تصور نہیں کرسکتے۔قارئین ’شمع ادبی معمہ‘ میں انعام حاصل کرنے والوں کے ساتھ ساتھ اس کے لکھنے والوں پر بھی رشک کرتے تھے۔
بات طویل ہو رہی ہے۔۷۰ءتا ۹۰ء کے بیچ افسانہ لکھنے کا عمل جاری رہا۔ ساتھ ہی طنزومزاح میں بھی قلم فرسائی کرتا رہا۔ اپنے افسانوں کا ایک مجموعہ بھی’منظر بہ منظر‘ ترتیب دیا۔ جسے دریا بُرد تو نہیں کیا لیکن جو فرسودگی کا شکار ہو کے عدیم الوجود ہوگیا۔مشق جاری رہی۔پھر خارجی اور داخلی وجوہات کی بنا پر مجھے ترک افسانہ نگاری میں عافیت نظر آئی۔افسانہ نگاری کی مشق جب مشقِ ستم محسوس ہوئی تو میں نے منزل پانے کے لئے رستہ بدل دیا۔مزاح نگاری کے رجحان نے مجھ پر یہ راز کھولا کہ یہ وادی گلزار ہے۔بیسویں صدی کے کچھ یادگار شمارے ’ریختہ‘ کے ذخائرکتب میں جلوہ ریز ہیں ۔رسالہ بیسویں صدی کا وہ شمارہ اب تک نظروں میں بسا ہوا ہے۔ جس میں کرشن چندر کے سلسلہ وار ناول ’فٹ پاتھ کے فرشتے‘کی نئی قسط کے ساتھ اخیر میں اس عاجز کا افسانہ بھی شاملِ اشاعت ہوا۔ افسانے کا عنوان افسانے سے میرے عہد و پیمان کا اشاریہ ہے۔ عنوان تھا’ اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا۔‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK