اتوار کی شام جوہو چوپاٹی پر چہل قدم کرتے ہوئے کنارے پر ایک بوڑھے شخص کی لاش پر نظرپڑی تو دوسرے کنارے پرسورج کو لہولہان کرکے سمندر دھیرے دھیرے نگل رہاتھا۔
EPAPER
Updated: December 09, 2024, 3:22 PM IST | Ghani Ghazi | Buldhana
اتوار کی شام جوہو چوپاٹی پر چہل قدم کرتے ہوئے کنارے پر ایک بوڑھے شخص کی لاش پر نظرپڑی تو دوسرے کنارے پرسورج کو لہولہان کرکے سمندر دھیرے دھیرے نگل رہاتھا۔
اتوار کی شام جوہو چوپاٹی پر چہل قدم کرتے ہوئے کنارے پر ایک بوڑھے شخص کی لاش پر نظرپڑی تو دوسرے کنارے پرسورج کو لہولہان کرکے سمندر دھیرے دھیرے نگل رہاتھا۔ دونوں مناظر دیکھ کر آنکھیں نم ہوگئیں کہ پانی زندگی کی علامت ہے تو موت کا تازیانہ بھی!
تخیلات بحرِ عمیق میں غوطہ زن ہوئے اور پل بھر میں سمندر کی ساری خصلتیں اجاگر ہوگئیں تو ذہن افسردہ ‘عقل حیران اور دل آرزدہ ہوگیا۔
سمندرآبی حیوانوں سے محبت لیکن خشکی کے جانداروں سے حد درجہ نفرت کرتاہے۔ بظاہر خاموش نظر آنے والا سمندر اتنا دوغلا ہےکہ لاکھوں ٹن وزنی آبی حیوانوں اور کروڑوں مچھلیوں کو کلیجے سے لگا کران کی پرورش پر داخت اور حفاظت کرتا ہے لیکن تعصب پسند اس قدرکہ دھان پان سے زمینی جاندار کا پاؤںبھی پانی میں پڑ جائے تو گہرائی میں گھسیٹ کرگلا گھونٹ کر بے دردی اور حقارت سے کو ڑے کرکٹ کی طرح کنارے پر پھینک دیتا ہے۔
اپنی گود میں انواع و اقسام کے نباتات کو پھلنے پھولنے اور نشونما کے مواقع فراہم کرتا ہے لیکن سنگ دلی دیکھئے کہ کناروں پر کھڑے ہرے بھرے سایہ دار درختوں کو جڑوں سمیت اکھاڑ کر ٹھکانے لگا دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:ادب، نقاد اورعہدِجنگ میں ادبی نقاد کا کردار
ماہی گیر کشتیوں ‘ڈونگیوں‘ اور ہوڑیوں کو باعثِ تفاخر الٹ پلٹ کر رکھنے والا سمندر اپنے سے کمزور وں کو آنکھیں دکھاتا ہے۔ گہرائی سے خوف زدہ کرکے دہشت پھیلاتاہے مگر طاقتوروں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر گھٹنے ٹیک دیتاہے۔
قوی ہیکل وزن دار مسافر بردار جہازوں کو سر پر اٹھائے اٹھائے پھرتاہے بلکہ بوقتِضرورت منزل مقصود تک پہنچادیتاہے بھاری بھرکم بحری بیڑوں ‘ ٹینکر بردار عسکری جہازوں کو برسہا برس سر آنکھوں پر بٹھائے لنگر انداز رکھتا ہے۔پن ڈبیوں کی ہولناکی سے خوف زدہ ہوکر انہیں اپنی آغوش میں پناہ دیتا ہے اور دیوزادآبی چٹانوں سے ٹکرانے کے بجائے گھبراکر اپنی موجوں کا رخ موڑ لیتاہے۔
ندی، نالے، دریا اپنا میٹھا پانی سمندر کے قدموں پر نچھاور کرکے اس سے جا ملتے ہیں مگر وہ اتنا مغرو ر کہ ان سے ملنا تو کجُامڑ کر بھی نہیں دیکھتا۔
سب کے میٹھے پانی سے اپنی پیاس بجھانے والا سمندر اس قدر بخیل ہے کہ کسی پیاسے کو ایک گھونٹ پانی نہیں پلاتا اور تو اور خود بھی نہیں پیتا ہے!میٹھے پانی کے ذخیرے اپنے وجود میں ضم کرنے والاسمندر خود کے کھارے پن کے تشخص سے سمجھوتہ نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو چلّو بھر کھارا پانی ہی دیتا ہے۔
ذخیرۂ آب میں کمی محسوس ہوتو اپنے وجود کی بقا کے لئے روباہ سرشت سمندر قطرہ قطرہ کے سامنے ہاتھ پسار دیتاہے عاجزی و انکساری کرتاہے ترس کھاکرقطرے جب اس سے ملتے ہیں توان کا وجود ہی ختم کردیتاہے۔
دھوپ کی شدت سے جب اس کا بدن جھلسنے لگتاہے تومنت سماجت کرکے آبی بخارات کو آسمانوں میں روانہ کرتاہے مگر گھٹائیں چھاتے ہی بادلوں کو نچوڑ کر پیاس بجھا لیتاہے۔
چرند ،پرند، حیوان، انسان،کسان، آسمان کی طرف دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ خشک سالی سے ندی ،نالے، جھیلیں، جھرنے تالاب سوکھ جاتے ہیں ان کے پیاسے ہونٹوںپر پپڑیا ںجم جاتی ہیں مگر مفاد پرست سمندر ایک قطرہ سے بھی ان کی مدد نہیں کر تا۔
کنارے سمندر کے نگہبان اور محافظ ہوتے ہیں مشکلات سے اسکے وجود کو بچائے رکھتے ہیں لیکن موقع پرست سمندر طوفان کا اشارہ پاتے ہی موجوں کو کناروں کی طرف ڈھکیل دیتاہے۔ موجیں ساحلوں پر سر پٹک پٹک کر زندگی کی دہائیں دیتی ہیں ۔طوفان تھمتے ہی سمندر بھولی بھالی موجوں کو سمیٹ لیتاہے اور پیاسے کنارے بے آس ہوکر رہ جاتے ہیں۔سمندر کی گہرائی اور گیرائی پر فر یفتہ کنارےاس کی چوکیداری کرتے ہیں لیکن خود غرض سمندر اپنی انچی اونچی لہروں سے انہیں بھی تہس نہس کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا بلکہ بسا اوقات ان کا نام و نشان مٹادیتاہے۔دراصل وہ کناروں سے رہائی پاکر خود نمائی چاہتا ہے۔
کناروں کے ساتھ سمندر کی بد سلوکی اور فریب کاری کا انتقام لینے کی غرض سے تالاب کے کنارے اپنے پانی کی حفاظت کرتے ہیں اور ایک قطرہ بھی سمندر کے کشکول میں نہیں ڈالتے۔