• Mon, 20 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

سنگلاخ

Updated: January 20, 2025, 2:46 PM IST | Azmat Iqbal | Malegaon

میں نے اس کی آنکھوں سے اس وقت چنگاریاں نکلتی محسو س کی تھیں جب گریجویشن کے فائنل ایئر میں کالج کے ڈین نے ہمارے ایک کلاس میٹ کو درجنوں طلباء کے سامنے تھپڑ رسید کر دیا تھا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

میں نے اس کی آنکھوں سے اس وقت چنگاریاں نکلتی محسو س کی تھیں جب گریجویشن کے فائنل ایئر میں کالج کے ڈین نے ہمارے ایک کلاس میٹ کو درجنوں طلباء کے سامنے تھپڑ رسید کر دیا تھا۔ ہم فائنل ایئر کے طلبہ بڑھائی گئی فیس کے خلاف صبح سے سخت دوپہر تک دھوپ میں بیٹھ کر احتجاج کر رہے تھے۔ خالد اس احتجاجی گروپ کی رہنمائی کر رہا تھا۔ چھ گھنٹے کے احتجاجی دھرنے کے بعد شام پانچ بجے جب ڈین اپنے آفس سے نکلا تو طلبہ نے ا س کی کار کا راستہ روک دیا۔ وہ اتر کر آیا اور ایک نوجوان کو زناٹے دار طمانچہ رسید کر دیا۔ کچھ لمحے کے لئے سبھی سکتے میں آگئے۔ پھر خالد کا غصہ پھوٹ پڑا۔ اس کا خود پر قابو نہیں رہا۔ وہ چیخ کر بولا۔ ’’ تمہیں ایک طالب علم کو اس طرح ذلیل کرنے کا اختیار کس نے دیا؟ معافی مانگو۔ ‘‘’’ معافی مانگو، معافی مانگو۔ ‘‘
باقی طلبہ بھی اس کی آواز میں آوازیں ملانے لگے۔ اس واقعے کو پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ میں اسپتال کے کمرے میں بیٹھا ہوں۔ خالدسامنے بیڈ پر لیٹا میری طرف دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔ اس نے اسی طرح مسکراتے ہوئے اپنے انقلابی سفر کا آغاز کیا تھا۔ 
’’یار شاہد مجھے لگتا ہے اپنی بات منوانے کے لئے طاقت ضروری ہے اور طاقت حاصل کرنے کے دو ہی ذرائع ہیں دولت یا سیاست۔ دولت تو ہمارے پاس ہے نہیں ۔ سیاسی طاقت تو حاصل کی جاسکتی ہے؟‘‘ اس کے اس جواز کی نا صرف میں نے حمایت کی بلکہ اس کے شانہ بشانہ اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کی تشہیر میں اس کے ساتھ رہا۔ ہم نے طلبہ کے بنیادی مسائل کو لے کر اپنا منشور تیار کیا۔ نتیجہ ہمارے حق میں رہا۔ اس کامیابی کی سب سے بڑی وجہ خالد کی جارحانہ تقاریر تھی۔ وہ سامعین کے ذہنوں کو جھنجوڑنے کا ہنر جانتا تھا۔ راجدھانی سے کچھ ہی فاصلے پر آباد بنیادی سہولیات سے محروم ایک دیہات اس کا آبائی وطن تھا۔ ا س نے کئی کسانوں کو قرض کے بوجھ تلے دب کر اپنے کھیتوں میں درختوں سے خود اپنے ہی جسم کو لٹکاتے دیکھا تھا۔ اس پر ستم یہ کہ مذہب کی سیاست نے ملک کے حالات کو ایک ایسے رخ پر موڑ دیا جس کا راستہ ڈکٹیٹرشپ کی طرف جاتا تھا۔ اس دوران خالد نے سیاست پر گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ’’آزادی کی تحریک میں اعتدال پسند رہنماؤں کا کردار ‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کا ارادہ کیا۔ 
میں نے ایل ایل بی کے لئے لاء کالج میں داخلہ لے لیا۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے دوران بھی خالد سماجی تحریکوں میں اپنی حاضری درج کراتا رہا۔ اس دوران وہ مجھ سے رابطے میں رہا۔ کسی قانونی پہلو پر مشورہ کرنا ہو تو وہ سب سے پہلے مجھ سے رابطہ کرتا۔ انتخابات سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے پتے پھینکنے شروع کئے۔ اس وقت تک خالد آزادانہ طور پر اپنی سرگرمیاں انجام دیتا رہا تھا۔ سوائے ا س کے کہ یونیورسٹی کے امتحان میں اس نے برسر اقتدار جماعت کے مخالف جماعت سے پرچہ نامزدگی داخل کیا تھا۔ لیکن منتخب ہونے کے بعد اس نے طلباء کے مفاد کے لئے اپنا ایک الگ ایجنڈا اپنایا۔ پھر ملک میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا۔ تمام سیاسی پارٹیاں عوام کے بیچ اپنے نمائندوں کو پہنچانے کی منصوبہ بندی میں لگ گئیں۔ خالد نے اس بار بھی خود کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھا۔ وہ ان ہی این جی اوز کے ساتھ جڑا رہا جن کا مقصد ملک میں ایک بار پھر آزادی کی تحریک شروع کرناتھا۔ آزادی اس غلیظ سیاست سے جس نے ملک کو کچھ مخصوص کارپوریٹ کی غلامی کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔ خالد نوجوانوں کے دلوں پر راج کرنے لگا تھا۔ سیاسی لیڈران ٹی وی مباحثوں میں اس کے سامنے بیٹھنے سے کترانے لگے۔ اس کے جوشیلے بیانات ریلز کی شکل میں سوشل میڈیا پر لاکھوں کی تعداد میں شیئر کئے جاتے۔ 
لاءکی ڈگری مکمل کرنے کے بعد میں نے سیشن کورٹ میں پریکٹس شروع کر دی۔ اس دوران ایک مرتبہ اچانک اس سے کورٹ کی لابی میں میرا سامنا ہوا۔ اس پرایک سیاسی رہنما نےعزت ہتک کا دعویٰ کر دیا تھا۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا، ’’ اچھا بتاؤ اگر تم یہ کیس ہار گئے تواپنے حریف کوایک کروڑ کی رقم کہاں سے ادا کروگے؟‘‘وہ مسکراتے ہوئے بولا، ’’پہلی بات تو یہ کہ تم ایسا ہونے نہیں دو گے اور مان لو فیصلہ ہمارے خلاف ہو جائے تو ہم اعلان کردینگے کہ ہمارے چاہنے والے ایک ایک روپیہ کا تعاون پیش کریں۔ منٹوں میں ایک کروڑ کی رقم اکٹھا ہو جائے گی۔ ‘‘میں نے اس کے چہرے اور الفاظ میں غضب کا اعتماد محسوس کیا تھا۔ لوگوں سے تعاون کی درخواست کی نوبت نہیں آئی۔ 
اس کے بعد سے میں نے عدالت میں اس کےمقدمات کی پیروی کرنی شروع کر دی۔ عزت ہتک، غلط بیانی، بد عنوانی اور یہاں تک کہ وطن سے غداری جیسے کئی مقدمات میں اسے کورٹ کے چکر لگانے پڑتے۔ ’’اچھا ہواتم نے وکالت کا انتخاب کرلیا۔ ورنہ اتنے سارے مقدمات کا سامنا کرنا اور ا ن کی فیس ادا کر نا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ یا تومجھے ہتھیارڈالنے پڑتے یا میں جیل میں پڑا سڑ رہا ہوتا۔ ‘‘میں جانتا تھا وہ ہتھیار ڈالنے والوں میں سے نہیں تھا۔ گھٹن بھری آزادی پر وہ جیل کی سلاخوں کو ترجیح دیتا۔ کئی ایک معاملوں میں وہ کئی کئی دن سلاخوں کے پیچھے گزارآیا تھا۔ ایک معاملے میں تین مہینے تک ضمانت نہیں ہو سکی۔ اس دوران اس کے بابا مجھ سے کئی بار آکر ملے۔ ’’ بیٹا اسے سمجھاؤ۔ وہ اکیلا کیا کر لے گا اور پھر اس نے ساری دنیا کو سدھارنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے کیا؟ایک ہی بیٹا ہے ہمارا۔ شہر بھیجا تھا پڑھائی کے لئے۔ اب تک اپنا گھر بسانے کا خیال بھی نہیں آیا اسے۔ ‘‘بابا کو سمجھانا یا تسلی دینا میرے اختیار سے باہر تھا۔ میں بھی کچھ حد تک ان کا ہم خیال تھا۔ 
 بابا سے قبل میں نے ریحانہ نسیم کے چہرے پر خالد کو لے کر تفکر کے نشاں دیکھے تھے لیکن مہینوں انتظار کے بعد ریحانہ نے شکست تسلیم کر لی۔ خالد اپنے جنون کی راہ میں بہت آگے بڑھتا چلا گیا۔ اس کے چاہنے والوں کی تعداد بے شمار تھی مگر مخالفین کہیں زیادہ طاقتور تھے۔ کارپوریٹ اور سیاستدانوں کے لئے خالد کی سرگرمیاں اپنے ناجائز مقاصد کی تکمیل میں رکاؤٹ بنتی جا رہی تھیں۔ سسٹم کو بدلنے کا دعویٰ کرنے والے سسٹم کی سازش کا آسانی سے شکار بن جاتے ہیں۔ 
 آنے والے انتخابات میں خالد کو ٹکٹ آفر کیا گیا۔ خالد دام صیاد میں آنے والی کسی چڑیا کا نام نہیں تھا۔ اس نے ایک ایسا مدعا اٹھایا جو برسر اقتدار جماعت کو انتخابات میں اقتدار سے محروم کر سکتا تھا۔ فوج کے لئے جو ہتھیار خریدے گئے تھے اس میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوئی تھی۔ خالد نے اعلان کیا کہ وہ جلد ہی اس بدعنوانی میں ملوث بڑے سیاسی لیڈران، کارپوریٹس اور ان کے بیچ دلالی کر رہے ملک کے غداروں کا بھانڈا پھوڑے گا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اس کے پاس ثبوت بھی ہیں۔ 
جس وقت خالد کو بے ہوشی کی حالت میں اسپتال لایا گیا میں شہر سے باہر تھا۔ خبر ملتے اپنا کام چھوڑ کر واپس راجدھانی پہنچا۔ اسے پولیس کے سخت پہرے میں رکھا گیا تھا۔ بابا ویٹنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر انہیں حوصلہ دینے کی کوشش کی۔ روداد بیان کرتے وقت بڑے مایوس نظر آرہے تھے۔ بولے، ’’آج صبح خبر ملی کہ خالد نے اپنے کمرے میں خود کو پھانسی لگا لی۔ قسمت اچھی رہی کہ پنکھے سے جھول رہی رسی ٹوٹ کر گر پڑی۔ جانے کتنی دیر بے ہوش پڑا رہا۔ صبح ایک دوست ملاقات کیلئے پہنچا تو اسے بے ہوش پڑا ہوا پایا۔ ‘‘ میں نے ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، ’’ بابا میں خالد کا دوست ہوں ۔ اسے اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ وہ کچی مٹی سے نہیں بنا ہے۔ اس کی رگوں میں تو آپ کا خون دوڑ رہا ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے؟‘‘میں انہیں گہری سوچ میں ڈوبا چھوڑ ڈاکٹر سے ملنے چلا گیا۔ 
 شام تک خالد کو ہوش آگیا۔ مجھے بطور وکیل اس سے ملنے کی اجازت مل گئی۔ ’’ صرف دس منٹ ہے آپ کے پاس۔ پلیز مریض سے زیادہ کمیونیکیٹ نا کریں۔ ‘‘نرس نے سخت ہدایت کے بعد ہمیں اکیلا چھوڑ دیا۔ ’’اٹیمپٹ ٹو سوسائیڈ کا کیس بنایا ہے تم پر۔ ‘‘میں نے کاغذ اس کی نظروں کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔ غلطی میری ہے۔ بہت پہلے تمہیں روک دینا چاہئے تھا۔ ‘‘وہ خاموشی سے میری جانب دیکھتا رہا۔ اس نے میرے ہاتھ میں موجود ایف آئی آر کی کاپی پر نظر ڈالی۔ ’’“ ایک اور بری خبر ہے۔ ‘‘میں نہیں جانتا تھا اسے یہ اطلاع دینے کے لئے وہ سہی وقت تھا یا نہیں۔ مگر یہ ضرور جانتا تھا کہ وہ بڑا سخت جان ہے۔ ’’ یہ میڈیکل رپورٹ ہے۔ ‘‘میں نے دوسرا کاغذ اس کی نظروں کے سامنے کیا۔ ’’گلے پر رسی کے پھندے کا دباؤ پڑنے کے سبب تمہارے ’ووکل کورڈس‘ بری طرح ڈیمیج ہو گئے ہیں۔ اسے ریکور ہونے میں ہفتوں ، مہینے یا سال بھی لگ سکتے ہیں۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم اب کبھی بول ہی نا پاؤ۔ ‘‘
اس نے کاغذ سے نظریں ہٹا کر میری جانب دیکھا۔ میرے چہرے پر ہمدردی کا تاثر آنا فطری تھا۔ لیکن میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ مجھے اپنے رگ و پے میں جذبات کی ایک لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھاوہ آگے کی لڑائی کے لئے نئی قوت یکجا کر رہا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK