• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نہرو سینٹر ممبئی میں ’شامِ افسانہ‘

Updated: July 22, 2024, 12:44 PM IST | Mohammed Rafi Ansari | Mumbai

محفل آراستہ ہو چکی تھی۔ ڈائس پر افسانہ خواں سلیقے سے تشریف فرما تھے۔ جناب امتیاز خلیل جو اس محفل کو کنڈکٹ کررہے تھے اپنی خوش گفتاری سے سماں باندھے ہوئے تھے۔ انھوں نے پروگرام کا نظم بڑے ضبط کے ساتھ سنبھال رکھا تھا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

گزشتہ دنوں ہمارا قافلہ ’شامِ افسانہ‘ میں شرکت کے لئے مخلص مدعو کی گاڑی میں ٹھاٹ باٹ سے روانہ ہوا۔ موسم خوشگوار تھا۔ دھوپ نکھری ہوئی تھی۔ آسمان پر کہیں کہیں بادلوں کا ڈیرہ تھا۔ گہما گہمی معمول کے مطابق تھی۔ گاڑی میں ہمارے علاوہ عزیز سر، نیّر مدعو، ندیم اعظمی اور مخلص مدعو تھے۔ سفر شروع ہوتے ہی مزے مزے کی باتیں سفر کو آسان بناتی گئیں۔ منزل دور تھی، کوشش قبل از وقت حاضری کی تھی لیکن یہ کیا تھوڑی دیر میں راہ کا ’جام ‘ آڑے آ نے لگا۔ مشکل یہ تھی کہ ہر جام پہلے سے زیادہ طول کھینچ رہا تھا۔ آخری جام نے توبد انجام کے اندیشہ تک پہنچا دیا۔ گاڑی اب گراں بار لگنے لگی تھی۔ فضا ہر چند کہ دل ربا تھی مگر ہمارا دل ڈوبا جارہا تھا۔ چار و ناچار نہرو سینٹر سے رابطہ کر کے حالِ دلِ زار بیان کیا۔ ادھر سے پوچھا گیا کہاں ہیں ؟ کہا کلیئر روڈ پر۔ خدا خدا کر کے جام پگھلنا شروع ہوا۔ حکم ہوا، کوسٹل روڈ سے ہوتے ہوئے رجنی پٹیل مارگ پکڑیے منزل قریب، آجائے گی ان شاء اللہ.... بموجبِ حکم ساحلی سرنگ (Coastal Road)میں داخلہ لیا۔ بخداایسا لگا جیسے خلائی سفر درپیش ہو۔ یہ ساحلی راستہ جو طویل سرنگ پر قائم ہے، سچ پوچھئے تو جادوئی ہے۔ گاڑیاں اس سرنگ سے طیارے کی مانند گزرتی ہیں۔ اگر ہم دباؤمیں نہ ہوتے تو یقیناً اس کے اعزاز میں چند ثانیہ کے لئے رُک جاتے۔ اس سرنگ کے ختم ہوتے ہی منزل آگئی۔ شامِ دل فگاراں کا قافلہ شامِ افسانہ منانے والے شہر یاراں کے روبرو پہنچ ہی گیا۔ 
محفل آراستہ ہو چکی تھی۔ ڈائس پر افسانہ خواں سلیقے سے تشریف فرما تھے۔ جناب امتیاز خلیل جو اس محفل کو کنڈکٹ کررہے تھے اپنی خوش گفتاری سے سماں باندھے ہوئے تھے۔ انھوں نے پروگرام کا نظم بڑے ضبط کے ساتھ سنبھال رکھا تھا۔ ہمیں دیکھ کر شعر پڑھا۔ شعر کیا پڑھا۔ بارہا پڑھے گئے اس شعر کو تصویر بناد یا ؎
دیر لگی آنے میں ان کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا لیکن ہم گھبرائے تو
سامعین ہمہ تن گوش تھے۔ نہرو سینٹر کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں کے کرمچاری بڑے کرم گستر ہیں۔ وہ اتنی بڑی تعداد میں (موقعۂ وردات پر) موجود ہوتے ہیں کہ سامعین کی کمی کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ ویسے کلچرل ہاؤس میں جو لوگ اکٹھا تھے بہت غنیمت تھے۔ ایک ایک آدمی دس پر بھاری لگا۔ جو ذرہ جس جگہ تھا وہیں آفتاب تھا۔ سارے لوگ ادب نواز اور باذوق معلوم ہوئے۔ اچھے فقروں کو سراہتے اور اچھے منظر کی داد دیتے۔ پڑھنے والوں کا حوصلہ بڑھتا اور منتظمین کا چہرہ کھلتا۔ 
مستطیل نماکلچرل ہال کی شان بڑی دل آویز تھی۔ ڈائس پر ہر کرسی اپنے بیٹھنے والے کو خراج پیش کر رہی تھی کہ جیسے وہ اسی کے لئے بنائی گئی ہو۔ سینئر افسانہ نگار ایم مبین جس کرسی پر تشریف فرما تھے وہ کرسی ان کے لئے پورم پور لگ رہی تھی۔ دور سے دیکھنے پر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اسٹیج نے ان کا قد بڑھا دیا ہو۔ آج کی شام تین افسانہ نگاروں کو اپنی اپنی تخلیقات پیش کرنی تھیں۔ ہمارا کام ذرا کٹھن تھا یعنی ان افسانوں پر تبصرہ کرنا تھا۔ چنانچہ ہم نے اپنے سامنے آئینہ رکھ کر تبصرہ کرنے کی کوشش کی۔ 
شامِ افسانہ نگار کی سب سے جونیئر افسانہ نگار محترمہ ساجدہ جمال کو سب سے پہلے افسانہ خوانی کی دعوت دی گئی۔ انھوں نے قدرے اعتماد کے ساتھ اپنا افسانہ ’خوشبوؤں کا سفر‘ پیش کیا۔ افسانہ ان کے قد کی طرح چھوٹا لیکن ان کے عزائم کی طرح بلندلگا۔ اس میں انہوں نے بتلایا تھا کہ ’چمکتا جو نظر آتا ہے سب سونا نہیں ہوتا‘دنیا میں من کے اجلوں کو پہچان کر ان کی قدردانی کی ضرورت ہے۔ افسانے کو لوگوں نے سراہا ہم نے بھی انھیں اپنا سفر جاری رکھنے کے لئے کہا اور لکھنے کے ساتھ ساتھ خوب پڑھنے کی بھی صلاح دی۔ تالیوں کی گڑگڑاہٹ میں وہ اپنی جگہ بیٹھیں۔ 
دوسرے افسانہ نگار جناب شاداب رشید تھے۔ ’نیاورق ‘ کے مدیر ’کتاب دار‘ کے یارِ طرح دار، شاداب نے آداب کے بعد اپنا افسانہ ’کوڑا+کرکٹ ‘پیش کیا۔ عنوان سن کر سامعین تھوڑے سے سٹپٹائے۔ دس صفحوں پر مشتمل یہ افسانہ کرکٹ کے پانچ روزہ ٹیسٹ میچ کی طرح معلوم ہوا۔ افسانے میں کرکٹ کے روشن پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کے تاریک پہلوؤں کو بھی منور کیا گیا تھا۔ افسانہ نگار نے بڑی بے باکی اور کہیں کہیں سفاکی سے اپنا نقطۂ نظر پیش کیاتھا۔ افسانے کی زبان صاف اور رواں داوں تھی، اسلوبِ بیان بھی دلکش تھا۔ ایک انوکھے موضوع پر لکھا گیا یہ افسانہ طوالت کے باوجود دلچسپی سے سنا گیا۔ افسانے کے اچھے جملوں پر سامعین نے دل کھول کر داد دی۔ کرکٹ کی ہار اور افسانہ نگار کی جیت کی ہم نے دل کھول کر تعریف کی۔ 
اب کلچرل ہال سامعین سے کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ شامِ افسانہ کے آخری افسانہ نگار جناب ایم مبین کو آواز دی گئی۔ ۶۶؍ سالہ ایم مبین نے اب تک چیاسٹھ کتابیں تخلیق کی ہیں۔ انھیں دو باتوں کے سبب بھیونڈی کا قطب الدین ایبک کہا جاتا ہے۔ ایبک ’خاندانِ غلامان کے بانی تھے۔ ایم مبین شہر میں خاندانِ افسانہ نگاران کے بانی ہیں۔ قطب الدین ایبک نے ’قطب مینار ‘ بنوایا تھا۔ ایم مبین نے یکے بعد دیگرے کتابیں شائع کرواکر کتب مینار (یعنی کتابوں کا مینار ) بنایا ہے۔ انھوں نے اپنا افسانہ ’گونگا بول رہا ہے‘سنایا۔ اس افسانے میں تین گونگے پیش کئے گئے تھے۔ تینوں بول رہے تھے مگر کوئی ان کی باتیں سمجھ نہیں رہا تھا۔ دراصل اس عمدہ افسانے میں افسانہ نگار نے فنکارانہ ہنرمندی سے معاشرے کے اس طبقے کو جسے اپنی قوتِ گفتار پر ناز ہے، کے گونگے پن پر وار کیاتھا۔ ظلم و جبر پر دل مسوس کر رہنے والے کتنے بے وقعت اور بے اثر ہوکر رہ گئے ہیں ۔ افسانے میں اسی بات کو فنکارانہ انداز میں پیش کیا گیا۔ 
افسانوں کے اختتام پر ایک بار پھر تالیوں کے شور سے نہرو سینٹر گونج اٹھا۔ دفعتاً محمد سروش تنگیکر(منیجرنہرو آڈیٹوریم)ڈائس پر تشریف لائے۔ سروش کی ’نوا‘ نے شرکائے محفل اور سامعین کا دل موہ لیا۔ سروش صاحب نہرو سینٹر میں اردو تقریبات کو منعقد کرنے کے لئے سرفروشی کا مظاہرہ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ جب تک پروگرام کا انعقاد نہیں ہوجاتا، وہ مسلسل شرکاء کے رابطے میں رہتے ہیں۔ جناب چندرکانت رانے(جوائنٹ ڈائریکٹر، کلچرل، نہرو سینٹر) نے ’شامِ افسانہ‘ میں اخیر تک موجود رہ کر اربابِ ذوق کا حوصلہ بڑھایا۔ پروگرام کے کنوینر جناب امتیاز خلیل نے اپنی نظامت سے اس ادبی تقریب کو یاد گار شام بنانے میں اپنا کردار نبھایا اور مہمانوں کو رخصت کرنے تک ان کی دل جوئی کرتے رہے۔ اخیر میں اہلِ محفل کی تازہ بسکٹ اور گرم چائے سے تواضع کی گئی۔ جس نے سفر میں تازہ دم رہنے میں مدد کی۔ سہانی رات ڈھلنے سے پہلے ہمارا قافلہ گھر لوٹ آیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK