نوجوان وزیر نے ایک دفعہ پھر قدرے احترام سے بادشاہ کو متوجہ کیا۔ ’’جہاں پناہ ! سلطنت کے حق میں میری یہ عرضداشت آپ کی خصوصی توجہ چاہتی ہے ـ۔
EPAPER
Updated: December 02, 2024, 1:12 PM IST | Waseem Aqil Shah | Mumbai
نوجوان وزیر نے ایک دفعہ پھر قدرے احترام سے بادشاہ کو متوجہ کیا۔ ’’جہاں پناہ ! سلطنت کے حق میں میری یہ عرضداشت آپ کی خصوصی توجہ چاہتی ہے ـ۔
نوجوان وزیر نے ایک دفعہ پھر قدرے احترام سے بادشاہ کو متوجہ کیا۔ ’’جہاں پناہ ! سلطنت کے حق میں میری یہ عرضداشت آپ کی خصوصی توجہ چاہتی ہے ـ۔ اس سے قبل بھی آپ کو حالات کی سنگینی سے با خبر کیا جا چکا ہے ـ گستاخی معاف جہاں پناہ، لیکن اگر یہی سلسلہ دراز رہا تو مستقبل قریب میں حالات مزید سنگین ہوسکتے ہیں ـ۔ ‘‘ بادشاہ نے مسکراتی نظر سے وزیر کی طرف دیکھا اور اسی طرح مسکراتے ہوئے خلا میں ایک ٹک گھورنے لگا ـ۔ وزیر ابھی بادشاہ کی مسکراتی خاموشی کی ممکنہ تعبیر پر غور کر ہی رہا تھا کہ یکایک بادشاہ نے ایک قہقہہ لگایا۔ ـ دیوان خاص میں موجود کنیزیں ، ملازم اور محافظ سب حسب معمول گونگے بہروں کی طرح گردن جھکائے کھڑے رہے، البتہ بادشاہ کے اس رد عمل پر وزیر سکتے میں پڑ گیا۔ تب بھی نوجوان وزیر نے مزید ہمت مجتمع کی اور اُسی احترام سے عرض کیا ’’جہاں پناہ ! اس ضمن میں آپ کی نظر کرم رعایا کو بڑی تباہی سے بچا سکتی ہے، لہٰذا اگر اجازت دیں تو سلطنت کی مفلوک الحالی کی تفصیل مختصراً بیان کروں ؟‘‘بادشاہ اب کی دفعہ اس طرح ہنسا جیسے کسی بچے کی معصوم شرارتوں پر ہنسا جاتا ہے ـ۔
بادشاہ سے اپنائیت کا جذبہ پاکر وزیر نے جرأت کی اور کہنا شروع کیا ’’جہاں پناہ ! اول تو سلطنت قدرتی آفت کی زد میں ہے۔ ـ برسات مستقل مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ـ جھیلیں، کنویں، تالاب سب سوکھے جا رہے ہیں ۔ ـ مویشی فوت ہو رہے ہیں۔ ـ اناج کی قلت درپیش ہے۔ ـ غربت در پے آزار ہے۔ ـ معیشت تنزل کے دہانے پر کھڑی سسکیاں لے رہی ہے۔ ـ غرض کہ حالات بد سے بدتر ہو چلے ہیں ـ جہاں پناہ، اگر اس صورت حال کا کوئی مناسب حل تلاش نہیں کیا گیا تو عنقریب ـ ـ ـ ـ ـ ـ ‘‘ آخری جملہ وزیر نے بڑی گلوگیر آواز میں ادا کیا ـ۔ بادشاہ نے وزیر کی التجا اس ذوق سے سنی کہ مانو اس کے سامنے کوئی شاہکار تخلیق پارہ پڑھا گیا ہو۔ ـ اس سے پہلے کہ وہ داد و تہنیت پیش کرتا ایک خادم مخل ہوا اور اجازت طلب کرنے کے بعد فرشی سلام کرتا ہوا دیوان خاص میں داخل ہوا۔ خادم نے اطلاع دی کہ ساری تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں اور سبھی آپ کی آمد کے منتظر ہیں ـ۔
بادشاہ گداز گدے سے اٹھا، اس کے اٹھتے ہی دو نازک اندام کنیزیں وارد ہوئیں اور اس کے کپڑے کی سلوٹیں درست کرنے لگیں ـ پھر جوتیاں ڈالنے کے لئے دونوں فرش پر گویا بچھ سی گئیں ـ اس کے بعد دو ملازم ایک سنہری فریم کا قد آدم آئینہ ڈھو کر لائے، جس میں بادشاہ نے اپنے شاہانہ جاہ و جلال کا جائزہ لیا اور جانے کے لئے دروازے کی طرف مڑا۔ ـ جاتے جاتے اس نے پھر ایک مسکراتی نظر وزیر پر ڈالی اور اپنے محافظوں کے سایے میں باہر نکل گیا۔ ـ کچھ دیر سر تھامے کھڑے رہنے کے بعد وزیر بھی بادشاہ کے پیچھے چل پڑا۔ ـ
حلقہ نما تماشا گاہ میں بادشاہ کے جلوہ گر ہوتے ہی ایک دل دہلا دینے والا شور اٹھا۔ فلک شگاف نعرے بلند ہوئے ـ۔ سبھی لوگ بادشاہ کے احترام میں کھڑے ہوگئے اور جھک جھک کر اپنی عقیدت کا اظہار کرنے لگے۔ ـ بادشاہ کے تخت پر بیٹھ جانے کے بعد سبھی اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ اس مدور تماشا گاہ کی پہلی صف میں سلطنت کے قد آور وزرا ء، دوسری میں فوج کے بڑے عہدے دار، تیسری صف مذہبی شخصیات کے لیے مختص تھی تو چوتھی میں سلطنت کے امرا و رُؤسا تشریف رکھتے تھے ـ نیز پانچویں صف میں مختلف شعبوں کے سارے فنکاروں کو جمع کر دیا گیا تھا ـ اس کے بعد جتنی صفیں اوپر تک پھیل کر ایک بڑا دائرہ بنا رہی تھیں، اُن میں سلطنت کے عوام تھے جو مختلف حُلیوں شکلوں میں بیٹھے خاموشی سے بادشاہ کے اشارے کا انتظار کر رہے تھے۔ ـ کچھ شاہانہ توقف کے بعد بادشاہ نے ہاتھ کے اشارے سے تماشا شروع کرنے کا اعلان کیا۔ ـ ایک بار پھر دل دہلا دینے والا شور بلند ہوا۔
اسی درمیان اکھاڑے میں دو تلوار باز اتر آئے۔ ـ آن کی آن میں دونوں کی شمشیریں ایک دوسرے سے ٹکرانی شروع ہوگئیں۔ ـ دونوں ہی تلوار باز اپنے جوہر دکھانے لگے۔ ـ شور میں ان کی شمشیروں سے پیدا ہونے والی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ ـ دونوں ہی بہت دیر تک اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے رہے اور ایک دوسرے کو زخمی کرتے رہے ـ آخر کار ان میں سے ایک کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ گئی اور کچھ ہی دیر بعد وہ زخمی حالت میں کراہتا ہوا زمین پر گر پڑا ـ جبکہ دوسرا شخص ہوا میں تلوار لہرا کر اپنی بہادری کی داد وصول کرنے لگا۔ ـ وہ جیت گیا تھا۔ ـ چاروں طرف سے مبارکبادیوں اور تالیوں کا سلسلہ دراز ہوا ـ۔ اکھاڑے میں ایک پنجرا لایا گیا جس میں ایک خونخوار چیتا باہر نکلنے کے لئے بے تاب نظر آ رہا تھا۔ ـ پنجرہ کھول کر چیتے کو اکھاڑے میں چھوڑ دیا گیا ـ یہاں اب صرف زخمی شخص کراہتے ہوئے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا تھا ـ اب شور شرابہ اس قدر بڑھا کہ یوں لگ رہا تھا جیسے آسمان پھٹ پڑے گا۔ ـ چیتا دیر تک اس زخمی شخص کے ساتھ گویا کھیلتا رہا، شاید اسے ٹریننگ ہی ایسی دی گئی تھی، تاکہ تماشائی دیر تک اس منظر سے حظ اٹھا سکیں۔ ـ اس کے برعکس زخمی شخص دم توڑتی زندگی کو بچانے کے لیے اپنی بچی کھچی طاقت لگا رہا تھا ـ مگر انجامِ کار زخمی شخص زندگی کی بازی ہار گیا۔ ـ ابھی وہ پوری طرح ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ چیتے نے بڑی بے رحمی سے اس کی گردن کو اپنے جبڑے میں دبوچا اور اسے گھسیٹتے ہوئے پنجرے کی طرف لے گیا۔ ـ
حوصلہ مند نوجوان وزیر ایک بار پھر دست بستہ بادشاہ کے سامنے حاضر تھا۔ ـ شام کا وقت تھا، مشعلیں روشن کر دی گئی تھیں۔ ـ مشعلوں کی روشنی میں بادشاہ کا مسکراتا چہرہ تمتما رہا تھا ـ۔ ’’ہارنے والا متوفّی حالات کا مارا تھا ـ‘‘ وزیر نے اچانک کہنا شروع کیا، مگر بادشاہ کو کوئی حیرانی نہیں ہوئی ـ۔ ’’اس کے چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ـ اس کے پاس کوئی روزگار نہیں تھا۔ ـ انتہائی تنگدستی میں زندگی بسر کر رہا تھا ـ۔ ‘‘ وزیر کے لہجے میں درد تھا۔ ـ وہ کہتا رہا :وہ مضبوط قد کاٹھی کا ایک طاقتور انسان تھا اور ماہر تیغ زن بھی ـ اسی لئے اس نے یہ قدم اٹھایا تھا کہ اس کی جیت یقینی ہوگی اور انعام کی صورت میں وہ آپ کی خاص نظرِ کرم کا حقدار ہو گا اور اس کے دن پھریں گے ـ مگر ــ ـ’’ممم، ہم جانتے ہیں ـ ‘‘ بادشاہ تحکمانہ لہجے میں بولا ـ۔ اس لئےکہ زندگی کے کھیل کا ہر بے بس مگر حساس آدمی اخیر میں موت کا داؤ چلنے پر مجبور ہوجاتا ہے ـ۔ ‘‘ بادشاہ کے ہونٹوں پر ابھری مسکان وزیر کے دل میں سوئی کی مانند چبھ رہی تھی ـ۔ بادشاہ کچھ دیر ٹھہر کر پھر گویا ہوا : اے میری سلطنت کے انسانیت نواز نوجوان، تم ابھی میری سلطنت کے نئے وزیر ہو ـ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تم ہمیں عزیز ہو، اس لئےکہ تمہارے آباء و اجداد اس سلطنت کے وفادار رہے ہیں اور ہم تم سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں ـ لیکن سن لو، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس ہارنے والے شخص کو اس کی بیوی اور بچوں نے بھی اپنی آنکھوں سے چیتے کے جبڑے میں پھنسا دیکھا تھا ـ۔ ‘‘ وزیر تڑپ اٹھا ـ۔ ’’ پہلے تو اس شخص نے غلط جگہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہا، اگرچہ اس کے سامنے دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا مگر وہ چاہتا تو راستہ نکل بھی سکتا تھا ـ `۔ ‘‘ بادشاہ نے شراب کا پیالہ ہونٹوں سے لگایا، آنکھیں بند کر کے اس کے سرور میں ڈوب گیا ـ پھر آنکھیں کھول کر وزیر سے فلسفیانہ انداز میں مخاطب ہوا :’’اس نے حالات کو بدلنے کا راستہ چنا تھا جبکہ یہ لوگ خود نہیں چاہتے کہ ان کے حالات بدل جائیں ـ اس لئے کہ وہ جانتے ہیں یہ راستہ تلوار کے سائے سے گزرتا ہے ـ لہٰذا خوف اور بزدلی نے انہیں بے حس بنا دیا ہے۔ ـ وہ اب صرف تماشا بین ہی بنے رہنا چاہتے ہیں ـ۔ ‘‘
نوجوان وزیر سمجھنے کی کوشش کرنے لگا ـ۔ ’’ اور حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کی بے حسی نے انھیں اس درجے کا تماشا بین بنا دیا ہے کہ وہ اب کسی کی جیت پر خوشی کا اظہار نہیں کرتے اور نہ ان کے لئے تالیاں بجاتے ہیں ـ بلکہ وہ ہارنے والے کی ہار پر خوش ہوتے ہیں ـ۔ ‘‘ بادشاہ گویا مزے لے لے کر کہہ رہا تھا ـ۔ ’’ ہارنے والا جب درد سے تڑپتا ہے یا جب درندہ اس کی گردن اپنے جبڑے میں دبوچتا ہے تو یہ لوگ خوشی سے اچھل پڑتے ہیں ، شور مچاتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں ـ۔ ‘‘ یہ کہہ کر بادشاہ نوجوان وزیر کے پاس چل کر آیا اور بڑی اپنائیت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ـ
’’ تمھیں ان کی فکر میں ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں۔ سلطنت کی رعایا بے حس ہو چکی ہے اور بے حس رعایا سے میری سلطنت کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا۔ ـ ہاں ان میں سے جو حالات کو بدلنا چاہے گا وہ تلوار اٹھا کر اکھاڑے میں اتر آئے گا ـ لیکن یہ کام بھی بہادروں کا ہے ـ۔ ‘‘
بادشاہ کی باتیں سن کر حوصلہ مند نوجوان وزیر کے سارے حوصلے پست ہوگئے۔ ـ بادشاہ کے تخلیہ کہنے کے بعد وہ سر جھکائے بھاری قدموں سے اپنی آرام گاہ کی طرف چل پڑا ـ۔