ہمارے ادب کا محور اور مرکز عوام ہیں۔ ان کی زندگی، ان کے مطالبات اور ان کی جدوجہد کی ترجمانی ایسی زبان میں ہونی چاہئے جو زیادہ سے زیادہ آدمیوں تک پہنچ سکے۔
EPAPER
Updated: December 15, 2024, 3:04 PM IST | Mujtaba Hussain | Mumbai
ہمارے ادب کا محور اور مرکز عوام ہیں۔ ان کی زندگی، ان کے مطالبات اور ان کی جدوجہد کی ترجمانی ایسی زبان میں ہونی چاہئے جو زیادہ سے زیادہ آدمیوں تک پہنچ سکے۔
سیدھا سا سوال ہے’’ہم کس کیلئے لکھتے ہیں ؟‘‘
میرؔ و غالبؔ سے اگر یہ سوال کیا جاتا تو ممکن ہے وہ کوئی واضح اور تسلی بخش جواب نہ دے سکتے۔ حالانکہ غزلوں کو محفوظ رکھنا، دیوان مرتب کرنا، ان پر تقریظیں لکھوانا، دوسروں کی رائے طلب کرنا، مشاعروں میں شریک ہونا، اپنے زمانے کی ادبی بحثوں میں شدومد سے حصہ لینا، شعراء کے تذکرے لکھنا، اپنے کلام کو ’’گنجینہ معنی کا طلسم‘‘ اور ’’نوائے سروش‘‘ سے تعبیر کرنا، زمانے کی ناقدری کی شکایت زبان پر لانا،
تو اے کہ محو ِ سخن گستران پیشینی
مباش منکرِ غالب کہ در زمانۂ تست
اور میرؔ صاحب کا یہ فرمانا کہ، مستند ہے میرا فرمایا ہوا، اور، معتقد کون نہیں میر کی استادی کا‘‘ اور ’’شاید کہ تم کو میر سے صحبت نہیں رہی‘‘ اتنی سنجیدگی اور اتنی کاوش سے تمام عمر اپنے فن میں محورہنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ لوگ بھی دوسروں کی پسند اور ناپسند کی طرف سے بے پروا نہیں تھے۔ ان کے کلام کی مخاطب صرف ان کی ذات نہیں تھی بلکہ اور بہت سے لوگ تھے جن کے درمیان وہ اٹھتے بیٹھتے، ہنستے بولتے تھے۔ اگرچہ ان کے مخاطبین اور قارئین کا حصہ اس زمانے میں نسبتاً مفقود تھا۔ آج جبکہ سماجی شعور اور ہمارے تہذیبی سرمایہ کی وسعت جغرافیائی حدود کو بھی توڑ چکی ہے اور ہم نہ صرف اپنے ملک کی مختلف زبانوں کے ادیبوں کی تحریروں سے واقف ہیں بلکہ غیرملکی زبانوں کا ادب بھی سمجھنے اور قبول کرنے پر تیار ہیں، مندرجہ بالا سوالوں کاجواب ہمیں صاف لفظوں میں پوری سچائی اور دیانتداری کے ساتھ دینا ہوگا!
ظاہر سی بات ہے کہ اس سوال کا جواب جتنے منہ اتنی باتیں نہیں ہوسکتا۔ اس کے محض دو ہی جواب ہوسکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ’’ہم اپنے لئے لکھتے ہیں۔ ‘‘ اس اعتراف میں ایک طرح کی ایمانداری اور جرأت نظر آتی ہے حالانکہ یہ بدتوفیقی اور بے غیرتی کی نہایت مکروہ مثال ہے۔ بہرحال یہ تسلیم کرلینے کے بعد کہ ’’ہم اپنے لئے لکھتے ہیں ‘‘ ان ادیبوں سے صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ بہت اچھا، آپ اپنے لئے لکھئے، مگر خدا کے واسطے، ہم لوگوں، ہم انسانوں سے تمام رشتے منقطع کر دیجئے۔ مشاعروں اور جلسوں کی شرکت، ریڈیو اور فلموں کے ذریعہ کسب ِ معاش اور اظہارِ فن، رسالوں، اخباروں اور پریس کے ذریعہ اپنے افکار کی اشاعت، کتابوں کو چھپوانا اور ان کے پیسے وصول کرنا، ادب کے قوانین اور آئین وضع کرنا، کسی مخصوص نظریے کی حمایت یا تردید کرنا، ادبی معیار کاتعین کرنا اور اس کی تبلیغ میں ایڑی چوٹی کا زور لگانا ترک کر دیجئے اور بحیثیت مجموعی ان تمام سماجی روابط سے دستبردار ہو جائیے جو بے واسطہ یا بالواسطہ آپ کی ادبی شخصیت کو ایک سماجی شخصیت میں بدل دیتے ہیں۔ یہ مطالبہ ان ادیبوں سے سختی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے اور ہم اس امر میں اسی طرح حق بجانب ہوں گے جس طرح یہ ادیب اس امر میں حق بجانب کہے جاسکتے ہیں کہ وہ اپنے لئے لکھتے ہیں۔
سوال کا دوسرا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ’’ہم اپنے لئے بھی لکھتے ہیں اور دوسروں کے لئے بھی۔ ‘‘
جب ہم اپنے لئے لکھتے ہیں تو دوسروں کے لئے بھی لکھتے ہیں اور جب دوسروں کے لئے لکھتے ہیں تو اپنے لئے بھی۔ ہمارے ادب میں اور قاری میں وہی رشتہ ہے جو فرد اور جماعت میں ہوتا ہے۔ اس جواب کے بعد ادیب ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اب اسے طے کرنا پڑے گا کہ اس کی مخاطب کون سی جماعت ہے؟ وہ کن لوگوں کے لئے لکھتا ہے، آیا ان چند سرمایہ داروں کے لئے جو ساری دنیا پر مسلط ہیں اور جن کے قبضے میں تیل کے چشمے، سونے کے ذخائر، بیماری کے مہلک جراثیم اور جنگی دھمکیوں کے ایٹم بم ہیں یا ان لوگوں کیلئے جن کے بدن میں سینگیں اس آسانی سے پیوست کردی جاتی ہیں، گویا پرتکلف دعوت کی میز پر کانٹا چھری سے بھنے ہوئے گوشت کا کوئی ٹکڑا اٹھالیا گیا ہو۔ جن کے سینوں میں گولیاں بال روم کی اونچی ایڑیوں کی طرح رقص کرنے لگتی ہیں اور جو فالتو غلے کی طرح جیل کے گوداموں میں سڑنے کے لئے بھردیے جاتے ہیں۔
ہم کس کے لئے لکھ رہے ہیں ؟مفاد پرستوں اور استحصال پسندوں کی محدود جماعت کے لئے یا ان تمام انسانوں کے لئے جو آج ساری دنیا میں امن اور مساوات کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس جدوجہد میں انسان ہمیشہ فتح یاب رہا۔ تاریخ کا کوئی باب ایسا نہیں ہے جو اس کی شکست کو ظاہر کرتاہو۔ آج یہ جدوجہد اس منزل پر پہنچ چکی ہے جہاں سرمایہ کی موت لازمی ہے۔ اگر ہم سرمایہ دار طبقے کے ثنا خواں اور ترجمان ہیں تو ہمارے ادب کی موت بھی لازمی ہے۔ لیکن اگر ہم انسانوں کیلئے لکھتے ہیں، اس محنت کش طبقے کیلئے لکھتے ہیں جو کائنات کے اِس سرے سے اُس سرے تک سکون اور آسائش کی خاطر علم و فن، تہذیب و تمدن کی حفاظت کی خاطر وحشت اور بربریت سے برسرپیکار ہے تو ادب، ادیب اور سماج کے ساتھ تعلقات بہت واضح ہوکر ہمارے سامنے آجائینگے۔
وہ ادیب جو عوام کے لئے لکھتا ہے اس کا ادب بھی عوامی ہوگا۔ اس منزل پر پہنچ کر ادب کی بڑی بڑی مرعوب کن بحثیں، ادبی اقدار کی جمالیاتی اور فلسفیانہ تاویلیں، فن کے مطالبات کی وجدانی تعبیریں یہ سب بے معنی، فضول اور مضحک ہوجاتی ہیں۔ بات بہت صاف ہے، ادیب کو عوام کے لئے لکھنا چاہئے۔ اس کے بعد فن ہیئت، اسلوب اور موضوعات کاتعین خودبخود ہوجاتا ہے۔ اور وہ تمام اصطلاحات مثلاً دادا ازم، فیوچرازم، فارملزم، کیوبزم اور ان تمام بڑے بڑے خطوط کی کوئی گنجائش ادب میں باقی نہیں رہ جاتی جن کا سہارا لے کر بعض لکھنے والے اپنی ’’سطحیت‘‘ کو چھپانا چاہتے ہیں۔ ہمارے ادب کا محور اور مرکز عوام ہیں۔ ان کی زندگی ان کے مطالبات، ان کی جدوجہد کی ترجمانی ہمیں ایسی زبان میں کرنا ہے جو زیادہ سے زیادہ آدمیوں تک پہنچ سکے۔ لیکن یہ بات جتنی صاف ہے اتنی آسان نہیں۔ ادیب اگر چاہے تو عوام کی زندگی اور ان کے مطالبات آسانی سے پیش کرسکتا ہے۔ مگر یہ زبان والی شرط جو زیادہ سے زیادہ آدمیوں تک پہنچ سکے ذرامشکل سے حلق سے نیچے اترتی ہے اور وہ درمیانہ طبقہ جوہم میں چوروں کی طرح دبکا بیٹھا ہے، بول اٹھتا ہے: واہ! یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ زبان نہیں خراب کی جاسکتی۔ جہاں تک عوامی مطالبات کاتعلق ہے ہم ساتھ ہیں۔ مگر ’’یہ باجو، وہ باجو ‘‘ والی عوامی زبان ہمارے بس کی بات نہیں، اور نہ یہ ادب کی کوئی مفید خدمت ہے نہ عوام کی۔ یہ بات سب کو سمجھنی چاہئے، یاد رکھنی چاہئے۔ (طویل مضمون ’’ہم کس کے لئے لکھتے ہیں ‘‘ کا ایک حصہ)