• Tue, 07 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالم نقوی کے ذہن میں شاعری کا بیج خرد ؔفیض آبادی نے بویا تھا

Updated: January 05, 2025, 3:56 PM IST | Nadeem Siddiqui | Mumbai

مشہور و معتبر صحافی اور علم و ادب کے بلند پایہ قدرداں عالم نقوی کی حیات میں لکھا گیا یہ مضمون خاصا طویل ہے اس لئے ان کالموں میں اس کے اقتباسات شائع کئے جارہے ہیں۔

When did Khirad Faizabadi sow the seed of poetry in the budding mind of Aleem Naqvi, maybe even Aleem Naqvi did not know about it, he kept his poetic taste hidden from the people. Photo: INN
خردؔ فیض آبادی نے عالِم نقوی کے نوخیز ذہن میں شاعری کا بیج کب بویا شاید عالِم نقوی کو بھی اس کاپتہ نہیں تھا انہوں نے اپنی شعری ذو ق کو لوگوں سے مخفی رکھا۔ تصویر: آئی این این

  عالِم نقوی بھی اپنی تحریر ہی کونہیں اپنی تقریر کو، اپنی عام گفتگو کو قرآن مجید سے مدلل کرتے ہیں اور یہ بات ہر وہ شخص جانتا ہے جو عالم نقوی کا صحیح معنوں میں واقف کا ر ہے۔ یاد آیا ایک بار وہ اپنی کسی بات کو قرآن ِکریم سے ثابت کررہے تھے۔ اس حقیر پُرتقصیر کو اُن کی بات سے اِتفاق نہیں تھا۔ اُنہوں نے اپنی بات کوحسب ِعادت قرآن سے مدلل کرنے کی کوشش کی تو ہم نے جھنجھلا کر اُن سے سوال کرلیا کہ عالِم صاحب ! کیا آپ نے قرآن کو واقعتاً پوری طرح سمجھ لیاہے؟ اُنہوں نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر ہماری جانب دیکھا اور بر جستہ کہا: ’’ نہیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے قرآن کو واقعی پوری طرح سمجھ لیا ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ سمجھنے کی کوشش کر رہاہو ں ۔ ‘‘ موصوف کے اس جواب میں خوف ِخدا وندی، دین کے تئیں اُن کا تجسس اور دُنیا میں دین کی اہمیت کے سارے تانے بانے واضح ہیں ۔ 
 مشہور شاعر کلیم عاجز ؔ کاپہلا شعری مجموعہ ’ وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘ ہم نے اس کے شعری حصے پر ایک نظرڈالی اور پھر شاعر کی خود نَوِشت (دیباچے) کو دیکھاتو وہ کوئی سَوصفحے تھے، یہ ضخامت دیکھتے ہی مجموعہ رکھ دِیا… ایک شب پڑھنے کوکچھ نہیں تھا سو یہی مجموعہ اُٹھا لیا اور خودنَوِشت کے اوراق دیکھنا شروع کیے کہ پانچ سات صفحات پڑھتے پڑھتے یوں ہوا کہ اُس اندازِ تحریر نے ایک نشست میں سَو صفحے کا پورا دیباچہ پڑھوا لیا… اورنہ جانے کتنے مقامات ایسے بھی آئے کہ قلب سے آنکھوں تک بس نمی ہی نمی تھی اور پھر جب کلیم عاجزؔ کی شاعری پڑھی تو بس داد دیتے ہی بنی۔ دراصل بعض مقامات پر ایک نظر ہی سارے منظر نامے کودیکھ لیتی ہے اورکبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ وہ منظر نامہ غائر نظر اور غائر مطالعے کا متقاضی ہوتاہے۔ کلیم عاجزؔ کی شاعری اسی آخری اصول کا تقاضا کرتی ہے۔ ۲۰ سالہ رِفاقت کے نتیجے میں عالم نقوی کے مزاج کو کسی حد تک راقم سمجھ چکاتھا۔ دوسرے دن ہم نے دفتر ِ انقلاب میں دیباچے کی نشاندہی کرکے وہ مجموعۂ کلام اُنہیں دے دیا، اُسی رات اُنہوں نے وہ دیباچہ اور کلیم عاجزؔ کی شاعری پڑھ ڈالی اور دوسرے دن آکر اپنے آنسوؤں کی شب بیتی سنائی اور کہنے لگے : ’’ندیم! ؔ تمہیں شاید نہیں معلوم کہ تم نے کیا چیز دے دی، میں تمہارا ممنون ہوں کلیم عاجز کی شاعری کی صحیح تفہیم اس دیباچے کے بغیر ممکن ہی نہیں اور وہ دیباچہ کیاہے ایک مجلسِ عزاہے جو منبر ِ قلب سے پڑھی گئی ہے… میں اسے زیراکس کروا رہا ہوں اور اپنے بچوں کو سناؤں گا۔ ‘‘ 
 پھر یوں ہوا کہ وہ زیراکس لے کر لکھنؤ گئے اور کلیم عاجزکی مجلسِ نثا ّری برپاہوئی جس کے ذاکر عالِم نقوی اور مومنین کی صورت میں عالِم نقوی کے اہلِ خانہ تھے جو، اس طرح سُن رہے تھے جیسے شہدائے کربلا کے مصائب بیان ہو رہے ہوں اورسننے والوں کی ہچکیاں تھیں کہ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کررہی تھیں کہ ہائے حسین ہائے حسین …!!
  ہمارے ایک پرانے رفیق کار جنہوں نے ممبرامیں کوئی فلیٹ بک کروا رکھا تھا اور وہ تیار بھی تھا مگر بلڈر کو مطلوبہ رقم کی ادائیگی اُن کا مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ عالِم نقوی کو اُنہوں نے پیش کش کی کہ’’ اگر پچاس ہزار روپے کا آپ انتظام کردیں تو اس فلیٹ کا مجھے قبضہ مل جائے گا اور پھر آپ اسی پچاس ہزار روپے کے عوض مجھ سے وہ فلیٹ کرائے پرلے لیں اور جب تک چاہیں رہیں۔ ‘‘ عالِم نقوی نے اُن کے اِن شاء اللہ، ماشاء اللہ اور روز ہ نمازکے جلوؤں اور اُن کی مالی پریشانی کو دیکھتے ہوئے کہیں سے پچاس ہزار روپے کا انتظام کیا اور اِن مومن صورت حضرتِ قبلہ کو دے دیئے۔ اس معاملے کی اِنتہایہ ہے کہ عالِم نقوی ممبئی میں اُردو ٹائمز کی ملازمت کے دوران کوئی د س برس سے زائد مدت رہے مگر نہ تو وہ فلیٹ انہیں کرائے پر ملا نہ ہی وہ پچاس ہزار کی رقم واپس ہوئی البتہ ا س دوران یہ ضرور ہواکہ وہ’’حضرتِ قبلہ‘‘ جب بھی عالِم نقوی کے پاس پہنچے اورکوئی روداد ِپریشا نی بَہ رِقّت بیان کی تو بارگاہِ عالِم سے خالی نہیں لوٹے، یہ اور بات کہ عالم نقوی کو بعد میں اس نیکی کا اجر، اپنی بیگم کی صلوٰتیں سُن کر ملا ہو۔ عالِم نقوی کی رحم دِلی کو بعض کا ریگر قسم کے لوگ تاڑ گئے تھے جو وقفے وقفے سے اُن کی جیب خالی کروالیتے۔ ہم یہاں غلط لکھ گئے کہ ’وہ لوگ اُن کی جیب خالی کروا لیتے تھے ‘ حقیقت یہ ہے کہ وہ (عالِم نقوی) تو تیار ہی رہتے تھے کہ کوئی ضرورت بیان کرے اور وہ نیکی کے دریامیں ہاتھ ڈال دیں۔ 
عالِم نقوی کی ذہنی تربیت میں خردؔ فیض آباد ی اور اُن کی شاعری کابھی بڑاکردار ہے۔ یہ بات لکھتے ہوئے ہمیں شدید رنج کا احساس ہورہاہے کہ ہماری زبان کے حسینی شعراء کے قافلے میں نجانے کتنے اشخاص ایسے تھے جنہوں نے اپنے فکر و فن کے چراغ سے مظلومانِ کربلا کی شب ِ عاشور کو روشن کرنے کےلئے اپناخونِ قلب و جگرصَر ف کرڈالا جس کے نتیجے میں جو شعر وہ کہہ لیتے تھے اسے ہی اپنا حاصل ِزندگی سمجھتے تھے۔ اُنہیں اِس سے غرض نہیں تھی کہ اُن کی یہ شاعری دور دراز بھی پہنچے اور آنے والے کل میں بھی اُن کو داد ملے۔ ان کا مطلوب داد تھی تو ضرورمگر وہ داد چاہتے تھے جناب ِسیدہؓ سے …انہیں یقین تھا کہ ہمیں ہمارے مولا ضرور نوازینگے اور اُن کے اِس ایقان کو کبھی کسی تغیر کی ہلکی سی لہر نے بھی گزند نہیں پہنچا ئی۔ ہم نے تو اُن کے اس ایقان میں بھی اخلاص کا وہ سمندر ر دیکھا کہ جس کی ایک موج بھی نصیب ہوجائے توہمارے ذوق ِشعرکو اعتبار مل جائے۔ 
خردؔ فیض آبادی نے عالِم نقوی کے نوخیز ذہن میں شاعری کا بیج کب بویا شاید عالِم نقوی کو بھی اس کاپتہ نہیں تھا انہوں نے اپنے شعری ذو ق کو لوگوں سے مخفی رکھا مگر ہمیں نہیں یاد کہ وہ کب اور کون سا دن تھا جب ایک لمحۂ مدو جزر نے عالِم نقوی کے ذوق شعری سے ندیم کا سامنا کروا دِیا: 
 عالِم نقوی: ارے بھئی ندؔیم! تم نے دیکھا ہوگا کہ جب غروبِ آفتاب کا وقت ہوتاہے تو پوری فضا میں عجب افسردگی کی کیفیت پیداہوجاتی ہے، اس فضا کامشاہدہ کرنے والا اس پر غور کرے تو یہ کیفیت ِحزن اُسے اپنے اندر اُترتی ہوئی محسوس ہوگی، تمہیں تو بہت شعر یاد ہیں، ذرا سناؤ تو کہ اس پورے منظر نامے کو کسی شاعر نے اپنے شعر میں بیان کیا ہو۔ ‘‘
 ہم نے ایک لحظہ توقف کے بعد عرض کیاکہ حسن کمال یا پھر انجم رومانی (پاکستانی) کے شعر اس ضمن میں یاد آتے ہیں ۔ 
عالم نقوی : سناؤ۔ 
 ہم نے پہلے حسن کمال کا شعر سنایا: 
سورج لہولہان سمندر میں گرپڑا
دن کا غرور ٹوٹ گیا، شام ہوگئی 
پھر انجم رومانی کا: 
مزدورِ کارخانہ ٔقدرت ہے آفتاب
دِن کا تھکا ہوا تھا سرِ شام سو گیا 
عالم نقوی : دونوں شعراچھے ہیں مگر اس میں سورج کانوحہ یا آفتاب بیتی بیان کی گئی ہے، مَیں نے تو اُس کیفیت کی بات کی تھی جو سورج کے ڈوبتے وقت فضا پر طا ری ہوجاتی ہے اور اگر حساس شخص اسے بغور دیکھ رہاہے تو وہ کیفیت اُس کے اندرون کو سوگوار کردیتی ہے۔ 
 ہم نے کہا: اس موضوع پر تو کوئی شعریاد نہیں آتا۔ آپ کے حافظے میں ہوتو سنائیں ۔ عالِم نقوی نے کہا، ہاں سنو !
جب شام اُترتی ہے، کیا دِل پَہ گزرتی ہے؟ 
ساحل نے بہت پوچھا خاموش رہا پانی
 ہم نےمشتاق لہجے میں کہا: کس شاعر نے یہ کیفیت بیان کی ؟ اس کے بعد عالِم نقوی نے ہماری آنکھوں کی طرف دیکھا اور فوراً اپنی نظریں گھما کر ٹیلی پرنٹر پر گاڑ دِیں ۔
ایک بات رہی جاتی ہے کہ ۲۰۱۶ء میں جب ہماری کتاب’پُرسہ‘ عالِم صاحب نے دیکھی تو کہا: اِس میں ہم پر لکھا ہوا تمہارا مضمون کیوں نہیں ہے ؟ 
 ہم نے کہا: اگر ہم وہ مضمون کتاب میں شامل کرتے تو عجب نہیں، نشاط ؔبھابھی ہم پر برس پڑتیں کہ’’ہمارا شوہر زندہ سلامت ہے اور آپ اُن کا ’پُرسہ ‘ دے رہے ہیں، کیسے ندیم ہیا آپ؟!‘‘ عالِم صاحب اس جواب پر ہنس کر رہ گئے تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK