Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

زمین کا ذرہ

Updated: March 17, 2025, 1:31 PM IST | Abu Shahma Ansari | Mumbai

رات کی تاریکی ہر طرف پھیل چکی تھی  اور گاؤں کے آخری کچے مکان کے کونے میں  ایک چھوٹا سا چراغ جھلمل جھلمل کر رہا تھا۔ چراغ کی روشنی میں ایک بوڑھا کسان، اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا، پرانی کھیتی کے بارے میں گفتگو کر رہا تھا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

رات کی تاریکی ہر طرف پھیل چکی تھی  اور گاؤں کے آخری کچے مکان کے کونے میں  ایک چھوٹا سا چراغ جھلمل جھلمل کر رہا تھا۔ چراغ کی روشنی میں ایک بوڑھا کسان، اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا، پرانی کھیتی کے بارے میں گفتگو کر رہا تھا۔ ان کا بیٹا، راحیل  جو ابھی جوان ہوا تھا، اپنے خوابوں کی دنیا میں کھویا ہوا تھا۔ اسے گاؤں کی مٹی، کھیتوں کی مہک  اور دھان کے سنہرے خوشوں سے نفرت ہو چکی تھی۔ وہ سوچتا تھا کہ شہر کی چمک دمک، بلند عمارتیں اور مصنوعی روشنیوں کا شور ہی اصل زندگی ہے۔’’بابا، یہ کھیت اور زمین ہمیں کچھ نہیں دے سکتی۔ ہم ہمیشہ یہی کرتے رہیں گے تو کیا ملے گا؟‘‘ راحیل نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔بوڑھے کسان نے اپنے جھریوں بھرے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ سجائی۔ ’’بیٹا، زمین ماں ہے۔ اس کا ذرہ بھی اپنی گود میں پوری دنیا کو پال سکتا ہے۔‘‘
 راحیل نے بےزاری سے سر ہلایا اور بولا، ’’یہ صرف کہانیاں ہیں، بابا۔ میں گاؤں چھوڑ کر شہر جا رہا ہوں۔ وہاں مجھے حقیقی زندگی جینے کا موقع ملے گا۔‘‘راحیل کی ماں، جو خاموشی سے سن رہی تھی، اچانک بولی، ’’بیٹا، گاؤں چھوڑنے سے پہلے اپنی ماں کی ایک بات سن لو۔ زمین کا ذرہ کبھی کم قیمت نہیں ہوتا۔ یہ وہ خزانہ ہے جو ہمیشہ سچائی اور محبت کی پہچان ہوتا ہے۔‘‘
 راحیل نے ان کی باتوں پر کان نہ دھرا اور اگلے ہی دن شہر کی طرف روانہ ہو گیا۔شہر میںراحیل نے اپنی نئی زندگی کی شروعات کی۔ بڑی بڑی عمارتوں کے درمیان  وہ ایک معمولی نوکری ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا لیکن جلد ہی اسے احساس ہوا کہ یہاں کی زندگی اتنی آسان نہیں جتنی وہ سمجھ رہا تھا۔ دن رات کام، شور و غل، اور مصنوعی روشنیوں کا بے ہنگم ہجوم اسے تھکا دینے لگا۔ وہ حیران و پریشان رہنے لگا۔ 
 کچھ دنوں بعد وہ ایک بڑی کمپنی میں کلرک کی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس نے سوچا کہ اب زندگی بہتر ہو جائے گی۔ لیکن ہر روز دفتر کے کاغذوں میں الجھ کر وہ گاؤں کی نرم مٹی، دھان کی خوشبو اور کھیتوں کے سکون کو یاد کرنے لگا۔
 ایک دن کمپنی نے راحیل کو ایک مہم کے سلسلے میں ایک دور دراز گاؤں بھیجا۔ وہ گاؤں، اس کے اپنے گاؤں جیسا تھا۔ راستے میں، گاڑی خراب ہو گئی، اور وہ پیدل چلتا ہوا ایک کھیت تک پہنچا۔ وہاں، ایک کسان زمین کھود رہا تھا۔ کسان کا چہرہ محنت کی چمک سے دمک رہا تھا۔راحیل نے کسان سے پانی مانگا۔ کسان نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’بیٹا، تھکے ہوئے مسافر کو پانی زمین ہی دیتی ہے۔‘‘راحیل کو کسان کی بات عجیب لگی، لیکن جب اس نے پانی پیا تو اسے اپنے گاؤں کی مٹی کی خوشبو یاد آ گئی۔
  وہ سوچنے لگا کہ شاید زمین ہی انسان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔راحیل شہر واپس پہنچا  لیکن اب اس کا دل وہاں نہیں لگ رہا تھا۔ ہر روز اسے زمین کی باتیں یاد آتی رہیں۔ چند مہینوں کے بعد وہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ گاؤں واپس جائے گا اور اپنی زمین کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے گا۔
 گاؤں واپس پہنچ کر راحیل نے اپنے والد سے معافی مانگی۔ بوڑھے کسان نے اپنے بیٹے کو گلے لگا لیا اور کہا، ’’بیٹا، زمین کا ذرہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ یہ تمہیں پالے گا، تمہیں سکون دے گا، اور تمہیں وہ سچائی سکھائے گا جو کسی اور جگہ ممکن نہیں۔‘‘
راحیل نے گاؤں کی زندگی کو اپنایا اور زمین سے جڑ کر نئی توانائی محسوس کی۔ اب وہ جان چکا تھا کہ زمین کا ذرہ صرف مٹی نہیں، بلکہ وہ خزانہ ہے جو زندگی کی بنیاد ہے۔
 راحیل کی کہانی اس بات کی گواہ ہے کہ انسان چاہے جہاں بھی جائے، اس کی جڑیں زمین سے جڑی رہتی ہیں۔ زمین کا ذرہ ایک یاد دہانی ہے کہ حقیقی خوشی اور سکون صرف فطرت کے قریب رہ کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK