• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ : اچانک

Updated: June 26, 2024, 12:53 PM IST | Professor. Zahra Rehman Morak | Mumbai

’’کملاکر کے جبڑے بہت مضبوط تھے‘‘ آپ بتائیں جبڑوں کی مضبوطی سے افسانہ نگار کملاکر کی شخصیت کے کس پہلو کی نشاندہی کرنا چاہتا ہے؟

Photo: INN
تصویر : آئی این این

’’کملاکر کے جبڑے بہت مضبوط تھے‘‘ آپ بتائیں جبڑوں کی مضبوطی سے افسانہ نگار کملاکر کی شخصیت کے کس پہلو کی نشاندہی کرنا چاہتا ہے؟
 مسز شہلا کی دلکش مترنم آواز سے سحر زدہ طلبہ جواب تلاش ہی کر رہے تھے کہ دروازے میں کالج کا چپراسی عبدل نمودار ہوا۔ اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ میڈم شہلا بہت مخلص مگر سخت گیر ڈسپلن کی حامل تھیں۔ اُن کی سخت گیر مگر متین عادت سے طلبہ اور کالج کا اسٹاف دونوں ہی واقف تھے۔ وہ تدریس کی ایسی جادوگر تھیں کہ طلبہ بھی سحر زدہ ادب کی پر فسوں وادیوں میں کھو جاتے۔ اس ڈسپلن میں کسی طرح کا رخنہ ناقابل برداشت ہوتا۔ عبدل خاموشی سے اُن کے سامنے آکھڑا ہوا اور ڈرتے ڈرتے کہا، ’’پرنسپل صاحب نے آپ کو فوراً آفس میں بلایا ہے۔‘‘ مسز شہلا کے تیوری کے بل دیکھ وہ تیزی سے جانے کیلئے مڑا۔ ’’مَیں کلاس لے رہی ہوں۔ پیریڈ ختم ہونے کے بعد حاضر ہوجاؤں گی۔‘‘ جواب سن کر عبدل چپ چاپ باہر نکل گیا۔
 لیکچر کے بعد مسز شہلا فوراً پرنسپل رفیق احمد کی آفس کی طرف چل پڑی۔ وہ پرنسپل کو طالب علمی کے زمانے سے جانتی تھی۔ ڈگری کالج میں وہ اُس کے اکنامکس کے پروفیسر تھے۔ کالج کی ذہین اور فعال طالبہ ہونے کی وجہ سے وہ اُسے بہت پیار کرتے تھے۔ ہمیشہ اُس کا حوصلہ بڑھاتے۔ انٹر کالج مقابلوں میں نمایاں کامیابی نے اُسے ہر پروفیسر کا منظور نظر بنا دیا تھا۔ پروفیسر رفیق احمد کی حوصلہ افزائی نے ہی اُسے غریبی کے احساس سے باہر نکالا تھا اور کالج کی بہترین اسٹوڈنٹ کا اعزاز پانے کا حقدار بنایا تھا۔ اپنے اُس پروفیسر سے اُس کی عقیدت کی انتہا نہ تھی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد شہلا میڈم گورنمنٹ کالج کے درس و تدریس کا حصہ بن گئی۔ پڑھانے کے منفرد انداز نے اُسے جلد ہی کالج کی مقبول ترین شخصیت بنا دیا۔ کالج میں پرنسپل رفیق احمد کے تقرر نے اُسے خوشیوں سے سرشار کر دیا تھا۔ لیکچر کے دوران اچانک اُن کے بلاوے نے تھوڑا متفکر تو کر دیا مگر مسز شہلا ذہن کو جھٹک کر اُن کی آفس کی طرف چل دی۔
 کمرے میں داخل ہو کر اُس نے مودبانہ سلام عرض کیا۔ سلام کا جواب دے کر پرنسپل نے اُسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اُن کے ہاتھ میں بڑا سا دستاویز نما کاغذ تھا اور چہرے پر فکر کے آثار۔ شہلا کی دنیا زیر و زبر ہوگئی۔
 ’’شہلا یہ خط نما سرکیولر تمہارے بارے میں ہے اسی سلسلے میں مَیں نے تمہیں بلایا ہے۔‘‘ شہلا کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ پل بھر کیلئے ہزاروں خیالات دماغ میں کوند گئے۔ درس و تدریس میں اس کی ایمانداری، خلوص بلکہ جنون بھری قابلیت کا ہر فرد معترف تھا۔ طلبہ تو اُس پر جان چھڑکتے تھے۔ اُس سے پیار کرتے تھے۔ زبان گنگ تھی اور ماجرا سمجھ سے باہر۔ شعبہ کے انچارج کو طلب کیا گیا۔ شعبہ کے انچارج بھی مسز شہلا کے استاد تھے اور اس کے اندازِ تدریس کے ثناخواں تھے۔ وہ آئے تو پرنسپل صاحب مسکرائے اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ معاملہ اُن کی سمجھ سے بھی باہر تھا۔ پرنسپل صاحب نے عبدل کو چائے کا آرڈر دے دیا۔
 ’’شہلا آپ فائنل ایئر میں کیا پڑھا رہی ہیں؟‘‘ پرنسپل کے استفسار پر اُس نے نثری ادب کا نام لیا۔ پرنسپل کرسی سے اُٹھ کر اس کے قریب آئے بڑی شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر مسکراتے ہوئے گویا ہوئے، ’’مجھے تم پر کل بھی فخر تھا اور آج بھی ہے۔ اس کاغذ میں کالج کے طلبہ نے درخواست کی ہے کہ فائنل ایئر کے سارے لیکچرز طلبہ صرف مسز شہلا سے پڑھنے کے خواہشمند ہیں ورنہ وہ کلاس کا بائیکاٹ کریں گے۔ شعبہ کے انچارج کو بلانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ طلبہ کی خواہش پوری کریں اور فائنل ایئر کے سارے لیکچرز آپ کو دے دیں۔‘‘
 مسز شہلا کا چہرہ اُن کی شفقت سے کھل اُٹھا۔ مودبانہ انداز میں شکریہ ادا کرکے مسز شہلا اس اچانک موڑ کے احساسِ فخر کو دل میں چھپا کر آفس سے باہر نکل آئی تدریس کی خوبصورت دنیا کی طرف۔
(افسانہ نگار برہانی کالج ممبئی سے وابستہ رہی ہیں۔)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK