میری بات سن کر میری امی نے مجھے ڈانٹا، ’’بس چپ ہو جاؤ، تم نانی ماں کو ہر بار اپنے سوالوں سے پریشان کیوں کرتی ہو....؟‘‘ ’’نہیں امی مَیں آج نانی ماں سے ان کی کہانی سن کر رہوں گی....‘‘
EPAPER
Updated: December 11, 2024, 4:59 PM IST | Zakira Shabnam | Mumbai
میری بات سن کر میری امی نے مجھے ڈانٹا، ’’بس چپ ہو جاؤ، تم نانی ماں کو ہر بار اپنے سوالوں سے پریشان کیوں کرتی ہو....؟‘‘ ’’نہیں امی مَیں آج نانی ماں سے ان کی کہانی سن کر رہوں گی....‘‘
ذاکرہ شبنم
مَیں بڑی بےچینی سے نانی ماں کا انتظار کر رہی تھی، وہی نانی جن کا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ نہ ہی ان کا اپنا کوئی گھر نہ ہی ان کا کوئی رشتہ دار، وہ چند دن اس شہر کی درگاہ میں رہتیں پھر کچھ دنوں کے لئے دوسرے شہر چلی جاتیں، ہر جگہ کسی نہ کسی درگاہ ہی کو سر چھپانے کا ٹھکانہ بنا رکھا تھا انہوں نے۔
وہ اکثر جمعہ کے دن ہی ادھر آیا کرتیں، ان کے بائیں ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کپڑے کی تھیلی ہوتی تو دائیں ہاتھ میں ایک لاٹھی....
وہ بہت ہی بوڑھی اور کمزور ہوگئی تھیں، کمر سے جھکی ہوئی اس لئے ان کی لاٹھی ہی ان کے چلنے کا سہارا تھی.... جسے ہاتھ میں تھامے زمین پر ٹیکتے ہوئے دھیرے دھیرے وہ چل پاتیں۔ جب بھی وہ ہماری گلی میں آتیں تو ہمارے پڑوس سے گزرتے ہوئے ہماری دہلیز تک آنے سے پہلے ہی میں ان کی لاٹھی کے زمین پر ٹیکنے کی آواز سن لیتی اور دوڑتے ہوئے جلدی سے دروازہ کھول کر ان کے پاس جاتے ہوئے ان کا ہا تھ تھامے اپنے گھر لے آتی۔ وہ اتنے دھیمے سے بولتی، دروازے کے قریب آکر آواز دیتی تو بھی سنائی نہیں دیتا تھا۔ مجھے تو ہر جمعہ سویرے سے ہی ان کی آمد کا انتظار رہتا اور میرے کان ان کی لاٹھی کی آواز کے مانوس اور منتظر رہتے، اس لئے میں ان کی آمد کو فوراً بھانپ جاتی.... وہ کسی کے بھی دروازے پر زیادہ دیر ٹھہرتی بھی نہیں تھیں، بس اپنی دھیمی سی آواز میں اللہ کے نام پر خیرات طلب کرتے ہوئے آگے بڑھ جایا کرتیں.... مجھے ان کی اس بات پر بڑی فکر ہوتی کہ دھوپ میں منہ سکھائے بھٹکتی پھرتی ہیں، پتہ نہیں اپنے گھروں کے اندر مشغول کتنے لوگ ان کی آواز پر میری طرح متوجہ ہو پاتے ہوں گے.... ہمارے یہاں آٹھ دن میں ایک بار ہر جمعہ ضرور آتیں لیکن اس مرتبہ ۱۵؍ دن ہونے کو آئے وہ نہیں آئیں... آج بھی جمعہ ہی کا دن تھا اور مجھے فکر لاحق ہو رہی تھی۔ ان سے مل کر مجھے عجیب قسم کی خوشی محسوس ہوتی۔ وہ آج بھی خوبصورت تھیں ان کی آنکھیں بے حد چمکدار اور ستواں ناک، دودھیا رنگ کا چہرہ اور جھریوں بھرے چہرے پر نور ہی نور.... وہ اتنی کمزور ہوتے ہوئے بھی پانچوں وقت کی نماز پابندی کے ساتھ کسی نہ کسی کے گھر میں ضرور پڑھ لیتی۔ کھانا تو بالکل کم دو چار نوالے ہی کھا پاتیں.... پتہ نہیں میرا دل چند دنوں سے بار بار مجھ سے کہتا کہ نانی ماں کا اس دنیا میں کوئی نہ کوئی تو ضرور ہوگا۔ لیکن پوچھنے پر وہ ہمیں یہی کہتی کہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ نہ جانے مجھے کیوں ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ضرور ہم سے کچھ چھپاتی ہیں۔ آج مَیں نے اپنے دل میں یہ تہیہ کر لیا تھا کہ اس بار ضرور میں ان سے کرید کرید کر پوچھونگی اور سچائی جان کر رہونگی۔
مَیں انہی خیالوں میں کھوئی گم سم سی بیٹھی ہوئی تھی۔ اتنے میں مجھے نانی ماں کی لاٹھی کی آواز سنائی دی۔ مَیں جیسے کھل اٹھی اور جھٹ سے اٹھ کر دروازہ کھولا پھر باہر سے نانی کو پکڑتے ہوئے اندر لاکر کرسی پر بٹھایا اور ان سے شکایت بھرے لہجے میں پوچھنے لگی، ’’نانی ماں اتنے دن کہاں چلی گئی تھیں، ہم نے آپ کو بہت یاد کیا، کہیں آپ اپنے کسی رشتہ دار کے پاس تو نہیں چلی گئی تھیں؟‘‘ میر ے سوال پر وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگیں، ’’بیٹی میں تو پاس والے شہر گئی تھی۔ میرا اس دنیا میں کوئی بھی اپنا نہیں ہے۔ بس تم جیسے ہی میرے اپنے ہو....‘‘ ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ کا کوئی تو ہوگا اس جہاں میں....؟‘‘ میری بات سن کر میری امی نے مجھے ڈانٹا، ’’بس چپ ہو جاؤ، تم نانی ماں کو ہر بار اپنے سوالوں سے پریشان کیوں کرتی ہو....؟‘‘ ’’نہیں امی مَیں آج نانی ماں سے ان کی کہانی سن کر رہوں گی.... اچھا نانی آپ یہ بتایئے کہ کیا آپ نے شادی نہیں کی؟‘‘ انہوں نے کہا، ’’کی تھی بیٹا!‘‘ ’’پھر سچ سچ بتایئے آپ کی کوئی اولاد نہیں ہے؟‘‘ میرے سوال پر وہ خاموش ہوگئیں مَیں نے انہیں دیکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ مَیں ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ رہی ہوں.... مَیں نے ہمت کرکے ان سے کہا، ’’نانی مَیں آپ کے زخموں کو چھیڑنا نہیں چاہتی۔ آپ کو معلوم ہے درد بھری کہانیاں لکھنا میرا مشغلہ ہے اس لئے مَیں آپ کے بارے میں جاننے کے لئے بےچین ہوں۔ ہوسکتا ہے آپ کی داستان سے دوسروں کو عبرت حاصل ہو....‘‘
آخر میری ضد کے آگے انہیں ہتھیار ڈالنا ہی پڑا۔ انہوں نے مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھا اور مجھے دعا دی، ’’خوش رہو بیٹی اللہ تمہیں تمہارے مقصد میں کامیابی عطا فرمائے!‘‘ پھر مجھ سے یوں گویا ہوئیں، ’’مَیں تمہیں آج اپنے بارے میں ضرور بتاؤں گی.... ایک زمانہ وہ بھی گزرا ہے کہ مَیں بھی جب اچھے کھاتے پیتے گھر کی بیٹی تھی۔ میرے والدین نے مجھے ایک اچھے گھر میں بیاہ کر دیا پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے دو چاند سے بیٹے عطا فرمائے، پھر اچانک ایک دن میرے خاوند کا انتقال ہوگیا۔ اُس وقت بچے بہت چھوٹے تھے مَیں اکیلی عورت تھی مگر مَیں نے دونوں بچوں کو اپنے سینے سے لگا کر بہت سی تکلیفیں اٹھاکر پالا، انہیں اپنے قدموں پر کھڑا ہونا سکھایا، کسی قابل بنایا۔ وہ جوان ہوئے، بڑے بیٹے کی شادی کی، بہو کے آتے ہی بیٹے نے ماں کو نظرانداز کر دیا اور سسرال میں جا کر بس گیا۔ مَیں اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہی پھر اس کی بھی شادی ہوئی، اس کی بیوی کو میرے ساتھ رہنا پسند نہیں تھا، بار بار اپنے میکے چلی جاتی۔ آخر بیٹا ماں کی خاطر بیوی سے جدائی کتنے دن برداشت کرتا.... اس لئے مجھے ہی وہاں سے نکلنا پڑا، ایک دن مَیں چپ چاپ کسی کو کچھ بھی بتائے بغیر گھر سے نکل پڑی.... آج تک شاید ہی کسی نے بھی مجھے ڈھونڈنے کی کوشش کی ہو.... وہ تو یہ بھی جاننا نہیں چاہتے ہوں گے کہ ان کی ماں جس نے انہیں جنم دیا زندہ بھی ہے یا نہیں....‘‘ نانی ماں کی درد بھری داستان سن کر میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ کتنی بےرحم اور خود غرض اولاد ہے، جس ماں نے انہیں جنم دیا جو ماں انہیں اپنے بدن کا ایک حصہ سمجھ کر حفاظت کرتی رہی، ہر طرح تکلیفیں سہہ کر انہیں آج اس قابل بنایا کہ وہ اس دنیا میں شان سے جی سکیں آج اُس اولاد کے گھر بوڑھی اور بےسہارا ماں کے لئے جگہ نہیں ہے۔ وہ لوگ زندگی کے مزے لے رہے ہیں اور یہاں ان کی ماں در در بھٹکتی پھر رہی ہے یہ کیسا انصاف ہے....؟ ’’بیٹی یہ تھی میری زندگی کی کہانی جو مَیں نے آج تک کسی کو نہیں سنائی....‘‘ نانی ماں کی آواز پر مَیں چونک پڑی، خود کو سنبھالتے ہوئے پھر ان سے پو چھا، ’’اچھا نانی آپ مجھے ایک بات بتایئے کہ آپ سبھی کو ایسا کیوں کہتی ہیں کہ آپ کا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے؟‘‘
وہ کہنے لگیں، ’’بیٹی تو تو ابھی بچی ہے، تو نہیں سمجھ پائے گی، ایسی اولاد کے بارے میں کچھ کہنے سے کیا فائدہ جو اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی نہ ہونے کے برابر ہو۔‘‘ بےاختیار مَیں بول پڑی، ’’ہاں نانی آپ بالکل ٹھیک کہتی ہیں۔ ایسی اولاد کس کام کی جو اپنے ماں باپ کو ہی فراموش کر دے!‘‘