بغیر سوچے سمجھے نصیحت قبول کرنا مہنگا پڑ سکتا ہے، اس افسانے میں یہی سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: February 13, 2025, 3:04 PM IST | Tarranum Saba | Mumbai
بغیر سوچے سمجھے نصیحت قبول کرنا مہنگا پڑ سکتا ہے، اس افسانے میں یہی سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
”امی! صلاح خالہ آئی ہیں۔“ رانی نے اندر آکر سبزی بناتی ثمینہ بیگم کو اطلاع دی۔
”رانی کتنی بار کہا ہے کہ ان کا نام صالحہ ہے۔“ ثمینہ بیگم نے بیٹی کو گھورا۔
”کوئی فرق نہیں پڑتا امی! وہ جس طرح مفت میں سب کو صلاح دیا کرتی ہیں نا اس حساب سے تو ان کا نام صالحہ خاتون نہیں بلکہ ’صلاح خاتون‘ ہونا چاہئے تھا۔“ ملکہ نے ہنس کر کہا۔
”بے کار باتیں نہ کرو اچھی سی چائے بنا کر لے کر آؤ۔“ ثمینہ بیگم نے بیٹی کو ڈپٹتے ہوئے سبزی کی ٹوکری اٹھائی۔
”آپ اسے کہاں اپنے ساتھ لئے جا رہی ہیں امی؟“ ”سبزی بنانے جا رہی ہوں۔ ابھی تھوڑی ہی دیر میں تمہارے ابو آ رہے ہوں گے کھانا کھانے کے لئے۔ تم لوگوں کو تو اتنی توفیق ہوتی نہیں کہ ماں کی مدد کر دو۔بس یوں ہی فالتو باتوں میں وقت برباد کرتی رہتی ہو۔“ وہ ان دونوں کو لتاڑ کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔
”السلام علیکم آپا! کیسی ہیں آپ؟ بہت دنوں بعد آئی ہیں۔“ ثمینہ بیگم نے صالحہ خاتون کا استقبال کیا۔ ”ارے کہاں ثمینہ! ابھی پرسوں ہی تو شفیق بھائی کی بیٹی کی شادی پر ملاقات ہوئی تھی!“
”ہاں وہ تو ہے۔ مگر ہمارے گھر تو آپ کئی دنوں بعد آئی ہیں۔“ ”کیا بتاؤں بہن! گھر کے بکھیڑے ہی جان نہیں چھوڑتے۔ اب تم خود کو ہی دیکھ لو۔ لاؤ سبزی بنانے میں تمہاری مدد کر دوں۔“ صالحہ خاتون نے میتھی کی گٹھی کھول لی۔
”صحیح کہا آپ نے آپا! گھر کے کاموں سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ ویسے تو میری دونوں بیٹیاں ماشاء اللہ بہت اچھی ہیں۔ گھر کا سارا کام وہی کرتی ہیں لیکن کھانا جہانگیر صاحب کو میرے ہاتھوں کا ہی پسند ہے۔ اسلئے ہنڈیا مجھے ہی بنانی پڑتی ہے۔“
”وہ تو ٹھیک ہے مگر کیا شفیق بھائی کے گھر سے دعوت کا کھانا نہیں آیا تھا؟“
”آیا تھا آپا۔ شفیق بھائی کا بیٹا خود آ کر دے گیا تھا۔ مرغ قورمہ، بریانی، نان، کھیر سب کچھ بھجوایا تھا انہوں نے لیکن ملکہ اور سلطان تو میٹھے کے اتنے شوقین ہیں کہ ساری کھیر اسی دن چٹ کر گئے۔ بریانی شہریار اور رانی کو بہت پسند ہے سو وہ بھی ختم ہوگئی۔ اب بس تھوڑا سا چکن ہی بچا ہے اور جہانگیر صاحب ایک ہی ڈش بار بار نہیں کھاتے اسی لئے کھانا پکا رہی ہوں۔“ ثمینہ بیگم صالحہ خاتون کا اشارہ سمجھ گئی تھیں اس لئے انہوں نے تفصیل سے جواب دیا۔ ”ہاں تو ٹھیک ہے! تم صرف جہانگیر بھائی کے لئے ہی تازہ کھانا پکا لو۔ باقی سب کے لئے اسی مرغ میں آلو ڈال کر پکا لو۔ اس طرح چکن بھی ختم ہو جائے گا اور سبزیاں بھی بچیں گی۔ اب دیکھو نا! مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔اسی طرح بچت کرو گی تبھی تو گھر چلا پاؤ گی۔“ صالحہ خاتون نے صلاح دیتے ہوئے انہیں گویا گھر داری چلانے کا درس بھی دیا۔ ان کی صلاح پر چائے لے کر آتی ہوئی رانی سلگ کر رہ گئی۔
”اچھا آئیڈیا ہے آپا! یہی کرتی ہوں۔ آپ بیٹھئے کھانا کھا کر جائیے گا۔“ ثمینہ بیگم کہتی ہوئی کھڑی ہوگئیں۔ صالحہ خاتون نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
”خدا کیلئے امی! یہ آپ کیا کر رہی ہیں۔ بھلا چکن میں آلو ڈال کر کون پکاتا ہے!“ ملکہ بھی صالحہ خاتون کی صلاح سن چکی تھی۔
”مَیں پکاتی ہوں۔ اور تم سب وہی کھاؤ گے۔ ارے میں خود وہی کھاؤں گی۔ تم لوگ کیا آسمان سے اترے ہو!“ انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”مگر اس میں چکن بچا ہی کہاں ہے امی! صرف نیچے کی کھرچن ہی رہ گئی ہے۔“ ملکہ رونے کو ہوگئی تھی۔
”جو بھی ہے ہم سب یہی کھائیں گے سمجھی!“
”تو پھر ٹھیک ہے! صلاح خالہ کو بھی یہی کھلائیے گا۔“ وہ غصے سے بولی۔
”پاگل ہوئی ہے کیا لڑکی! گھر آئے مہمان کو باسی کھانا کھلا دوں دماغ تو صحیح ہے تیرا!“
”گھر آئے مہمان نے ہی یہ صلاح دی ہے نا۔ تو انہیں پر یہ ٹرک بھی آزمائیے۔“ وہ بھنا کر بولی۔ ”تم یہاں سے جاتی ہو یا میں چپل اٹھاؤں!“ ثمینہ بیگم نے اسے گھور کر دیکھا۔ ملکہ منہ بناتی وہاں سے چلی گئی۔
صالحہ خاتون ان کے محلے میں ہی رہتی تھیں۔ وہ دل کی بری نہیں تھیں مگر انہیں سب کو صلاح دینے کی عادت تھی۔ ان کی اس عادت سے بہت سے لوگ بیزار رہتے تھے۔ ان لوگوں نے تو ان کا نام ہی ’صلاح خالہ‘ رکھ چھوڑا تھا۔
”شہریار بھائی! میرا آئسکریم کھانے کا بہت من کر رہا ہے۔ پلیز کھلائیے نا!“ رانی نے کہا۔
”آہستہ بہنا! اگر امی نے سن لیا نا تو آئس کریم کی جگہ تمہیں کریلا قلفی کھلا دیں گی۔“ شہریار ہنس کر بولا۔ ”ہاں سچ میں! اس دن کا چکن آلو تو اب تک میرے پیٹ میں گُڑ گُڑ کر رہا ہے۔“ سلطان نے بھی دہائی دی۔ ”چلو بھئی! اس کی تو چھٹی۔ یہ تو آئس کریم کھانے جائے گا نہیں۔ “ملکہ بولی۔ ”کس نے کہا؟ مَیں بالکل ٹھیک ہوں۔“ سلطان اچھل کر کھڑا ہوگیا۔وہ سب ٹھہاکہ لگا اٹھے۔ ”ہمارے تو صرف نام ہی ’شاہانہ‘‘ ہیں۔ سچ کہوں تو ابو سمیت ہم سب امی کی ہی رعایا ہیں۔“ رانی نے ہنس کر کہا۔ لفظ ’شاہانہ‘ پر پھر سے سب کا قہقہہ گونج اٹھا۔
”نہیں تو کیا میں تم لوگوں کے لئے سارا گھر لٹا دوں؟“ ثمینہ بیگم اندر داخل ہوتے ہوئے بولیں۔
”اوہو امی! آپ اتنا کیوں سوچتی ہیں؟ خدا کا شکر ہے سپر مارکیٹ میں ابو کی تینوں دکانیں اتنی اچھی چلتی ہیں۔ میری پارٹ ٹائم جاب سے بھی ٹھیک ٹھاک آمدنی ہو جاتی ہے۔ سلطان اور رانی نے الگ ٹیوشن پکڑ رکھے ہیں۔ ملکہ بھی کبھی سلائی تو کبھی کڑھائی میں لگی ہی رہتی ہے۔ پھر آپ کیوں اتنی ٹینشن لیتی ہیں!“ شہریار نے ماں کا شانہ پکڑ کر پیار سے بٹھایا۔
”ارے ٹینشن نہ لوں تو یہ دو دو پہاڑ سینے سے کیسے ہٹاؤں گی؟“ انہوں نے دونوں بیٹیوں کو دیکھا۔ ”امی پہاڑ کے ساتھ دو دو پہاڑے بھی تو ہیں۔“ سلطان نے شرمانے کی اداکاری کرتے ہوئے اپنے اور شہریار کی جانب اشارہ کیا۔ ثمینہ بیگم بھی اس کی ایکٹنگ پر ہنس دیں۔
”تمہاری آئس کریم تو پکا پگھل گئی بچّو۔“ ملکہ نے سلطان کو گھور کر دھیرے سے کہا۔ وہ مسمسی سے شکل بنا کر رہ گیا۔
”یہ سب کیا پھیلائے بیٹھی ہو ثمینہ؟“ صالحہ خاتون نے ڈھیر سارے کپڑے بکھرے دیکھ کر پوچھا۔ ”آئیے آپا! کیسی ہیں آپ؟“
”مَیں تو ٹھیک ہوں۔ مگر تم یہ کیا بارات سجائے بیٹھی ہو؟“ ”ارے آپا! یہ سب کپڑے ہمیں خاندان اور عزیزوں کے یہاں مختلف پروگراموں میں ’پہناوے‘ کے طور پر ملے ہیں۔ لیکن ان میں سے کئی ایک تو آؤٹ آف فیشن ہوچکے ہیں۔ اس لئے نہ ہی میں نے بنائے اور نہ ہی گھر میں کسی اور نے۔ بالکل نئے کپڑے ہیں۔ سوچ رہی ہوں کسی یتیم خانے میں دے آؤں۔ کسی کا کچھ بھلا ہی ہو جائےگا۔“ انہوں نے کپڑے سمیٹ کر ایک طرف کئے۔ ”کسی اور کا بھلا تو بعد میں کرنا پہلے تو اپنا بھلا کرو۔ ارے اتنے اچھے اور بالکل نئے کپڑے تم یتیم خانے میں دینے جا رہی ہو۔ پاگل ہوئی ہو کیا؟“ صالحہ خاتون نے انہیں ڈپٹا۔
”تو کیا کروں آپا؟ گھر میں تو کوئی بھی انہیں بنانے کو تیار نہیں ہے۔“
”اگر گھر پر کوئی تیار نہیں ہے۔ تو تم بھی کسی کو پہناوے کے طور پر دے دو۔“ صالحہ خاتون نے ایک نئی صلاح دی۔ رانی اور ملکہ اندر ہی اندر کلس کر رہ گئیں۔ ”لیکن آپا! یہ سب پرانے فیشن کے ہیں۔ کیا اچھا لگے گا؟“ ثمینہ بیگم تذبذب کا شکار تھیں۔
”اے فیشن کی تم نے خوب کہی ثمینہ! فیشن تو پلٹ پلٹ کر آتا ہی رہتا ہے۔ اور پھر دینے والا اپنی سہولت دیکھتا ہے۔ اب اگر آج کے حساب سے تم پہناوے کے کپڑے بھی خریدنے جاؤ گی تو ایک سوٹ پر دو ڈھائی ہزار روپے تو آرام سے اُڑ جائیں گے۔ اتنے پیسے خرچ کرنے سے تو بہتر ہے کہ تم یہی کپڑے دے دو۔ آخر تمہیں بھی تو پہناوے میں ہی ملے تھے۔“
”آپ ٹھیک کہتی ہیں آپا۔ میں آپ کے مشورے پر ہی عمل کروں گی۔“ ثمینہ بیگم صالحہ خاتون کی صلاح نہ مانتیں ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ انہوں نے سارے کپڑے سمیٹ کر رکھ دئیے اور صالحہ خاتون کی خاطر مدارت میں جٹ گئیں۔
”امی ایسا مت کریں پلیز! آپ نے اپنا نیک ارادہ صرف صالحہ خالہ کے کہنے پر ہی بدل دیا۔“ ملکہ نے صالحہ خاتون کے جاتے ہی ماں کو جا لیا۔
”تو اور کیا کروں؟ یہ کپڑے دیکھے ہیں تم نے۔ سب کتنے پرانے ہوگئے ہیں۔ ایسے کپڑے اب بھلا کون پہنتا ہے!“
”امی! جس وقت آپ کو یہ کپڑے ملے تھے اس وقت یہ پرانے نہیں تھے۔ آپ نے ہی انہیں اتنا سینت سینت کر رکھا کہ ان کا فیشن ہی چلا گیا۔ اس میں دینے والے کا کیا قصور؟“
”چپ کرو تم۔ صالحہ آپا نے بہترین رائے دی ہے۔ میں تو ان کپڑوں کو پہناوے میں ہی کسی نہ کسی کو دے دوں گی۔ کچھ پیسے ہی بچیں گے۔“
”امی! آپ یہ غلط کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، دوسروں کے لئے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرو۔“ ملکہ نے ماں کو روکنا چاہا۔
”تم اپنی صلاح اپنے پاس ہی رکھو۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔“ ثمینہ بیگم کو بیٹی کی بات کا کوئی جواب نہیں سوجھا تو اسے ڈانٹنے لگیں۔
”مَیں آپ کو صلاح دے کر بھلا ’صلاح خالہ‘ کے پیٹ پر لات کیسے مار سکتی ہوں۔ یہ تو ان کا کام ہے جس کے ذریعے وہ اپنی جھولی بھرتی ہیں۔“ ملکہ بھنا کر بولی اور باہر نکل گئی۔
”اللہ تعالیٰ میری ۲؍ التجا سن لے۔ یا تو ’صلاح خالہ‘ کی یادداشت گم کر دے تاکہ وہ کم از کم ہمارے گھر کا راستہ تو بھول ہی جائیں یا پھر انہیں ’فری صلاح‘ دینے کی بیماری سے نجات دلا دے۔“ وہ آسمان کو تکتے ہوئے باآواز بلند دعا کرنے لگی۔
”تمہاری دونوں ہی خواہشات پوری نہیں ہو سکتیں کیونکہ یادداشت کے معاملے میں تو صلاح خالہ سپر کمپیوٹر کو بھی پیچھے چھوڑ دیں....“ سلطان بولا۔
”اور وہ صلاح دینا بھی ویسے ہی نہیں چھوڑ سکتیں جیسے ہمارے ملک کے لیڈران حضرات اپنے اوٹ پٹانگ بیانات دینا نہیں چھوڑ سکتے۔“ شہریار نے ہنس کر سلطان کی بات اچک لی۔
”ویسے یہ تم سے کس نے کہا کہ وہ فری میں صلاح دیتی ہیں!“ رانی بھی بیچ میں کود پڑی ”وہ اپنی ہر صلاح کا بَڑھیا معاوضہ لے کر جاتی ہیں۔ کبھی لذیذ کھانا تو کبھی بہترین سوٹ اور بطور تحفہ جو گفٹ پیس لے کر جاتی ہیں سو الگ۔ مجھے تو نہیں لگتا کہ یہ اپنے گھر میں ایک وقت کا بھی کھانا کھاتی ہیں۔ سارا دن تو یہ کسی نہ کسی کے گھر کے دسترخوان کی رونق بڑھا رہی ہوتی ہیں۔“
”تمہاری یہ خواہش صرف تمہاری ہی نہیں نہ جانے کتنے ہی گھروں کی ہوگی!“ سلطان نے ہنس کر کہا۔ ”ہاں تو اللہ کسی کی تو سن لے۔“ ملکہ نے بہت دل سے دعا کی اور ان تینوں نے بھی بہت دل سے ’آمین‘ کہا۔
”تم لوگ صالحہ آپا سے اتنا چڑتے ہو نا جبکہ دیکھو میں نے انہی کے مشوروں پر عمل کرکے اس مہینے پورے تین ہزار روپے کی بچت کی ہے۔“ ثمینہ بیگم نے فخر سے کہا۔
”ہاں! ہمارا پیٹ کاٹ کاٹ کر۔“
”اور جان سلگا سلگا کر۔“
ملکہ کی ادھوری بات رانی نے جلدی سے پوری کر دی۔ لیکن آواز بڑبڑاہٹ کی حدود سے آگے نہیں نکل سکی۔
”شہریار! تم مجھے آج مبین بھائی کے یہاں چھوڑ دینا۔ تمہاری مامی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ انہیں دیکھنے جانا ہے۔“ ثمینہ بیگم نے شہریار سے کہا۔ ”امی! پلیز آپ کل چلی جائیے گا۔ آج میرا بہت ضروری ٹیسٹ ہے۔ اس لئے آج میں بھائی کے ساتھ جا رہا ہوں۔ یہ مجھے کالج ڈراپ کر دیں گے ورنہ بس سے بہت دیر ہو جائے گی۔“ شہریار کے کچھ کہنے سے پہلے ہی سلطان ملتجی انداز میں بولا۔ ”ارے میں کون سا اتنی موٹی ہوں کہ تم دونوں کے ساتھ نہیں بیٹھ پاؤں گی۔ شہریار تمہیں کالج ڈراپ کرنے کے بعد مجھے مبین بھائی کے یہاں چھوڑ دے گا۔“
”آپ کیا کہہ رہی ہیں امی! ایک بائیک پر تین تین سواریوں کی اجازت نہیں ہے۔ ہمارا چالان ہو جائے گا۔“ شہریار بھی گھبرا گیا۔
”ارے کچھ نہیں ہوتا۔ لاکھوں لوگ تین تو کیا چار چار سواریاں ایک بائیک پر لے کر چلتے ہیں۔ صالحہ آپا بتا رہی تھیں کہ وہ بھی اپنی بیٹی اور بیٹے کے ساتھ بائیک پر ہی اپنی بہن کے یہاں گئی تھیں۔ ان کا تو کوئی چالانن نہیں ہوا۔“ ثمینہ بیگم پر کوئی اثر نہیں ہوا جبکہ وہ لوگ بل کھا کر رہ گئے۔ ’’پھر صلاح خالہ....‘‘ رانی نے دانت کچکچائے۔
”امی! صالحہ خالہ کی بہن ان کے گھر سے صرف چار گلی چھوڑ کر گنجان علاقے میں رہتی ہیں۔ ان کے گھر کے راستے میں نہ تو کوئی چوراہا پڑتا ہے جہاں ٹریفک پولیس ہو اور نہ ہی انہیں ٹریفک جام جھیلنا پڑتا ہے۔ جبکہ مبین ماموں کا گھر یہاں سے ۱۲؍ کلومیٹر کی دوری پر ہے۔“ شہریار نے انہیں سمجھانا چاہا۔
”امی! چھوٹے شہروں میں تو ایک بائیک پر تین سواریاں ٹریفک قوانین سے بچ جاتی ہیں لیکن ہمارے میٹرو جیسے شہروں میں تو یہ ناممکن ہے۔ ویسے بھی امی ایک بائیک پر تین سواریاں حفاظتی نظریے سے بھی درست نہیں ہے۔“ سلطان نے بھی انہیں ان کے ارادے سے باز رکھنا چاہا۔
”تم لوگ بیکار میں بہانے مت بناؤ۔ اگر ماں کو ساتھ لے جانے میں شرم آرہی ہے تو بتاؤ۔ ارے میں تو خود ہی چلی جاؤں لیکن مبین بھائی کے گھر تک کا کرایہ ہی ڈھائی تین سو روپے ہے۔ اس پر سے اتنی بار سواریاں بدلنی پڑتی ہیں کہ دماغ خراب ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ دور پیدل بھی چلنا پڑتا ہے۔ مجھے تھکان ہوجاتی ہے اس لئے کہہ رہی ہوں۔“ ”امی! میں منع تھوڑی کر رہا ہوں۔ میں تو صرف کل کے لئے کہہ رہا ہوں....“ شہریار بےچارگی سے بولا۔
”کل مجھے صالحہ آپا کے ساتھ بازار جانا ہے۔ مَیں آج ہی جاؤں گی۔“ ثمینہ بیگم نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’اُف صلاح خالہ۔‘‘ وہ لوگ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئے۔
”امی! یہ سب آپ کی ضد کی وجہ سے ہوا ہے۔ ہم سب نے آپ کو کتنا سمجھایا تھا لیکن آپ پر تو صلاح خالہ کی صلاح کا جادو ایسا چڑھتا ہے کہ آپ کسی کی کوئی بات ہی نہیں سنتیں۔“ رانی نے اسپتال کے بیڈ پر پٹیوں میں جکڑے شہریار کو دیکھ کر روتے ہوئے کہا۔ ملکہ کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری تھے۔ وہی ہوا تھا جس کا انہیں ڈر تھا۔ ثمینہ بیگم ان کے لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی ان کے ساتھ بائیک پر چلی گئی تھیں۔ چوراہے پر ٹریفک پولیس کو دیکھ کر شہریار گھبرا گیا تھا اور بائیک بے قابو ہوگئی تھی۔ شہر یار کے ساتھ ساتھ سلطان کو بھی چوٹیں آئی تھیں۔ ثمینہ بیگم کو تو صرف ہلکی خراشیں ہی آئی تھیں۔ یہ تو ان تینوں کی قسمت اچھی تھی کہ کسی گاڑی نے انہیں کچل نہیں دیا ورنہ..... ٹریفک حوالدار نے بھی ایکسیڈنٹ ہونے کی وجہ سے فوراً تو انہیں کچھ نہیں کہا لیکن شہریار کے اسپتال میں داخل ہوتے ہی اس نے ان کا لمبا چوڑا چالان کر دیا۔ ایک طرف جہانگیر صاحب ٹریفک پولیس اور چالان کے چکر میں پھنسے ہوئے تھے تو دوسری طرف بیچارہ سلطان اپنی چوٹیں بھلائے ڈاکٹروں کے کیبن کے چکر لگا رہا تھا۔ بیچارے کا ٹیسٹ بھی چھوٹ گیا تھا۔
”شکر کریں امی کہ بھائی کو صرف اوپری زخم لگے ہیں۔ کوئی اندرونی چوٹ نہیں آئی۔ اور نہ ہی یہ میرا فائنل ٹیسٹ تھا۔ ورنہ میرے ساتھ ساتھ بھائی کی زندگی بھی....“ سلطان کا گلا بھرا گیا اس کی ادھوری بات بھی مکمل ہی تھی۔
”اللہ نہ کرے!“ ثمینہ بیگم کا دل دہل گیا۔ اپنے بیٹوں کی حالت ان سے دیکھی نہیں جا رہی تھی۔ اللہ کو شاید ان کی کوئی نیکی پسند آگئی تھی جو اس نے ان کی اور ان کے بیٹوں کی زندگی بخش دی تھی۔ یہ سب ان کی ضد کا نتیجہ تھا وہ سخت شرمندہ تھیں۔ رو رو کر ان کا برا حال تھا۔
”اللہ نے یہ سب نہیں کیا امی! یہ تو صلاح خالہ کی صلاح کا صلہ ہے۔“ ملکہ اور رانی سے ماں کی ندامت اور زیادہ نہیں دیکھی گئی۔ وہ انہیں شرمندگی کے احساس سے باہر نکالنے کے لئے ہلکے پھلکے انداز میں بولیں۔ شہریار کی سدھرتی ہوئی حالت نے سبھی کو تھوڑا ریلیکس کر دیا تھا۔ ”ویسے امی! صلاح خالہ کی صلاح پر عمل کرکے آپ نے کتنے روپیوں کی بچت کی تھی؟“ رانی نے دھیمے سے مسکرا کر تھوڑا شریر لہجے میں پوچھا۔
”تین ہزار کی۔ اور چار ہزار کا مَیں چالان بھر کر آرہا ہوں۔ ۳۰؍ ہزار کا اب تک کا اسپتال کا خرچ۔ اس پر تمہاری امی اور دونوں بچوں کی چوٹیں اور درد و تکلیف بالکل مفت۔“ جہانگیر صاحب نے بھی ان کے پیچھے سے اچانک اینٹری دیتے ہوئے رانی کے ہی لہجے میں کہا۔
ان سبھی کے چہروں پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی۔ ثمینہ بیگم خجل سی ہوگئیں۔ انہوں نے بیٹوں کی جان بچ جانے پر خدا کا شکر ادا کیا تھا اور یہ تہیہ کر لیا تھا کہ:
’’اب وہ صلاح.... اوہ! صالحہ خاتون کی کسی بھی صلاح پر کان نہیں دھریں گی۔‘‘