بہت سی تحریریں ایسی ہوتی ہیں جو دل کو چھو جاتی ہیں۔ حسب ِ اعلان آج سے قسط وار افسانہ ’’بہت بے آبرو ہو کر‘‘ شروع کیا جا رہا ہے جس کی مصنفہ، ہردوئی (یوپی) سے تعلق رکھنے والی، ایم اے (اُردو) سالِ دوم کی طالبہ الفت ریاض سندیلوی ہیں۔ انقلاب میں اس سے قبل کئی قسط وار افسانے شائع کئے جاچکے ہیں جنہیں قارئین نے توقع سے زیادہ پسند کیا۔ اُمید کہ اس سلسلے کو بھی خاص طور پر پسند کیا جائیگا۔ (مرتّبہ)
نومبر کا آخری ہفتہ چل رہا تھا یعنی لمبی لمبی تاریک راتوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ ساتھ ہی بن موسم برسات اور برفیلی ہوائیں بھی اپنا رنگ دکھا رہی تھی۔
وہ اسپتال کے پلنگ پر بیٹھی کھڑکی کے شیشے سے باہر کا منظر دیکھ رہی تھی۔ ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ ہلکی ہلکی بارش موسم کی دلکشی میں اضافہ کر رہی تھی۔ درختوں کے پتے وقفے وقفے سے جھومتے اور پھر رک جاتے۔ اس نے آہستہ سے کھڑکی کا ایک پٹ کھولا، تیز ہوا اس کے گالوں کو چھوتی ہوئی گزر گئی اور پانی کی پھوار سے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ڈائری کے صفحات بھیگنے لگے، اس نے جلدی سے کھڑکی بند کر دی اور ان زرد صفحات کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ کچھ مہینے پہلے جب وہ اپنے کمرے کی صفائی کر رہی تھی تو اسے ایک پرانے ٹرنک میں ایک جزدان ملا تھا۔ اِس میں کچھ دیگر کتابوں کے ساتھ ساتھ دو ڈائریاں بھی رکھی ہوئی تھیں، ان میں سے ایک ڈائری اس کی امی کی تھی جس میں انہوں نے اپنی شادی سے لے کر اس کی پیدائش تک کے تمام واقعات قلمبند کئے تھے۔ دوسری وہ تھی جو اس وقت اس کے ہاتھ میں تھی۔ درحقیقت یہ ڈائری نہیں تھی بلکہ فون نمبر لکھنے والی ایک پاکٹ سائز فون بک تھی جس میں فون نمبر تو نہیں تھے البتہ کچھ اہم تاریخیں درج تھیں۔ درمیان کے چند صفحات کو چھوڑ کر باقی تمام صفحے خالی پڑے تھے۔ اس نے اس صفحے کو کھولا جس پر بہت سی تاریخیں درج تھیں۔ انہی تاریخوں میں اس کی پیدائش کی تاریخ (۲۹؍ نومبر) بھی لکھی ہوئی تھی۔ اس نے نہ تو کبھی اپنی سالگرہ منائی تھی نہ ہی کسی نے اسے سالگرہ پر مبارکباد پیش کی یا تحفہ دیا تھا بلکہ کچھ روز پہلے تک تو اسے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کی پیدائش کا اصل دن کیا ہے جس چیز کا اسے ہمیشہ ملال رہا لیکن آج جبکہ وہ جانتی تھی کہ آج ہی اس کی سالگرہ ہے تو یہ ملال مزید گہرا ہوگیا۔
سرد آہ بھرتے ہوئے اس نے ایک نظر اپنے قریب ہی بیڈ پر لیٹی ہوئی اپنی ماں پر ڈالی۔ نحیف سا جسم، دھنسی ہوئی آنکھیں اور گردن کی ابھری ہوئی ہڈیوں کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ۸۰۔۸۵؍ سال کی دکھنے والی اس عورت نے زندگی کی ابھی صرف چالیس بہاریں ہی دیکھی ہیں۔ وقت کی بے رحم آندھیوں نے اس کا سارا حسن چھین کر عمر سے پہلے ہی اسے معمر بنادیا تھا....
’’کتنا اچھا ہوتا جو مَیں اس دنیا میں ہی نہ آئی ہوتی، ماں کی کوکھ میں میرا وجود ہی نہ پنپتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ تب شاید میری ماں کو اتنی تکلیف نہ اٹھانی پڑتی۔ میرے آنے سے ہی اس کی پر سکون زندگی میں تباہی آگئی تھی، میری پیدائش ہوتے ہی اس کا شوہر اس سے الگ ہوگیا اور میری وجہ سے ہی وہ کبھی دوسری شادی نہیں کرسکی۔ وہ مَیں ہی تھی جس کیلئے اس نے اپنی زندگی کے خوبصورت ترین سال اپنی جوانی کے دن، در در کی ٹھوکریں کھانے اور لوگوں کے کپڑے سلنے اور ان کے گھروں کا کام کاج کرنے میں ضائع کر دیئے۔ بہت منحوس ہو تم، بہت منحوس۔‘‘
وہ آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ دل ہی دل میں اپنے وجود پر لعنت بھیج رہی تھی۔ وہ آج شاید اسی طرح خود کو کوستی رہتی اگر بیپ (Beep) کی آواز نے اس کی سوچوں میں خلل نہ ڈالا ہوتا۔ اس نے پاس رکھے ہوئے موبائل کو اٹھا کر دیکھا، ’’ اس وقت ای میل؟ رات کے ایک بجے ای میل کس نے کی ہوگی؟‘‘ اس نے فوراً میل کھول کر دیکھا، لکھا تھا: ’’السلام علیکم، امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گی، حالانکہ میرا دل یہ ماننے کو تیار نہیں ہے، میرا دل کہتا ہے کہ آپ ضرور کسی مشکل میں ہیں۔ ابھی جب میں یہ میل لکھ رہا ہوں تو میری عقل مجھ سے کہہ رہی ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مجھے آپ کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملے گا۔ لیکن دل نہ جانے کیوں مجھے بار بار اکساتا ہے کہ آپ کا حال پوچھوں.... مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے یہ قدم کیوں اٹھا یا لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر آپ کسی بات کے سبب پریشان ہیں یا کسی مشکل میں ہیں تو مجھ سے کہہ سکتی ہیں۔ دعا کرتا ہوں کہ آپ ہمیشہ خوش رہیں۔شکریہ، آپ کا خیر خواہ، ابن آدم! ‘‘
یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں تھا جب اسے اس طرح کی میل آئی تھی۔ اس سے پہلے بھی نہ جانے کتنی دفعہ اس کو اس نام سے ایسے کئی برقی پیغامات آچکے تھے جس کا اس نے کبھی بھی جواب نہیں دیا تھا۔ پہلی بات تو اسے ان انجان خیر خواہوں کی دل سوز باتوں میں ذرا بھی دلچسپی نہیں تھی اور دوسری یہ کہ وہ اپنی زندگی میں اس قدر الجھی ہوئی تھی کہ اس کے پاس ایسے پیغامات کا جواب دینے کا وقت نہیں تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ ایک دو بار جواب نہ ملنے سے خود بخود میل آنا بند ہو جائیں گے مگر دو تین ماہ سے مسلسل یہ سلسلہ جاری تھا۔ اب وہ اس سلسلے کو ختم کر دینا چاہتی تھی سو اس روز اس نے پہلی اور آخری بار میل کا جواب لکھا اور فوراً بعد اپنی آئی ڈی ڈلیٹ کر دی۔ اس نے لکھا: ’’وعلیکم السلام، مجھے نہیں معلوم کہ آپ کون ہیں اور نہ ہی مَیں جاننا چاہتی ہوں، میں کیسی ہوں، کس حال میں ہوں اس سے آپ کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے، مَیں بہت منحوس ہوں اتنی کہ آج اپنی سالگرہ والے دن اپنی ماں کو موت زندگی سے لڑتا ہوا دیکھ رہی ہوں، سو براہِ کرم میرے لئے پریشان ہونا چھوڑ دیجئے، اسی میں آپ کی بھلائی ہے۔ خدا حافظ!‘‘
آج کا موسم بے حد خوشگوار تھا۔ پچھلی رات کی تیز بارش اور برفیلی ہواؤں نے ٹھنڈ میں اضافہ کر دیا تھا۔ جب وہ صبح اٹھی تھی اس وقت بھی بادل چھائے ہوئے تھے لیکن اس نے اپنا ارادہ نہیں بدلا۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ تیار ہوگئی اور معمول کے مطابق وقت سے پہلے ہی آفس پہنچ گئی۔ ابھی وہاں اس کے اور چھوٹو کے علاوہ تیسرا کوئی بھی نہیں تھا۔ چھوٹو سے چائے کا کہہ کر وہ سیدھا اپنے کیبن میں چلی گئی۔ چونکہ آج اسے ایک بہت اہم آرٹیکل کو مکمل کرنا تھا سو فوراً اپنا لیپ ٹاپ کھولا اور مکمل توجہ کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ اس کا خیال تھا کہ اگلے ایک گھنٹے میں کام ہو جائیگا۔ ابھی اس نے چند سطریں ہی ٹائپ کی ہوں گی کہ نازمین تقریباً بھاگتے ہوئے اس کے کیبن میں آدھمکی۔ اس کا سانس پھول رہا تھا اور وہ بہت پریشان نظر آرہی تھی،’’تمہیں کچھ معلوم ہوا سمیرا؟‘‘ بغیر دعا سلام اس نے آتے ہی یہ سوال کر دیا۔
’’جب آپ بتائیں گی ہی نہیں محترمہ تو معلوم کیسے ہوگا؟‘‘ سمیرا نے ایک لمبا سانس لیتے ہوئے بڑے اطمینان سے کہا۔
’’ارے وہ جو لکھتی تھی کیا نام تھا اس کا ہاں بنت ِحوا۔ ہاں اس کا ناول نہیں تھا....‘‘ ابھی یہ جملہ ادھورا ہی تھا کہ سمیرا زور زور سے ہنسنے لگی۔ اس کو سو فیصد یقین تھا کہ ضرور بالضرور اسی ناول کی ہیروئن کے ساتھ پھر کوئی سانحہ پیش آیا ہو گا جس کو نازمین ان دنوں بڑے چاؤ سے پڑھ رہی تھی اور جس کی ہیروئن سے اس کو دلی رغبت ہوگئی تھی۔ اس کو کچھ بھی ہوتا تو وہ رونے لگ جاتی تھی۔ سمیرا نے محسوس کیا کہ نازمین کو اس کا ہنسنا ناگوار گزرا ہے۔ اس نے اپنی ہنسی روکی اور پوری توجہ کے ساتھ پوچھا جو اس کو ہنستا دیکھ بالکل خاموش ہوگئی تھی، ’’ارے نازمین بتاؤ نا کیا ہوا ہے، پھر سے کچھ ہوا کیا تمہاری ہیروئن کے ساتھ؟‘‘
’’اس کے ساتھ کیا ہوا یہ تو پتا ہی نہیں چل سکا مگر بنت ِ حوا کے ساتھ ضرور کچھ ہوا ہے۔‘‘
’’خیریت تو.... ایسا کیوں کہہ رہی ہو تم؟‘‘
’’ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں.... اس کے ساتھ ضرور کچھ برا ہوا ہے تبھی اس نے ناول کو نامکمل چھوڑ دیا۔ اب وہ آگے نہیں لکھے گی۔‘‘ نازمین نے اداس چہرے کے ساتھ جواب دیا۔ ’’سچ بتاؤ....‘‘ اس کی اس بات پر سمیرا بھی چونک پڑی تھی۔ ’’مجھے لگا تم کو معلوم ہوا....‘‘
’’نہیں یار مجھے کیوں معلوم ہوگا، تم کو تو پتہ ہی ہے کہ مجھے ایسی باتوں سے دلچسپی نہیں ہے۔‘‘
’’ویسے تم تو کہہ رہی تھیں بہت اچھا ناول ہے۔ لوگ دیوانے ہو رہے ہیں۔ تو پھر ایک بات بتاؤ کہ یہ اچانک اخبار نے اس کی اشاعت کیوں روک دی؟‘‘
’’وہی تو بات ہے۔ اشاعت اخبار والوں نے روکی ہے نہ ہی کسی اور نے بلکہ خود بنت ِحوا نے آئندہ کی قسطوں کو لکھنے اور شائع کروانے سے منع کر دیا ہے اور اس کیلئے معذرت بھی کی ہے۔‘‘ ’’ارے! تب تو تمہارا بڑا نقصان ہوگیا؟ اب تک کی ساری محنت ضائع ہو گئی....‘‘ اب کے چونکنے کی باری سمیرا کی تھی۔
’’وہ چھوڑو، مَیں تو یہ سوچ رہی ہوں کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ عین وقت پر ادھورا چھوڑ دیا....‘‘
’’ممم.... یہ بات تو واقعی قابل غور ہے !‘‘
’’ مجھے تو بڑی فکر ہو رہی ہے جب سے مجھے یہ پتہ چلا۔ اب پتہ نہیں اس بے چاری کے ساتھ کیا ہوا ہو گا؟ اب وہ کہاں جائے گی؟‘‘
’’ارے اپنے گھر میں رہے گی اور کہاں جائے گی اور ضروری تو نہیں کہ کچھ ہوا ہی ہو، ویسے ایک بات کہوں۔‘‘
’’ہاں، کہو!‘‘
’’یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اس کے آگے وہ سمجھ ہی نہ پا رہی ہو کہ کیا لکھے!‘‘
’’اوفوہ سمیرا.... مَیں بنت حوا کی نہیں، آمنہ کی بات کررہی ہوں۔‘‘ ’’اب یہ کون ہے؟‘‘ اس نے شانے اچکاتے ہوئے پوچھا۔
’’تمہیں بتایا تو تھا۔ وہی آمنہ جس نے....‘‘
’’اچھا اچھا، یاد آگیا، تمہاری مظلوم ہیروئن۔ بس بھی کرو یار نازمین اب کام پر بھی دھیان دو۔ مجھے یہ آرٹیکل اگلے ایک گھنٹے میں دینا ہے۔ آؤ میری مدد کرو۔‘‘ سمیرا نے اپنے لیپ ٹاپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’جانے دو کوئی فائدہ نہیں تم سے بات کرنے کا۔ اور مجھ سے تو آج بالکل کام نہیں ہوگا۔ مَیں ’سِک لیو‘ لے رہی ہوں۔ تم خود ہی کر لو یہ۔ تم ویسے بھی پتھر دل ہو۔‘‘ اس نے مدد تو نہیں کی الٹا سنا دیا۔
’’مَیں پتھر دل نہیں، حقیقت پسند ہوں بس۔ ‘‘ سمیرا نے جان بوجھ کر تیز آواز میں کہا تھا تاکہ کیبن سے باہر جاتی ہوئی نازمین سن سکے اور وہی ہوا۔ اتنا سنتے ہی وہ جاتے جاتے رک گئی اور اس کی طرف مڑ کر کہا، ’’ناولوں میں بھی حقیقت ہی ہوتی ہے سمیرا۔‘‘
’’بالکل نہیں، یہ ساری کی ساری کہانیاں اور یہ ناول سب فرضی اور من گھڑت ہوتے ہیں۔ آج کل کے قلم کار لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کیلئے اس طرح کی حساس کہانیاں لکھتے ہیں۔‘‘
’’ایسا بالکل بھی نہیں ہے، یہ فرضی کہانیاں بھی حقیقت ہی سے ماخوذ ہوتی ہیں اور ان کے لکھے جانے کا مقصد لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانا نہیں بلکہ حقیقت سے پردہ اٹھانا ہوتا ہے۔‘‘
’’نازمین اب تم جذباتی ہو رہی ہو۔ بحث کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، ایسی خبریں میری نظروں سے روز گزرتی ہیں، اب ان کو دل سے لگا کر تو نہیں بیٹھ سکتی نا۔‘‘
’’مَیں تم کو کل اخبار کے تراشے لا کر دوں گی، ان کو پڑھنا پھر بتانا۔‘‘ وہ اسے چیلنج کرکے جاچکی تھی۔
’’ اوکے!‘‘ سمیرا نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
سمیرا ایک تعلیم یافتہ اور خود مختار لڑکی تھی۔ وہ اپنی زندگی کے ہر موڑ پر نا کامی کو مات دیتی ہوئی آئی تھی۔ ایک پُر امید اور حوصلہ مند لڑکی ہونے کے سبب وہ محنت مشقت سے بھی پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی، یہی وجہ تھی کہ وہ اب تک زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی حاصل کرتی آرہی تھی۔ ابتدائی تعلیم اپنے شہر میں مکمل کرنے کے بعد اس نے اپنی خواہش سے لندن جا کر جرنلزم اور ماس کمیونی کیشن میں بیچلر اور ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی تھی اور سخت محنت اور جدو جہد سے اب اس نے صحافت کی دنیا میں شہرت حاصل کر لی تھی۔ اس کے پیشے کا اس کی شخصیت سے گہرا تعلق تھا۔ وہ ایک حقیقت پسند لڑکی تھی، خیالی اور تصوراتی چیزوں کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اس کو بات بات پر مظلومیت اور لاچاری کا اظہار کرنے والی خواتین بالکل پسند نہیں تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ اگر انسان چاہے تو اپنی تقدیر بدلنے پر بھی قادر ہے۔
سمیرا نے اپنی زندگی میں کسی بھی چیز کو اپنے لئے باعث غم نہیں بننے دیا تھا۔ حالانکہ وہ ماں جیسی عظیم نعمت سے محروم تھی لیکن اس غم کو بھی اس نے کبھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اس کے نزدیک مایوسی و نا اُمیدی، یاس و حسرت کامیابی کی راہ میں حائل ہونیوالے وہ روڑے ہیں جو انسان کو مسلسل پستی کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اکثر لوگ اس کو اس کے منہ پر ہی پتھر دل کہہ دیتے تھے مگر اس سے اس کی طبیعت پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ابھی بھی نازمین کی تمام باتوں کو بھول کر وہ آرٹیکل لکھنے میں مگن تھی۔
لمبے قد، دمکتی رنگت، مخمور آنکھیں اور بھرے بدن والا فاخر آج سیاہ رنگ کی ٹی شرٹ اور سفید ٹراؤزر میں بالوں کو جیل کی مدد سے سلیقے سے سیٹ کئے ہوئے بے حد اسمارٹ لگ رہا تھا۔ آفس میں لڑکیوں کی نگاہیں نہ چاہتے ہوئے بھی گھوم پھر کر فاخر پر ہی ٹھہر رہی تھیں۔ دراصل آج احمد انڈسٹریز کی ایک اہم میٹنگ تھی جس میں بیرون ملک سے کئی بڑے بزنس مین آنے والے تھے۔ اب چونکہ اس کے باس یعنی احمد صاحب کے نزدیک فاخر سے زیادہ قابل اعتبار اور وفادار کوئی دوسرا نہیں تھا اس لئے ان سے ملاقات کے لئے انہوں نے پورے آفس میں اسی کا انتخاب کیا تھا۔
’’جی سَر.... جی مَیں اب پہنچ چکا ہوں، جی فائل مجھے مل گئی ہے۔ جی آپ بالکل فکر نہ کریں مَیں نے اس کو اچھی طرح لاک کر دیا ہے، سَر آپ بے فکر رہیں میں ۱۰؍ منٹ کے اندر اندر آفس پہنچ جاؤں گا۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے موبائل ٹراؤزر کی جیب میں رکھا اور تیز قدموں سے سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔ ابھی دو ہی سیڑھیاں اترا ہوگا کہ اس کے قدم پھر رک گئے، ’’ایک مرتبہ پھر چیک کر لیتا ہوں، حرج ہی کیا ہے؟‘‘ اس نے دل ہی دل میں سوچا اور ٹراؤزر کی جیب سے چابی نکال کر دروازے کے لاک میں لگا دی۔
احمد وِلا کی دوسری منزل پر سب سے کونے میں بنا ہوا وہ چھوٹا سا تاریک کمرہ احمد انڈسٹریز کے مالک احمد صاحب کا اسٹڈی روم تھا۔ جہاں جانے کی اجازت ان کی اکلوتی بیٹی کو بھی نہیں تھی لیکن آج میٹنگ کیلئے کچھ بہت اہم کاغذات فوراً درکار ہونے پر انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی مجبورا ًیہ قدم اٹھانا پڑا۔ چونکہ اس وقت ان کا آفس میں رہنا بھی ضروری تھا سو فاخر کو وہاں بھیجنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ دروازہ کھلتے ہی وہ فوراً اندر گیا اور وقت ضائع کئے بغیر اُس الماری کے سامنے پہنچا جس کو ٹھیک سے بند کرنے کی اس کے باس بار بار تاکید کررہے تھے۔
اس نے ایک دوسری چابی نکال کر الماری میں لگا کر چیک کرنا چاہا کہ ٹھیک طرح سے لاک ہے یا نہیں۔ چابی لگانے سے لاک کھل گیا۔ وہ دوبارہ بند کرنے ہی والا تھا کہ اوپر کی دراز میں رکھی ہوئی ایک کتاب اس کے ہاتھ سے سرکتے ہوئے نیچے جا گری اور ایک لفافہ نکل کر باہر آ گیا۔ اس نے لفافہ کھول کر دیکھا تو اندر ایک خط تھا جس کی زرد رنگت اس بات کی دلیل تھی کہ وہ آج یا کل کا نہیں کافی پراناہے۔ اسے تجسس تو ہوا لیکن اس کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ اس کو پڑھتا۔ ’’لیکن نہ پڑھا تو یہ تجسس بڑھتا ہی جائے گا اور بے چینی کی شکل اختیار کر لے گا اور پھر دوبارہ یہاں آنے کا موقع بھی تو نہیں ملے گا۔‘‘ وہ کتاب اور کاغذ ہاتھ میں پکڑے ہوئے خود سے ہی باتیں کئے جا رہا تھا۔ پھر اس نے گردن گھما کر چاروں طرف دیکھا جہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ اس نے لفافہ ٹراؤزر کی جیب میں ڈالا اور کتاب واپس اپنی جگہ پر رکھ کر الماری بند کر دی۔ ایک لمبا سانس لیتے ہوئے فوراً وہاں سے باہر نکلا۔ جیسے ہی وہ دروازہ بند کرکے گھوما وہ اس کے بالکل سامنے کھڑی تھی۔ نیلی جینز اور گھٹنوں تک آتی سفید شرٹ پر بالوں کو اونچی پونی کی شکل میں باندھے وہ بے حد پُر اعتماد لگ رہی تھی۔
ایک دوسرے کو اس طرح اچانک آمنے سامنے دیکھ کر دونوں ہی ششدر رہ گئے تھے۔
’’آپ اس وقت یہاں کیا کر رہی ہیں؟‘‘ فاخر نے اپنی گھبراہٹ چھپاتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ میرا گھر ہے جناب! مَیں جب چاہوں یہاں آجا سکتی ہوں۔ یہ سوال آپ کو مجھ سے نہیں بلکہ مجھے آپ سے کرنا چاہئے کہ آپ یہاں اس وقت ڈیڈی کی اسٹڈی روم میں کیا کر رہے ہیں....‘‘ اس نے فاخر پر نظریں جماتے ہوئے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
سمیرا کے اس سوال پر وہ مزید گھبرا گیا تھا۔
چند سیکنڈز کے بعد خود کو سنبھالتے ہوئے کہا، ’’جی مَیں.... مَیں تو یہاں چوری کے ارادے سے آیا تھا مگر افسوس کہ اتنے عالیشان گھر میں مجھے چرانے لائق کچھ ملا ہی نہیں۔ پتہ ہے کیوں....؟‘‘
’’واٹ؟‘‘ اس نے اچنبھے سے شانے اچکائے۔
’’جی.... پتا ہے کیوں؟ کیونکہ جو اس گھر میں سب سے زیادہ قیمتی ہے، جب مَیں آیا تو وہ گھر میں موجود ہی نہیں تھا۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ وہاں سے ایک دو تین ہوگیا۔
سمیرا کو ایک منٹ بھی نہیں لگا تھا یہ سمجھنے میں کہ فاخر کا اشارہ کہیں اور نہیں بلکہ خود اس کی طرف تھا۔ فاخر نے پہلی مرتبہ اس طرح کی گفتگو صرف اور صرف اپنی جان بچانے کے لئے کی تھی اور سمیرا نے اسے کچھ اور ہی سمجھ لیا تھا۔ اس کے لبوں پر ایک گہری مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔
فاخر سمیرا کے والد یعنی احمد صاحب کی کمپنی میں گزشتہ چار برسوں سے منیجر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔
احد صاحب اور فاخر کے ابو جی کے پہلے سے ہی کافی اچھے تعلقات تھے پھر جب وہ تعلیم سے فارغ ہوا تو کہیں اور جانے کے بجائے اپنے والد کے کہنے پر احمد صاحب کی کمپنی میں لگ گیا۔ وہ اس کی جفاکش طبیعت اور وفاداری دیکھ کر اس سے کافی متاثر ہوئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے اپنی بیٹی کے لئے لڑکا تلاش کرنا شروع کیا تو ان کی نظر انتخاب سب سے پہلے فاخر پر گئی۔ وہ اس رشتے سے کافی مطمئن تھے مگر اس سے پہلے انہوں نے ان دونوں کی مرضی جاننا بھی ضروری سمجھا۔ پہلے وہ سمیرا کی مرضی جاننا چاہتے تھے۔ عموماً یہ کام مائیں کرتی ہیں اب چونکہ سمیرا کی زندگی میں ان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں تھا اس لئے اب تک کے تمام فرائض کی طرح یہ فرض بھی انہیں خود ہی ادا کرنا تھا۔
پچھلی رات ہی کھانا کھانے کے بعد انہوں سمیرا کو اپنے کمرے میں بلایا تھا۔ وہ بہت پیار سے اس سے گویا ہوئے، ’’سمیرا بیٹا مَیں نے اس وقت تم کو یہاں اس لئے بلایا ہے کیونکہ بیٹا مَیں کافی دنوں سے تم سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘ ’’جی ڈیڈی! پوچھیں کیا پوچھنا چاہتے ہیں آپ۔‘‘ اس نے بڑے ادب سے سامنے پڑے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو بیٹا! دنیا کا کوئی بھی باپ کبھی بھی یہ نہیں چاہتا کہ وہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو خود سے جدا کرے لیکن ہمارے معاشرے میں روز اول سے ہی ایک رسم چلی آرہی ہے کہ ایک وقت آتا ہے جب ہم باپ دل پر پتھر رکھ کر اپنی جان سے زیادہ عزیز بیٹیوں کو دوسروں کے حوالے کرتے ہیں جسے عرف عام میں شادی کہتے ہیں۔ بیٹا اب وہ وقت قریب ہی ہے جب مجھے بھی بحیثیت ایک باپ اپنا آخری فرض ادا کرنے کے لئے اس امتحان سے گزرنا ہوگا۔ حالانکہ یہ لمحہ ہمارے لئے کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے یہ بات صرف ایک باپ ہی جان سکتا ہے۔ سمیرا بیٹا جب تمہاری امی کا انتقال ہوا تو اس وقت تم صرف دو سال کی تھی تب سے لے کر آج تک میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ تم کو کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہو اس لئے مَیں نے ہمیشہ ہر چیز میں تمہاری خوشی چاہی جو کہ دراصل میری خوشی ہے اور مَیں اب یہی چاہتا ہوں کہ تم ہمیشہ خوش رہو اور اسی لئے مَیں نے تم کو یہاں بلایا تا کہ اس سلسلے میں اگر تمہارے دل میں کوئی بات ہو جو شاید تم مجھ سے کہنے میں جھجک محسوس کر رہی ہو وہ مَیں جان سکوں.... بیٹا تم اپنے دل کی بات بلا تکلف اپنے باپ سے کہہ سکتی ہو....‘‘
’’ڈیڈی میرے دل میں ایسی کوئی بات ہے ہی نہیں جو مَیں نے آپ سے نہ کہی ہو۔ مَیں آج تک اپنی ہر بات آپ سے کہتی آرہی ہوں، اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو مَیں اسے بھی آپ سے ضرور ساجھا کرتی۔‘‘ وہ بغیر کسی جھجک براہ راست کہہ رہی تھی۔ اس کی طرف سے یہ جواب سنتے ہی انہوں نے اپنی بات رکھ دی۔
’’بیٹا فاخر تم کو کیسا لگتا ہے؟ اگر مَیں فاخر سے تمہاری شادی کروں تو تمہیں اس پر کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا؟‘‘
’’مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا ڈیڈی۔ میرے حق میں کیا گیا آپ کا ہر فیصلہ میری خوشی کا باعث بنتا ہے سو جو آپ کو بہتر لگے کریں۔‘‘
اس کی اس بات پر وہ بیڈ سے اٹھ کر اس کے صوفے کے پاس گئے اور اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’جیتی رہو میری بچی! مجھے تم سے یہی امید تھی۔ مَیں فاخر سے اس کی مرضی پوچھ کر پھر ا س کے والدین سے بات کروں گا۔ مجھے امید ہے وہ انکار نہیں کرے گا۔‘‘
شام کے سائے ڈھل چکے تھے سمیرا لان میں اکیلی بیٹھی احمد صاحب کا انتظار کر رہی تھی۔ ہر اتوار کی طرح اس اتوار بھی اس کا ارادہ احمد صاحب کے ساتھ کہیں باہر جانے کا تھا مگر انہیں اپنے کسی دوست کی عیادت کے لئے اسپتال جانا تھا اس لئے وہ عصر پڑھ کر اُدھر ہی سے اسپتال چلے گئے۔ وہ کافی دیر سے بیٹھے بیٹھے بور ہو رہی تھی تو اسے اس ناول کا خیال آیا۔ وہ اندر گئی اور اخبار کی ان کٹگز کو اٹھا لائی جو نازمین نے اسے دو روز پہلے دی تھی۔ نازمین نے انہیں با قاعدہ ایک فائل کی طرح ترتیب وار سنبھال کر رکھا تھا۔ اس نے پہلی قسط اٹھائی اور پڑھنا شروع کر دیا:
گاؤں کے بیچوں بیچ بنی وہ عالیشان حویلی پرانے زمانے کے بادشاہوں کے محل سے کم نہیں تھی۔ قدرتی سے لے کر مصنوعی تک ہر طرح کی آرائش و زیبائش سے مزین یہ خوبصورت حویلی چودھری ظفر احمد کے پرکھوں کی زندگی کا بیش قیمتی سرمایہ تھا۔ جس کو بنانے اور سجانے میں انہوں نے اپنی زندگیاں صرف کر دی تھیں اور اب یہ حویلی ظفر احمد کے حصے میں تھی۔ دولت کی اس قدر ریل پیل کے باوجود ظفر احمد ابھی مزید دولت کمانا چاہتے تھے اور اس کے لئے اب وہ شہر میں اپنا بہت بڑا کاروبار شروع کرنے والے تھے۔ اپنے اکلوتے بیٹے کو چار سال ملک سے باہر اپنے سے دور رکھ کر اسے جو تعلیم دلوائی تھی اس کے پیچھے بھی ان کا یہی مقصد تھا۔ غضنفر کو ایم بی اے کی ڈگری دلوا کر وہ پہلی چال میں تو کامیاب ہوگئے تھے اب وہ دوسری چال چلنے والے تھے۔ اب وہ غضنفر کی شادی اپنی رضاعی بیوہ بہن نصرت کی اکلوتی لڑکی آمنہ سے صرف اس لئے کروانا چاہتے تھے تا کہ ان کے باپ شہر میں پڑی جو زمین نصرت کے نام کر گئے ہیں وہ کسی طرح ان کو مل جائے۔ وہ بہت اچھے سے جانتے تھے کہ اس غریب کے پاس اپنی بیٹی کو جہیز میں دینے کے لئے اس زمین کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
انہوں نے کچھ دیر پہلے ہی نصرت کو بلوا کر اسے اپنے ارادے سے آگاہ کیا تھا۔
’’چودھری صاحب! یہ آپ صحیح نہیں کر رہے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ غضنفر اس رشتے کو کبھی بھی دل سے قبول نہیں کرے گا۔‘‘ ’’بیگم تم خاموش رہو، مَیں نے جو فیصلہ کیا ہے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے اور یہ سب کچھ مَیں غضنفر کیلئے ہی کر رہا ہوں۔‘‘
’’ہرگز نہیں، یہ سب کچھ آپ اپنے فائدے کے لئے کر رہے ہیں، مَیں اس خاندان کی مفاد پرست طبیعت سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اگر آپ کو غضنفر کی فکر ہوتی تو آپ آمنہ کو نہیں بلکہ بشریٰ کو اس گھر کی بہو بناتے۔‘‘
’’تم اور تمہارا بیٹا دونوں ناسمجھ ہیں۔ تم لوگ وہ نہیں سوچ سکتے جو مَیں سوچ رہا ہوں اور تمہیں علم نہیں کہ ایک یتیم لڑکی کو اپنے گھر لانے سے اللہ کتنا خوش ہوتا ہے۔‘‘
’’مجھے بہت اچھے سے علم ہے کہ یہ سب کس کی خوشی کی خاطر ہو رہا ہے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ آپ کی چند ایکڑ زمین کی لالچ ہمیں ہماری اولاد سے جدا نہ کروا دے....‘‘ وہ اب بھی سب کچھ روک دینا چاہتی تھیں۔
’’بس اس کے آگے ایک لفظ اور نہیں.... غضنفر کو کیسے راضی کرنا ہے یہ مَیں اچھی طرح سے جانتا ہوں اور ہاں جب تک شادی نہیں ہوجاتی تم اپنی زبان بند رکھو گی ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔‘‘ چودھری ظفر احمد نے ہمیشہ کی طرح اپنا فرمان صادر کر دیا تھا۔
بیگم صاحبہ جو حقیقت جانتی تھیں اور اس حویلی کے ہر ایک فرد کی نس نس سے واقف تھیں وہ ایک سرد آہ بھر کر رہ گئیں۔ لاچاری اور بے بسی کا احساس جو تھا سو تھا مگر اس سے کہیں زیادہ خوف اس بات کا تھا کہ اگر باپ اور بیٹے میں تکرار ہوگئی تو کیا ہوگا۔ انہیں پورا یقین تھا کہ غضنفر آمنہ کے لئے کبھی ’ہاں‘ نہیں کرے گا اور دوسری طرف چودھری صاحب جن کو کبھی ’ناں‘ سننے کی عادت نہیں تھی۔ اور بشریٰ کا سوچ کر تو ان کا دل ہول رہا تھا۔ اگر غضنفر زور زبردستی سے راضی ہو بھی گیا تو بشریٰ کا کیا ہوگا؟ وہ تو جیتے جی مر جائے گی.... کیا سوچے گی وہ کہ خالہ نے اپنی یتیم بھانجی کے ساتھ اتنا گندا مذاق کیا۔ بیگم صاحبہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوئی جارہی تھیں جبکہ ظفر احمد بے حد اطمینان کے ساتھ پلنگ سے اٹھ کر کمرے کے باہر جا چکے تھے۔ جاتے وقت ان کی آنکھوں میں کوئی شیطانی چال تھی۔ گویا کہ وہ ترپ کا پتہ پھینکنے والے تھے۔
سورج غروب ہونے والا تھا۔ آمنہ معمول کے مطابق چھت کی سیڑھیوں پر خاموش بیٹھی بہت غور سے اس ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھ رہی تھی۔ تبھی نصرت چلّاتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی، ’’آمنہ.... آمنہ.... کہاں گئی تو بیٹا؟‘‘
’’ کیا ہوا اماں....؟‘‘