• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ : وقت بہترین جواب ہوتا ہے

Updated: June 25, 2024, 12:11 PM IST | Hajra Noor Muhammad | Mumbai

اقبال صاحب اور ان کی اہلیہ نسرین اپنی تینوں بیٹیوں ثناء، فوزیہ اور نور کے ہمراہ دو کمروں کے کرایے کے مکان میں منتقل ہوگئے تھے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اقبال صاحب اور ان کی اہلیہ نسرین اپنی تینوں بیٹیوں ثناء، فوزیہ اور نور کے ہمراہ دو کمروں کے کرایے کے مکان میں منتقل ہوگئے تھے۔ اس سے پہلے وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ آبائی گھر میں رہتے تھے لیکن وقت کے ساتھ خاندان بڑا ہوا تو سب نے باہمی مشورے سے مکان بیچنے کا فیصلہ کیا۔ بڑے بھائیوں نے تو نیا گھر خرید لیا لیکن اقبال صاحب نے دکان خریدنے کو ترجیح دی۔
 کافی عرصے دکان پر کام کرنے کی وجہ سے انہیں کام کا اچھا تجربہ ہوگیا تھا۔ ان کی رائے تھی کہ معقول آمدنی ہو تو مکان بھی بن جاتا ہے۔ رات کے کھانے کے بعد ان کی اہلیہ نے بچیوں کے اسکول کا مسئلہ اٹھایا کیونکہ پہلے والا اسکول اب کافی دور ہوگیا تھا۔ ’’مَیں کل ہی بچیوں کے لئے اچھا سا اسکول ڈھونڈتا ہوں۔ ان کا وقت بالکل ضائع نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ اقبال صاحب بولے۔
 تھوڑی دیر میں اقبال صاحب کے بھائی اور بھابھی ان سے ملنے آگئے۔ باتوں باتوں میں بچیوں کے اسکول کا ذکر بھی آیا۔
 ’’ارے بھئی بچیوں کیلئے اچھے اسکول کی کیا ضرورت ہے بھلا! کسی بھی عام سے اسکول میں داخلہ کرا دو پڑھ لکھ کر افسر تھوڑی بن جائیں گی۔ شادی کرکے دوسرے گھر ہی تو جانا ہے۔ اگر کوئی بیٹا ہوتا تو بات سمجھ میں بھی آتی.... کم از کم کاروبار میں تمہارا ہاتھ تو بٹاتا۔ لڑکیوں پر اتنا پیسہ خرچ کرنا تو سراسر بے وقوفی ہے۔‘‘ بھائی نے انتہائی لاپروائی سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
 ’’بھائی صاحب! یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟‘‘ اقبال صاحب حیرانی سے بولے۔
 ’’ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں تمہارے بھائی۔ بیٹیوں کو تو ویسے بھی پرائے گھر جانا ہوتا ہے تو کیا ضرورت ہے ان پر اتنے پیسے خرچ کرنے کی۔ اب دیکھو نا ہمارے ماشاءاللہ چار بیٹے ہیں۔ تھوڑا بہت پڑھ لکھ لیں گے تو اپنے والد کے ساتھ مل کر کاروبار سنبھال لیں گے اور ایسے بھی آج کل تعلیم حاصل کرنے کا کیا فائدہ.... ملازمت تو ملتی نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ پیسہ بچا کر رکھیں۔‘‘ بھابھی نے تو اپنی دانست میں بڑی دور اندیشی کی بات کی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: افسانہ : روٹھتی صدی

بچیوں کی ماں سے رہا نہ گیا اور وہ بھی بول پڑیں، ’’بھابھی اچھی تعلیم تو لڑکے اور لڑکیوں، دونوں کیلئے ضروری ہے۔ اگر اچھی تعلیم ہوگی تو وہ کاروبار ہی میں نہیں معاشرے میں بھی کامیاب ہوں گے۔‘‘ ’’بھابھی آج کل یہی بچے ملازمت کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں کیا فائدہ ایسی تعلیم کا جس سے پیٹ بھی نہ بھر سکے؟‘‘
 ’’لیکن مَیں بچیوں کو اچھی تعلیم دلوانے کے حق میں ہوں اور اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔‘‘ اقبال صاحب نے دو ٹوک جواب دیا۔
 ’’جیسی تمہاری مرضی اقبال صاحب! ہم تو جتنا سمجھا سکتے تھے تمہیں ہم نے سمجھا دیا۔ اب تم جانو تمہارا کام جانے۔‘‘ بھائی صاحب نے بحث ختم کرتے ہوئے کہا۔
 ان لوگوں کے جانے کے بعد اقبال صاحب کی اہلیہ ان سے شکایت کرنے لگیں، ’’آخر آپ کے گھر والے بچیوں کی تعلیم کے اتنے خلاف کیوں ہیں؟ کیا ملتا ہے انہیں ایسی باتیں کرکے.... مجھے تو غصہ آرہا ہے ان کی سوچ پر....‘‘
 ’’بیگم تم کیوں پریشان ہوتی ہو.... ان باتوں کو نظرانداز کر دیا کرو۔ کل جب یہ بچیاں پڑھ لکھ کر ہمارا فخر بنیں گی تو یہی لوگ ان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکیں گے! وقت بہترین جواب ہوتا ہے تم بس صبر کرو۔‘‘
 وقت گزرتا رہا اقبال صاحب کی بچیاں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھتی رہیں۔ فوزیہ کو ادب سے خاص لگاؤ تھا اس نے کم عمری میں ہی انگریزی شاعری میں نام بنا لیا، ساتھ ساتھ میڈیکل کی تعلیم بھی جاری رکھی اور پھر فوج میں ایک قابل ڈاکٹر بن گئی۔ ثناء بھی پڑھ لکھ کر بینک کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوگئی۔ نور، کو وکالت میں دلچسپی تھی تو اقبال صاحب نے اس کا داخلہ شہر کے بہترین لاء کالج میں کرادیا جہاں وہ تھرڈ ایئر کی طالبہ تھی۔
 کل تک جن بچیوں کی تعلیم کی مخالفت کی جا رہی تھی آج وہ اپنے خاندان کا فخر بن گئی تھیں۔ ہر کوئی اقبال صاحب اور ان کی بیگم کی اعلیٰ تربیت کی تعریف کرتا تھا۔ پھر ایک دن اقبال صاحب کے بھائی اور بھابھی ان سے ملنے آئیں۔ وہ کچھ پریشان لگ رہے تھے۔
 ’’اقبال تم نے اور نسرین نے جو کہا وہ کرکے دکھا دیا۔ ہماری لاکھ مخالفت کے باوجود تم نے بچیوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آج میں تمہارے اور ثناء کے پاس ایک خاص کام سے آیا ہوں۔‘‘
 ’’بھائی صاحب! ہم نے بس اپنا فرض ادا کیا۔ آپ کہئے ہم سے جو  ہوسکا ضرور کریں گے، ان شاء اللہ!‘‘
 اتنی دیر میں ثناء بھی چائے لے کر آگئی۔
 ’’اصل میں تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ آج کل کاروبار کے حالات کچھ ٹھیک نہیں۔‘‘ بھائی صاحب نے کہنا شروع کیا، ’’اب بچوں کی بھی شادی ہوگئی ہے۔ ایسے میں ایک دکان سے گزارہ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ میں چاہ رہا تھا کہ ثناء بیٹی اپنے بھائیوں کو کہیں ملازمت پر لگوا دے۔ ماشاء اللہ ہماری بیٹی اتنے بڑے عہدے پر کام کر رہی ہے اور پھر اس کے تعلقات بھی ہیں۔‘‘ بھائی صاحب نے بڑی لجاحت سے بات مکمل کی۔
 ’’وہ تو ٹھیک ہے تایا ابو....‘‘ ثناء کہنے لگی، ’’مگر آپ کے بچوں نے تو تعلیم مکمل ہی نہیں کی صرف میٹرک کرکے چھوڑ دیا۔ اب ایسے میں اچھی نوکری ملنا تو مشکل ہے لیکن آپ فکر نہ کریں۔ مَیں کوشش کرتی ہوں ان شاء اللہ سب بہتر ہو جائے گا۔‘‘ ثناء نے تایا ابو کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
 اقبال صاحب کی بھابھی کچھ شرمندہ سی ہو رہی تھیں، ’’ویسے ہم نے اپنے بچوں کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔‘‘ وہ کہنے لگیں، ’’تعلیم ادھوری چھوڑا کر ہم نے انہیں کاروبار میں لگا دیا۔ اگر وہ بھی تعلیم جاری رکھتے تو آج کچھ بن جاتے۔ یہ تو صرف تم اور نسرین ہی تھے جو ہر مشکل برداشت کرکے لیکن بچیوں کی تعلیم کا سلسلہ رکنے نہیں دیا۔ تعلیم کا چراغ تم دونوں نے روشن کیا ہے۔ ہم اب اسے کبھی بجھنے نہیں دیں گے۔‘‘ بھابھی کی اس بات پر سبھی خوشی سے مسکرانے لگے۔
 اقبال صاحب نے مسکراتے ہوئے اپنی بیگم کی جانب دیکھا جو وقت کے اس جواب سے مطمئن نظر آرہی تھیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK