• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ: بی بی منزل

Updated: October 17, 2024, 2:28 PM IST | Muniba Zulfiqar Ali | Mumbai

’’اب عینی میری بات غور سے سنو، تم نے کیونکر سوچا کہ وہ مشفق، ہمدرد ہوں گی، ہماری اماں بی کو دیکھو، تمہارے والدین کو دیکھو وہ ہیں۔ کرتے ہیں ہم سے محبت، وہ ہیں ہمدرد، وہ ہمارے حق میں دعا بھی کرتے ہیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

اُس کے گھر کے سامنے اگلی گلی میں پہلا گھر بڑا مشہور تھا ’’بی بی منزل‘‘ کوئی بیگم تھی جن سے دعا کروانے صبح سے شام تک خواتین کی قطاریں رہتی۔ عجیب و غریب حلیہ بنائے عورتیں گود میں بچہ لئے تو کوئی شوہر کے ساتھ آتی اپنے وقت کا انتظار کرتی۔ نورالعین راستے پر آتے جاتے، بالکونی میں کپڑا پھیلاتی انہیں دیکھتی رہتی۔ وہ ضعیف العتقاد لوگوں میں نہیں تھی مگر اکثر وہ اس بھیڑ کو دیکھ کر سوچتی ضرور تھی کہ کیا واقعی یہ بڑی بی کی دعا میں اتنا اثر ہے کہ لوگ باربار آتے ہیں؟ اس نے فاروق سے کبھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کیونکہ وہاں سے گزرتے بارہا اس بھیڑ کو دیکھتے ہوئے اس کے چہرے پر پھیلی ہلکی سی مسکراہٹ سے وہ اندازہ لگا چکی تھی کہ اُس کا شوہر بالکل سنجیدہ نہیں لیتا یہ دعا کرنے والی بی بی کو.... ایک دن تجسس، یا ہلکے سے کسی یقین نے نورالعین کو اس دہلیز پر پہنچا دیا۔ وہ دوپہر کا وقت تھا فاروق کے آنے کا اندیشہ نہ تھا اماں بی بھی سوئی ہوئی تھی۔ جلدی جلدی چادر اوڑھے وہ نکل کر سڑک پار اُس ’مقدس مقام‘ پر جا پہنچی۔ برآمدے میں سب سے پہلے ایک خاتون جو شاید بڑی بی کی کوئی رشتہ دار یا خادمہ تھی اس نے حکم دیا کہ ’’وقت آپ نے کم لینا ہے بڑی بی زیادہ لمبی باتیں پسند نہیں کرتی۔‘‘
اندر وسیع ہال میں داخل ہوتے ہی سفید لباس میں تخت پر بیٹھی ایک خاتون پر نظر پڑی جو تسبیح ہاتھوں میں لئے، آنکھیں موندے گاؤ تکیے پر نیم دراز تھی۔ خواتین مؤدب سی ان کے سامنے فرش پر بیٹھی ہوئی تھی۔ باری باری ایک ملازمہ ان میں سے ایک کو اشارہ کرتی خاتون آگے آکر بیٹھتی اپنا مسئلہ مسکینیت سے بتاتی ہاتھ چومتی اور نذرانے کی رقم پاس پڑی چندہ پیٹی جیسے ڈبے میں ڈالتی اور سر جھکائے نکل جاتی۔ وہ تعجب سے یہ منظر دیکھ رہی تھی ایک رعونت تھی جو اس بڑی بی بی کی آنکھوں، رویوں اور انداز میں بھری ہوئی تھی۔
دل کچھ عجیب سا ہوا وہ دھیرے سے اٹھتی باہر نکل آئی جیسے اسے سانس آیا۔ ایسا کیا تھا جو اندر تھا وسیع سے ہال میں جو بہت ’تنگ‘ تھا کسی کا دل یا کسی کی نظر کسی کا ایمان تو کسی کا عقیدہ....
شام تک دل مضحمل ہی رہا۔ وہ پریشان حال چہرے، وہ لہجے کی لجاجت، وہ بزرگ خاتون کی رعونت اور وہ پریشانیوں کے قصے ’’بچہ نہیں ہو رہا‘‘، ’’گھر میں رنجش ہے‘‘، ’’شوہر کماتا نہیں‘‘، ’’دل گھبراتا ہے‘‘، ’’بیٹے بہو سنتے نہیں‘‘، ’’اولاد راہ سے بھٹک گئی‘‘ وغیرہ وغیرہ....
رات عشائیے کے دوران فاروق کو اندازہ ہوگیا نور کی خاموشی کا، سو پوچھ بیٹھے کیا ہوا کس سوچ میں گم ہو؟ پہلے تو نور جزبز تھی کہ کہیں یہ ذکر پر چڑ نہ جائیں کہ اتنا پڑھ کر ضائع ہی کیا تم نے وہاں پہنچ گئی۔ پھر کوئی تھا بھی نہیں جس سے سب شیئر کرتی وہی تو رفیق تھا، دوست تھا، ہم سفر تھا وہ اس کی بات سمجھتا تھا اور سمجھاتا بھی تھا۔
’’مَیں سامنے والی ’’بی بی منزل‘‘ میں گئی تھی۔‘‘
فاروق نے حیرت سے اسے دیکھا، ’’کیوں؟‘‘
’’یونہی مجھے تجسس تھا، کیا واقعی ان کی دعا قبول ہوتی ہے مسائل حل ہوتے ہیں۔‘‘ فاروق کی آنکھوں میں کچھ حیرت در آئی پورا پورا اس کی طرف گھوم کر اب وہ بیٹھ گئے تھے، ’’دعا تو ہر مانگنے والے کی وہ سنتا ہے، قبول کرتا ہے نورالعین!‘‘
’’جی! جانتی ہوں مگر ان کے پاس جو آتے ہیں ان کے مسائل حل ہوتے ہیں، یہی سوچ کر گئی تھی اور پھر فاروق، وہ بزرگ خاتون ہیں، عبادت گزار بھی ہیں، اللہ کے قریب ہوتے ہیں نا ایسے لوگ؟‘‘
’’ہممم، پھر کیا؟ کیسی تھی وہ بی بی، ہوا مسئلہ حل؟‘‘ ’’نہیں فاروق! وہاں تو الگ ہی ماحول تھا، عجیب معاملہ ہے۔‘‘ فاروق کے لب پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی، ’’عینی! تو تمہیں کیا توقع تھی؟‘‘
’’مجھے لگا تھا ہوں گی کوئی ’’پہنچی ہوئی شخصیت‘‘ پر شفیق، ہمدرد سی، مگر وہ تو مجھے بہت مغرور لگی اور جیسے وہ اپنی عبادت پر نازاں بھی تھی۔‘‘
’’اب عینی میری بات غور سے سنو، تم نے کیونکر سوچا کہ وہ مشفق، ہمدرد ہوں گی، ہماری اماں بی کو دیکھو، تمہارے والدین کو دیکھو وہ ہیں۔ کرتے ہیں ہم سے محبت، وہ ہیں ہمدرد، وہ ہمارے حق میں دعا بھی کرتے ہیں۔ اللہ نے ان کی دعا کو ہمارے حق میں قبول کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے، ان کی دعاؤں میں اتنا اثر بھی رکھا ہے کہ عرش کانپ اٹھے مگر میں، تم یا مزید ہمارے سماج میں افراد اپنے اردگرد موجود بزرگوں کو اتنا معتبر جانتے ہیں، اتنا یقین رکھتے ہیں کہ ان کی دعا ہمارے مسائل حل کر دے گی۔ پتہ ہے کیوں؟ کیونکہ وہ لوگ دکھاوا نہیں کرتے عبادت کا، اپنے رتبے کا، جبکہ ان کا رتبہ واقعی بلند ہے۔ ہمارے والدین اگر ان کے بھی والدین حیات ہوں تو کیا کہنے، یہ بزرگ ہوتے ہیں یہ واقعی ہمارے خیر خواہ ہوتے ہیں، مگر ہم ان کے سامنے مسائل بتانا وقت کا زیاں سمجھتے ہیں کہ یہ کیا کر لیں گے، وہ دعا کریں گے عینی! یہ ماں باپ، دادی دادا، نانی نانا حتیٰ کہ جو ہمارے پڑوس میں رہنے والے رحیم چاچا سے بھی ہم اتنی عقیدت و محبت سے ملیں نا تو مجھے یقین ہے کہ ان کے دل سے نکلی دعا سے ہمارے کام سنور سکتے ہیں۔ تم سمجھ رہی ہو میری بات؟‘‘ عینی انہماک سے اسے دیکھتی جیسے چونک اٹھی، ’’ہاں! فاروق سمجھ رہی ہوں۔‘‘
’’جی! تو نور ایک بات جان لو کہ دعا نا دل سے دی جاتی ہے، کی جاتی ہے اور اسے اعمال سے لیا جاتا ہے اخلاق سے کمایا جاتا ہے ہمیں سب ریڈی میڈ خریدنے کی عادت ہوگئی ہے۔ کسی اجنبی کی چوکھٹ پر جا کر کچھ پیسے دے کر ہم چاہتے ہیں ہمارا سب مسئلہ حل ہوجائے، مسائل کا تعلق اعمال سے ہے عینی! اپنے اعمال سدھارو کام سدھارو، توکل کرو دین کا ٹھیکدار کسی کو نہ بناؤ خود دعا کرو، اپنے اخلاق بلند کرو تاکہ دوسرے بھی تمہارے حق میں دعا کریں۔ یہ بابا، بی بی، بزرگ یہ سب ہمارے اپنے گھر میں ہوتے ہیں ان کی قدر کرنی چاہئے۔ اگر وسیلہ ہی بنانا ہے تو انہیں بناؤ ان کا حق بنتا ہے۔ ان کا مرتبہ بلند کیا گیا ہے ہمارے لئے یہ ہے واقعی ’’پہنچے ہوئے‘‘ ایک معتبر مرتبے پر فائز۔ یہ عورتیں جو یہاں عاجزی و حلاوت سے لجاجت سے اپنا مسئلہ بتا رہی ہیں کیا ان کا یہی رویہ ہوگا گھر کے بزرگوں کے ساتھ جبکہ مجھے یقین ہے ان میں سے اکثر کے گھروں میں بزرگ ہوں گے۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں فاروق! ہم اپنے بزرگوں کی قدر نہیں کرتے، ان کی بے لوث محبتوں اور دعاؤں کو نظر انداز کرتے ہیں اور باہر ایسے لوگ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘
’’ہممم.... جانتی ہو آج تم نے کیا کیا؟‘‘ ’’کیا....؟‘‘
فاروق کے آواز میں شوخی در آئی، ’’تم نے گھر میں وائے فائے ہوتے ہوئے رابطے کیلئے پڑوس کے پبلک نیٹ ورک کو استعمال کرنے کی کوشش کی، وہ تو اچھا ہوا سسٹم سے کنیکٹ کرنے سے پہلے آگئی ورنہ پتا ہے نا پبلک نیٹ ورک سے سسٹم ہیک ہونے کا پورا پورا امکان ہوتا ہے۔ تمہارا سسٹم ہیک ہو جاتا تو میرا کیا ہوتا!‘‘
’’ہاہاہا، ویسے یہ گھر میں وائے فائے مطلب....‘‘
’’بے وقوف اماں بی ہیں، تمہارے والدین ہیں ہم ابھی تہی داماں نہیں ہوئے ہیں۔ بہت سے ہاتھ ہیں ہمارے حق میں دعا گو، اور تم پہنچی وہ بی بی کے پاس....‘‘
’’جی فاروق! آپ درست کہتے ہیں!‘‘ عینی نے تائید کی تھی۔
’’جی عینی! میں درست ہی کہتا ہوں!‘‘ فاروق نے بے نیازی سے کالر جھاڑا۔ ’’ہر بات نہیں...!‘‘ اس نے تصحیح ضروری سمجھی۔
’’اچھا جی....!‘‘ وہ مسکرا دیا۔
’’ہاں جی....!‘‘ وہ اب مطمئن تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK