اف.... کیوں آخر آج یہ سب اتنا بیزار کن لگ رہا ہے.... برآمدے میں بچھی کھری چارپائیاں، تین کمروں کا چھوٹا سا گھر.... آخر سولہ سال کی عمر تک تو میں یہیں رہی تھی پھر چچی جان نے اپنے پاس دلّی بلوا لیا تھا۔
EPAPER
Updated: December 19, 2024, 12:49 PM IST | Azra Naqvi | Mumbai
اف.... کیوں آخر آج یہ سب اتنا بیزار کن لگ رہا ہے.... برآمدے میں بچھی کھری چارپائیاں، تین کمروں کا چھوٹا سا گھر.... آخر سولہ سال کی عمر تک تو میں یہیں رہی تھی پھر چچی جان نے اپنے پاس دلّی بلوا لیا تھا۔
اُف! یہ گلیاں اپنی پر پیچ کیوں ہیں۔ نالیوں میں اتنی سڑن کیوں ہے۔ گلی میں آتے جاتے لوگوں کے چہرے دھواں دھواں کیوں ہیں۔ یہ جس رکشا پر بیٹھی ہوں اتنا بوسیدہ اور خستہ حال کیوں ہے.... عفت خود ہی خود الجھی جا رہی تھی۔
رکشا گھر کے دروازے پر رکا، آنگن کے دروازے کا پردہ خاصا بدرنگ ہوچکا تھا۔ عفت اندر داخل ہوئی۔ اماں بر آمدے میں چارپائی پر بیٹھی ترکاری کاٹ رہی تھیں، سلیمہ چھوٹے سے باورچی خانے میں بیٹھی بُرادے کے انگیٹھی پر روٹیاں پکا رہی تھی۔ ابّا کمرے کی چق ہٹاکر باہر آئے پپو، چنو اور نشونے آکر گھیر لیا، ’’باجی آگئیں۔ عفت باجی آ گئیں۔‘‘ عفت کا جی امڈ آیا.... ابّا کتنے کمزور ہوگئے ہیں.... عجیب بےرونقی سی چھائی ہوئی تھی گھر پر.... نہ جانے یہ بجلی کی والٹیج کم آنے کی وجہ سے تھی یا خود عفت کے دل میں زیرو واٹ کا بلب جل رہا تھا۔
شام کے چھ بجے تھے.... اس نے آنکھیں بند کرکے سوچا.... اس وقت چچی جان کے گھر دہلی میں کیا ہو رہا ہوگا؟ بشیر نے لان پر بیڈکی کرسیاں لاکر رکھی ہوں گی، سامنے میز پر چائے کی ٹرے سجی ہوگی۔ گرین لیبل چائے کی خوشبو اس کے نتھنوں میں بھر گئی۔ ’’باجی یہ لیجئے چائے۔‘‘ چھوٹی بہن نشو چائے کی پیالی لئے کھڑی تھی۔ چائے کے اوپر پتلی بالائی کی جھلی سی جم گئی تھی۔ عفت کا جی متلا گیا۔ بہرحال چائے تو حلق سے اتار نا ہی تھی۔
سلیمہ، نشو، پپو اور چنو سب اس کے پاس آکر جمع ہوگئے تھے۔ عفت نے چچی جان کے بھیجے ہوئے چھوٹے موٹے تحفے نکال کر دئیے۔ پپو اور چنو کے لئے بستے اور سلیمہ اور نشو کے لئے شلوار سوٹ کا کپڑا اور پھر کئی پرانی مگر اچھی حالت کی ساڑیاں اور سوئٹر جن کا فیشن اب ختم ہوگیا تھا وہ بھی بھجوائی تھیں چچی جان نے۔
رات کو عفت، سلیمہ اور نشو ایک کمرے میں سوئیں دوسرے کمرے میں بڑے بھیا چنو ا ور پپو۔ ابّا ہمیشہ کی طرح اپنے کمرے میں، اور رہیں اماں.... وہ تو جاڑا، گرمی، برسات سدا برآمدے میں ہی سوتی تھیں۔ عفت کو اپنا دلّی والا چھوٹا سا کمرہ بے حد یاد آ رہا تھا۔ صاف ستھرا نواڑ کا پلنگ، چھوٹی سی ڈریسنگ ٹیبل، پڑھنے کی میز، پردے، اٹیچ باتھ روم بس نہیں تھا اس کے کمرے میں جیسا چچی جان کے کمرے میں تھا۔
اف.... کیوں آخر آج یہ سب اتنا بیزار کن لگ رہا ہے.... برآمدے میں بچھی کھری چارپائیاں، تین کمروں کا چھوٹا سا گھر.... آخر سولہ سال کی عمر تک تو میں یہیں رہی تھی پھر چچی جان نے اپنے پاس دلّی بلوا لیا تھا۔
چچی جان ابّا کے ماموں زاد بھائی کی بیوی تھیں۔ شوکت چچا اور صدیقہ چچی کا ایک ہی بیٹا تھا احمر جو کئی سال ہوئے اپنے بیوی بچوں سمیت امریکہ جا بسا تھا۔ شوکت چچا دلّی میں بہت بڑے سرکاری عہدے پر تھے، سرکاری بنگلہ ملا ہوا تھا۔ صدیقہ چچی نے اپنے اکیلے پن کی وجہ سے عفت کو اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ دلّی کا لج میں بی اے میں داخلہ کرا دیا تھا۔ تین سال ہوگئے ان کے پاس رہتے ہوئے۔ چچی جان کا سایہ بن گئی تھی وہ۔ اس گھر میں عفت کے فرائض کی اک لمبی لسٹ تھی۔ ہر جگہ چچی جان کے ساتھ جانا، ان کے کپڑوں کی دیکھ بھال کرنا، فون اٹینڈ کرنا، مہمانوں کی خاطر مدارت، ڈرائنگ روم، اسٹڈی روم اور چچی جان کے بیڈ روم کی جھاڑ پونچھ۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ اسکے ذمّے ہزاروں کام تھے۔ ہر گرمیوں کی چھٹی میں وہ کم سے کم ایک ماہ کے لئے ابّا اور اماں کے پاس جا کر رہتی تھی۔ باقی ایک مہینہ گرمی کی چھٹیوں کا صدیقہ چچی کے ساتھ پہاڑوں پر گزرتا تھا۔ مسوری، شملہ، نینی تال، کہاں کہاں وہ چچی جان کے ساتھ نہیں گھومی۔ عفت کے بغیر تو صدیقہ چچی کے جیسے ہاتھ پاؤں کٹ جاتے تھے۔ کون ان کی پیکنگ کرائے گا، سامان کھلوائے گا، اگر عفت نہ ہو تو کون یہ سب کام کرے گا۔
چھٹیوں میں جب عفت گھر آتی تو ابّا کے کمرے کو ڈرائنگ روم کی شکل دینے کی ہر ممکن کوشش کرتی۔ چار پرانی آرام کرسیاں تھیں ان پر رنگین کشن سجاتی، ابّا کی بوسیدہ کتابوں کی الماری پر پردہ ڈال دیا جاتا تھا، مگر کو نے میں رکھی میز پر دوائی کی لاتعداد شیشیاں، پرانے رجسٹر اور الم غلم سامان جو ابّا کی قیمتی پونجی تھی، سارا کام بگاڑ دیتی تھی۔
اس بار تو عفت کو گھر اور بھی خستہ حال لگ رہا تھا حالانکہ اب تو بھیا بھی ملازم ہوگئے ہیں.... ان کی تنخواہ بھی آنے لگی ہے لیکن گھر کا نقشہ وہ ہی ہے.... عفت کا جی چاہ رہا تھا کہ خوب روئے مگر کیوں؟ وہ تو سب خواب ہے.... مسوری، نینی تال، پنڈارا روڈ کا بنگلہ، کلچر ڈ ماحو ل اور پھر چچی جان کے بیٹے اور بہو کی وہ چمکتی ہوئی تصویریں جو امریکہ سے آتی تھیں۔ اونچے درختوں سے گھرا ہوا خوبصورت کا ٹیج نما مکان، میاں بیوی اور دو بچے تصویر میں ہوتے ہیں سب کے چہرے یوں چمکتے ہوئے لگتے ہیں جیسے ان تصویروں کا چمکیلا چکنا کاغذ۔
مگر عفت تم نے کیوں خو دکو ان تصویروں میں فٹ کر لیا تھا.... زندگی رومینٹک افسانہ نہیں ہے جو خواتین ڈائجسٹ میں چھپتا ہے.... کیوں بلاوجہ خواب بننے لگتی ہو.... صرف یہ ہی تھا نا؟ چچی جان کا بھانجا انور امریکہ سے آیا تھا۔ تمہارے ہاتھ کے پکے ہوئے کھانوں کی تعریف میں کہہ دیا، ’’خالہ جان! عفت کی جس سے شادی ہوگی وہ تو بہت خوش قسمت آدمی ہوگا۔ ‘‘ تو عفت بی آپ چڑھ گئیں کھمبے پر.... اور دوڑ دوڑ کر اپنے سگھڑاپے کا مظاہرہ کرنے لگیں۔
ایک دن انور نے کہہ دیا، ’’عفت کی جیسی قد کاٹھ کے لئے تو امریکہ میں لڑکیاں ڈائٹنگ کرکے مری جاتی ہیں۔‘‘
تو عفت جہاں تم نے کیوں سمجھ لیا کہ وہ تم پر عاشق ہی ہوگیا ہے۔ نہ جانے یہ جملہ کہتے وقت انور کے دماغ میں اپنی کون سی امریکن گرل فرینڈ ہوگی جو دُبلا ہونے کیلئے ڈائٹنگ کر رہی ہوگی.... شکر ہے کہ انور کی شادی میں تمہیں چچی جان کے ساتھ لکھنؤ نہیں جانا پڑ ا تھا، امتحانوں کی وجہ سے صاف بچ گئیں تھیں.... اور پھر جب انور اپنی نئی نویلی، خوبصورت، انگریزی بولتی ہوئی ڈاکٹر دلہن کے ساتھ دلّی آیا تو تب سمجھ میں آیا تھاکہ عفت بی! انور کی دلہن ثانیہ ریٹائیر ڈ آئی اے ایس آفیسر کی بیٹی ہے، کو نوینٹ اسکول کی پڑھی ہوئی ہے اور اٹک اٹک کر اردو بولتی ہے.... اور پھر تم چچی جان کے بھانجے اور بھانج بہو کی خاطر میں مسکراہٹیں چہرے پر چپکائے بچھی بچھی جا رہی تھیں۔
انور کی دلہن ثانیہ نے کہا تھا، ’’عفت! آپ تو اتنا اچھا کھانا پکاتی ہیں۔ ہمیں تو کچھ نہیں آتا.... ہماری ممی نے سکھا یا ہی نہیں۔ انور آپ کے کھانے کی بڑے فین ہیں۔‘‘
ہاں عفت بیگم.... تم کیوں بھول جاتی ہو کہ تم اشفاق حسین صاحب کی بیٹی ہو جو سہارنپور میں پرائمری اسکول کے ٹیچر ہیں اور ساتھ ساتھ تھوڑی بہت حکمت بھی کر لیتے ہیں.... کیوں دیکھتی ہو بار با ر رنگیں چمکیلی تصویریں۔
دوسرے دن عفت کی آنکھ حسب معمول سویرے ہی کھل گئی۔ روز صبح ۶؍ بجے چچی جان کو بیڈ ٹی دینی ہوتی ہے، شوکت چچا کے نہانے کے لئے گیزر آن کرنا ہوتا ہے.... وہ آنکھیں ملتی ہوئی کمرے سے باہر آئی تو دیکھا اماں باورچی خانے میں بیٹھی چائے بنا رہی تھیں، ابّا قریب ہی بچھی چارپائی پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ ان کی پشت عفت کی طرف تھی، وہ کہہ رہے تھے، ’’ارے بھئی صدیقہ بھابھی کو خدا خوش رکھے، انہوں نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا۔‘‘
اماں ہمیشہ کی کم گو تھیں ’’ہوں‘‘ کرکے رہ گئیں۔
عفت الجھ سی گئی یہ کون کسی کھچڑی پک رہی ہے اور کون سا مسئلہ ہے جو چچی جان نے حل کر دیا ہے۔ ناشتے کے بعد وہ حسب معمول گھر کی صفائی میں جٹ گئی، ابّا کے کمرے کی باری پہلے آئی۔ ان کی میز سے کتابیں سرکائیں توایک خط گر پڑا۔ صدیقہ چچی کی لکھائی تھی اس نے خط کھول کر پڑھنا شروع کر دیا: بھائی صاحب، آداب! امید ہے آپ اور بہن خیریت سے ہوں گے، عفت بیٹی تو آپ کی ہے لیکن کچھ حق میرا بھی بنتا ہے حق کیوں فرض کہنا چاہئے۔ بات یہ ہے بھائی صاحب کہ عفت کے لئے مَیں نے یہاں دلّی میں ایک لڑکا دیکھا ہے۔ کارپوریشن کے اسکول میں ٹیچر ہے۔ خاندان بھی کوئی لمبا چوڑا نہیں ہے باپ کا انتقال ہوچکا ہے، بڑی بہن اپنے گھر کی ہیں، ایک چھوٹا بھائی کالج میں ہے اور ایک چھوٹی بہن ہے جو ماں کے ساتھ رہتی ہے۔ یہیں ذاکر نگر میں رہتے ہیں، سیدھے سادھے لوگ ہیں مگر شریف۔ لڑکے کا نام بھی شریف ہے۔ جہیز کی بھی کوئی مانگ نہیں ہے۔ اگر آپ کی رائے ہو تو شادی یہیں دلّی میں ہوجائیگی۔
بچوں کو دعائیں، آپ کی بھابھی صدیقہ
عفت نے آنکھیں بند کرکے کرسی سے ٹیک لگالی.... ہاں! ہاں! نام کے بھی شریف ہیں.... دیکھا ہے مَیں نے.... اکثر آتے تھے چچا جان کے پاس کسی سفارش کے سلسلے میں.... عفت نے ٹھنڈی سانس بھری.... ذاکر نگر اور پنڈارا روڈ میں بہت فاصلہ ہے.... تم کر بھی کیا لوگی عفت بی.... ابّا کی گرتی ہوئی صحت، چھوٹے چھوٹے بہن بھائی، چچی جان کے احسانات.... جہیز کی کوئی مانگ نہیں.... کیا امر مانع ہوسکتا ہے اس شادی میں... بس عفت بی زمین پر رہو۔
شریف نے شادی کی تصویریں جلدی سے دھلوا کر فریم کروا کر بہت ذوق و شوق سے کمرے میں سجا دی تھیں۔ بڑے بڑے لوگ آئے تھے شادی میں منسٹر، وائس چانسلر، سیاسی شخصیات.... بڑا رعب پڑا تھا شریف کے گھر والوں پر۔ چچی جان نے جہیز بھی ٹھیک ٹھاک دے دیا تھا۔
شادی کے ہنگامے نمٹاکر ابّا، اماں اور سب لوگ جب سہارنپور جانے لگے تو چچی جان آزردہ ہوگئیں، بولیں، ’’بھابھی جان! عفت کی شادی کے بعد سے تو گھر کاٹ کھانے کو دوڑےگا، اور مَیں تو بالکل ہی بے دست و پا ہو جاؤں گی، سلیمہ نے ماشاء اللہ ہائی اسکول کر لیا ہے اسے میرے پاس چھوڑ دیجئے۔‘‘
عفت کی آواز سے سب چونک پڑے: ’’نہیں! بالکل نہیں! سلیمہ کو ابّا اور اماں کے پاس ہی رہنے دیجئے۔‘‘ عفت کو خود اپنے لہجے کی کاٹ پر حیرت ہو رہی تھی۔