• Wed, 30 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ: کرسٹل ہاؤس

Updated: October 30, 2024, 11:59 AM IST | Nilofar Iqbal | Mumbai

اس پورے علاقے میں ان کا گھر بھی دوسرے تمام گھروں کی نسبت بہت جاذب نظر اور باقی گھروں کی نسبت ممتاز نظر آتا تھا۔ یہ گھر اٹالین طرز تعمیرپر بنایا گیا تھا۔ باہر سے اسینڈ اسٹون سے مزین تھا اور کھڑکیاں کچھ ایسے بنی تھیں کہ اندر سل پر رکھی خوبصورت سجاوٹی اشیاء باہر دکھائی دیتی تھیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

اس جوڑے میں کوئی خاص بات تھی، جو انہیں پہلی نظر دیکھنے میں دوسروں سے کچھ ہٹ کر اور منفرد بناتی تھی.... وہ انسانوں سے زیادہ پرندوں کا جوڑا نظر آتے تھے۔ دونوں کی جسامت ایک جیسی تھی۔ گورے رنگ، اکہرے بدن، کچھ کچھ آگے کو جھکے ہوئے، چہرے نوکیلے اور ناکیں پرندوں کی چونچوں کی طرح سامنے سے جھکی ہوئیں۔ جیسے وہ فرسٹ کزن ہوں۔ ہو بھی سکتے تھے اور نہیں بھی۔ ممکن ہے کہ ہمہ وقت ساتھ رہنے اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک دوسرے سے مشابہت اختیار کر گئے ہوں۔ یہ جوڑا اس لئے بھی سب کی نظروں میں آتا تھا کہ روزانہ ٹھیک شام کے پانچ بجے وہ اکٹھے بلاناغہ واک پر نکلتے تھے۔ عورت عموماً سفید ٹراؤزر اور پھولدار شرٹ میں ہوتی۔ آدمی بلیک ٹریک سوٹ اور سفید جوگرز میں ہوتا۔ دونوں کے ہاتھ میں چھڑی ہوئی۔ وہ چھڑی کو ٹیکتے نہیں تھے بس چلتے وقت آگے پیچھے جھلاتے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ وہ دونوں اپنے ساتھ چھڑی کیوں رکھتے تھے۔ ممکن ہے ماضی میں کبھی ان پر کسی کتے نے حملہ کر دیا ہو یا جنگلی سوروں کا جتھا کبھی ان کا رستہ کا ٹ گیا ہو اور وہ حفظ ماتقدم کے طور پر چھڑی ساتھ رکھتے ہوں۔ بہرحال یہ ان کا اسٹائل تھا۔ سلور گرے بال اور چھڑی ان پر خوب جچتے تھے۔
اس پورے علاقے میں ان کا گھر بھی دوسرے تمام گھروں کی نسبت بہت جاذب نظر اور باقی گھروں کی نسبت ممتاز نظر آتا تھا۔ یہ گھر اٹالین طرز تعمیرپر بنایا گیا تھا۔ باہر سے اسینڈ اسٹون سے مزین تھا اور کھڑکیاں کچھ ایسے بنی تھیں کہ اندر سل پر رکھی خوبصورت سجاوٹی اشیاء باہر دکھائی دیتی تھیں۔ اس گھر کی چھت پر سبز کھپریل تھی۔ ایک جانب گھر کی پوری سائیڈ آئیوی  سے ڈھکی تھی جسے نفاست سے کھڑکیوں کے چاروں اطراف سے تراش دیا گیا۔ لان کے گرد دیوار بھی آئیوی سے ڈھکی تھی اور اتنی نیچی تھی کہ لان باہر سے پوری طرح دکھائی دیتا تھا اور وہ اس علاقے کا دلکش ترین لان تھا اور مکینوں کے اعلیٰ ذوق کی غمازی کرتا تھا۔ یہ گھرپرانے اور گھنے پھولدار درختوں سے گھرا ہوا تھا۔ سبز مخمل کی سی نفیس گھاس کارپٹ کی صورت لان میں بچھی تھی۔ موسمی پھولوں کے علاوہ یہ لان نادر قسم کے پودوں اور پیڑوں سے بھی مزین تھا۔ پھر ایک خاص چیز وہ چھوٹی سی ندی تھی جو لان کے ایک طرف بنی ہوئی راکری تک جاتی تھی۔ اس اسٹریم کے اوپر پانی لکڑی سے بناخم کھایا ہوا چھوٹا سا پل تھا۔ اس پل کے پہلو میں ہی سرخ اور سفید دھاریوں والی خوبصورت چھتری کے نیچے چار کرسیوں کا سفید گارڈن سیٹ رکھا تھا۔ اس پر عام طور پر تو کوئی چائے پیتا نظر نہ آتا تھا لیکن کبھی کبھار جب ان کے بچوں میں سے کوئی آیا ہوتا تو لان میں خوب چہل پہل ہو جاتی اور اکثر شام کو یہ لوگ اسی میز پر چائے پیتے نظر آتے۔ 
اکثر جب ان کی دبئی والی بیٹی آئی ہوتی، لان میں رنگوں کے جھماکے سے ہوتے رہتے۔ اس کی سہیلیاں ملنے آتیں اور وہ لان میں ٹہلتی رہتیں یا چائے پیتیں۔ وہ دور سے بالکل انگریز نظر آنے والی خوبصورت لڑکی تھی جو زیادہ تر جینز اور ٹاپ میں نظر آتی۔ اسکے سنہرے رنگے ہوئے بال لہراتے رہتے۔ فلپینو میڈ اسکے دو گورے گورے گول مٹول بچوں کے ساتھ لان میں بال کھیلتی یا انہیں ایک طرف نصب جھولوں اور ’سی سا‘ پر لے جاتی۔ اکثر وہ بچے لکڑی کے پل پر چڑھتے، اترتے رہتے یا چھوٹے سے سفید کتے سے کھیلتے رہتے۔ 
کبھی کبھی اس لان میں بہت بڑی گارڈن پارٹی ہوتی۔ پودوں اور پیڑوں کے اندر سے ننھی ننھی بتیوں کی روشنی جھلملاتی۔ راکری میں نصب آبشار چالو کر دی جاتی۔ جس کے نیچے سنگ مرمر کا کائی زدہ مجسمہ خوب مزے لے لے کر نہاتا۔ کیٹرنگ باہر سے کروائی جاتی۔ اکثر باربی کیو ہوتا۔ پاس پڑوس کے گھروں سے کسی کو مدعو نہ کیا جاتا۔ البتہ بار بی کیو سے اٹھنے والا خوشبو دار دھواں ان گھروں میں در آتا اور کراکری اور کانچ کی کھنک اور مہمانوں کے مہذب قہقہے کھڑکیوں کے راستے ان گھروں کے مکینوں تک پہنچ جاتے۔ وہ اپنی کھڑکیوں سے جدید ترین تراش خراش کے ملبوسات اور خوبصورت رنگوں کے جھماکے دیکھ پاتے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ ان پارٹیوں میں مدعو ہونے والے لوگ کون ہوتے تھے اور کہاں سے آتے تھے۔ سڑک باہر تک گاڑیوں سے بھر جاتی تھی۔ مہمان آدھی رات کے قریب رخصت ہوتے تھے۔ 
گو اس گھر میں ان ہمسائیوں میں سے کوئی کبھی بھی مدعو نہ ہوا تھا۔ لیکن ان کے بارے میں ایک ایک بات مع ضروری و غیر ضروری جزئیات ہر ایک کو معلوم تھی اور اس جانکاری کا ذریعہ ڈومیسٹک اسٹاف (گھر کے ملازمین) تھا۔ خادمائیں تھیں جو پولن زدہ مکھیوں کی طرح گھرگھر بیج پھینکتی تھیں۔ پھر ڈرائیور اور سیکوریٹی گارڈز تھے جو رات گئے مل بیٹھتے اور ہر قابل ذکر یا ناقابل ذکر خبر کا تبادلہ کر لیتے تھے۔ پھر ان کوٹھیوں کی اس لین میں ایک چاق و چوبند بوائے کٹ ہیئر اسٹائل والی مسز شمسی تھیں جو کسی این جی او سے منسلک تھیں۔ صرف وہی تھی جو اس کوٹھی کی مالکن خاتون سے تعارف رکھتی تھیں۔ چونکہ وہ خاتون خود بھی اپنے وقت میں باوجود زیادہ وقت دوسرے ممالک میں رہنے کے خواتین کی تنظیموں کی فعال رکن رہ چکی تھیں لہٰذا مسز شمسی کسی نہ کسی طرح ان سے منسلک ہو چکی تھیں اور ان کی ڈنر پارٹیوں کے مدعوین کی لسٹ میں ان کا نام بھی تھا۔ انہی مسز شمسی نے اسی لین کے رہنے والے دوسرے گھروں سے بھی اچھے سوشل مراسم رکھے ہوئے تھے۔ اس لئے ان کا آنا جانا باقی کوٹھیوں کے فنکشنوں میں بھی تھا۔ ون ڈش پارٹی میں عورتوں کے کھانے پینے کا دور شروع ہو جاتا تو اکثر عورتیں آہستہ آہستہ کھسکتیں مسز شمسی کے قریب پہنچ جاتیں جو خوب باتیں کرتی تھیں۔ بات کئی متفرق موضوعات سے ہوتے ہوئے لامحالہ اس کوٹھی کے مکینوں تک جا پہنچتی اور یوں پاس پڑوس والیاں کچھ نہ کچھ کرید لینے میں کامیاب ہو جاتیں۔ 
مسز شمسی سے جو معلومات حاصل ہوئیں وہ کچھ یوں تھیں۔ صاحب خانہ فارن سروس سے ریٹائرڈ تھے۔ سروس کے دوران دنیا کے بیشتر ممالک میں پوسٹنگ کے سلسلے میں رہ چکے تھے۔ لیکن ریٹائرمنٹ سے قبل مستقل رہائش کے لئے انہوں نے گاؤں میں یہ گھر تعمیر کروایا تھا۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ ان سب کو امریکہ اور انگلینڈ کی یونیورسٹیوں میں تعلیم دلوائی تھی۔ اب دو بیٹے امریکہ میں سیٹل تھے۔ بیٹی شادی کر کے دبئی جا چکی تھی۔ بیٹے سال میں ایک بار اکثر کرسمس کے مہینوں میں آتے تھے۔ بیٹی البتہ اکثر آ جاتی رہتی تھی۔ گرمیوں میں یہ لوگ اپنے بچوں کے پاس امریکہ چلے جاتے تھے۔ لہٰذا تنہائی ان کے لئے کوئی خاص بڑا مسئلہ نہ تھی۔ اپنی دنیا اور زندگی میں مگن تھے۔ جب یہ لوگ اپنے بچوں کے پاس رہنے جاتے تھے، آس پاس والوں کو خبر ہو جاتی تھی۔ پورچ میں کھڑی گاڑیوں پر ترپال ڈال دی جاتی، لان میں خزاں رسیدہ پتے ڈھیریوں کی صورت جمع ہونے لگتے اور کبھی زور کی ہوا چلتی تو لمبی ڈرائیو وے پر زرد زرد پتے آپس میں ریس لگاتے۔ دبیز پردوں سے ڈھکی کھڑکیوں کے پیچھے اندھیرا ہوتا۔ صرف سیکوریٹی گارڈ کے گیٹ کے ساتھ کونے میں بنے چھوٹے سے کمرے میں بتی روشن رہتی۔ موسم سرما سے پہلے چہل پہل پھر واپس آ جاتی۔ پورچ میں چم چم کرتی دھلی دھلائی گاڑیاں نظر آنے لگتیں۔ خاکروب چابکدستی سے ڈرائیو وے صاف کرتے۔ لمبی سفید پائپ کی مدد سے گھر کے چاروں اطراف کو دھویا جاتا۔ مالی ہمہ تن لان کی آرائش میں مصروف دکھائی دینے لگتا۔ اس طرح سب کو پتہ چل جاتا کہ صاحب خانہ آنے والے ہیں۔ پھر دو چار دن کے بعد کھڑکیوں کے پردوں کے پیچھے سے جھلکتی روشنی بتا دیتی کہ وہ واپس آ چکے ہیں۔ جس چیز نے اس لین کے دیگر مکینوں کا تجسس اس کوٹھی کے بارے میں بڑھا رکھا تھا، وہ اس کوٹھی کی اندرونی آرائش کے بارے میں داستانیں تھیں۔ ان داستانوں کی راوی مسز شمسی کے سوا کون ہو سکتی تھی۔ ان کے کہنے کے مطابق یہ گھر کیا تھا عجائب خانہ تھا۔ دنیا بھر کے نوادرات خاص کر کرسٹل اس گھر میں جمع تھا۔ کرسٹل کی ایسی ایسی خوبصورت مصنوعات اس گھر میں جمع تھیں جو بس دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔ فارن سروس میں ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کو دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے اور گھومنے پھرنے کا موقع ملا تھا۔ دونوں میاں بیوی میں خوبصورت اشیاء خاص کر کرسٹل جمع کرنے کا ذوق خبط کی حد تک موجود تھا۔
فرانس، اٹلی، بلجیم، جاپان غرضیکہ جہاں جہاں پوسٹنگ رہی یا یونہی سیر کے لئے گئے وہاں سے خوبصورت ترین اور بیش قیمت سجاوٹی اشیاء لائے اور اپنے گھر میں سجائیں۔ کئی شو کیس، میزیں، پیڈیسٹل، گھر کے کونے حتیٰ کہ سیڑھیاں بھی ان چیزوں سے مزین تھیں۔ دنیا بھر سے جمع کی گئی پینٹنگز اس کے علاوہ تھیں۔ شوق صرف چیزیں جمع کرنے اور سجا دینے کی حد تک نہ تھا بلکہ ان کی صفائی اور حفاظت بھی بہت لگن اور توجہ سے کی جاتی تھی۔ ایک نوکر دن رات صرف اسی کام کیلئے مامور تھا۔ وہ ہمہ وقت ڈسٹر اور اسپرے وغیرہ سے لیس صفائی ستھرائی یا پالش میں لگا رہتا۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ تمام اشیاء ہر وقت جگمگ جگمگ کرتی رہتیں۔مسز شمسی نے یہ بھی بتایا تھا کہ جس دن گھر میں ڈنر پارٹی ہوتی ہے، اکثر مہمان گھر کا ایک طرح سے گائیڈڈ ٹور بھی لے لیتے ہیں۔ بلکہ جو پہلے بھی دیکھ چکے ہوتے وہ بھی شوقیہ ساتھ ہو لیتے کہ ان اشیاء میں ہمہ وقت اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ کچھ چیزیں ایسی تھیں کہ دیکھنے والے کا سانس اوپر نیچے رہ جاتا تھا۔ خاص کر کونوں میں کھڑے قد آدم جاپانی گلدان جن پر بنے خوش رنگ نقش و نگار اور چرند پرند اور مناظر کی دلکش تصاویر انسان کو حیرت میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ پھر لکڑی کی مصنوعات، آبنوسی مجسمے، بانس کی بنی ہوئی اشیاء، ہر سائز کی جاپانی گڑیاں، مختلف طرز کے فاؤنٹین غرضیکہ گھر کیا تھا حیرت کدہ تھا۔ ملنے جلنے والے اسے ’’کرسٹل ہاؤس‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔
مسز شمسی کی باتیں سن کر اکثر سننے والوں کا دل چاہتا کہ وہ بھی اس ’’حیرت کدہ‘‘ کو اندر سے دیکھ پاتے۔ لیکن چونکہ ان لوگوں کو تو اس گھر میں ہونے والی پارٹیوں میں ایک بار بھی مدعو نہیں کیا گیا تھا، لہٰذا ان کی عزت نفس اجازت نہ دیتی تھی کہ بن بلائے اور بلا تعارف محض گھر دیکھنے پہنچ جاتے۔ اس لئے مسز شمسی سے سنی ہوئی باتوں سے ہی تجسس کی تشفی کر لیتے.... لیکن ایک دن ایسا ہوتا ہے جب بلا مدعو کئے کسی کے گھر بھی جایا جا سکتا ہے اور ’’کرسٹل ہاؤس‘‘ میں بھی وہ دن آ گیا۔
موسم بہار کا آغاز تھا۔ کچھ دن سے اس کوٹھی کا مالی بڑی مستعدی سے اندر باہر موسم بہار کے پھولوں کی ننھی ننھی پنیریاں تازہ تیار کی ہوئی کیاریوں میں بوتا نظر آ رہا تھا۔ اچانک صبح صبح اس لین کی تمام کوٹھیوں میں خبر پھیل گئی کہ ’’کرسٹل ہاؤس‘‘ کے صاحب خانہ کا اچانک رات کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا ہے.... ان کے بیٹوں کی امریکہ سے آمد کا انتظار کیا جائے گا۔ تدفین ۲؍ روز بعد اتوار کو ہوگی۔
اس دن کرسٹل ہاؤس کے باہر لین سے لے کر ڈبل روڈ تک ان گنت گاڑیاں تھیں۔ چندرشتہ داروں نے فوری طور پر انتظام سنبھال لیا تھا۔ اس لئے شامیانہ، کرسیاں، چادریں و دیگر انتظام کر لیا گیا۔ سہ پہرتک ان کی بیٹی بھی دبئی سے آ گئی تھی۔ آج اس گھر میں وہاں کی پارٹیوں میں مدعو ہونے والے لوگوں کے علاوہ آس پاس کی کوٹھیوں میں رہنے والے ہمسائے بھی آنے والوں میں شامل تھے۔ گھر کی مالک سادہ سے سلیٹی لباس میں سیاہ چادر سر کے اوپر اوڑھے لاؤنج میں ایک کرسی پر سر نہواڑے خاموش بیٹھی تھیں۔ کچھ ایسے جیسے بیمار پرندہ گردن گرا دیتا ہے، ملنے والیاں اور رشتہ دار خواتین آتیں اور قریب آکر گلے لگتیں۔ آہ و زاری اور رونے کی کچھ آوازیں بلند ہوتیں۔ پھر آنے والی کوئی نہ کوئی جگہ دیکھ کر بیٹھ جاتی اور خاموشی چھا جاتی۔ یہ سوال ہر آنے والے کے ذہن میں تھا کہ یہ خاتون اتنے بڑے گھر میں اپنے شوہر کے ہمراہ رہتی تھی۔ کوئی تیسرا نہ تھا.... اب یہ کیا کرےگی!
کچھ پہلی بار آنے والوں کی نظریں گھر میں ادھر ادھر گھوم رہی تھیں.... لیکن گھر اپنی آرائش کی پہلی والی صورت میں تھا ہی نہیں۔ مجسموں اور بڑی بڑی سجاوٹی اشیاء کو ایک جگہ اکٹھا کر کے ان پر سفید چادریں ڈال دی گئی تھیں۔ فرنیچر گھسیٹ کر دیواروں کے ساتھ لگا دیا گیا تھا تاکہ آنے والوں کیلئے جگہ بنائی جا سکے۔ لاؤنج کے وسط میں نصب فاؤنٹین بھی بند تھا۔ اس میں کہنی کے بل نیم دراز مرمیڈ پر کسی نے سفید چادر ڈال رکھی تھی۔ البتہ شو کیس میں سجی کرسٹل کی اشیاء بدستور جگمگا رہی تھیں۔ لیکن یہ موقع نہ تھا کہ نظروں سے بھی تحیر اور ستائش کا اظہار کیا جا سکتا۔ اس لئے جنہیں تجسس تھا وہ خاموشی سے اور چپکے چپکے چور نظروں سے جائزہ لے رہی تھیں۔ پورے ماحول پر اس گردن گرائے پرندہ نما عورت کی دل گرفتگی کا سایہ پڑا ہوا تھا۔ جیسے ہر شے اس کیلئے معنویت کھو بیٹھی ہو۔ کبھی کبھی وہ سر اٹھا کر اچانک سامنے خلاء میں دیکھتی جیسے کسی نظر نہ آنے والی شے سے معصوم حیرت کے ساتھ پوچھ رہی ہو، ’’میرے ساتھ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ 
تقریباً ایک ہفتہ کے بعد اس لین کی کوٹھیوں میں سب کو معلوم ہوچکا تھا کہ ’’کرسٹل ہاؤس‘‘ بکنے والا ہے۔ ان کے بیٹے پاکستان میں دو ہفتے سے زیادہ نہ رہ سکتے تھے۔ انہیں فوری طور پر اپنی اپنی جاب پر واپس پہنچنا تھا لہٰذا تمام فیصلے بجلی کی تیزی سے کرنے پڑے تھے۔ کرسٹل ہاؤس کی مالکن کو اپنے بیٹے کے ہمراہ امریکہ جانا تھا۔ جہاں انہیں اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ رہائش اختیار کرنی تھی جو شادی شدہ تھا۔ چھوٹا بیٹا ہنوز کسی یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا اور کیمپس میں رہائش پذیر تھا۔ ہر سننے والے کے ذہن میں ایک ہی سوال اٹھ رہا تھا کہ یاخدا، اتنے ساز و سامان کا کیا ہوگا۔ مسز شمسی روزانہ اس گھر میں آنا جانا کر رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ خاتون تو بہت کچھ اپنے ساتھ لے جانا چاہتی تھیں۔ کارٹن بنا کر ’Ship‘ کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن بیٹے نے سختی سے منع کر دیا کہ وہاں اکوموڈیشن کم ہوتی ہے۔ اس کی امریکن بیوی اتنا Clutter پسند نہیں کرےگی۔ یہی کیا کم تھا کہ وہ اچھی فطرت کی مالک تھی اور اپنے شوہر کی ماں کو تنہا چھوڑنے پر اس کا دل نہیں مانا تھا اور وہ ساتھ رکھنے پر بخوشی تیار ہو گئی تھی.... پھر بھی کچھ یادگار چھوٹی چھوٹی چیزیں انہوں نے بکسوں میں گھسائی تھیں اور ایک آدھ چھوٹا سا کارٹن بھی بنا لیا تھا اور بس!
عورتیں کرید کرید کر گھر کی مالکن کے دل کا حال پوچھتی تھیں یا دوسرے الفاظ میں یہ جاننا چاہتی تھیں کہ آخر اتنے بے پناہ چاؤ اور لگن سے دنیا بھر سے اکٹھی کی ہوئی اشیاء سے جدائی کو آخر وہ خاتون کس طرح لے رہی ہیں۔ وہ اپنے تجسس کی تشفی چاہتی تھیں۔ بے رحمانہ تشفی جو مسز شمسی نے نہایت تسلی بخش انداز میں کر دی.... ہاں وہ اپنی کسی چیز سے جدا نہ ہونا چاہتی تھی۔ وہ تو ہر چیز ساتھ لے جانا چاہتی تھی۔ اس پر خاصی بحث ہوئی تھی۔ اس کے بچوں کو اسے بہت سمجھانا بجھانا پڑا تھا.... لوگ تو ایک موت مرتے ہیں لیکن وہ عورت تو کئی کئی موتیں مر رہی ہے.... ہر شے سے تو اسے پیار تھا.... ہائے ہائے....!
کرسٹل ہاؤس کی تمام نادر اور بیش قیمت اشیاء کو نیچے لاؤنج اور ڈرائنگ روم میں رکھ دیا گیا تھا۔ ان پر پرائس ٹیگس لگ گئے تھے۔ خود مسز شمسی نے کچھ پینٹنگز، کینڈل اسٹینڈ اور کرسٹل کے گلدان خریدے جو تقریباً ایک تہائی قیمت پر بکے تھے۔ پھر انہوں نے فون کرکے دوسری کوٹھیوں کی خواتین کو بھی اکسایا کہ وہ اگر کچھ لینا چاہتی ہیں تو آدھی یا ایک تہائی قیمت پر بہت کچھ مل رہا ہے۔ البتہ چند نادر اور قیمتی اشیاء ان کی بیٹی نے چھانٹ کر اپنے ساتھ دبئی لے جانے کے لئے الگ کر لی تھیں۔ انہیں بڑے بڑے کارٹنوں میں پیک کیا جا رہا تھا۔ مسز شمسی کے کہنے پردوسری خواتین نے بھی ہمت کی۔ کوٹھی کے لاؤنج میں ایک سرخ چہرے والا صحتمند ٹھیکیدار نما شخص ان اشیاء کو دکھانے اور بیچنے کا کام کر رہا تھا۔ چیزوں میں زیادہ قیمتی اور غیرمعمولی اشیاء تو ان کی پارٹیوں میں مدعو ہونے والے متمول دوستوں نے ہی خرید لی تھیں۔ آس پاس کی خواتین بھی اب گلدان، ٹرے اور لیمپ وغیرہ جیسی چیزیں اٹھائے کوٹھی کے گیٹ سے نکلتی نظر آتی تھیں۔ پھر بے شمار برانڈیڈ امپورٹڈ کراکری تھی جس کا کسی بڑی کراکری شاپ والے نے اکٹھا سودا کر لیا تھا۔ تمام فرنیچر ایک استعمال شدہ فرنیچر میں ڈیل کرنے والے شوروم کے مالک نے اٹھوا لیا تھا۔ گھر والے چونکہ رات کی کسی فلائٹ سے گئے تھے۔ لہٰذا کسی نے انہیں جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ چند روز بعد کوٹھی پر پینٹ پالش کرنے والے کام کرتے دکھائی دے رہے تھے جن کی نگرانی سرخ چہرے والا ٹھیکیدار قسم کا آدمی کر رہا تھا۔ پھر کچھ ہی دن گزرے تھے کہ کرسٹل ہاؤس کے سامنے ’For Sale‘ کی تختی لٹک رہی تھی.... یہ تھی ’’کرسٹل ہاؤس‘‘ کی کہانی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK