• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ: حلال کمائی

Updated: June 20, 2024, 2:04 PM IST | Yasmeen bano | Mumbai

اس نے چہرے سے آنسو پونچھے اور سکّوں کی طرف دیکھا، پھر کپڑے کو دھیرے سے سمیٹا اور گانٹھ باندھ کر تھیلے میں ڈالا۔ اپنی بیساکھیوں کے ذریعے کھڑا ہوا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا اسٹیشن سے باہر آیا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

وہ ایک مسکین، بدحال فقیر تھا جو بھیک مانگ کر اپنا گزارا کیا کرتا تھا۔ اس نے اپنی پیشانی پر بندھی ہوئی خون آلود پٹی کو ہاتھ سے چھوا، دائیں ہاتھ پر بندھی ہوئی میلی کچیلی پٹیوں کو دیکھا پھر اپنے تھیلے کی طرف نظر ڈالی۔ دھیرے سے تھیلے کو کندھے پر لٹکایا اور بیساکھی اٹھاتے ہوئے دھیرے دھیرے کھڑا ہوا۔ اُسے وقت کا صحیح اندازہ تھا۔ اب تھوڑی ہی دیر میں ٹرین آنے والی ہوگی۔ وہ اپنے گھر سے نکلا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر آکے بیٹھ گیا۔ چہرے کی ہر دراڑ سے آزردگی اور مایوسی جھانک رہی تھی۔ پھٹے ہوئے کپڑوں سے مفلسی کی بو آرہی تھی۔ اس نے پلیٹ فارم پر ایک داغدار چھوٹا سا کپڑا بچھایا اور درد بھری صدا لگانے لگا۔ آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گررہے تھے۔ وہ بے بسی کی ایک دردناک تصویر تھا۔ اُس کی آواز میں ایک درد تھا.... ایک سوز تھا کہ جسے سن کر کچھ مسافر رک گئے اور اس کے کپڑے پر پیسے ڈال کر آگے بڑھ گئے۔ کچھ ایسے بے حس بھی تھے جو اس کے حقیرانہ وجود کو نظرانداز کرکے آگے بڑھ جاتے۔ 
ٹرین کے آنے پر ایک بھیڑ پلیٹ فارم پر کسی لشکر کی طرح نمودار ہوئی۔ ہر طرف مسافروں کا شور تھا، اجلے اجلے کپڑوں میں نفیس بدن اِدھر اُدھر چلتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ اس نے اپنی آواز اور بلند کی اور بڑی درد مند آواز میں دوبارہ صدا لگائی۔ کپڑے پر سکّوں کے گرنے کی آوازیں آتی رہیں۔ اور تھوڑی دیر بعد پلیٹ فارم پھر خالی ہوگیا۔ 
اس نے چہرے سے آنسو پونچھے اور سکّوں کی طرف دیکھا، پھر کپڑے کو دھیرے سے سمیٹا اور گانٹھ باندھ کر تھیلے میں ڈالا۔ اپنی بیساکھیوں کے ذریعے کھڑا ہوا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا اسٹیشن سے باہر آیا۔ تھوڑی دوری پر ایک ہوٹل کے رک گیا۔ اس کے مالک نے ایک حقیرانہ نظر اس پر ڈالی اور سختی سے پوچھا، ’’کیاہے؟‘‘ فقیر نے کھانے کی طرف اشارہ کیا پھر اپنے تھیلے میں سے کچھ روپے نکال کر اس کی طرف بڑھا دیئے۔ مالک نے جھٹ روپے اس کے ہاتھ سے لے لئے اور ایک تھیلی میں تھوڑا سا گرما گرم سالن اور دو نرم روٹیاں باندھ کر اس کو تھما دی۔ وہ بیساکھی سنبھالتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ 
گھر آکر اس نے چین کا سانس لیا۔ پسینے میں شرابور ہوگیا تھا۔ اس نے بیساکھیاں ایک طرف پٹخیں اور فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ پیشانی پر بندھی خون آلود پٹی نوچ کر پھینکی اور اس پر لگا لال رنگ ہتھیلی سے رگڑ کر صاف کیا پھر دائیں ہاتھ کی میلی کچیلی پٹیاں بھی جلدی جلدی کھولنے لگا۔ تھیلے میں ہاتھ ڈال کر بندھے ہوئے کپڑے کو نکالا اور اس میں موجود سکّوں کو بے تابی سے گننے لگا۔ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ آج معمول سے زیادہ کمائی ہوئی تھی....
’’آج آواز میں کیا درد تھا....!‘‘ یہ سوچ کر اس کے لب مسکرا دیئے۔ سالن روٹی ایک رکابی میں ڈال کر اب وہ چین سے اپنی حلال کمائی کھا رہا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK