• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ: اغوا

Updated: October 03, 2024, 2:12 PM IST | Yasmeen Bano | Mumbai

’’ہاں بولو کیا ہوا، کچھ پتہ چلا؟‘‘ منال پھرتی سے صوفہ سے اٹھے تھے۔ ’’کیا؟ تم سے ایسا کس نے کہا؟‘‘ منال نے حیرت سے پوچھا اور کچھ کہتے ہوئے باہر آئے۔ شیما ان کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

شیما زار و قطار روئے جا رہی تھی۔ رو رو کر آنکھیں سوج گئی تھیں، چہرہ لال ہوگیا۔ منال اس کے پاس خاموش گم صم بیٹھے تھے۔ ان کی تسلی اور دلاسہ اس کیلئے بے سود تھا۔ یہ سب اس کی لاپرواہی کی وجہ سے ہوا تھا۔ وہ خود کو الزام دے رہی تھی اسی لئے اس کے آنسو تھم ہی نہیں رہے تھے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا تھا اس کی فکر میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد منال نے اپنی بہن اسما کو فون کرکے گھر آنے کو کہا۔ اس نے وجہ پوچھی تو منال نے سختی سے جواب دیا کہ، ’’یہ وقت سوال کرنے کا نہیں، تم جلد سے جلد یہاں پہنچو۔‘‘
دوپہر کو اسما وہاں پہنچ گئی تھی۔ اسے معاملہ سمجھنے میں دیر نہ لگی۔ شیما یاسیت کی تصویر بنی بیٹھی تھی۔ اسما کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اسما نے اس کو گلے سے لگا لیا۔ ’’شیما! بس کرو اس طرح تم اپنے آپ کو بیمار کر لو گی، سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ ’’نہیں یہ سب میری ہی وجہ سے ہوا ہے۔ میں نے اسے....‘‘ وہ آنسو پونچھے ہوئے بولی۔ ’’نہیں اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں۔ وہ ہونے والی بات تھی ہوگئی، اب اس طرح مت سوچو۔ دعا کرو اور منال کو کام کرنے دو.... دیکھو تمہاری حالت دیکھ کر وہ کتنا پریشان ہے۔‘‘ منال صوفہ پر گم صم بیٹھے شیما کو دیکھ رہے تھے۔ سارے گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ بس شیما کے رونے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اچانک منال کے فون کی گھنٹی بجی۔ سب نے اس طرف دیکھا۔ شیما بیڈ سے اٹھ کر تیزی سے ان کی طرف آئی۔
’’ہاں بولو کیا ہوا، کچھ پتہ چلا؟‘‘ منال پھرتی سے صوفہ سے اٹھے تھے۔ ’’کیا؟ تم سے ایسا کس نے کہا؟‘‘ منال نے حیرت سے پوچھا اور کچھ کہتے ہوئے باہر آئے۔ شیما ان کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔
’’کیا ہوا ہاں.... مجھے بتاؤ.... کیا بات ہے؟‘‘ وہ بےچینی سے پوچھنے لگی۔ منال نے فون کان سے ہٹایا اور اسے اندر جانے کو کہا۔
’’نہیں پہلے مجھے بتاؤ کیا کہا داور نے؟‘‘ وہ بضد تھی۔
’’وہ کہہ رہا ہے کہ اس نے اسے سینٹر چوک کے قریب دیکھا تھا، اس کے بعد مجھے اس کی بات سننے دو اور اندر جاؤ۔‘‘ انہوں نے بےبسی سے کہا۔ شیما دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔ منال نے دوبارہ فون کان سے لگایا۔ وہ واپس آکر بیڈ پر بیٹھ گئی اور فکرمند نظروں سے منال کی طرف دیکھنے لگی۔
کچھ سوچ کر وہ پھر رونے لگی۔ اسما اس کے بازو بیٹھی اسے تسلی دے رہی تھی۔ شیما نے اپنا فون ہاتھ میں لیا اور لاک کھولا۔ فوراً ایک معصوم سا چہرہ اسکرین پر چمکا۔ آنکھوں میں پھر آنسو امڈ آئے۔ اسما نے اس کے ہاتھوں سے فون لے لیا۔ ’’یہ.... سب کیسے ہوا؟‘‘ اسما نے ہمت کرکے پوچھا۔ ’’مَیں.... مَیں کچن میں تھی اور اُس کا ناشتہ تیار کر رہی تھی۔ وہ ڈرائنگ روم میں کھیل رہی تھی پھر.... میرے پاس آکر مجھے دیکھا اور دوبارہ ڈرائنگ روم میں جاکر کھیلنے لگی.... مَیں نے....‘‘ شیما کی آواز گلے میں پھنس گئی۔ ’’روؤ مت۔ ہمت سے کام لو۔‘‘ ’’مَیں اس کا ناشتہ لے کر آئی اور اسے کھلایا پھر.... ہاتھ دھونے کچن میں چلی گئی۔ جب واپس آئی تو دیکھا کہ وہ کمرے میں نہیں تھی.... میں نے اسے آواز لگائی مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور....‘‘ وہ پھر رونے لگی۔
’’بس کرو شیما!‘‘ اسما نے اس کا بازو سہلاتے ہوئے کہا، ’’وہ ضرور مل جائے گی۔ منال نے اپنے سارے دوستوں کو بتا دیا ہے وہ سب مل کر اسے ڈھونڈ رہے ہیں۔ تم روؤ مت پلیز۔‘‘
’’وہ اتنی چھوٹی اور معصوم ہے کہ اسے تو بولنا بھی نہیں آتا کہ....‘‘ شیما نے چھت کی طرف دیکھا اور بےبسی سے مٹھیاں بھینچ لیں، ’’آہ خدا میں کیا کروں!‘‘ منال کمرے میں آئے اور اپنا کوٹ پہن کر تیزی سے باہر جانے لگے۔ ’’تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘ وہ پھرتی سے ان کی طرف آئی، ’’مَیں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی.... کیا کہا داور نے.... کیا وہ مل گئی؟‘‘ شیما نے بے چینی سے ان کی آنکھوں میں دیکھا شاید امید کی کوئی کرن نظر آجائے۔
’’تم یہیں رکو میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔‘‘ اسما نے آگے بڑھ کر شیما کا بازو پکڑ لیا اور منال آگے بڑھ گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی فکر میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ وہ بےچینی سے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ کبھی اپنا فون اٹھا کر کسی کو کال لگاتی، کبھی کچھ پوچھتی۔ وہ عجیب سراسیمگی کی کیفیت سے دوچار تھی۔ ۲؍ گھنٹے بعد منال واپس آئے.... شکست خوردہ.... نڈھال.... وہ دھیرے سے کمرے میں داخل ہوئے۔ شیما پھر بےچینی سے ان کی طرف آئی، ’’کیا ہوا کیا وہ ملی؟‘‘ اس نے روتے روتے پوچھا۔ کہیں اسے کسی نے اغوا تو نہیں کر لیا.... یہ بات تینوں سوچ رہے تھے مگر زبان تک لانے کی جسارت نہ تھی۔ منال خاموشی سے صوفہ پر بیٹھ گئے۔ شیما شکست خوردہ سی ان کے قدموں میں بیٹھ گئی، ’’وہ میرے بغیر کیسی ہوں گی.... وہ میری عادی تھی.... مَیں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی.... کوئی میری فلکی مجھے لا کر دے دے۔‘‘ اس کا نوحہ دل کو ہلا دینے والا تھا۔ منال نے کرب سے آنکھیں موند لیں۔ ان کی آنکھوں میں فلکی کے ساتھ گزارے لمحات کی کہانیاں تھیں۔ آہ! ان کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔ اسما یاسیت سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ وہ دھیرے سے شیما کے قریب آئی، ’’شیما تم کچھ کھا لو تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔‘‘ وہ نیم جان سی بیٹھی فرش کو گھور رہی تھی۔ کیا دردناک نظارہ تھا! ایک فرد کی اچانک غیر موجودگی نے سارا ماحول سوگوار بنا دیا تھا۔ شام دھیرے دھیرے پھیل رہی تھی۔ اچانک دروازے پر آہٹ ہوئی۔ منال نے چونک کر دیکھا۔ دروازے پر داور کھڑا مسکرا رہا تھا۔ اس کی گود میں فلکی سہمی ہوئی بیٹھی تھی۔ منال خوشی سے دوڑتے ہوئے اس کی طرف آئے اور فلکی کو اس کی گود سے لے لیا۔ وہ ان سے لپٹ گئی۔ شیما اب تک نیم جان بیٹھی تھی وہ اس کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔ شیما نے بے یقینی سے ان کی طرف دیکھا اور بےساختہ فلکی کو ان کی گود سے جھپٹ لیا۔ وہ بھی شیما سے لپٹ گئی۔ شیما اسے چومتی جاتی اور روتی جاتی تھی۔ فلکی کی گوری گوری رنگت گرد آلود ہوگئی تھی۔ وہ سہمی ہوئی لگ رہی تھی۔ نہ جانے اس نے دن کیسے گزارا ہوگا؟ سارے گھر کا ماحول اچانک رنگین ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ آرام سے فرش پر بیٹھی دودھ پی رہی تھی۔ ایک بھوری فارسی بلی، جو شیما کی جان تھی!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK