غریب کے تئیں سماج کی بے حسی کو بیان کرتا افسانہ۔
EPAPER
Updated: April 23, 2025, 4:27 PM IST | Zakira Shabnam | Mumbai
غریب کے تئیں سماج کی بے حسی کو بیان کرتا افسانہ۔
سیما ان آٹھ دنوں میں مجھ سے کافی گھل مل گئی تھی، اس بار چھٹی میں مامی کے ساتھ کچھ دنوں کے لئے میں شہر گلستان چلی آئی۔ روزانہ شام کو کسی نہ کسی جگہ کی سیر ہو جاتی، دن میں اکثر سیما کی باتوں سے ہی میرا دل بہلتا یہ لڑکی پہلی ہی نظر میں مجھے بڑی پیاری لگی اس کی عمر تقریباً ۱۳؍ سال کی ہوگی۔ بڑی بڑی آنکھوں والی نازک سی خوبصورت سیما صبح آٹھ بجے چلی آتی، آتے ہی جھاڑو دینا، سارے گھر کی صفائی کرنا، برتن دھونا اور بازار سے سودا لانا، یہ اس کا روز کا معمول تھا، وہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنا کام نپٹا دیا کرتی جیسے اسے اس کام میں کافی تجربہ ہو۔
پہلی بار مجھے دیکھا تو مامی سے پوچھنے لگی کہ آپ کے گھر کون مہمان آئے ہیں؟ پھر مجھے دیدی دیدی کہتی ہوئی بے تکلف ہوگئی اس نے مجھے بتایا کہ اس کے گھر میں صرف تین افراد ہیں، ایک ماں، ایک چھوٹا بھائی اور وہ خود، اس کا باپ تو اس دنیا سے چل بسا تھا، میں نے اس سے پو چھا سیما کیا تمہیں سب بچوں کی طرح اسکول جانے اور پڑھنے کی خواہش نہیں ہوتی، وہ ہنستی ہوئی کہنے لگی (ہمیشہ مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیلی رہتی) دیدی شوق تو پڑھنے کا ہمیں ہے مگر ہم جیسوں کے لئے دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔ میں اور میری ماں گھر گھر برتن وغیرہ دھو کر کچھ روپے کماتے ہیں جو پیٹ بھرنے میں ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ اس سماج میں ہم غریبوں کا کوئی مقام نہیں، ہمیں اپنے ارمانوں کو دلوں میں ہی دفن کر لینا پڑتا ہے۔ وہ کہے جا رہی تھی میں اس کے چہرے کو تکے جا رہی تھی۔ یکلخت وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں گھما کر بولی، دیدی میرا چھوٹا بھائی ہے نا ہم محنت کرکے اسے ضرور پڑھائیں گے اور بڑا آدمی بنائیں گے۔ میں سو چنے لگی نجانے ان معصوم آنکھوں میں کتنی تمناؤں نے دم توڑا ہے پتہ نہیں اور اس معصوم دل کے کتنے ارمانوں کا خون ہوگا۔ مجھے آئے ہوئے پندرہ دن ہوگئے میں اپنے شہر جانے کی تیاری کرنے لگی۔ دروازے پر دستک ہوئی جیسے ہی دروازہ کھولی سیما کو پایا۔ السلام علیکم دیدی، وعلیکم السلام سیما تم تو بڑی وقت کی بڑی پابند ہو، صبح ٹھیک وقت پر آجاتی ہو، اچھا میرا ایک کام کر دو مجھے لفافہ چاہئے لاکر دے دو کیا تم لا سکوگی؟ ہاں ہاں کیوں نہیں دیدی میں ابھی لائے دیتی ہوں۔ کچھ ہی لمحوں میں اس نے لفافہ لاکر مجھے دے دیا۔ شکریہ تم بہت ہوشیار ہو سیما، ہم جیسے غریبوں کا شکریہ نہیں ادا کرتے دیدی، ارے واہ تم نے میرا کام کیا میں نے تمہیں شکریہ کہا اس میں کیا برائی ہے۔ وہ سنجیدگی سے کہنے لگی، دیدی ہر کوئی ایسا نہیں سوچتا ہم بہت حقیر سمجھے جاتے ہیں، اس سماج میں ہماری کوئی اہمیت نہیں ہے۔ میں نے اس کی پشت پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ تم دیکھنے میں تو بہت چھوٹی ہو لیکن ہر بات پر کافی سنجیدگی سے سوچتی ہو، تمہیں ایسا نہیں سوچنا چاہئے، چلو اپنا کام کرو، مجھے بھی اپنے بھیا کو خط لکھنا ہے میں کل یہاں سے جا رہی ہوں۔
اس نے میرے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے کہا، سچ مچ آپ جا رہی ہیں اور تھوڑے دن رک جایئے نا دیدی، آپ کے آنے سے گھر میں بہار آگئی ہے، میں اس کی باتوں پر مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔ نہیں سیما میری چھٹیاں ختم ہوچکی ہیں۔ میں پھر کبھی آؤں گی، اگلی بار آؤں گی تو تمہیں پڑھنا بھی سکھاؤں گی، وہ خوش ہوتے ہوئے بولی پھر آپ جلدی آئیےگا۔ اس کے بات کرنے کا انداز بہت پیارا تھا۔ اس کی مسکراہٹ میں جتنی مٹھاس تھی اس سے کہیں زیادہ زبان سے نکلے ہوئے الفاظ میں تلخ سچائی پنہاں تھی۔ وہ تعلیم سے انجان تھی لیکن بچپن سے کئی اچھے اچھے گھروں میں کام کرتی رہی ہے۔
یہی وجہ ہوسکتی ہے اس کے اتنے اچھے انداز گفتگو کی، انسان اپنے ارد گرد کے ماحول سے بھی بہت کچھ سیکھ لیتا ہے۔ سیما صحن میں برتن دھو رہی تھی پاس ہی مامی بیٹھی کپڑے دھو رہی تھیں کپڑے مامی خود دھو لیا کرتیں کیونکہ سیما کو یہ کام نہیں دیا گیا تھا۔ اس جیسی چھوٹی لڑکی کے لئے یہ کام مشکل ترین تھا ظاہر سی بات ہے۔ میں کمرے میں خط لکھ رہی تھی، اتنے میں مامی کی غصہ سے بھری آواز کانوں میں پڑی، میں نے جاکر دیکھا وہ سیما پر برس رہی تھیں۔ میں نے کچھ دیر پہلے یہاں پر انگوٹھی نکال کر رکھی تھی ضرور تم نے ہی اٹھائی ہوگی۔ سیما سہمی ہوئی سی کہہ رہی تھی آپا میں نے تو انگوٹھی کو دیکھا تک نہیں۔ میں نے مامی سے پوچھا مامی آپ کی انگوٹھی بات کیا ہے؟ سیما اٹھ کر میرے قریب آگئی اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈب ڈبا رہی تھیں، دیدی میں جب سے آئی ہوں اپنے کام میں مشغول ہوں، خدا کی قسم میں نے انگوٹھی کو دیکھا ہی نہیں۔ مامی کہنے لگیں دیکھو سیما تم بچی ہو تمہارا دل مچلا ہوگا تم نہیں جانتی چوری کرنا کتنا بڑا گناہ ہے۔ میں نے یہیں زمین پر کپڑے دھونے کی خاطر انگوٹھی نکال کر رکھی تھی۔ یہاں تمہارے علا وہ اور کوئی نہیں آیا۔ میں نے مداخلت کرنا چاہا مامی یہ تو کہہ رہی ہے کہ اس نے دیکھا نہیں۔ لیکن وہ میری بات کہاں سننے والی تھیں ان کا سارا گمان تو سیما پر ہی ٹکا ہوا تھا، انہوں نے مجھے بھی یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ تم نہیں جانتی ایسے لوگوں کی یہی فطرت ہے۔ کتنا بھی بڑا جرم ان سے سر زد کیوں نہ ہو جائے، ان کی زبان یہی کہتی ہے، ہم نے دیکھا ہی نہیں، کیا پھر انگوٹھی زمین کھا گئی۔
سیما ان باتوں کو برداشت نہیں کرسکی وہ روتی ہوئی چلی گئی۔ حقیقت سے میں بھی ناواقف تھی مگر بڑا ترس آ رہا تھا اس پر مجھے، مامی غصے میں بکے جا رہی تھیں، میرا ذہن منتشر سا ہوگیا۔ میں باورچی خانے میں پانی پینے کی غرض سے گئی جیسے ہی سلف پر سے گلاس اٹھانا چاہا وہیں پر انگوٹھی کو پایا۔ جلدی سے انگوٹھی کو اٹھائے مامی کے پاس چلی آئی، مامی یہ دیکھئے آپ کی انگوٹھی تو مجھے سلف پر ملی ہے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا میں تو بھول ہی گئی۔ درمیان میں اٹھ کر جب باورچی خانے گئی تبھی لے جا کر رکھ دی تھی۔ دیکھا مامی بیکار ہی اس معصوم پر الزام لگایا۔ اس سے پہلے آپ کو ایک بار اچھی طرح سوچ لینا چاہئے تھا۔ ہم لوگ کچھ سوچے سمجھے بغیر ان غریبوں پر الزام لگا دیتے ہیں، یہ بھی تو ہماری طرح انسان ہیں ہمارا اس طرح کا برتاؤ ہی انہیں بری راہ پر لے جاتا ہے۔ وہ مفلس ہیں مگر ان کے سینے میں بھی ایک دھڑکتا ہوا دل ہے جس میں جذبات ہیں۔ ہمیں ان لوگوں کے ساتھ ہرگز ایسا سلوک نہیں کرنا چاہئے۔ مامی کف افسوس مل رہی تھیں، ندامت سے انہوں نے کہا تم ٹھیک کہتی ہو۔ مجھ سے زیادتی ہوئی ہے کم سے کم ایک بار اچھی طرح دیکھ لیتی، سوچ لیتی، بیچاری سیما اسے میں کل منا کر بلا لوں گی۔ مامی کی باتوں سے مجھے تھوڑی بہت تسلی ہوئی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہے اور وہ سیما کو سمجھا کر بلا لیں گی۔ لیکن میں سوچنے لگی وہ معصوم لڑکی پہلے ہی سے احساس کمتری کا شکار ہے۔ کیا سیما کے معصوم سے دل پر لگی یہ الزام کی چوٹ وقت کے ساتھ بھر سکے گی؟ دوسرے دن علی الصباح میں وہاں سے نکل پڑی۔ ذہن پر ایک بوجھ سا مسلط تھا۔ میری نگاہوں کے سامنے سیما کی بے بسی آنسوؤں سے ڈبڈبائی ہوئی آنکھیں گھوم رہی تھیں، کانوں میں اس کی تلخ آواز گونج رہی تھی۔ ’’دیدی ہم بہت حقیر سمجھے جاتے ہیں، اس سماج میں ہماری کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘‘