دادی کے چہرے پر ایک دم سے اداسی چھا گئی ان کی آنکھوں کے آگے پینتیس سال پرانا وہ منظر گھومنے لگا، جس دن سے وہ اپنے سسرال میں بیاہ کر آئی تھیں۔
EPAPER
Updated: January 13, 2025, 12:26 PM IST | Zakira Shabnam | Mumbai
دادی کے چہرے پر ایک دم سے اداسی چھا گئی ان کی آنکھوں کے آگے پینتیس سال پرانا وہ منظر گھومنے لگا، جس دن سے وہ اپنے سسرال میں بیاہ کر آئی تھیں۔
بہو نے اپنے ۸؍ سالہ منّے کو آواز دی، ’’منّا دادی ماں کو ناشتہ دے آؤ۔‘‘
منّا نا شتہ لے کر دادی ماں کے کمرے میں چلا آیا اور دادی ماں کی طرف پلیٹ بڑھا دی۔ جس میں معمول کے مطابق رات کا بچا ہوا کھانا اور اس پر ڈالا ہوا کچھ سالن تھا۔
دادی نے منّے کے ہاتھوں سے پلیٹ لیتے ہو ئے پوچھا، ’’منّا بیٹے تم نے ناشتہ کر لیا....؟‘‘
منّا جواب میں سَر ہلاتے ہوئے کہنے لگا، ’’ہاں! دادی ماں مَیں تو کب کا کھا چکا۔ مَیں نے پراٹھے اور ساتھ میں میٹھا بھی کھایا....‘‘
دادی کے چہرے پر ایک دم سے اداسی چھا گئی ان کی آنکھوں کے آگے پینتیس سال پرانا وہ منظر گھومنے لگا، جس دن سے وہ اپنے سسرال میں بیاہ کر آئی تھیں۔ رانی بن کر راج کرتی رہیں، ساس سسر بہت ہی نیک تھے۔ نہ ہی کوئی روک ٹو ک نہ بہو پر کسی بات کی پابندی اور نہ ہی کسی بھی چیز کی کمی تھی۔ سارے گھر میں انہیں کا راج تھا....
ڈھلتے وقت کے ساتھ جب ساس سسر کی عمر ڈھلنے لگی تو صحت بھی ساتھ چھوڑ نے لگی۔ پھر پیاری سی بہو کا سلوک بھی ان کے لئے بدل سا گیا.... ان کی دیکھ بھال میں کوتاہی ہونے لگی۔ نہ ہی انہیں وقت پر اچھا کھانا دیا جاتا اور نہ ہی ان کی خیریت ہی دریافت کی جاتی جبکہ ایک ہی گھر میں ہوتے ہوئے بھی۔ اچھے اچھے لوازمات تیار ہوتے مگر ان بیچاروں کو ہمیشہ ہی بچا بچا کچا باسی کھانا ہی دیا جاتا.... بچے جب اپنے دادا دادی کے تئیں یہ ناانصافی دیکھتے تو اپنی ماں سے پو چھتے کہ، ’’ماں ہم سب لذیذ اور تازہ پکوان کھاتے ہیں مگر دادا دادی کو ہمیشہ بچا کچا کھاناہی کیوں دیا جاتا ہے....‘‘ تو انہیں ڈانٹ کر چپ کر ا دیا جاتا کہ، ’’بڑے آئے دادا دادی کی طرف داری کرنے والے! اگر انہیں بھی تازہ تازہ دے دوں تو یہ بچا ہوا کون کھائے گا۔ پھر یہ بیکار نہیں ہو جائے گا....‘‘
’’منّا کہاں ہو تم؟ اسکول کے لئے دیر ہو رہی ہے۔‘‘
بہو کی آواز پر وہ اپنے دور ِ ماضی سے حال میں لوٹ آئیں جو ایک تلخ ترین حقیقت تھی۔ آج وہ کتنی بےبس اور تنہا تھیں۔ وہ شکوہ اور گلہ کرے بھی تو کس سے اور کس منہ سے کرتیں۔ کچھ عر صہ پہلے ان کے شوہر بھی ان کا سا تھ چھوڑ کر اس دنیا کو خیرباد کہہ چلے تھے۔ انہوں نے دیکھا ابھی بھی ان کا معصوم پوتا انہیں کے پا س ٹھہرا سوالیہ نگاہوں سے کبھی ان کو تو کبھی ان کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کھانے کی پلیٹ کو تکے جا رہا تھا.... انہیں منّا کی ان معصوم نگاہوں میں ایک ہی سوال تیرتا ہوا نظر آرہا تھا کہ، دادی ماں ممی آ پ کو روز روز رات کا بچا ہوا کھانا کیوں دیتی ہیں جبکہ ہمیں گرم گرم پراٹھے وغیرہ بناکر کھلاتی ہیں....
اس معصوم کے سوالیہ نگاہوں کی وہ تاب نہ لاسکیں، ان کی ندامت سے بھری نمناک پلکیں خود بخود اپنی پلیٹ پر جھک گئیں!