• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ: خواہشیں میری

Updated: October 15, 2024, 4:35 PM IST | Khan Shabnam Farooq | Mumbai

’’روحیل آپ سے یہ کس نے کہا ہے؟‘‘ ’’بابا! امی فون پر نانو سے کہہ رہی تھیں کہ دادو امی کو ڈانٹتے ہیں اور آپ سے دادو، امی کی شکایتیں لگاتے ہیں اس لئے وہ دادو کو بہت دور بھیج دیں گی.... جہاں سب کے دادو رہتے ہیں وہیں....‘‘ یہ الفاظ سن کر غیر اختیاری طور سے یوسف کی نظریں اپنے باپ کے سامنے نیچے جھک گئیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

گے؟‘‘ روحیل اپنی معصوم سی آنکھوں میں آنسوؤں لئے دادا سے جواب طلب تھا.... جبکہ اس سوال پر روشن بیگ کچھ لمحہ کیلئے سکتے میں آگئے تھے لیکن پھر شفقت سے روحیل کے دونوں ہاتھوں کو چومتے ہوئے کہنے لگے، ’’دادو کی جان، تمہیں چھوڑ کر مَیں کہیں نہیں جاؤں گا....‘‘ ’’روحیل یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟‘‘ یوسف جو ابھی ابھی گھر میں داخل ہوا تھا اپنے بیٹے کی بات سن کر ٹھہر گیا.... ’’بابا امی کہتی ہیں وہ دادو کو بہت دور بھیج دیں گی.... بابا امی سے کہئے نا وہ ایسا نہ کریں.... نہیں تو میرے ساتھ پارک کون جائے گا.... دادو تو رات کو کہانیاں بھی سناتے ہیں.... بابا آپ امی کو منع کریں نا....‘‘ ’’ہاں بیٹا ہم دادو کو کہیں نہیں بھیجیں گے....‘‘ روحیل ایک ہی بات پر مصر تھا مانو ابھی اس کے دادو کو اس سے جدا کر دیا جائے گا....
’’روحیل آپ سے یہ کس نے کہا ہے؟‘‘ ’’بابا! امی فون پر نانو سے کہہ رہی تھیں کہ دادو امی کو ڈانٹتے ہیں اور آپ سے دادو، امی کی شکایتیں لگاتے ہیں اس لئے وہ دادو کو بہت دور بھیج دیں گی.... جہاں سب کے دادو رہتے ہیں وہیں....‘‘ یہ الفاظ سن کر غیر اختیاری طور سے یوسف کی نظریں اپنے باپ کے سامنے نیچے جھک گئیں۔ شرمندگی کے احساس نے پیشانی پر پانی کے ننھے ننھے قطرے نمودار کر دیئے۔ ’’نہیں بیٹا! ہم دادو کو کہیں نہیں جانے دیں گے۔ اور یہ دیکھو آج میں آپ کیلئے کتنی ساری چاکلیٹ لایا ہوں۔‘‘ یوسف نے روحیل کی دھیان بھٹکانے کی کوشش کی۔
’’ارے واہ.... بابا آپ بہت اچھے ہو....‘‘ کھلکھلاتے چہرے پر اب کوئی اداسی نہیں تھی۔ ’’چلیں دادو مَیں آپ کو آج اپنی اسکول میں بنائی ہوئی ڈرائنگ دکھاتا ہوں اور ہم ساتھ میں چاکلیٹس بھی کھائینگے....‘‘ روحیل روشن بیگ کا ہاتھ پکڑے ایک کمرے میں لے گیا۔
ادھر یوسف کے ذہن میں روحیل کے الفاظ گردش کرنے لگے۔ دفتری بیگ کو ایک جانب رکھتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
راحین بیڈ پر آرام سے سیل فون استعمال کرنے میں مصروف تھی۔ یوسف اندر داخل ہوا تو ایک نظر اس پر ڈالی.... ’’دیکھئے یہ نئے برانڈ کا کپڑا مارکیٹ میں آیا ہے.... جب میں زیب تن کروں گی تو کتنی عزت ہوگی خاندان میں....‘‘ یوسف بیڈ کے ایک جانب بیٹھ کر جوتے کے فیتے کھولنے لگا.... گویا کچھ سنا‌ ہی نہ ہو۔
’’راحین سب ٹھیک تو ہے؟‘‘ ’’ہاں سب ٹھیک ہے۔‘‘ ’’بابا سے کچھ بات ہوئی ہے تمہاری؟‘‘ ’’نہیں انہیں اپنے مطالعے اور کمرے سے فرصت ملے تو کوئی بات ہوگی نا.... تمہارے بابا صبح و شام مطالعے میں ہی غرق ہوتے ہیں انہیں کہاں ہوش کہ اطراف میں کوئی انسان بھی ہے.... جس سے وہ بات کرلیں....‘‘ ’’راحین کیا ہوگیا ہے یہ کس طرح جواب دے رہی ہو؟‘‘ ’’ارے میرے مزاجی خدا.... کوئی بات نہیں ہوئی۔ یہ بتائیں ہم اس ’جنجال‘ سے نکل کر فلیٹ میں کب جارہے ہیں؟ چابی کب تک مل جائے گی فلیٹ کی؟‘‘ راحین فون ایک جانب رکھتے ہوئے پوری طرح یوسف کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگی۔ ’’راحین یہ ’جنجال‘ نہیں میرے والد کی جمع پونجی ہے، یہ محبت اور عقیدت کا گھر ہے۔ اس سے میری مرحوم والدہ کی یادیں جڑی ہیں۔ میں اسے کبھی نہیں چھوڑ سکتا....‘‘ ’’افففف پھر سے یہ ایموشنل بلیک میل شروع.... یوسف کچھ میری بھی تو خواہشیں ہیں، ہم اس دو مرلے کی منزل سے ہٹ کر فلک بوس عمارت میں رہیں گے.... میں بھی آپ کے ساتھ ہی کمپنی میں کام کرنا شروع کردوں گی۔ آپ کی ذمہ داری بٹ جائے گی، بچوں کو خادمہ دیکھ لے گی.... اور سب سے بڑی بات خاندان میں ہماری کتنی عزت ہوگی....‘‘
’’اور بابا....‘‘ یوسف کچھ سوچ کر بولا۔ ’’ارے ہاں! مَیں نے ان‌ کے بارے میں بھی سوچ لیا ہے۔ تمہیں پتا ہے شہر سے دور ایک بہت مہنگا اور لگژری اولڈ ایج ہوم ہے۔ ہم وہاں انہیں بھیج دیں گے۔ انہیں ان کے جیسے دوست بھی مل جائیں گے اور ان کی تنہائی بھی دور ہوجائے گی....‘‘ ’’بس کرو راحین۔‘‘ یوسف کی سماعت میں گویا اس سے زیادہ سننے کی صلاحیت ہی نہ ہو۔ ’’تمہیں ہوش بھی ہے تم کیا کہہ رہی ہو!‘‘ ’’یوسف زمانہ بدل رہا ہے۔ ایک شخص کی کمائی سے گھر چلانا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ مزید اس پر آپ کے بابا کا بوجھ.... اور پھر مَیں نے گھر پر بیٹھنے کیلئے تو ڈگری نہیں لی ہے نا.... صرف تمہارے بابا کی وجہ سے مَیں خاموش ہوں نہیں تو مَیں اب تک لاکھوں کی جاب کر رہی ہوتی!‘‘ راحین کے الفاظ کانوں میں آہستہ آہستہ پگھلا سیسہ انڈیل رہے تھے، ’’اور تم ایسے تو نہیں تھے یوسف! تم تو آزادی کے قائل تھے.... لڑکیوں کی تعلیم اور جاب کے قائل تھے لیکن جب بات خود پر آئی تو مجھے گھر پر بٹھا دیا اب اور نہیں.... میرے حلقے کی تمام دوست باہر جاب کرتی ہیں۔ ہر ویک اینڈ پر کبھی کشمیر میں ہوتی ہیں تو کبھی کیرالہ.... مَیں اس ’جنجال‘ سے بیزار آچکی ہوں۔‘‘
قریب ہی رکھی پانی کی بوتل لے کر یوسف غٹاغٹ پانی پیا۔ شاید اس سے زیادہ سنتا تو کان سننے کی قوت کھو دیتے۔ دفتر کی تھکان ایکدم سے عود کر آئی اور راحین کا لہجہ اور الفاظ.... دل پر عجیب اضطراب کی کیفیت وارد ہونے لگی.... دل چاہا کاش وہ آفس سے گھر ہی نہ آیا ہوتا۔
ثمن سن بلوغت کو عبور کر چکی تھی جبکہ روحیل ۵؍ سال کا تھا۔ روحیل کا وقت چونکہ زیادہ تر دادو کے ساتھ گزرتا تھا اسلئے اسکے اندر غیر محسوس طریقے سے اخلاقی عادتیں پروان چڑھتی جارہی تھیں۔ بڑوں سے سلام کرنا، گھر آئے مہمان کے ساتھ ادب و احترام سے ملنا، ضد نہ کرنا وغیرہ۔ جبکہ ثمن اسکول اور اسکول سے آنے کے بعد سیل فون میں لگے رہتی جس کی وجہ سے وہ لوگوں سے ملنے سے کتراتی تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر چڑ جانا اور کبھی کبھار بدتمیزی بھی کردیتی۔
آج روشن بیگ اور روحیل پارک کے بجائے ساحل سمندر پر جانے کا منصوبہ تھا۔ اسلئے دونوں ہی ساحل سمندر پر بیٹھے خوشگوار فضا سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اچانک روحیل کی نظر ثمن پر پڑی تھی، ’’دادو یہ ثمن آپی ہیں نا دیکھئے؟ ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے روحیل خوشی خوشی کہنے لگا۔ ’’ہاں ہے تو ثمن ہی....‘‘ دادو چشمہ ٹھیک کرتے ہوئے بولے۔ لیکن حیرت تب ہوئی جب اس کے ساتھ کئی لڑکے بھی ساتھ تھے۔ ’’دادو چلو ہم آپی کو بھی ساتھ لے لیتے ہیں۔ وہ بہت خوش ہوں گی ہمیں یہاں دیکھ کر۔‘‘ ’’نہیں بیٹا! اب ہمیں چلنا چاہئے.... میری دوا کا وقت بھی ہوگیا ہے نا چلو ہم نکلتے ہیں....‘‘ ’’دادو ثمن آپی کو بھی لے لیتے ہیں....‘‘ ’’نہیں بیٹا!‘‘
گھر آکر روشن بیگ نے اس بارے میں راحین کو بتایا مگر وہ کچھ سمجھنے کے لئے تیار نہیں تھیں بلکہ چراغ پا ہوگئیں۔
’’تم کوئی موقع نہ جانے نہ دینا ہمیں قید کرنے کا.... میں بتا رہی ہوں، مَیں نے بہت جھیل لی غلامی کی زندگی لیکن مَیں اپنی بیٹی کو اس کی خواہش کے مطابق جینے دوں گی.... وہ جو چاہے کریں اس سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے۔ میری بیٹی ہے، اپنی پسند کے مطابق زندگی گزارے گی وہ آپ کےمطابق نہیں....‘‘
روشن بیگ یوں کھڑے تھے گویا مجرم وہ خود ہو۔
’’یہ کیا ہو رہا ہے راحین؟‘‘
’’کچھ.... کچھ بھی تو نہیں.... ممم.... مَیں تو بس بابا سے کہہ رہی تھی کہ وہ دوائی وقت پر کھا لیا کریں....‘‘ اچانک یوسف کی آمد پر راحین بوکھلا سی گئی۔ ہچکچاتے ہوئے کہتی ہال سے فوراً نکل گئی۔ ’’ابا جان سب خیریت تو ہے؟ آپ اس طرح کیوں کھڑے ہیں.... کچھ ہوا ہے کیا؟‘‘ یوسف کو راحین کی باتوں پر یقین نہیں آیا۔ ’’بابا امی نے دادو کو بہت ڈانٹا ہے۔‘‘ روحیل جو کمرے سے ساری باتیں سہمے ہوئے سن رہا تھا اپنے بابا کو دیکھ کر فوراً باہر نکل آیا۔
’’بابا! ثمن آپی سمندر کے پاس تھی وہ اسکول نہیں گئی تھی تو دادو نے امی سے کہا تو امی دادو کو ڈانٹنے لگیں.... بابا امی نے دادو کو بہت زیادہ ڈانٹا ہے....‘‘ یوسف جلدی جلدی بتانے کی کوشش کررہا تھا معاً کہیں امی پھر سے نہ آجائے....
’’ابا جان آپ پریشان نہ ہوں۔ مَیں سمجھاتا ہوں اسے اور ثمن کی بھی خبر لیتا ہوں.... تعلیم کے نام پر بے راہ روی سیکھ رہی ہے....‘‘
’’چلیں آپ کمرے میں....‘‘ روشن بیگ سے بغل گیر ہوتے ہوئے انہیں ان کے کمرے میں چھوڑ کر راحین کی جانب بڑھ گیا۔
’’راحین میں کیا سن‌ رہا ہوں۔‘‘ ’’جو بھی سن رہے ہو بالکل صحیح ہے۔ میں اپنی بیٹی کی زندگی میں کسی کی مداخلت نہیں چاہتی ہوں۔ اسے اتنی آزادی ہو کہ وہ اپنی خواہشوں کو پورا کرسکے۔‘‘ (وہ اس صورتحال کے لئے ذہنی طور پر تیار تھی اور اپنی بات واضح انداز میں کہنا چاہتی تھی)
’’راحین، ثمن اسکول کے نام پر کہیں اور گئی ہوئی تھی اور تم اتنی آسانی سے اس کی طرف داری کررہی ہو۔‘‘
’’مَیں طرف داری نہیں کررہی ہوں۔ میں صرف اتنا کہہ رہی ہوں کہ میری بچی نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ اس کا دل چاہا کہیں چلے جائے تو چلی گئی۔ اس میں کون سا طوفان آگیا کہ تم اتنا چراغ پا ہورہے ہو۔ اور کیا پتا آپ کے والد جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘
’’بس.... خاموش....‘‘ ایک دم طیش میں آکر یوسف کا ہاتھ اٹھا.... لیکن ہوا میں ہی لہرا کر رہ گیا.... روحیل اپنے بابا کے پاؤں سے لپٹ گیا تھا.... اگر روحیل نہ آتا تو شاید ہاتھ ہوا کی جگہ راحین کے رخساروں پر ہوتا....
راحین ایک لمحہ کیلئے سہم گئی تھی لیکن ڈھٹائی سے کہنے لگی، ’’آپ کبھی بھی اپنے والد کی غلطی تسلیم نہیں کرتے ہو.... مَیں آج کہہ دیتی ہوں اس گھر میں تمہارے ابا رہیں گے یا پھر مَیں....‘‘ دروازے کے عقب میں کھڑا لاغر وجود کانپ کر رہ گیا! 
کچھ برسوں بعد! بڑے سے ہال نما کمرے میں صاف و شفاف فرش پر قالین بچھی ہوئی تھی۔ ایک جانب چند صوفے سلیقے سے لگے ہوئے تھے جبکہ درمیان میں خوبصورت سا سنگ مرمر کا ٹیبل رکھا تھا جس پر گلدان کے علاوہ ایک پلیٹ میں نٹس رکھے ہوئے تھے۔ دروازے اور کھڑکیوں کو مخملی پردوں سے مزین کیا گیا تھا۔
کچن سے آتی آواز میں بیزاری پنہاں تھی: ’’مما پلیززززز! مَیں آپ سے اجازت نہیں مانگ رہی بلکہ آپ کو اطلاع کر رہی ہوں کہ کل مَیں پکنک کیلئے جا رہی ہوں تو جا رہی ہوں.... آپ مجھے منع نہیں کرسکتی....‘‘ فریج سے جوس کی بوتل نکال کر ثمن اپنی بات کہتے ہوئے جا چکی تھی۔ اور راحین غصے سے پیچ و تاب کھا کر رہے گئی۔
’’میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو کچن صاف کرو توجہ سے....‘‘ خادمہ پر غصہ نکال کر راحین کچن سے باہر نکل گئی۔ کمرے میں آئی تو کیا دیکھتی ہے دونوں باپ بیٹے لیپ ٹاپ پر کسی سے محو گفتگو ہیں۔ اسکرین پر یوسف کے ابا کا چہرہ مسکرا رہا تھا۔
’’تم لوگوں کو کوئی اور کام نہیں ہے جب دیکھو لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ جاتے ہو.... رکھو اسے اور روحیل اپنے کمرے میں جاو اسٹڈیز پر دھیان دو۔‘‘
روحیل دادو کو سلام کرتا ہوا نکل گیا جبکہ یوسف بھی اختتامیہ جملے کہتے ہوئے لیپ ٹاپ بند کرکے پرے رکھا۔ ابھی راحین کچھ کہتی کہ ہاتھ میں پکڑا فون تھرتھرانے لگا، ’’ہیلو! کیا.... نہیں، نہیں میری بیٹی ایسی نہیں ہے.... ہاں ہاں لوکیشن بھیجو میں پہنچتی ہوں۔‘‘ ’’کیا ہوا راحین بولو....‘‘ راحین کے ہاتھ کانپ رہے تھے جبکہ الفاظ نے گویا ساتھ نہ دینے کی قسم کھائی ہو، ’’یوسف.... یوسف.... ہماری بیٹی.... وہ.... ادھر....‘‘ ’’کیا ہوا راحین.... کیا ہماری بیٹی....‘‘ یوسف نے دونوں کندھوں کو پکڑ کر جھنجھوڑ کر پوچھا۔
راحین اور یوسف کی آنکھیں استعجاب و حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔ ثمن ایک لڑکے کے انتہائی قریب کھڑے دنیا و مافیہا سے بیگانہ اسٹینگ اور سگریٹ نوشی میں محو تھی.... جسم پر نقاب کی جگہ شارٹ ٹی شرٹ اور اسکرٹ تھا.... یوسف کے گویا ہوش اڑ گئے ہو اپنی بیٹی کو اس حالت میں دیکھ کر.... ایک ساعت میں بھوکے شیر کی مانند یوسف اس لڑکے پر چھپٹا جبکہ ثمن اپنے باپ کو دیکھ کر سہم گئی۔ یوسف پے در پے ساتھ کھڑے لڑکے پر گھونسے اور لاتوں کی بوچھار کرنے لگا۔ راحین اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ یوسف کو اس طرح دیکھ رہی تھی۔ ’’بابا.... بابا.... میں اسے پسند کرتی ہوں.... پلیزززز بابا! اس نے کچھ نہیں کیا ہے.... بابا میں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں....‘‘
یوسف کے ہاتھ اچانک رک گئے۔ اپنی بیٹی کی جانب دیکھا جسے وہ بچی سمجھتا رہا، وہ اپنی شادی کی بات کر رہی ہے۔ ’’دفع ہوجاؤ میری نظروں سے.... اسے لے جاؤ یہاں سے کہیں ایسا نہ ہو میں بیٹی کا لحاظ نہ کروں اور اس پر میرا ہاتھ اٹھ جائے....‘‘ دہاڑتی ہوئی آواز میں کہتے ہوئے یوسف وہاں سے جا چکا تھا۔
لڑکے کے چہرے سے خون کی دھاریں بہہ رہی تھیں جبکہ ثمن، باپ کے جاتے ہی فوراً اس لڑکے کے قریب گئی.... چہرے پر پھیلے خون کو صاف کرنے لگی۔ آنکھوں سے آنسو بہے رہے تھے۔ وہ اسے سینے سے لگائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی جبکہ راحین کے جسم سے گویا روح نکل چکی ہو.... یہ منظر اس کا باپ پھر سے نہ دیکھ لے اس خوف سے اس نے گھسیٹتے ہوئے ثمن کو کار میں بٹھایا اور فوراً وہاں سے نکل گئی۔
ساؤنڈ پروف عمارت میں کہرام مچا ہوا تھا۔ روحیل شش و پنج میں تھا کہ ایسی کیا بات ہوگئی ہے کہ بابا شدید طیش میں ہیں۔ جبکہ راحین مردہ جسم لئے کھڑی تھی اور ثمن اپنے کمرے کی کنڈی کھولنے کیلئے تیار نہ تھی۔ ’’بابا! ثمن آپی نے کھانا نہیں کھایا ہے.... ان کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا!‘‘ روحیل نے خاموش فضا کے سکوت کو توڑا۔
’’روحیل تم کمرے میں جاو.... صبح جلدی کالج جانا‌ ہے۔‘‘ ’’جی بابا!‘‘ کہتے ہوئے روحیل کمرے سے جا چکا تھا۔
’’یوسف قسم خدا کی مجھے کچھ نہیں معلوم.... مجھے ذرا بھی علم ہوتا کہ ثمن کالج کے بہانے یہ سب کر رہی ہے تو میں اس کی کھال ادھیڑ لیتی....‘‘ ’’کیا بابا نے تمہیں اس سے پہلے نہیں بتایا تھا۔ میری سختی کرنے پر تم الٹا مجھے ہی برا بھلا کہنے لگی تھی۔ یاد کرو اپنے الفاظ....‘‘ (اتنی چھوٹی سوچ کے ہو تم یوسف.... لڑکی ہے کانوینٹ کالج میں پڑھتی ہے اب اتنا تو چلتا ہے.... زمانے کے ساتھ لوگ بدلتے ہیں۔ ہمیں اپنی سوچ تھوڑی وسیع کرنی ہوگی) راحین کے سامنے ماضی کا منظر کسی فلم کی طرح چلنے لگا تھا۔ ’’ہم نے طے کیا تھا نا بچوں کی بہترین تربیت کریں گے (تم‌ ثمن کی کارکردگی پر نظر رکھو گی میں روحیل کی) پھر یہ کیا ہے راحین.... میں روز تم سے ثمن کے بارے دریافت کرتا، تم یہ کہتی رہی وہ کمرے میں پڑھ رہی ہے.... تم کہتی میں کالج جا کر اس کی رپورٹس لیتی ہوں.... یہ کیا ہے پھر.... تمہیں آزادی چاہئے تھی نا دیکھ لیا آزادی کا نتیجہ.... تم آسائش سے پُر زندگی گزارنے کے باوجود جاب کرنے پر آمادہ رہی، میں نے کئی مرتبہ سجھایا لیکن تم سمجھتی رہی میں تمہاری آزادی میں خلل ڈال رہا ہوں.... تمہیں اچھا کریئر بنانا‌ تھا.... راحین ایک بیوی کا کریئر سب سے پہلے اس کا گھر ہوتا ہے.... اس کی عزت برانڈیڈ کپڑوں سے نہیں اس کے اخلاق سے ہوتی ہے.... تمہاری ہر خواہش کو میں مقدم رکھتا ہوں لیکن پھر بھی تم‌ آفس میں خوار ہوتی رہی.... تمہاری ذمہ داری یہ گھر ہے.... اس گھر کے مکین ہیں.... تمہارے بچے تمہاری توجہ کے محتاج ہیں۔ اگر تم ان کی دوست نہیں بنوں گی تو اس معاشرے کے درندہ صفت انسان دوست بن کر انہیں کھا جائیں گے..... نتیجہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے۔ مجھے یہ بتاؤ کیا پیسوں سے ثمن کا کردار اچھا بنا سکوں گی.... ایک عورت کی کامیابی اعلیٰ ڈگری اور جاب نہیں ہے....‌ ایک عورت کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنے گھر کے بچوں کی ذمہ داری بحسن و خوبی نِبھا سکے، اپنی تعلیم کا استعمال بچوں کی بہترین تربیت کیلئے کرے.... اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں بھی اپنے شوہر کے ساتھ مخلص ہو.... بچے نوکروں سے نہیں پلتے ہیں۔ بچوں کی نگہداشت ایک ماں کے سوا کوئی بہتر طریقے سے نہیں کرسکتا۔ مَیں خود بھی اپنی بیٹی کا ذمہ دار ہوں.... مجھے خود اپنی بیٹی پر نظر رکھنا چاہئے تھا....‘‘ یوسف دونوں ہاتھوں پر سر گرا کر خود کو بے بس محسوس کررہا تھا۔ ’’راحین کم از کم اگر ابا جان ہوتے تو وہ تمہاری غیر موجودگی میں بچوں کی بہتر نگہداشت تو کرتے.... بزرگ بوجھ نہیں ہوتے.... بزرگوں کا گھر میں ہونا اللہ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے لیکن تم یہ سب کیوں سمجھوں گی.... تمہارے لئے تو یہ سب قید ہے.... تو آج میں تمہیں اس قید سلاسل سے آزاد کرتا ہوں.... میں تمہیں....
یوسف تھکا ماندا گھر میں داخل ہوا.... راحین دروازے پر آکر ہی دفتری بیگ ہاتھ سے لے کر ایک جانب رکھا۔
’’تم فریش ہوجاؤ میں کھانا لگاتی ہوں۔‘‘
’’نہیں مجھے بھوک نہیں لگی، تم کھا لو۔‘‘ یوسف پر کل کی بات کا اتنا گہرا اثر تھا کہ اس نے گھر کی بدلتی فضا کو محسوس ہی نہیں کیا۔ خاموشی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ کمرے میں داخل ہو کر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ دروازے پر آہٹ پا کر سر اٹھایا تو متحیر رہ گیا۔ سامنے روحیل اپنے دادو کا ہاتھ پکڑے اندر داخل ہو رہا تھا۔
’’ابا جان آپ....‘‘ یوسف متحیر تھا.... دوڑ کر ان سے گلے لگ گیا.... آنسو بے اختیار آنکھوں کی باڑ پھلانگ کر رخساروں پر بہتے جارہے ہیں تھے۔ پیچھے سے راحین اندر داخل ہوئی چہرے پر پشیمانی کے واضح آثار نمایاں تھے۔
’’بابا! امی اور مَیں دادو کو پھوپھو کے وہاں سے لے آئے....‘‘ روحیل نگاہیں جھکائے کہنے لگا، ’’بابا! میں آپ سے معافی کا طلبگار ہوں.... امی کہہ رہی تھی دادو کو اولڈ ایج ہوم سے لے آتے ہیں تو مجھے بتانا پڑا ہم نے دادو کو اولڈ ایج ہوم میں نہیں بلکہ پھوپھو کے وہاں کچھ دنوں کیلئے چھوڑا ہے....‘‘ یوسف اپنے اس تابع دار بچے کی معصومیت پر قربان ہونے لگا.... (اتنی سی بات کیلئے معافی)
ثمن دروازے کے بالکل کنارے کھڑی تھی سرخ چہرا لئے آنکھوں سے آنسو بہے رہے تھے.... ’’بابا مجھے معاف کر دیں.... مَیں بہک گئی تھی۔‘‘ یوسف کبھی ثمن کو دیکھتا تو کبھی راحین کو....
’’مَیں بھی اپنے اعمال پر شرمسار ہوں.... مجھے معاف کردیں.... کچھ خواہشیں انسان کو ذلت کے اندھیرے میں دھکیل دیتی ہیں.... مَیں ایسی خواہشوں سے پناہ مانگتی ہوں.... مَیں گھر ہی سے آپ کی مدد کروں گی۔ اگر ضرورت پڑی تو آن لائن کام کروں گی لیکن میری پہلی ترجیح اس گھر کے مکین ہوں گے.... میں اپنے بچوں کی تربیت میں اپنا کریئر بناؤں گی.... مَیں ان کی بہترین پرورش کروں گی۔ ان‌ کے اخلاق پر خصوصی توجہ دوں گی۔ یوسف کل سے میں نے آن لائن درس قرآن کی کوچنگ بھی جوائن کر لی ہے.... مجھے معاف کردیں پلیززززززززز!‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK