ڈاکٹر صوفیہ صبح کے وقت اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوئی۔ وہ ایک پُرعزم، محنتی اور اپنے پیشے سے محبت کرنے والی لڑکی تھی۔
EPAPER
Updated: September 25, 2024, 4:47 PM IST | Khan Safia Muhammad Sharif | Mumbai
ڈاکٹر صوفیہ صبح کے وقت اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوئی۔ وہ ایک پُرعزم، محنتی اور اپنے پیشے سے محبت کرنے والی لڑکی تھی۔
ڈاکٹر صوفیہ صبح کے وقت اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوئی۔ وہ ایک پُرعزم، محنتی اور اپنے پیشے سے محبت کرنے والی لڑکی تھی۔ اُس کا سفید کوٹ اُس کے مضبوط ارادوں کی علامت تھا اور گلے میں لٹکا اسٹیتھو اسکوپ اُس کی ذمہ داری کا اظہار کرتا تھا۔ مگر آج اُس کے دل میں ایک عجیب سی بے چینی تھی۔ اُسے لگتا تھا جیسے کچھ غلط ہونے والا ہے۔ وہ اپنے معمول کے مطابق مریضوں کا معائنہ کرنے لگی، لیکن ذہن میں گھر اور سماج کی فکر مسلسل گردش کر رہی تھی۔
اسپتال کا ایمرجنسی وارڈ ہمیشہ کی طرح مصروف تھا۔ اسٹریچرز پر لیٹے مریض، ان کے اردگرد بھاگتے ڈاکٹرز اور نرسیں، اور اردگرد گونجتی مشینوں کی آوازیں.... صوفیہ، ایک سینئر ڈاکٹر تھی، ہر مریض کو پوری توجہ سے دیکھ رہی تھی۔ اُس کے ہاتھوں کی مہارت اور آنکھوں کی تیز نگاہیں اُسے ایک بہترین ڈاکٹر بناتی تھیں۔ مریض اُس پر بھروسہ کرتے تھے، اور اُس کے ساتھی اُس کی عزت کرتے تھے۔
صوفیہ کے والدین ایک روایتی، قدامت پسند گھرانے سے تھے، جہاں بیٹیوں کو آزادی نہیں دی جاتی تھی۔ وہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے جہاں لڑکیوں کو تعلیم تو دلائی جاتی تھی، مگر انہیں زندگی کے بڑے فیصلوں میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ صوفیہ کی والدہ فوزیہ، ایک گھریلو خاتون تھیں جو اپنی بیٹی کی کامیابی پر فخر تو کرتی تھیں لیکن ہمیشہ سماج کے ڈر سے اُس کی آزادی کو محدود رکھنے کی کوشش کرتی تھیں۔ صوفیہ کی کامیابی اور خودمختاری کے باوجود، اس کے گھر میں ایک عجیب سی کشمکش ہمیشہ جاری رہتی تھی۔ اُس کے والدین اکثر اس بات پر فکرمند رہتے تھے کہ صوفیہ کب شادی کرے گی، اور کس طرح اُس کے شوہر کو اُس کی ڈاکٹری اور آزادی پسند آئے گی۔ صوفیہ کی ماں اکثر کہتی، ’’بیٹی، تمہاری عمر ڈھل رہی ہے۔ لوگ کیا کہیں گے کہ لڑکی ڈاکٹری کرتی ہے اور اب تک گھر بیٹھی ہے؟‘‘
صوفیہ اکثر دل میں سوچتی کہ کیوں اُس کی محنت اور کامیابیوں کو ہمیشہ شادی کے پیمانے پر تولا جاتا ہے۔ اُس کے لئے زندگی کا مقصد صرف شادی کرنا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے پیشے کے ذریعے انسانیت کی خدمت کرنا چاہتی تھی۔
سماج میں صوفیہ کے بارے میں باتیں ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ محلے کی عورتیں اور رشتہ دار اکثر اُس کی ماں سے پوچھتے، ’’اب صوفیہ کا کیا سوچا ہے؟ اتنی پڑھائی کرا دی، اب شادی کے بارے میں کب سوچو گی؟‘‘ یہ سوالات، صوفیہ کے والدین کو مزید فکر میں مبتلا کر دیتے۔ صوفیہ کی ماں اُس پر دباؤ ڈالتی کہ وہ اپنا کام چھوڑ کر گھر بسائے جبکہ صوفیہ کی خواہش تھی کہ وہ مزید آگے بڑھے اور ترقی کرے۔ایک دن، صوفیہ کے گھر والوں نے اُس کیلئے ایک رشتہ طے کر دیا۔ لڑکے کا نام زین تھا، جو ایک بڑے کاروباری خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔
پہلی ملاقات میں ہی زین نے صوفیہ سے کہا، ’’مجھے تمہاری ڈاکٹری پسند ہے مگر شادی کے بعد تمہیں گھر سنبھالنا ہوگا۔ ڈاکٹر ہونا ٹھیک ہے، لیکن میری بیوی کو اتنا مصروف نہیں ہونا چاہئے کہ گھر اور بچے نظرانداز ہو جائیں۔‘‘ یہ بات سن کر صوفیہ نے ایک عجیب سی بے بسی محسوس کی۔ اُس نے اپنی زندگی کے کئی سال محنت میں گزارے تھے، اور اب اُسے اپنی آزادی اور خوابوں کی قربانی دینے کو کہا جا رہا تھا۔ اُس کے لئے یہ فیصلہ آسان نہیں تھا۔
اُس رات صوفیہ نے اپنے والدین سے بات کی۔ اُس نے اپنی ماں سے کہا، ’’امی! مَیں آپ کی عزت کرتی ہوں، اور مَیں جانتی ہوں کہ آپ میرے لئے بہترین چاہتی ہیں۔ لیکن کیا میرا خواب، میری محنت اور میری کامیابیاں کچھ معنی نہیں رکھتیں؟ کیا ایک لڑکی کا مقصد صرف شادی اور بچوں کی پرورش تک محدود ہے؟‘‘
فوزیہ نے یہ سن کر آنسوؤں میں کہا، ’’بیٹی، ہم تو صرف تمہاری بھلائی چاہتے ہیں۔ سماج کا دباؤ ہے، ہم کیا کریں؟ لوگ کیا کہیں گے کہ تم اب تک غیر شادی شدہ ہو؟‘‘
صوفیہ نے جواب دیا، ’’امی! سماج کا کام ہے باتیں بنانا، لیکن میری زندگی کے فیصلے مجھے خود کرنے دیں۔ میں اپنی شناخت اور خوابوں کی قربانی نہیں دے سکتی، صرف اس لئے کہ لوگ کیا کہیں گے!صوفیہ نے زین کا رشتہ ٹھکرا دیا اور اپنے پیشے میں مزید ترقی کرنے کا عزم کیا۔ اُس نے اپنے والدین کو سمجھایا کہ شادی زندگی کا حصہ ہوسکتی ہے، لیکن زندگی کا واحد مقصد نہیں۔ وہ ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھ رہی تھی جہاں لڑکیاں آزادانہ طور پر اپنے فیصلے کرسکیں اور اُنہیں سماج کی روایتی زنجیروں میں نہ جکڑا جائے!