• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ : ’’کیا بنے گا شیبا کا....‘‘

Updated: January 15, 2025, 3:29 PM IST | Nazanin Firdous | Mumbai

’’مَیں پتہ کرتی ہوں۔ تب تک تم میرے لئے اچھی سی چائے بنا کر لاؤ۔‘‘ آپی نے لگے ہاتھوں اسے چائے بنانا سکھانا چاہا۔ ’’چائے تو بنا دوں گی لیکن وہ پینے لائق نہیں ہوتی۔ اسلئے چائے کا ارادہ ترک کریں اور یہ ڈائجسٹ پڑھیں۔‘‘

Picture: INN
تصویر: آئی این این

’’شیبا.... شیبا.... یہ تمہارے کپڑے الماری میں رکھ لو۔ تہہ کرنا تو تم سے ہوا نہیں۔ مَیں نے ہی کر دیا ہے....‘‘ امی اسے پکارتی اس کے کمرے میں آئیں تو وہ اپنے اسمارٹ فون میں منہ دیئے بیٹھی تھی۔ امی کی تو جان جل کر خاک ہوگئی۔
 ’’شیبا....‘‘ وہ چلائیں۔
 ’’یہ کپڑے رکھنے ہیں الماری میں.... جلدی سے الماری کھولو۔‘‘ وہ دونوں ہاتھوں میں کپڑوں کا ڈھیر جو کہ تہہ کیا ہوا تھا لے کر کھڑی تھیں۔
 ’’اوہ.... ہو! اچھا! امی ابھی کھولتی ہوں۔‘‘ وہ امی کے غصہ سے ڈر کر الماری کھول چکی تھی۔ لیکن الماری کھولنے کی دیر تھی کہ الماری سے کپڑوں کی برسات ہونے لگی۔
 ’’یہ کیا ہے شیبا۔ کبھی تو الماری میں کپڑے ڈھنگ سے جماؤ۔ یہ دیکھو.... کپڑے کیسے ابل رہے ہیں۔‘‘ امی نے ایک کھولتی ہوئی نظر شیبا پر ڈالی جو اب گرے ہوئے کپڑوں کو جلدی جلدی الماری میں ٹھونس رہی تھی۔ ’’امی! پتا نہیں اس الماری کو مجھ سے کیا دشمنی ہے۔ جب دیکھو.... غصہ سے میرا مطلب کپڑوں سے ابلتی رہتی ہے۔‘‘ وہ اپنی بد سلیقگی پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں جلدی جلدی کپڑوں کو الماری میں ڈھکیلتی ہوئی بولی تو امی کا پارہ ساتویں آسمان پر چڑھ گیا۔
 ’’دشمنی؟ شیبا.... دشمنی تو شیبا تمہیں اپنے آپ سے ہے۔ تم سگھڑ سلیقہ مند لڑکی کب بنوگی پتہ نہیں۔ مَیں تو بس دعا ہی کر سکتی ہوں۔‘‘ غصہ سے بولتے بولتے آخر میں امی کا لہجہ ما یوس سا تھا۔
 ’’امی جب دعا ہی کرنا ہے تو پھر میرے لئے ایسے لڑکے کی دعا مانگیں نا جو مجھے میری بد سلیقگی کے ساتھ قبول کرے۔‘‘ وہ شرارتاً بولی تو امی نے پہلے الماری میں کپڑے رکھے۔ پھر سکون سے الماری کا پٹ بند کیا اور پھر پلٹ کر اس کے پاس آئیں۔ اور ایک دھموکا جڑ دیا اس کی پیٹھ پر، ’’نجانے کیا بنے گا شیبا تیرا....‘‘
 ’’ہائے امی کچھ بنے نہ بنے میرا مربہ تو ضرور ہی بنے گا۔‘‘ وہ اپنی پیٹھ کو ایک ہاتھ سے سہلاتے ہوئے بولی تو امی اسے گھورتی باہر چلی گئیں۔
 شیبا ان کی دوسری بیٹی تھی۔ بڑی بیٹی ثوبیہ تو اتنی سگھڑ سلیقہ مند تھی کہ اس کے سارے خاندان میں چرچے ہی چرچے تھے۔ شیبا ہوئی تو وہ یہی سمجھیں کہ وہ بھی اتنی ہی سلیقہ مند ہوگی جتنی ثوبیہ۔ مگر یہ ان کی بد قسمتی تھی کہ شیبا سارے خاندان میں اپنے پھوہڑ پن کی وجہ سے مشہور ہوگئی تھی۔ وہ اب سترھواں سال پار کر چکی تھی۔ اور اب تک اسے انڈے اُبالنے، چائے بنانی بھی نہیں آتی تھی۔
 باورچی خانہ میں جاکر وہ، ’’امی! یہ جو آٹا جیسا ہے وہ میدہ ہے یا بیسن؟‘‘ پوچھتی تو امی کا خون کھولنے لگتا۔
 اب وہ رشتہ والی سے شیبا کے رشتے کی بات کر رہی تھیں تو ثوبیہ نے کہا، ’’امی! آپ رشتہ تو دیکھیں۔ باقی سب وہ سیکھ جائے گی۔‘‘
 اور امی سوچتیں: شیبا اور کچھ سیکھ لے.... یہ تو اس صدی میں نا ممکن سا لگ رہا ہے۔
ز ز ز
 ’’شیبا.... اے شیبا....‘‘ ثوبیہ آپی اسے پکار رہی تھیں۔ وہ جو ڈائجسٹ پڑھ رہی تھی۔ ان کی آواز سن کر ان کے پاس پہنچی۔
 ’’یہ.... دیکھو امی نے تمہارے لئے رشتہ پسند کیا ہے اس لڑکے کی فوٹو....‘‘ وہ اسے تصویر بتا رہی تھیں۔ اس نے جلدی سے تصویر جھپٹ لی۔
 ایک سانولا سا لڑکا گھنی مونچھوں کے ساتھ کسی ہو ٹل کی ریلنگ پکڑے مسکرا رہا تھا۔
 ’’ہمم.... دیکھنے میں تو ٹھیک ٹھاک ہی ہے۔‘‘ اس نے تصویر کو جانچا، ’’مگر یہ بالکل بھی سالار سکندر جیسا نہیں ہے۔‘‘
 اس کی بات پر آپی ہنسیں۔
 ’’وہ تمہیں افسانوں میں ملے گا ’اوریجنل ورژن‘۔ یہ ’ڈپلیکیٹ ورژن‘ میں ہے۔ چلے گا؟‘‘
 ’’چلا لوں گی۔ ویسے بھی امی کون سا مجھے اتنا پروٹوکول دیں گی کہ، دیکھ لو.... چلے گا کہ نہیں.... وہ تو مجھے کہیں گی، چلانا ہی پڑے گا ورنہ مَیں تمہیں چلتا کر دوں گی۔‘‘ اس نے امی کی نقل اتاری تو آپی کا ہنستے ہنستے چہرہ لال ہوگیا۔
 ’’ویسے موصوف کرتے کیا ہیں؟‘‘ اس کو ایک اور اہم کام کی بات یاد آئی۔
 ’’امی کہہ رہی تھیں کسی ہوٹل میں کام کرتا ہے۔‘‘ آپی نے سادگی سے کہا تو وہ اچھل کر رہ گئی۔
 ’’ہوٹل میں آپی.... کہیں باورچی تو نہیں۔‘‘
 ’’ارے نہیں، باورچی نہیں ہے۔‘‘
 ’’ہیں.... تو پھر کیا ویٹر ہے۔‘‘ اس کا تو دم نکل گیا۔ ’’کیوں فضول سوچ رہی ہو۔ ویٹر بھی نہیں ہے۔‘‘ ’’باورچی نہیں، ویٹر بھی نہیں تو کیا واچ مین، چپراسی یا پھر کلینر ہے کیا....؟ اگر ان میں سے کچھ نکلا تو خودکشی کر لوں گی۔‘‘ وہ روہانسی ہوگئی۔
 ’’مَیں پتہ کرتی ہوں۔ تب تک تم میرے لئے اچھی سی چائے بنا کر لاؤ۔‘‘ آپی نے لگے ہاتھوں اسے چائے بنانا سکھانا چاہا۔
 ’’چائے تو بنا دوں گی لیکن وہ پینے لائق نہیں ہوتی۔ اس لئے چائے کا ارادہ ترک کریں اور یہ ڈائجسٹ پڑھیں۔‘‘ اس نے آپی کی طرف ڈائجسٹ بڑھائی تو آپی نے ڈائجسٹ پرے کیا۔
 ’’دور رکھو اسے۔ تم کو ہی بھاتی ہے یہ ڈائجسٹ کی نقلی دنیا۔ جہاں ہیروئن بھولی بھالی اور ہیرو بے انتہا خوبصورت پرسنالٹی والا۔ اور اسے وہ گاؤدی سی ہیروئن پسند بھی آجاتی ہے جسے صحیح سے بات کرنا بھی نہیں آتا۔‘‘ آپی جس انداز میں اس کی ڈائجسٹ کی ہیرو ہیروئن پر تنقید کر رہی تھیں اس سے تو اس کے بدن میں پتنگے لگے۔
 ’’تو آپ کو کیا لگتا ہے ہیرو کو یہ سلیقہ مند سگھڑ لڑکیاں اچھی نظر آتی ہوں گی۔ نہیں.... ایسی تو ہزاروں ہوتی ہیں۔ اس لئے وہ ایک انوکھی لڑکی پسند کرتا ہے جو....‘‘
 ’’انڈے بھی ٹھیک سے ابال نہیں سکتی۔‘‘ آپی نے اس کی بات کاٹی تو وہ خونخوار ہوگئی۔
 ’’دیکھ لینا.... میرا ہیرو مجھے ضرور قبول کر ے گا۔‘‘ اسکے پُر عزم لہجہ پر بھی آپی نے رحم نہیں کھایا۔
 ’’آہ.... بیچارہ! مجھے تو اس پر ابھی سے ترس آرہا ہے۔‘‘
 ’’ہونہہ.... بیچارہ.... ہوٹل والا.... مَیں امی کو کہہ دونگی کہ اس ہوٹل والے کو ریجیکٹ کر دیں۔‘‘
 ’’ارے! کیوں ریجیکٹ کریں.... ہوسکتا ہے وہ باورچی ہی ہو تو تمہاری تو لاٹری ہی نکل آئیگی نا۔ نہ پکانے کی جھنجھٹ نہ کام کرنے کی ضرورت۔ مزے سے ۳؍ وقت ہو ٹل کا کھانا ملے گا پکا پکایا....‘‘ آپی نے اسے لالچ دیا۔
 ’’مَیں....‌کھانے کے لالچ میں ایک باورچی سے شادی کبھی نہیں کروں گی....‘‘ اس کے حتمی انداز پر آپی نے اپنا قہقہہ بمشکل روکا۔ ’’چلو دیکھتے ہیں۔ پہلے وہ ہوٹل والے صاحب تمہیں پسند کر لیں۔ یہ بھی بہت بڑی بات ہے۔‘‘ آپی کی اس بات پر تو وہ جل کر اٹھ ہی گئی تھی۔
ز ز ز
 آج صبح ہی سے امی کی تیاریاں مشکوک لگ رہی تھیں۔ وہ کبھی پردے بدل رہی تھیں تو کبھی کشن۔ یہاں تک کہ جہیز کا ڈِنر سیٹ بھی نکال چکی تھیں جسے دیکھ کر وہ بے ہوش ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔ یہ وہ ڈِنر سیٹ تھا جو امی کی شادی پر جس طرح آیا تھا آج تک اسی طمطراق کے ساتھ شو کیس میں سجا رہتا تھا۔ مجال ہے جو کبھی خوشی غمی کے موقع پر بھی اسے نکالا گیا ہو۔ اسی لئے وہ اکثر کہتی تھی، ’’امی! بھلے سے آپ کو، ابو کو، ہم سب کو زمانے کے دھکے لگے ہوں مگر یہ واحد ڈِنر سیٹ ہے جسے شادی سے لے کر آج تک ایک دھکا بھی نہیں لگا۔‘‘
 ابو کو اس کی بات اتنی پسند آئی تھی کہ انہوں نے اسے اپنے دل کی باتوں کا قانونی ترجمان کا خطاب دے دیا تھا۔
 امی نے حسب معمول ایک دھموکا اس کی پیٹھ پر لگا دیا تھا اور کہا تھا، ’’کیا بنے گا شیبا تیرا....‘‘
 تو آج وہ نادر ڈِنر سیٹ نکلا تھا تو ضرور کچھ انوکھی بات ہوگی۔
 ’’مگر کیا؟‘‘ وہ سوچنے پر مجبور ہوگئی۔ اس کی مشکل آپی نے حل کر دی۔
 ’’وہ آرہے ہیں تمہیں دیکھنے۔‘‘ وہ رکیں، ’’ہوٹل والے....‘‘ اپنی بات مکمل کرتی وہ ہنسنے کا فریضہ بھی انجام دے چکی تھیں۔
 ’’کیا....؟‘‘ وہ چیخی۔
 ’’مَیں نے کہا تو تھا مجھے کسی ہوٹل والے سے شادی نہیں کرنی۔‘‘
 ’’مگر لگتا ہے انہیں کرنی ہے تم جیسی پھوہڑ سے شادی۔ اسی لئے اپنی قسمت پھوڑنے آرہے ہیں۔ بیچارے....‘‘ آپی یہ کہتی یہ جا وہ جا۔ وہ جوابی حملہ کرنے کا سوچتی ہی رہ گئی۔
 ’’ابھی.... کرتی ہوں ‌اس ہوٹل والے کا کام پکا۔‘‘ اس نے ٹیبل پر رکھا امی کا اسمارٹ فون لیا۔ اور وہاٹس اپ کھولا۔
 وہاں کچھ پیغامات تھے اور بائیو ڈیٹا بھی۔ بائیو ڈاٹا میں لڑکے کا فون نمبر بھی درج تھا۔

اس نے اپنے فون میں اس نمبر کو سیو کیا۔ اور اپنے کمرے میں چلی آئی۔
 ’’محترم.... آداب! دراصل مَیں شیبا آپ سے اپنے ’’من کی بات‘‘ کرنے والی ہوں۔ سچ پوچھیں تو آپ لوگ جو آج مجھے دیکھنے آرہے ہیں تو ضرور آئیں مَیں منع نہیں کروں گی۔ بقول آپی کہ: اگر قسمت پھوٹنا ہی ہے تو مجھ سے کیوں نہیں۔ کیونکہ مَیں نمبر وَن کی پھوہڑ ہوں۔ مجھ سے چائے تو کبھی بنی نہیں۔ یا تو وہ جل جاتی ہے یا مَیں۔ کچن میں جاتی ہوں تو اکثر پیر کانپنے لگتے ہیں۔ کسی چیز کی سمجھ نہیں آتی۔ عجیب عجیب چیزیں جو ہوتی ہیں کچن میں۔ اب اس زیرہ ہی کو لیں۔ ایک زیرہ کافی نہیں تھا کہ اسے شاہ زیرہ بھی بنا ڈالا۔
 بر صغیر میں تفریق بہت ہے ہر چیز میں۔ ایک غریب زیرہ تو ایک شاہ.... واہ!
 اور ایک آٹا ہو تا ہے جو کبھی کارن فلور تو کبھی میدہ۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ان دونوں کو ایک جیسا رکھ کر مجھے کیوں سزا دی جاتی ہے۔
 مَیں کبھی کارن فلور کے بسکٹ بنا دیتی ہوں تو کبھی میدہ سے مچھلی تل لیتی ہوں۔ عجب ہی گورکھ دھندہ ہے.... ہے ناں!
 دالوں کو دیکھ کر تو دل انہیں کچا چبانے کو چاہتا ہے کیا ضرورت تھی کہ وہ دال بن کر آتیں۔ گوشت بن کر آتیں تو کھانے میں مزہ تو آتا۔
 خیر.... میری ان سب باتوں کا مقصد ایک ہی ہے کہ آپ یہاں تشریف نہ لائیں.... آپ کو ازحد مایوسی ہوگی۔
 ہاں، اگر پکا ارادہ کر ہی لیا ہے تو آتے ہوئے رس گلے ضرور لائیں کہ مجھے بہت پسند ہیں۔ اور اس کی ایک ہی شرط ہے کہ رس گلے ہوں اور ڈھیر سارے ہوں۔
 خیر.... اب بس....!
 ورنہ امّی آجائیں گی اور ایک دھموکا پیٹھ پر جڑ کر کہیں گی:
 ’’کیا بنے گا شیبا تیرا....‘‘
 اس لئے خدا حافظ!
 اُس نے جلدی جلدی ٹائپ کیا۔ سینڈ کیا اور باہر آگئی۔
 امی کی صفائی بھی آخری مرحلے میں تھی۔ وہ اب طائرانہ نظر دالان پر ڈال رہی تھیں کہ ان کی وہ طائرانہ نظر اس پر پڑ گئی۔
 ’’رکو.... یہ تم کیا لے جا رہی ہو کچن سے؟‘‘ مشکوک سے انداز پر چونک کر اسے دیکھنے لگیں، ’’کہیں سموسے تو نہیں لئے۔ وہ مَیں نے مہمانوں کے لئے رکھے تھے۔‘‘
 ’’اففوہ امی.... مجھے سموسے کھانے میں دلچسپی ہے بھی نہیں۔ مَیں تو رس گلے کھاؤں گی رس گلے....‘‘
 ’’ہاں.... ہاں! رس گلے تو پسند ہیں تمہیں مگر بنانے کب آئیں گے....‘‘ امی نے لگے ہاتھوں اسے لتاڑ کر اپنا کوٹا پورا کرنا چاہا۔
 ’’بنائے تو تھے ایک بار.... جب دودھ پھٹا تھا۔‘‘ اس نے امی کو یاد دلایا۔
 ’’ہاں وہ رس گلے جو کڑھائی میں جا کر پھر سے پنیر بن گئے تھے۔‘‘
 امی کو جانے کیا کیا یاد آگیا تھا۔
 ’’وہ رس گلے جو شادی کے لڈو کی طرح کڑھائی میں جا کر پھوٹے تھے۔‘‘
 ’’بس! اب یہ ’رس گلہ نامہ‘ بند کرو اور جا کر ذرا ڈھنگ کے کپڑے پہن لو۔‘‘ انہوں نے اسے حکم دیا اور خود کچن میں چلی گئیں۔

 وہ جب ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو کچھ نروس تھی۔ آپی نے اسے میک اَپ کرکے شیبا سے ’’ملکہ شیبا‘‘ بنا دیا تھا۔ انار کلی کے سرخ لانگ فراک پہنے وہ نظریں جھکائے بیٹھ گئی تھی۔
 ’’ماشاء اللہ بہن! یہ تو کافی خوبصورت ہے۔‘‘ ان خواتین میں سے ایک نے رائے دی۔
 اس بات پر جہاں وہ اترائی.... وہیں امی کی حالت ایسی تھی کہ ’’جی بس شکل ہی اچھی ہے‘‘ والے انداز میں وہ مسکرا کر رہ گئیں۔
 ’’کہاں تک پڑھا ہے آپ نے؟‘‘ ایک اور خاتون نے سوال کیا۔
 ’’مَیں گریجویشن کے فرسٹ ایئر میں ہوں۔‘‘ اس نے نظریں جھکا کر ہی کہا۔
 ’’اچھا.... کچھ پکانا وغیرہ جانتی ہو؟‘‘ پہلی والی خاتون نے سوال کیا۔ اور اس کی حالت ایسی ہوگئی جیسے امتحان میں وہ سوال آگیا ہو جس کا جواب اسے پتا نہیں۔
 ’’امی! آپ مٹھائی دیں نا آنٹی کو۔‘‘ ایک مردانہ آواز پر وہ چونک گئی۔
 ’’ہاں، ہاں.... مَیں ‌تو بھول ہی گئی۔ یہ لیجئے بہن!‘‘ اس خاتون نے امی کو مٹھائی کا ڈبہ پیش کیا تو امی نے اسے تھام لیا۔
 شیبا کا اٹکا سانس بحال ہوا تھا۔
 امی نے ڈبہ کھولا تو رس گلے دیکھ کر وہ حیران رہ گئیں۔
 ’’اسے رس گلے پسند ہیں یہ ان لوگوں کو کیسے پتا چلا۔‘‘ وہ سوچ میں پڑ گئیں۔
 امی نے رس گلے کا ڈبہ ٹیبل پر رکھا تو شیبا کی نظر بھی اس پر پڑ گئی۔
 ’’ہائیں رس گلے.... اس بندے نے کچھ زیادہ ہی سیریس نہیں لیا!‘‘ وہ رس گلوں کو گھورتی سوچ رہی تھی۔
 ’’اچھا بہن! ہم اب چلتے ہیں۔‘‘
 وہ سب کھڑی ہوئیں تو شیبا بھی اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ تبھی اس کے فون پر نوٹیفکیشن آئی۔ اس نے کھولا:
 محترمہ شیبا! من کی بات تو آمنے سامنے بیٹھ کر کرتے ہیں۔ آپ نے فون پر ٹرخا دیا۔ کوئی بات نہیں آگے کئی مواقع آئیں گے ’من کی بات‘ کرنے کے۔
 اگر آپ چائے نہیں بنا سکتیں تو کوئی بات نہیں۔ مجھے کون سی چائے کی ہو ٹل کھولنی ہے۔ انڈے ابالنا بھی کوئی کام ہے جسے نہ آنے پر آپ پریشان ہیں۔
 ہاں آٹے میں آپ یہ بتا نہیں پاتیں کہ میدہ کون سا اور کارن فلور کون سا تو مجھے یہ پوچھنا تھا کہ کارن فلور کے بسکٹ ذائقہ میں کیسے ہوتے ہیں؟ مَیں ضرور اپنے ہوٹل میں ٹرائی کروں گا۔
 آپ کی سادگی اچھی لگی۔ ان تمام بناوٹی لڑکیوں سے ہٹ کر جو پھوہڑ ہو کر بھی اپنے آپ کو سلیقہ مند بتانے کی کوشش میں مصروف رہتی ہیں۔ اور ہوٹل سے بریانی منگوا کر خود کو بریانی ایکسپرٹ بتاتی ہیں۔ اس لئے جب مقدر آزمانا ہی ہے تو پھر تیرا آستانہ کیوں نہیں....
 رس گلے حاضر ہیں....
 آپ پہلی لڑکی ہیں جو رس گلے پر راضی ہو رہی ہے۔ یہ رس گلے ہمارے ہوٹل میں ملتے ہیں آپ آرڈر کرسکتی ہیں۔
 (ہائیں! یہ تو یہاں بھی بزنس لے کر بیٹھ گیا۔) اس کا پڑھتے پڑھتے منہ بن گیا تھا۔
 ویسے شادی کے لئے چھ مہینے کا ٹائم ہے۔ آپ پکوان ضرور سیکھیں۔ کیونکہ ہوٹل میں کام ضرور کرتا ہوں مگر کھاتا گھر کا ہی ہوں۔
شعیب محمد (ایم بی اے، ہوٹل منیجر)
 ’’اف!‘‘ شیبا نے پڑھا تو اس کا چہرہ ہی سرخ ہوگیا۔ اس نے فون رکھ دیا۔

 شام میں امی ابو کو سنا رہی تھیں، ’’آپ کی نالائق بیٹی کو پسند کر لیا ہے انہوں نے۔ اگلے چھ مہینے میں شادی رکھیں گے۔‘‘
 ’’یہ تو اچھی بات ہے۔ مگر یہ نالائق کیا ہوتا ہے۔ وہ ذہین ہے پکوان بھی سیکھ جائے گی۔ کوئی مشکل بات تو نہیں....‘‘ ابو کھانا کھاتے اس کی طرفداری میں بولنے لگے۔
 ’’جی! مَیں نے شروعات کر دی ہے۔ انڈے ابالنے کے لئے کہے تھے اسے۔‘‘ امی نے جواب دیا۔
 ’’شیبا! انڈے ابالنے رکھے تھے۔ ابلے کہ نہیں؟‘‘ ان کی چیخ کر پوچھنے کی دیر تھی.... کچن سے ایک زور دار دھماکہ کی آواز آئی۔
 ’’کیا ہوا؟‘‘ امی فوراً کچن کی جانب بھاگیں تو دیکھا انڈے تیز آنچ پر ابل ابل کر ایک دھماکے سے پھٹ چکے تھے اور پورے کچن میں ریزہ ریزہ بکھر گئے تھے۔
 ’’امی! آپ نے ہی کہا تھا کہ دیر تک ابالنا۔‘‘ وہ اپنے بالوں میں سے انڈے کا چھلکا کھینچ کر نکالتی بولی۔
 ’’ہاں! مگر اتنی دیر تک تھوڑی کہا تھا کہ پانی ہی سوکھ جائے۔‘‘ وہ اسے قہر برساتی نظروں سے دیکھ کر بولیں۔
 ’’اس سے پہلے جب جلدی نکال دیئے تو آپ نے ہی کہا تھا کچے رہ گئے۔‘‘
 ’’ہاں تو اتنے کچے رہ گئے تھے کہ چھلکا ہی نہیں اتر رہا تھا۔ اور اب....‘‘ وہ اطراف میں بکھرے انڈے دیکھ کر سر تھام کر رہ گئی تھیں۔
 ’’شیبا! کیا بنے گا تیرا....‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK