ہوا یوں کہ کزن بھائی کی شادی کے موقعے پر سارا خاندان جمع تھا اور سامعین کی خاصی تعداد دیکھ کر بڑی باجی جلے دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھیں۔ ہم بڑے انہماک سے باجی کی زبانی پوری دیانت داری اور دل جمعی سے بیان ہو رہا ’ساس نامہ‘ سن رہے تھے۔
EPAPER
Updated: December 03, 2024, 3:30 PM IST | Asiya Raees Khan | Mumbai
ہوا یوں کہ کزن بھائی کی شادی کے موقعے پر سارا خاندان جمع تھا اور سامعین کی خاصی تعداد دیکھ کر بڑی باجی جلے دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھیں۔ ہم بڑے انہماک سے باجی کی زبانی پوری دیانت داری اور دل جمعی سے بیان ہو رہا ’ساس نامہ‘ سن رہے تھے۔
ہمارے اندر نئی خواہشوں کے انگڑائیاں لینے کا کوئی سیزن ہے نہ موقع، یہ کہیں بھی کبھی بھی وقوع پذیر ہو جاتی ہیں۔ جیسے ابھی ابھی ایک نئی نکور خواہش نے اس قاتلانہ انداز میں انگڑائی لی ہے کہ کوئی حضرتِ شاعر دیکھ لیں تو ایک عدد دیوان تو قلم بند کر ہی ڈالیں۔ہوا یوں کہ کزن بھائی کی شادی کے موقعے پر سارا خاندان جمع تھا اور سامعین کی خاصی تعداد دیکھ کر بڑی باجی جلے دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھیں۔ ہم بڑے انہماک سے باجی کی زبانی پوری دیانت داری اور دل جمعی سے بیان ہو رہا ’ساس نامہ‘ سن رہے تھے۔ وہ جھوٹ کی آمیزش کے بنا، مصلحت کے ریشم میں لپٹے بغیر جو اُن کے دل میں تھا اور جو اُن پر گزر رہا تھا حرف بہ حرف حاضرین، ناظرین و سامعین کے ذہن، بصارت و سماعت کے سپرد کرتی جا رہی تھیں۔ یہ وہی باجی ہیں جو شادی سے پہلے سابقہ منگیتر و حالیہ شوہر سے اپنا ’محبت نامہ‘ بیان کرتے نہ تھکتی تھیں بلکہ سننے والوں کو تھکا دیتی تھیں مگر اب ان کی باتوں میں محبت کا اتا پتا تھا نہ اس بندۂ خاص کا ذکر۔ تڑاتڑ ابل رہے جملے اور جلے بھنے الفاظ ایک ہی ہستی کی شان میں تھے۔ بقول باجی ان جیسی معصوم دوشیزاؤں کو فریب دینے کی خاطر دنیا نے جسے ’سسرال‘ کا نام دے رکھا ہے وہ دراصل قید با مشقت بھگتانے والی جیل ہے اور ایک جابر صیاد کو لوگ ازراہ تفنن ساس کہنے لگے ہیں سو اب شادی سے پہلے والی داستانِ گل و گل زار کی جگہ داستانِ آہ و زار تھی۔
اس قصۂ زور و ستم میں جو بات ہمارے نازک مزاج اور اس سے بھی نازک دل کو دہلا گئی وہ باجی پر لادے گئے کام کی فہرست تھی۔ اب کیا بتائیں، ہم اتنے سادہ ہیں جو کام کئے بنا گزارا ہوسکتا ہے ہم اسے کرتے ہی نہیں، جو کل پر ٹالا جاسکتا ہے اسے آج کرنے جیسے کوتاہ اندیش بھی نہیں اور کفایت شعاری کا عالم تو نہ پوچھیں محنت، وقت، پیسہ، پانی، توانائی الحمدللہ سب بچا لیتے ہیں۔ باجی کی داستان کے اسی پڑاؤ پر ان کی باتوں میں ہماری دلچسپی وفات پاگئی اور ہم اس پر فاتحہ پڑھتے اس محفل سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
بس یہی وہ پل تھا جب ایک خواہش نے انگڑائی لی کہ ہمارے حصے میں باجی جیسا شادی سے پہلے والا محبت نامہ ہو نہ ہو لیکن شادی کے بعد کا ’ساس نامہ‘ قطعی نہیں ہونا چاہئے۔ باجی کے بیانات کی روشنی میں ہم اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ اگلے گھر راج کرنے، یعنی واقعتاً تخت پر بیٹھ کر آرام دہ زندگی گزارنے کیلئے پیا من بھانے سے زیادہ ضروری ہے ساس من بھانا یعنی اُم سرتاج کی سلطنت میں رانی، ان کی اُم کے دل کو جیتے بنا نہیں بنا جاسکتا ہے۔ بس یہی وہ لمحۂ جمال و کمال تھا جب ہم نے طے کیا ہماری لو اسٹوری ہو نہ ہو ’مدر اِن لاء اسٹوری‘ لازمی ہونی چاہئے جو دنیا کی تمام ’لو اسٹوریز‘ سے میٹھی ہو بلکہ یہ منفرد ’لو اسٹوری‘ ساری دنیا میں اپنی طرز کی پہلی اور آخری.... نہ نہ آخری نہیں پہلی ہی ہونی چاہئے جو دنیا میں ایک نئے رومانی جوڑے کی بنیاد ڈالے ’ساس اور بہو!‘
ہماری خوش دامن ہم سے اس قدر راضی اور خوش ہو ں کہ تخت پر بٹھا کے رکھیں ہمیں، ہل کر پانی تک نہ پینے دیں، ہمارے لئے خادمائیں نہ سہی خادمہ کا انتظام تو کر ہی دے وغیرہ وغیرہ۔ اس وغیرہ وغیرہ کی طویل فہرست کا تصور اس قدر سہانا تھا کہ اس خیال کے آتے ہی ہم نے مستقبل کی مشقتوں سے بچنے کیلئے فی الوقت مشقت کیلئے کمر کس لی۔
ہمارا ذہن اور اعضاء ہنگامہ خیزی سے پرہیز کرتے ہیں کہ اس میں وہ خطراتِ تھے جن کی وجہ سے ’حرکاتِ ید و پا‘ نا گزیر ہوجاتی ہیں لیکن اس وقت ہماری ’کفایت شعار‘ طبیعت پر مستقبل کے ’ساس نامہ‘ سے بچنے کا بھوت سوار تھا اور ہم پر یکایک مثبت سوچوں کی یلغار ہونے لگی تھی اور انسان ارادہ کر لے تو پھر اس دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں، ساس بہو کی ’لو اسٹوری‘ بھی نہیں، جیسے زرین خیالات ذہن میں کلبلا رہے تھے۔
چونکہ شادی کا گھر تھا تو ہماری خواہش کیلئے موزوں و مناسب ہدف کافی تعداد میں موجود تھے لیکن ہماری نگاہیں ایک معقول، شکل سے معصوم اور مزاج سے ذرا مغموم سی نظر آنے والی خاتون کی تلاش میں تھیں۔ مغموم اس لئے کہ ہمیں غم دور کرکے انہیں رام کرنے کا طریقہ آسان لگ رہا تھا۔ اب آپ سے کیا چھپانا، اس سے پہلے ہی ہم نے خاندان بھر کے لائق فائق اور قابل بیاہ عمر کو پہنچ چکے نوجوانوں کی ان کی امیوں سمیت ایک ’مینٹل لسٹ‘ مرتب کر رکھی تھی۔ مشکل یہ تھی کہ فلمیں، ناول، ڈرامے، گانے کوئی گائیڈ نہیں کرتا کہ کسی خاتون کو دیکھ کر سسرالانہ جذبات پھڑک اور مچل جائیں تو اس خاتون پر ڈورے کیسے ڈالے جائیں۔ اب بھی دانشوروں کیلئے کتنا کام ہے اس دنیا میں کرنے کو مگر افسوس اس نازک معاملے کی جانب کسی کی توجہ ہی نہیں کہ ان معاملات میں `سیلف ہیلپ `قسم کے کتابچے مارکیٹ میں لانچ کئے جائیں تو ہاتھوں ہاتھ بک جائیں۔ خیر! اب ہمارے پاس اتنا وقت تو تھا نہیں کہ دانشوروں کے ہوش کے ناخن لینے تک انتظار کرتے اس لئے خود ہی اپنی دانشمندی پر انحصار کرنے کا ارادہ کیا۔
کچھ سوچ وِچار اور رد و کد کے بعد جلد ہی ہمیں مطلوبہ خصوصیات والی آنٹی مل گئیں۔ یہ خالہ جان کی نند اور ان کی بڑی پکی سہیلی تھیں۔ ان کے متعلق مشہور تھا کہ اتنی نرم دل ہیں گویا سینے میں دل کی جگہ روئی رکھ دی گئی ہو اور ان کی معقولیت کیلئے اکلوتا سپوت کافی تھا۔سن رکھا تھا کہ مغموم ہونے کی وجہ بیٹی نہ ہونا ہے جس کی انہیں بڑی حسرت و آرزو تھی اور ہمیں اس کمی پر کمینی سی خوشی ہو رہی تھی کہ ہم بیٹی بن کر ان کا یہ غم دور کر دیں گے۔
ہم چشمِ تصور میں انہیں پروانہ اور خود کو شمع کئے ان کے ارد گرد منڈلاتے رہے۔ اس مہم کا درجہ اول تھا ان کی نگاہِ خاص یعنی ’اُمِ فیوچر شوہر‘ والی نظر کا ہم پر پڑنا اور انہیں ہم میں اپنی بہو نظر آنا۔ اس کیلئے ایک طرف کھڑے ہو کر ان کی نگاہیں خود پر پڑنے کا انتظار کرنے کے بجائے لازم تھا کہ ہم خود ان کے دائرہ نگاہ میں قدم رنجہ فرماتے اور شادیوں والے گھر میں اس کا آسان طریقہ ’چائے‘ تھا۔
چائے بنائی تو نصیبن بوا نے تھی لیکن اس دورِ پُر فتن میں بنا کام کئے اس کا کریڈٹ لینے کا ہُنر ’آرٹ آف لیونگ‘ کا حصہ ہے جس میں ہم کسی قدر مشاق تھے۔ ٹرے لئے، نظر جھکائے ہم سب سے پہلے ان کے پاس پہنچے اور کپ اٹھا کر انہیں پیش کیا۔ ’’آنٹی آپ کی چائے۔‘‘
’’بیٹا میں....‘‘ ’’جی ہم جانتے ہیں، آپ کیلئے الگ سے بنائی ہے بنا چینی کے۔‘‘ ہم نے مسکراہٹ کو عاجزانہ، شریفانہ اور معصومانہ رکھنے کی پوری کوشش کی تھی۔ ’’جیتی رہو۔‘‘ انہوں نے خوش دلی سے کہتے ہوئے کپ تھام لیا اورہم پہلی کامیابی پر جوش کو سنبھالتے آگے بڑھ کر دوسروں کو کپ تھمانے لگے جن میں ہماری ’اصلیت‘ سے واقف حاضرین کی نگاہوں کی حیرت، بے یقینی، تمسخر اور معنی خیزی کو ہم نے ایسے نظر انداز کیا جیسے تازہ خون کی تاک میں بھنبھنا رہا مچھر، اسے بھگانے کیلئے فضا میں لہرا رہا آپ کا ہاتھ نظر انداز کرتا ہے اور آپ کا خون چوس کر ہی دفع ہوتا ہے۔
اس پہلے مرحلے کے بعد اب ہم ہمہ وقت سست خرامی سے قدم اٹھاتے، اس سے بھی آہستگی سے گفتگو فرماتے، ہر بات کے بیچ سر جھکاتے، سر اٹھاتے تو ۱۰؍ فی سیکنڈ کے حساب سے پلکیں جھپکاتے، نیچرل لک کیلئے ڈھیر سارا میک اپ خرچ کرتے، بالوں سے زیادہ تعداد میں پنوں کے استعمال سے بڑا سا دوپٹا سر پر جماتے، مشرقی حسن اور لکھنوی تہذیب کی زندہ مثال بنے بزرگوں کی محفلوں میں گھسے رہتے۔
یہ بھی پڑھئے:مَیں اور سلائی مشین
اس احتیاط کے ساتھ کے متوقع ساسو ماں کے رڈار سے باہر نہ ہوں۔ ہمیں اس صوفیانہ حال میں جو انہیں سوقیانہ لگ رہا تھا، دیکھ کر ہماری جنریشن کو ہمارے خلل ِ دماغ سے لے کر خلل ِ معدہ میں مبتلا ہونے تک کے سارے شکوک گھیرے تھے لیکن ہمیں پروا نہ تھی۔ ہماری سوچ اور منصوبہ بندی تک وہ کوئی پھٹک ہی نہیں سکتی تھیں۔
ہمارے ہدف کو شبہ نہ ہو کہ وہ ہمارے نشانے پر ہیں اسلئے ضروری تھا کہ ہم دیگر خواتین اور بزرگان کو بھی پروٹوکول دیتے۔ ساری ہوشیاری یہی تھی کہ ان کے گرد جال بنتے ہوئے انہیں احساس نہ ہونے دیا جائے کہ دانہ چگتے چگتے چڑیا پھنس گئی ہے۔
جلد ہی ہمیں اندازہ ہوا کہ ’چائے‘ کے نازک کندھے متاثر کرنے کا سارا بار نہیں اٹھا سکتے اور ہمیں انہیں مرغوب کرنے کے نت نئے حربے ڈھونڈنے پڑے۔ اس کوشش میں ایک دن ان کے دائرہ توجہ میں بیٹھ کر شوبی کے دوپٹے پر لیس ٹانکی۔ جب شوبی نے وہ دوپٹا دیکھا تو اسی کا پھندا بنا کر ہمیں پھانسی دینے پر مصر ہوگئی۔ ایک دن عینا باجی سے ان کا سال بھر کا بیٹا ان کی گود سے لے لیا کہ ہم اسے سلا دیتے ہیں اور یقین کریں جب متوقع ساسو ماں سامنے سے اٹھ کر گئیں تو اس بچے کو واپس ماں کی گود میں پھینکتے ہوئے ہم نے طے کیا کہ بچے پیدا ہی نہیں کرینگے بلکہ ریڈی پانچ چھ سال کے کہیں سے لے لینگے۔ کبھی ان کے متورم پیروں پر ٹکور کیلئے نمک والا نیم گرم پانی ان تک پہنچایا، کبھی انہیں ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں ہاتھ تھام کر لے گئے تو کبھی اسی طرح اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کا سفر طے کروایا۔ برات اور ولیمے میں بھی ہم ان کا اور دیگر ’ساس کیٹیگری والی خواتین‘ کا سایہ بنا رہے تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ کبھی سہارا دیکر کار سے اتارا، کبھی کھانے کی میز پر ان کیلئے ویٹر بنے، کبھی بھیڑ سے بچا کر ان تک ڈائٹ کوک پہنچایا تو کبھی ان کا دوپٹا سیٹ کر دیا، کبھی آنٹی کی لپ اسٹک کو ٹچ اپ دے دیا تو کبھی ان کی ڈریسنگ کی تعریف میں قلابے ملا دیئے۔ جب وہ ہر بار بڑے مشفق تبسم کیساتھ ہمارا شکریہ ادا کرتیں اور دعائیں دیتیں تو ہمارا دل جھوم جھوم اٹھتا۔ ہمیں ایک موہوم سی امید تھی کہ شادی کے بعد گھر کی راہ لینے سے پہلے وہ ہمیں بلیغ نہ سہی خفیف سا اشارہ ضرور کریں گی مگر ایسا ہو نہ سکا یا ہم اب بھی اس قدر معصوم تھے کہ سمجھ نہ سکے اور اس متوقع اشارے کے بعد ہماری وہ گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر مناسب مقدار میں حیرت اور حیا کی آمیزش والا رد عمل دینے کی ریہرسل بیکار ہی گئی۔
شادی کے اختتام پر مستقبل میں کام سے بچنے کی سعی میں اتنے کام کر لئے تھے کہ لگا اب کچھ مہینے بستر پر ہی گزار دیں۔ چونکہ مہمان جا چکے تھے سو ہماری ہڈ حرامی بھی لوٹ آئی تھی۔ گھر والے جو ہماری حرکتیں دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہوگئے تھے، ہمیں پلنگ توڑتا دیکھ سکون کا سانس بھر اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے تھے۔
ہمیں ایک بہترین پریزینٹیشن کے بعد اب نتیجے کا انتظار تھا۔ اچھے نتیجے کی امید میں اول وقت میں نمازیں ہونے لگی تھیں اور دعاؤں کا وقفہ طویل ہوگیا تھا۔ نماز سے زیادہ وقت دعا میں لگنے پر گھر والوں کو ایک بار پھر خدشات گھیرتے اس سے پہلے اچھی خبر آگئی۔
اس دن ہم خوب ہل ہل کر دعا کر رہے تھے: ’’یا اللہ اتنا کام کر لیا ہے پچھلے دنوں میں کہ اب عمر بھر کے کاموں سے نجات دے، مشقت کا سایہ نہ پڑے ہم پر، ہماری ریاضتوں کا پھل ہمیں نندوں جٹھانیوں سے پاک سسرال کی صورت عطا کر، ان پیاری سی آنٹی کے بیٹے کا رشتہ بھیج دے....‘‘ وہ رقت آمیز التجائیں تھیں کہ دعائیں شرف قبولیت پاکر لوٹ آئیں۔
ابھی مصلیٰ لپیٹا بھی نہیں تھا (جو ہم ویسے بھی اگلی نماز کیلئے بچھا ہی چھوڑ دیتے ہیں) کہ بھابھی نے اسی آنٹی کے برخوردار کے رشتے کی خبر سنائی اور ہم وہیں سجدے میں گر پڑے۔ بھابھی سمجھیں ہم شرما گئے ہیں۔
اس خبر کے سنتے ہی سارے خاندان نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لی تھیں۔ جنہیں اڑتی چڑیاں کے پَر گننے کا دعویٰ تھا ان کی اپنی نظر میں ہی دعوے کی صداقت مشکوک ہوگئی تھی اور ہم پہلی بار جتنے منہ اتنی باتیں انجوائے کر رہے تھے۔ ایک دو کزن تھیں ہماری جنہوں نے اس رشتے کے تار شادی کے دوران ہماری پھرتیوں سے جوڑ لئے تھے اور ان کے درست اندازوں کو ہم نے ’’اب پچھتاوے کا ہووت....‘‘ والی نظر سے دیکھنے اتنا ہی در خور اعتناء جانا۔
اللہ اللہ کرکے شادی ہوئی اور ہم سسرال پدھارے۔ ہم امید کر رہے تھے حجلہ عروسی میں بھی شاید ساسو ماں پہلے آکر ہماری بلائیں لیں گے مگر خیر ان کے سپوت کو دیکھ کر بھی ہمیں مایوسی نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور ہمارا گھونگھٹ الٹے بنا ہی کہنا شروع کیا۔
’’سعدی کی شادی میں آپ کو مما کی اتنی خدمت کرتے دیکھ کر مَیں بہت متاثر ہوا تھا ورنہ آج کل کی لڑکیاں کہاں بزرگوں کو اتنی اہمیت دیتی ہیں۔‘‘ ’’ہائے! تو ساسو ماں نے بیٹے سے بھی ہماری تعریفیں کر رکھی ہیں۔‘‘ ہمیں شریر سی گدگدی ہونے لگی۔ ’’مجھے آپ جیسی حساس طبیعت اور نرم دل شخصیت کی ہی تلاش تھی جو مما کا خیال اپنی ماں کی طرح رکھیں۔‘‘ ’’افف!‘‘ ہمیں پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں والی فیلنگ آرہی تھی۔ ہم نے غائبانہ اپنی پیٹھ تھپتھپا ڈالی۔
’’آپ کی انسان دوست، مستعد طبیعت اور خدمت گزاری کا جذبہ دیکھ کر ہی ہم نے مما کے سامنے آپ کا نام لیا تھا....‘‘ ’’ہیں! یہ اچانک ٹریک کیوں بدل گیا؟‘‘ ہم نے سوچتے ہوئے پہلو بدلا۔ ’’میری آپ سے عاجزانہ گزارش ہے کہ آپ مما کا اسی طرح خیال رکھیں، ویسے ہی ان کی خدمت کریں تو جلد ہی وہ بھی آپ کو پسند کرنے لگیں گی۔‘‘ ہم نے انگلی سے کان کے پردے پر دستک دی مگر یہ تو عقل سے پردہ اٹھنے کا سمے تھا۔ ہم تو خدمت کروانے کے خواب آنکھوں میں سجا کر اس گھر میں آئے تھے اور یہ شب ِ عروسی میں ہماری آنکھوں میں دولہا میاں کون سے خواب سجا رہے تھے؟ ’’انہیں میرا خود سے آپ کو پسند کر لینا پسند نہیں آیا، وہ اس بات پر خفا ہیں، بڑی مشکلوں سے اس شادی پر رضا مند ہوئی تھیں....‘‘ ہم نے جھٹکے سے گھونگھٹ سر پر پھینکا۔ ہم اماں پر نظریں ٹکائے تھے اور بیٹا ہم پر.... غلط بندہ متاثر ہوگیا، تیر نشانے سے چوک گیا۔
’’مما ناراض ہوں تو بہت مشکل اور ضدی ہوجاتی ہیں، مقابل کو کوئی رعایت نہیں دیتیں، انہیں بد سلیقگی، بے ترتیبی، کام میں دیری بالکل نہیں پسند اس لئے بھی ہمیں یقین ہے کہ آپ ان کا دل جیت لیں گی اس قدر سلیقہ مند اور ہنر مند جو ہیں، ہمہ وقت کام میں مصروف اور....‘‘ منتوں، مرادوں اور مشقفتوں سے حاصل ہوئیں خوش دامن کے بیٹے کی بات جاری تھی اور ہم ہکا بکا منہ کھولے سوچ رہے تھے، ’’یہ کیا کر بیٹھے تھے ہم.... ’مدر اِن لاء اسٹوری‘ کی چاہ میں یہ تو ’لو اسٹوری‘ ہی بن گئی تھی۔ اس سے تو اچھا ہوتا ہماری کوئی ’اسٹوری‘ نہ ہوتی یعنی عربی والی ’لا‘ اسٹوری!‘‘
’’آپ کل صبح سے ہی مما کے سامنے کام شروع کر دیں تو وہ....‘‘
ہم ہیروئینوں کی طرح کان پر ہاتھ رکھ کر آسمان لرزا دینے والی ’نہیں!‘ کی صدا لگانا چاہتے ہیں لیکن ہم ہلنے سے قاصر ہیں۔ کیا ہم فوت ہوگئے ہیں یا مسقبل قریب میں نظر آرہی متوقع ’حرکاتِ ید و پا‘ نے ہمیں منجمد کر دیا ہے؟ آپ ہی بتائیں.... پلیز فوت والا آپشن زیادہ خوش کن ہے، وہ ہی کہئے گا!