ایک گمشدہ بچے کی کہانی جسے ’مَیں‘ کی تلاش ہے۔
EPAPER
Updated: November 21, 2024, 12:50 PM IST | Jeelani Bano | Mumbai
ایک گمشدہ بچے کی کہانی جسے ’مَیں‘ کی تلاش ہے۔
’’آدھی رات کو کسی نے خبر سنائی کہ عامر مل گیا ہے۔ مَیں اندھے باولوں کی طرح اٹھی۔ جانے کتنا تیز بھاگی۔ عامر کو ٹٹول ٹٹول کر دیکھا.... کبھی سوچتی کہ یہ عامر ہی ہے یا کوئی اور....‘‘
امّاں نے ہزاروں بار یہ قصہ سنایا تھا اور ہر بار میں گھبرا کے امّاں سے پوچھتا، ’’امّاں، امّاں، آپ کو یہ شک کیوں ہوا کہ مَیں عامر نہیں ہوں....؟‘‘
’’بس یوں ہی.... میرے دل میں شک تھا کہ کہیں کھوئے ہوئے بچّے بھی ملے ہیں۔ کسی نے میرا دل بہلانے کیلئے کوئی اور بچہ نہ تھما دیا ہو۔‘‘ اور ہر بار امّاں کی اس بات پر مَیں لرز اٹھتا تھا۔
کہیں سچ مچ امّاں کو کسی نے دوسرا، بچہ نہ تھما دیا ہو۔ دل بہلانے کے لئے۔ اور وہ کھویا ہوا ’’مَیں‘‘ جانے کہاں بھٹک رہا ہوگا۔ جانے کون سی ماں اس ’’مَیں‘‘ کو تھام کر بہلائی گئی ہوگی۔ پھر مَیں کون ہوں۔ مجھے امّاں کا دل بہلانے کے لئے رات کے اندھیرے میں کہاں سے لائے تھے؟
میرے چاروں طرف سوالوں کے پھندے بڑھتے گئے۔ جیسے کوئی الجھی رسیوں میں پھنستا جا رہا ہو۔ اپنے وجود پر سے میرا یقین اٹھتا جا رہا تھا۔
اور پھر جب مَیں ذرا بڑا ہوگیا تو مَیں نے فیصلہ کیا کہ اب مَیں اس کھوئے ہوئے عامر کو ڈھونڈوں گا جسے امّاں ریل گاڑی میں سوتا چھوڑ کر اتر گئی تھیں۔ اور وہ ریل آگے بڑھ گئی۔ ایک بار مَیں نے ریل کی پٹریاں دیکھی تھیں۔ اتنی لمبی.... یا اللہ.... یہ پٹریاں کہاں ختم ہوتی ہوں گی! آخر آخری اسٹیشن کون سا ہے!
مَیں نے جب بھی ابّا سے یہ بات پوچھی۔ وہ ہنسنے لگتے۔
’’احمق، پٹریاں کہیں ختم نہیں ہوتی ہیں۔ ان کا جال تو سارے ہندوستان میں بچھا ہوا ہے۔‘‘
ایک بچّے کو اس کی ماں سے دور رکھنے کے لئے سارے ہندوستان میں جال بچھایا گیا ہے مَیں حیران ہو کر سوچتا.... وہ بیچارا عامر کب تک ریلوں میں گھومے جائے گا؟
امّاں بھی کیسی بھولی ہیں.... مجھ سے بہل گئیں۔ مگر کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے جیسے امّاں کو بھی میرے وجود پر شک ہے۔
یوں میرے کھوئے کھوئے رہنے پر سب مجھے تشویش بھری نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔ کوئی مجھے پکارتا مگر مَیں جواب ہی نہیں دیتا۔ جیسے عامر تو کسی اور کا نام تھا۔ مَیں کیوں جواب دوں!
میری ایسی حرکتوں پر بڑی آپا کو بڑی ہنسی آتی تھی۔ وہ میری گردن ہلا کر پوچھتیں.... ابھی تم کہاں تھے؟
یہ بھی پڑھئے:افسانہ: میرے خیالوں کی ہم سفر
’’ریل میں....؟‘‘ میرے جواب پر سب ہی ہنس پڑتے۔
ایک بار امّاں بیمار پڑ گئیں۔ جانے کیا ہوا.... روٹی پکاتے پکاتے اٹھیں اور دھڑام سے آنگن میں گر پڑیں۔ ذرا سی دیر میں بڑی آپا کی چیخوں سے ہمارا آنگن پڑوسیوں سے بھر گیا۔ بڑی آپا نے امّاں کو دودھ میں گھول کر خمیرہ مروارید پلایا۔ صابرہ کہتی تھی کہ اس خمیرے میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ مردے کو دے دو تو کھڑا ہوجائے۔ مگر امّاں نے صرف آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور کروٹ بدل کر سو گئیں۔ کئی دن ہوگئے۔ روز رات کو امّاں کے پاس سونے کو جی چاہتا۔ مگر ان کی ہائے ہائے سے گھبرا کر میلے کپڑوں کے ڈھیر پر سو گیا۔ اور پھر سوتے وقت مجھے اس بات پر رونا آتا تھا کہ امّاں مجھے اپنے پاس کیوں نہیں بلا لیتیں اور پھر ایک دن امّاں نے میری طرف غصہ سے دیکھ کر کہا، ’’اسے دیکھو۔ جب سے مَیں بیمار ہوئی ہوں ایک بار بھی میرے پاس نہیں آیا۔ جیسے میرا بیٹا ہی نہیں ہے۔‘‘
امّاں کی اس بات پر مَیں دن بھر سوچتا رہا۔ کہیں سچ مچ اندھیری رات میں لوگوں نے امّاں کو دھوکہ تو نہیں دیا تھا! جبھی تو امّاں کی بیماری سے مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ بڑی آپا، صابرہ اور بھیّا پریشان صورتیں لئے سارے گھر میں بھاگے بھاگے چلاتے تھے۔ امّاں کو زبردستی دوائیں کھلائی جاتیں۔ لیکن مجھے الٹا غصہ آتا تھا کہ یہ کب تک نخرے کئے لیٹی رہیں گی!
کئی بار امّاں میری آوارہ گردی پر جھنجلا جاتی تھیں۔
’’تُو ہر وقت باہر کیوں گھومتا ہے۔ اپنے گھر میں جی نہیں لگتا۔ باہر تیرا کون سگا بیٹھا ہے؟‘‘
امّاں کی بات سن کر کرکٹ بیٹ میرے ہاتھ سے گر گیا۔ ڈر کے مارے دل دھک دھک کرنے لگا۔ امّاں نے یہ بات کیوں کہی آج! کیا انہیں بھی ڈر ہے کہ مَیں کہیں اپنے سگوں میں نہ چلا جاؤں! دو دن ہوگئے۔ مَیں نے کھانا نہیں کھایا۔ سارا دن پلنگ پر لیٹا رہا۔ کروٹیں بدل بدل کر سوچے جاتا کہ کیا سوچوں! اب امّاں سمجھتیں مجھے کوئی روگ لگ گیا ہے۔ ’’باہر جاؤ.... اٹھ کر بیٹھو۔ ہوم ورک کرو۔‘‘
ہر شخص پاس سے گزرتے وقت مجھے ایک حکم سنا دیتا۔
’’کوئی سوال سمجھ میں نہ آئے تو اسے پھیلا کر حل کرو۔‘‘ ابّا پڑھاتے وقت مشورہ دیتے تھے تو کیا اس سوال کو بھی پھیلا دوں....؟
مگر وہ تو میرے پھیلانے سے پہلے ہی ہر طرف پھیل چکا تھا۔ دن رات میرے دماغ میں ایک کیلکولیٹر اس سوال کو سلجھائے جاتا۔ جانے کیوں بعض وقت دماغ میں وہی باتیں بھر جاتیں جن کے تصور سے ہی وحشت ہوتی ہو۔
آخر سب نے یہ بات طے کر لی کہ میرا دماغ اپنی جگہ سے ہٹ چکا ہے۔ اور ایک دن بڑی آپا نے ابّا سے شکایت کی۔
’’ابّا، عامر اسکول کا ہوم ورک نہیں کرتے۔ ہر وقت کتاب بند کرکے جانے کیا سوچتے رہتے ہیں۔‘‘
’’بھئی ہمارے خاندان میں تو کوئی جاہل نہیں رہا ہے۔ اگر عام بڑے ہو کر رکشا چلانا چاہتے ہیں تو مَیں کیا کرسکتا ہوں۔‘‘ ابّا بے حد غصہ میں کہہ رہے تھے۔
ہمارے خاندان میں.... یعنی ابّا کا خاندان، جو میرا خاندان نہیں ہے....؟ مَیں نے بڑے دکھ سے سوچا.... میرا رنگ بھی تو ابّا سے بہت گورا ہے۔ ابّا تو نرے کالے ہیں۔
جب مَیں بہت چھوٹا سا تھا اور ابّا مجھے گود میں اٹھائے اٹھائے پھرتے تھے تو پھوپھی جان ہنس کر کہتی تھیں، ’’اللہ قسم بھیّا، اتنا گورا بیٹا تمہاری گود میں نہیں سجتا۔ سب یہی سمجھتے ہیں کہ کسی اور کا بچہ اٹھا لیا ہے۔‘‘
اور مَیں ابّا کی گود سے اتر جاتا تھا۔ یوں جیسے کسی غیر کی گود میں چلا گیا تھا۔ سب بہن بھائی مجھے اپنے سے دور رکھتے۔ مجھے چپ چاپ بیٹھے دیکھ کر صابرہ اور پپو سرگوشیاں کرتے.... غالباً انہیں بھی یہ کہانی معلوم ہوچکی ہے۔
رات کو کبھی کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا تھا تو مَیں گھبراکے اٹھ بیٹھتا، جیسے مجھے لے جانے آیا ہو۔ مل گیا.... مل گیا.... اور مَیں کسی ممتا بھرے سینے سے لگ جاتا اماں کے پسینے میں، بھیگے میلے کرتے سے ناک رگڑ کے رونے لگتا۔
’’کوئی روشنی کرو.... یہ عامر ہی ہے نا....؟‘‘
پھر روشنی ہوجاتی۔ پل بھر میں امّاں دور ہٹ جاتیں۔ میری کھلی ہوئی بانہوں کو ڈھکیل کر وہ غور سے دیکھتیں.... نہیں نہیں۔ کہیں کھوئے ہوئے بچّے بھی ملے ہیں! اور پھر امّاں میرے سَر پر ہاتھ رکھ کر کہتیں.... ’’بیچارا....‘‘
’’کیا ہوا تجھے....؟ کیوں کانپ رہا ہے....‘‘ امّاں آنکھیں ملتی ہوئی سوتے سے اٹھ کر میرے پاس آ بیٹھتی تھیں۔
’’امّاں عامر کو بہت ڈر لگ رہا ہے۔ جیسے کوئی اسے لے بھاگے گا....‘‘ صابرہ مجھے تشویش بھری نظروں سے دیکھ کر کہتی....
’’مَیں جو ہوں.... کسی کو کیوں لے جانے دوں گی۔‘‘ اماں مجھے اپنے سینے سے لگا کر تھپکنے لگیں۔
’’نہیں نہیں مَیں جاؤں گا۔‘‘ امّاں کا ہاتھ جھٹک کر مَیں ضد کرنے لگا۔ ’’کہاں....؟ کس کے ساتھ....؟‘‘ امّاں نے تعجب سے پوچھا۔
کہاں....؟ کس کے ساتھ....؟ کہاں....؟ کس کے ساتھ....؟ ساری رات یہ سوال میرے کانوں میں گونجتے تھے۔ کسی کھوئے ہوئے بچّے کو کسی کی مدد کے بغیر ڈھونڈنا کتنا کٹھن کام ہے۔ پھر مَیں اپنے آپ کو کیسے ڈھونڈوں! کھیلتے ہوئے بچوں میں.... دوڑتی ہوئی بسوں میں.... بھاگتی ہوئی ریلوں میں.... ایک دن سڑک پر ایک عورت چھوٹے سے بچے کو گھسیٹتی ہوئی مار مار کے کہیں لے جا رہی تھی۔ راہ چلتی کسی عورت نے غصہ سے کہا، ’’اری کیوں اتنی بے دردی سے ما رہی ہے۔ کیا بچہ تیرا نہیں ہے؟‘‘
کہیں وہ بچہ بھی پٹ رہا ہوگا جو میری بجائے کسی اور ماں کے حوالے کر دیا گیا ہے.... یہ مائیں دوسروں کے بچوں کو اتنا کیوں مارتی ہیں! امّاں کو بھی جب مجھ پر غصہ آتا ہے تو پھر وہ پاگل سی ہوجاتی ہیں۔ شاید انہیں غصہ آتا ہے کہ مَیں ان کے گھر میں کیوں آگیا! مَیں جو اپنی ماں سے بچھڑ گیا.... جو کبھی ایک ساتھ اور پھر دو ہوگیا.... ایک حصہ جو امّاں کا ہے اور ایک حصہ جو کسی ٹرین کی برتھ پر بیٹھا اپنے پیچھے بھاگنے والی دنیا کو غور سے دیکھ رہا ہے۔ نظروں کے سامنے تیزی سے گزرنے والے چہروں کو پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ ’’مَیں‘‘ کب ملے گا! کب مَیں ایک ہو سکوں گا!
ادھر بالکنی پر گھنٹوں ٹہل ٹہل کر مَیں سوچتا ہوں کہ اچانک کوئی دوڑتا ہوا آئے گا.... تم یہاں کیسے آگئے! جاؤ اپنے سگوں میں مل جاؤ.... اور وہ دوڑتا ہوا ہیولا میں ہوں گا۔ اور پھر مَیں لیکن کیا مَیں اکیلا ہی انتظار کا یہ دکھ برداشت کر رہا ہوں۔ اور کوئی مجھے اس عذاب سے چھڑانے نہیں آئے گا۔ مگر وہ بھی تو کھو گیا ہے۔ اپنے گھر سے دور کہیں چلتی ٹرین کے ڈبے میں سو رہا تھا.... سوتا رہے گا۔ اس ٹرین کی پٹریوں کا انت کہیں نہیں ہے۔ وہ زندگی بھر گھومتا رہے گا۔ پٹریاں بدلتی رہیں گی۔
سیاہ انجن اسے خوفناک غاروں میں اندھیرے جنگلوں میں اور ہیبت ناک پہاڑوں پر لے جائیگا۔
مَیں اکثر خواب دیکھتا کہ مَیں نے ریل کی تمام پٹریوں کا سلسلہ کاٹ دیا ہے۔ تمام دنیا کی ریلیں رُکی کھڑی ہیں۔ مگر وہ بیوقوف سو رہا ہے۔ کوئی اسے اٹھاتا کیوں نہیں.... چل بھاگ اپنے گھر جا۔
ایک دن اخبار میں ایک خبر دیکھی مَیں نے:
’’اطہر! تم کہاں ہو....؟ جہاں بھی ہو فوراً چلے آؤ تمہاری ماں تمہارے لئے سخت بے چین ہے۔ تم سے کوئی شکایت نہیں کی جائے گی۔‘‘
اچھا! تو یہ اشتہار میرے لئے ہے۔ مَیں نے کئی بار اشتہار پڑھ کر فیصلہ کیا اور چپکے سے پتے کی سمت روانہ ہوگیا۔
’’کیا یہاں کوئی کھو گیا تھا!‘‘ مَیں نے دروازے پر دستک دے کر پوچھا۔ مگر وہ سب میرے پھٹے کپڑے، خون ٹپکاتے پاؤں اور گرد آلود چہرے کو دیکھ سہم گئے۔ ’’پاگل... پاگل ہے۔ اندر آجاؤ نہیں تو مارے گا۔‘‘ ایک بچّی نے کھڑکی بند کرتے ہوئے کہا۔ مَیں مایوس ہو کر لوٹ گیا۔
سامنے سے ایک لڑکا آرہا تھا۔ میرے ہی جتنا۔ میری طرح وحشت زدہ، زخم خوردہ، سہما سہما سا۔ مجھے دیکھ کر وہ ٹھٹھک گیا.... جیسے مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔ ’’ٹھہرو....‘‘ وہ ٹھہر گیا۔
’’کیا اس سامنے والے گھر میں لوگ میرا انتظار کر رہے تھے۔ یہ دیکھو میرے کھو جانے کا اشتہار اخبار میں چھپا ہے۔‘‘ ’’تم کون ہو....؟‘‘ اس نے اخبار مجھے لوٹاتے ہوئے کہا۔ ’’ہر شخص مجھے پہچاننے سے انکار کر چکا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے میرے سگے میرا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ مجھے پہچان لیں گے۔‘‘ ’’جھوٹ مت بولو....‘‘ وہ غصہ میں بپھر گیا، ’’یہ اشتہار تو میرے لئے تھا۔ مَیں اپنے گھر واپس آگیا ہوں۔‘‘ اس نے مجھے شک بھری نظروں سے دیکھا۔ ’’اچھا تو تم نے ریل کی پٹریوں کو کاٹ ڈالا۔ نیند سے جاگ اٹھے؟‘‘ مَیں نے خوش ہو کر پوچھا۔ ’’تم کون ہو؟‘‘ وہ مجھے بڑے غور سے دیکھ رہا ہے۔ ’’لو.... پھر وہی چکر شروع ہوگیا۔‘‘ مَیں نے بڑی دیر تک اس بات پر غور کیا اور پھر خوشی سے اچھل پڑا۔
’’تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مَیں مَیں ہوں اور تم تم ہو۔ ہم دونوں اپنے اپنے گھر میں آگئے ہیں۔‘‘ اور پھر مَیں خوشی کے مارے بھاگنے لگا۔ مَیں نے راہ کے تمام پتھروں کو ٹھوکروں سے اڑا دیا.... سائیکلوں اور کاروں کی زد سے نکل گیا۔ شریر بچوں کی طرف سے آنے والے پتھروں کو ہاتھوں پر سہا۔ آج مجھے بڑی خوشی تھی کہ وہ سب ظالم بچے مجھے پہچان گئے۔ جبھی تو آج انہوں نے مجھے دیکھتے ہی پتھر پھینکے۔ اپنے محلے میں لوگ مجھے دیکھتے ہی چلّانے لگے۔
’’پاگل.... پاگل پھر آگیا....‘‘
ہاں، آج سب نے مجھے پہچان لیا۔ اب امّاں بھی مجھے پہچان لیں گی۔ تو آج ’’مَیں‘‘ مل گیا۔ یہ کتنا لمبا سفر تھا، اپنی پہچان کے لئے جو مَیں نے طے کیا.... تھکن سے چور ہو کر مَیں سوچا۔
مَیں دور سے دیکھ رہا تھا۔ بہت سے لوگ میرے منتظر تھے۔ مَیں جو اپنے پہچان کے سفر سے لوٹا تھا تو لوگ مجھے حیران حیران نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ان آنکھوں میں میرے لئے رحم بھی تھا اور تشویش بھی....
پھر سب نے میرے گرتے ہوئے بدن کو تھام لیا۔ ’’لو بھئی تمہارا بیٹا آگیا.... ذرا دیکھو تو اس نے کیا حال بنا رکھا ہے اپنا....‘‘
لوگوں نے مجھے امّاں کی گود میں دھکیل دیا۔
’’یا اللہ یہ.... یہ عامر ہے....؟‘‘
امّاں نے پریشان نظروں سے دونوں ہاتھوں سے میرا چہرہ تھام کر غور سے دیکھا تو اچانک میرا دل بجھ گیا۔ مَیں نے امّاں کو دور دھکیل دیا اور نڈھال ہو کر سوچا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی ’’مَیں‘‘ نہیں ملا ہوں....