• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ: مکافات

Updated: August 21, 2024, 2:46 PM IST | Jannat Mahmood | Mumbai

ایکسٹرا کلاس اٹینڈ کرکے میں کوریڈور میں آئی۔ ہاتھ میں پانی کی بوتل تھامے آہستہ آہستہ نل کے پاس آئی۔ نل گھمایا اور پانی بہنے لگا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ایکسٹرا کلاس اٹینڈ کرکے میں کوریڈور میں آئی۔ ہاتھ میں پانی کی بوتل تھامے آہستہ آہستہ نل کے پاس آئی۔ نل گھمایا اور پانی بہنے لگا۔ میرے ارد گرد کافی اسٹوڈنٹس پانی پی رہے تھے۔ دوپہر کا وقت تھا سورج کی تپش بہت سخت تھی۔ گرم ہوا کے تھپیڑے گویا منہ پر پڑ رہے تھے۔ ہاتھ میں بوتل لئے مَیں اسکول سے باہر فیلڈ میں آئی۔ فیلڈ کے مین ڈور پر کھڑا واچ مین کندھے سے دستی اتار کر پسینہ پوچھ رہا تھا۔ کیبن سے پرنسپل ایک ہاتھ میں نوٹس اور دوسرے ہاتھ میں رومال سے چہرہ صاف کرتی آگے بڑھ گئیں۔ مَیں یونہی اسکول کی دیوار سے لگے پودے کی پتیاں توڑتے بڑھ رہی تھی۔ کچھ آگے گئی...
 فیلڈ کے آخر حصے سے تھوڑا آگے ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا۔ وہ اسکول ہی کا حصہ ہے خوبصورت سرخ پھول سے سجا ہوا۔ اس میں نیم اور دیگر بڑے بڑے درخت بھی تھے ۔اندر سفید کرتا پائے جامے پر سفید ٹوپی لگائے وہ اکڑو بیٹھے مٹی کرید رہے تھے۔ میں ان کے پاس گئی اور کچھ فاصلے پر اکڑو بیٹھ گئی۔ ان کے قریب ہی میں چھوٹے چھوٹے تین آم کے پودے رکھے تھے۔
 ’’السلام علیکم!‘‘ مَیں نے سلام کیا۔
 انہوں نے جیب سے رومال نکال کر چہرہ صاف کیا، ’’وعلیکم السلام!‘‘ کہہ کر پودے کی جڑ صاف کرنے لگے۔ ’’اتنی سخت گرمی میں پودے کیوں لگا رہے ہیں؟‘‘ مَیں نے تکلف سے پوچھا۔ وہ سر جھکائے پودے لگا رہے تھے۔ میرے سوال پر انہوں نے مسکرا کر بس ’ہاں‘ میں گردن ہلائی اور خاموش رہے۔
 ’’میرا مطلب یہ تھا کہ پہلی بات اتنی سخت گرمی.... اور پھر آپ اتنی تیز دھوپ میں یہ پودے لگا رہے ہیں....! ان پودوں کے بڑے ہونے میں پھر پھل لگنے میں برسوں گزر جائیں گے۔ اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ اس کا پھل کھا سکیں گے۔؟‘‘ مَیں سوال کرتی گئی۔
 ’’تمہارا پسندیدہ پھل؟‘‘ انہوں نے نرمی سے پوچھا۔
 ’’آم جو پھلوں کا راجا ہے۔ سب کے من کو بھاتا ہے۔ مجھے بے حد پسند ہے۔‘‘ مَیں نے جھٹ سے کہا گویا درجہ اوّل میں رٹی ہوئی ’کویتا‘ ہو۔
 ’’آج تک تم نے کتنے آم کے درخت لگائے ہیں؟‘‘ انہوں نے پودے کی جڑ میں مٹی ڈالتے ہوئے پوچھا۔ ’’ایک بھی نہیں! وہ تو بازار سے آتے ہیں یا باغ سے۔‘‘ یونہی کہہ دیا۔
 ’’کیا تم نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ یہ آم جو تم دن میں چار چار کھاتی ہو یہ تمہارے پاس تو بازار یا باغ سے آگئے مگر وہ بازار یا باغ میں کیسے آئے ہیں؟ آم نہ ہی آسمان سے ٹپکتا ہے اور نہ زمین اگلتی ہے تو پھر یہ آم آئے کیسے؟‘‘ خشک مٹی پر اب وہ پانی کا چھڑکاؤ کر رہے تھے، ’’سنو! بازار کا ابھی چھوڑو.... جو آم کے درخت تمہارے باغ میں ہیں۔ انہیں تم نے نہیں لگایا ہے۔ اور نہ ہی تمہارے بڑے بھائی یا بہن نے۔ وہ درخت برسوں سے پھل دیتا ہوگا۔ تو ضرور وہ درخت برسوں پرانا ہوگا۔ جس سے تمہارے دادا یا نانا نے لگایا ہوگا۔‘‘ ان کی بات کاٹ کر میں بیچ میں بول پڑی ’’’دادا! ہاں دادا نے لگایا ہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ بتایا تھا۔‘‘
 ’’کیا تمہارے دادا اب پھل کھاتے ہیں؟‘‘ انہوں نے اس مرتبہ میری طرف دیکھ کر پوچھا۔ ’’نہیں وہ پھل تو اب ہم لوگ کھاتے ہیں۔ وہ فوت ہوچکے ہیں۔‘‘
 ’’ہوں....‘‘ انہوں نے سرد آہ بھری۔
 ’’آج تک مَیں نے جتنے آم یا دوسرے پھل کھائے ہیں۔ ان کے درخت میں نے نہیں لگائے میرے بڑوں نے لگائے تھے۔ اور اب.... اب میں بڑا ہوں اس لئے یہ پودے میں لگا رہا ہوں کہ میرے بعد کے لوگ بھی کھائیں گے جس طرح میں نے کھایا تھا۔‘‘ تین پودے مکمل طور پر لگ چکے تھے۔
 ’’ویسے آپ اتنے بڑے اسکول کے مالک، عالم اور دیگر علوم کی واقفیت رکھتے ہیں۔ اتنے بڑے آدمی ہو کر آپ یہ....! مطلب یہ ملازم بھی تو کرسکتے ہیں نا؟‘‘ اس مرتبہ میں نے تھوڑی سی ہچکچاہٹ سے پوچھا۔
 ’’اس کام کو مَیں نے ثواب کی نیت سے کیا ہے اور مرنے کے بعد بھی مجھے اس کا ثواب ملتا رہے گا۔ اور اپنا کام میں ہمیشہ خود کرتا ہوں۔‘‘ رومال سے انہوں نے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا۔
 ’’مولانا صاحب! باہر کچھ افسران آپ سے ملنے آئے ہیں۔‘‘ ادھیڑ عمر کا ایک آدمی ان کے قریب آیا۔ اور اس کے ساتھ وہ گردن جھکائے اگے بڑھ گئے۔ میں نے پودے کو دیکھا اور ایک عالم کی صحبت میں بہت کچھ سیکھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK