میری کہانی کا جنم بھی بچپن کی شوخ زندگی میں برسوں پہلے اُس گاؤں میں ہوا تھا کہاں ہوائیں معطر اور مترنم تھیں جہاں مچلتی کھلکھلاتی ندیاں زندگی کا راگ سناتی رہتی تھیں اور محنت کش کسان فجر کی اذان کے بعد اپنے ہل کندھے پر ڈالے کھیتوں کی پُکار پر لبیک کہنے نکل پڑتے تھے۔
انسان کی زندگی کسی قوسِ قزح سے کم نہیں۔ اس کا ہر رنگ انوکھا ہے۔ بچپن اپنی معصومیت، شوخیوں اور شرارتوں کی رنگا رنگی سے بھرپور ہے تو جوانی حُسن ناز برداریوں کا رنگ تو بڑھاپا تجربوں، ہنگاموں اور مایوسیوں کی رنگا رنگی کا نام۔ زندگی کے ہر موڑ پر انسان نت نئے تجربوں سے دو چار سفر جاری رکھتا ہے۔ ہر موڑ کی یادیں جگنو کی طرح چمکتی رہتی ہیں مگر مستقبل کا سورج اپنی رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو تو پیچھے مڑ کر دیکھنے کی فرصت کہاں ہوتی ہے۔ یادوں کے یہ اُجالے تنہائی کی اندھیری راتوں کو منور کرنے آ ہی جاتے ہیں۔
میری کہانی کا جنم بھی بچپن کی شوخ زندگی میں برسوں پہلے اُس گاؤں میں ہوا تھا کہاں ہوائیں معطر اور مترنم تھیں جہاں مچلتی کھلکھلاتی ندیاں زندگی کا راگ سناتی رہتی تھیں اور محنت کش کسان فجر کی اذان کے بعد اپنے ہل کندھے پر ڈالے کھیتوں کی پُکار پر لبیک کہنے نکل پڑتے تھے۔ ہم بچّے کھیتوں کی منڈیروں پر دوڑتے پودوں سے چھوٹی چھوٹی ککڑیاں توڑ کسان کے ڈر سے یوں بھاگتے جیسے کوئی بھوت پیچھا کر رہا ہو۔ آم کے درختوں پر بندروں کی طرح اُچھلتے کودتے کھٹی میٹھی کیریوں سے کام و دہن کا مزہ لیتے زندگی کتنی میٹھی تھی۔ کنویں کے پانی میں پتھر مار کر بننے والے دائروں کو دیکھ خوش ہو کر تالیاں بجاتے میری کہانی اُسی معصوم، شوخ و چنچل زندگی کے دن اور رات کی کہانی ہے۔
اُس زمانے میں زندگی بڑی پُرسکون اور سادگی سے بھرپور تھی۔ نہ مہنگی گاڑیوں کی ریل پیل تھی اور نہ ہی رکشاؤں کی چیخ پکار۔ چھوٹے چھوٹے گاؤں کچے راستوں کے ذریعہ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے تھے۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جانے کے لئے نہ سواریاں اور نہ ریلیں مگر لوگ میلوں پیدل چل کر ایک دوسرے کی خوشیوں میں شرکت کرتے اور درد و غم کو بانٹنے میں پیچھے نہ تھے۔ ہمارے گاؤں سے قریب ترین قصبہ نامی گاؤں تھا۔ قریب ترین یعنی تقریباً ایک دو گھنٹے کا پیدل سفر۔ گاؤں کے باہر برائے نام ایک سڑک تھی جس پر کبھی کبھار اِکا دُکا ٹرک دھول اُڑاتا گزر جاتا۔ یہ سڑک بھی ہمارے گاؤں سے بہت دور تھی اور وہاں تک پہنچنے کے لئے بھی جنگل کے کچے راستوں سے گزرنا پڑتا۔ ظاہر ہے ان راستوں پر روشنی کا کوئی انتظام تو تھا نہیں اسی لئے جنگلی جانوروں کے حملے کا خوف لگا رہتا تھا۔ سانپ اژدہے دن میں بھی آزادانہ گھومتے رہتے تھے۔ اِکا دُکا آدمی تو دن میں بھی سفر کرنے سے ڈرتا تھا۔ ہم بچّوں کو تو دادی امّاں کی بھوت پریت کی کہانیوں نے ہی ادھ موا کر رکھا تھا۔
دراصل ہماری خالہ امّاں قصبہ میں بیاہی ہوئی تھیں اس لئے ہر تقریب میں ہماری شرکت کا دعوت نامہ موجود ہوتا۔ میکے والوں کو رشتہ داری نبھانی بھی ضروری تھی۔ نہیں صاحب تقریب سے مُراد کوئی برتھ ڈے پارٹی یا مہندی کا ہنگامہ نہ تھا بلکہ اُس دور میں تو گیارہویں شریف اور تہلیل جیسی تقریبات ہوتی تھیں۔ مرثیہ خوانی اور قصیدہ خوانی کی دھوم ہوتی۔ ہمارے والد صاحب اُن محفلوں کے روح رواں ہوتے قصیدہ گو ہونے کے ساتھ خوش الحان بھی تھے۔ جب قصیدے پڑھتے تو سماں باندھ دیتے۔ مجھے والد صاحب کا وہ قصیدہ آج بھی یاد ہے:
عبدالقادر جیلانی خلق میں تم ہو لاثانی
نورِ چراغِ ربّانی اور ہو غوث اعظم صمدانی
ہم بچّے محفل سے زیادہ اُس میٹھے پکوان میں دلچسپی رکھتے جو تقریب کے آخر میں ہمارا حصہ تھا۔ نہ نان خطائی نہ ہی گلاب جامن صرف میٹھے چاول یا کبھی کبھار زردہ۔ مگر اُس مٹھائی کی لذت آج بھی زبان پر ہے۔ میلوں ٹھیلوں کی رونق بھی الگ ہوتی تھی۔ ’قصبہ‘ میں ایک درگاہ تھی جہاں ہر سال عُرس ہوتا تھا۔ ہم رشتہ داروں کو اس موقع پر خاص طور سے مدعو کیا جاتا۔ یوں بھی خالہ امّاں کا گھر کسی حویلی سے کم نہ تھا مہمان نوازی اور اقرباء پروری میں نہ جگہ کی قلت تھی اور نہ ہی دلوں میں محبّت اور خلوص کی کمی تھی۔ محبّت کی خوشبو سے دل معطر اور روح مالا مال تھی۔
نفسانفسی کے دور میں جذبات کے پیڑ پت جھڑ کی نذر ہوچکے ہیں۔ گاؤں کے عُرس کی کشش یہ عالم تھا کہ لوگ دور دراز علاقوں سے شرکت کرنے دوڑے چلے آتے۔ عُرس کے دن رات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے۔ اس موقع پر بڑا زبردست میلہ لگتا تھا جہاں انواع و اقسام کی چیزوں کی دُکانیں، کھیل کھلونے کرشمہ دامن ِ دل می کشَد کہ جا اینجاست کی کیفیت ہوتے۔ شاید ایسے ہی کسی میلے میں ’عید گاہ‘ کا ’حامد‘ اپنی دادی کے لئے دست پناہ خرید کر پریم چند کی کہانی کا لافانی کردار بن گیا ہوگا۔ عُرس کی راتوں میں قوالیوں کی محفلیں بھی کشش سے کم نہ تھیں۔ دور دور سے قوال اپنی عقیدت کا اظہار کرنے چلے آتے اور موسیقی، سُر اور ساز کے شائقین رات رات بھر داد دے دے کر شوق عقیدت کو ہوا دیتے۔ خالہ امّاں کے گھر میں بھی عزیز و اقارب کا کئی دنوں تک میلہ لگا رہتا۔ خالو خان جہاز پر چیف آفیسر تھے مگر ان دنوں چھٹی لے کر گھر آتے۔ مہمان تو اس زمانے میں واقعی اللہ کی رحمت سمجھے جاتے تھے۔ بزرگوں کو نہ صرف قابل احترام سمجھا جاتا تھا بلکہ اُن کے وجود کو برکتوں کے نقیب کا درجہ دیا جاتا۔ آج عزت و احترام کے وہ پیڑ پت جھڑ کی نذر ہوچکے ہیں۔ نئی پیڑھی تو بزرگوں کو بوجھ سمجھتی ہے اسی لئے اولڈ ہوم بزرگوں کی پناہ گاہیں بن چکے ہیں۔ جنہوں نے پال پوس کر زندگی کی خوشیاں عطا کی ہوں اُن کے ساتھ ایسا سلوک ہو تو مہمان نوازی کا ذکر نہ ہی کریں تو بہتر۔ ان ہی دنوں میں ہم سب بچّے خالہ امّاں کے آنگن میں آنکھ مچولی کھیل رہے تھے کہ ہماری نظر ایک عجیب و غریب شے پر پڑی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کسی آرٹسٹ نے بِنا سَر سانپ کی جھلی دار شکل بنا کر درخت کے تنے میں چھوڑ دی ہو۔ ہم سب دوڑے دوڑے نانا ابّا کو بُلا لائے۔ نانا ابّا ہمیشہ کی طرح اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے اور کہنے لگے، ’’ارے بچّو! یہ سانپ کی کینچلی ہے۔‘‘ حیرت سے ہم سب بول پڑے، ’’نانا ابّا! یہ کینچلی کیا ہوتی ہے؟ کیا کوئی آرٹسٹ اسے بناتا ہے؟ مگر وہ اسے یہاں کیوں چھوڑ گیا؟‘‘ نانا ابّا ہنس پڑے اور کہنے لگے، ’’اللہ تعالیٰ بہت بڑے آرٹسٹ ہیں اور ان کی بنائی ہوئی یہ دنیا عجائبات سے بھری ہوئی ہے۔ سانپ بھی اپنا پُرانا لباس اُتار کر نیا لباس زیب تن کرتے ہیں۔ کوئی سانپ اپنا پُرانا لباس یہاں اُتار کر چھوڑ گیا۔ گاؤں کے قدامت پسند لوگ تو اس لباس کو برکت کی نشانی سمجھ کر ایک دوسرے کو تحفہ کی طرح دیتے ہیں۔‘‘ یہ لباس اور برکت کی گتھی ہماری ناقص عقل پر گراں تھی اس لئے اس گتھی میں اُلجھنے کے بجائے ہم پھر آنکھ مچولی کھیلنے میں مصروف ہوگئے۔
چلئے پھر اپنی کہانی کی طرف رُخ کرتے ہیں۔ یہ کہانی بھی خالہ امّاں کے گھر سے شروع ہوئی تھی۔ چھٹیوں کے دن تھے اس لئے ہمارے بڑے بھیّا گاؤں آئے ہوئے تھے۔
پروفیسر زہرہ موڑک
وہ ہندوستانی بحریہ کے اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے۔ بڑی پُر وقار شخصیت کے مالک تھے۔ نہ صرف خاندان کے تمام افراد بلکہ اطراف کے چار گاؤں کے لوگ بھی اُن کی شخصیت کے گرویدہ تھے۔ وہ ہمارے گاؤں کی پنچایت کے سرپنچ اور اسکول کے ٹرسٹی تھے۔ اُن کی رائے ہر معاملہ میں حرفِ آخر کا درجہ رکھتی تھی۔ وہ ہر ایک کے چہیتے ’’دادا‘‘ تھے۔ کوکن میں بڑے بھائی کو ’’دادا‘‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔ ہماری بھابھی شہر کی پروردہ تھیں اور دو پیارے پیارے ننھے منوں کی ماں۔ وہ محبت اور شفقت کا پیکر تھیں۔ ہم سب اُن کو بہت پیار کرتے تھے۔
بڑے بھیّا کی گاؤں میں آمد کو دو چار دن ہی گزرے تھے کہ خالہ امّاں کی ساس نے دنیائے فانی کو الوداع کہہ دیا۔ ہم بچّے بھی اُن کی موت کی خبر سُن کر آبدیدہ ہوگئے۔ اُن سے سنی ہوئی بے شمار کہانیاں یاد آکر رُلا گئیں۔ گھر کے بڑے افراد کے ساتھ ہم بچوں نے بھی ساتھ چلنے کی ضد کی۔ گھر کی بزرگ خواتین بھابھی کو بھیجنے کے لئے رضا مند نہ تھیں کیونکہ دونوں بچے چھوٹے اور ایک شیرخوار تھا مگر حکم حاکم مرگ مفاجات بڑے بھیّا کے حکم کے آگے کسی کو چون و چرا کی گنجائش نہ تھی تو پھر بھابھی کس شمار میں تھیں۔ بچوں کو گھر میں چھوڑ کر وہ بھی ہمارے قافلے کے ساتھ چل پڑیں۔
تدفین کے بعد بھابھی نے بادل ناخواستہ خالہ امّاں اور شوہر نامدار سے گاؤں واپس لوٹنے کی اجازت چاہی۔ بڑے بھیّا پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ وہ تین دن تک خالہ امّاں کے ساتھ ہی رہیں گے۔ اب اسی لئے بھابھی کے واپس لوٹنے کا مسئلہ درپیش ہوا۔ مَیں نے اور ہمارے منجھلے بھائی نے فوراً اپنی خدمات پیش کیں۔ منجھلے بھائی گاؤں کے راستوں سے بخوبی واقف تھے اور بڑے دبنگ تھے۔
سب مان گئے تو ہم بھابھی کے ساتھ پہلے پکی سڑک کی طرف چل پڑے تاکہ اگر کوئی ٹرک رُک جائے تو بھابھی کو پیدل چلنے کی تکلیف نہ اُٹھانی پڑے مگر افسوس کوئی صورت نظر نہیں آئی۔ کوئی چارہ نہ دیکھ بھابھی نے جنگل کے راستے پیدل چلنے کی حامی بھر لی۔ تقریباً ایک گھنٹہ مسلسل چلنے کے بعد مَیں اور بھابھی ہانپنے لگے۔ بھائی بولے، ’’آپ دونوں تھوڑی دیر رُک جائیں، سانسیں درست کرلیں، پھر آگے بڑھتے ہیں۔‘‘ اتنے میں میری نظر سامنے جھاڑی پر پڑی۔ پوری جھاڑی کروندوں سے لدی ہوئی تھی۔ ہم دونوں کروندوں پر ٹوٹ پڑے اور کروندے توڑ توڑ کر بھابھی کو میٹھے کروندے کھلائے۔ اس خود ساختہ دعوت کے بعد باقی سفر بخیر و خوبی کٹ گیا۔ گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ دونوں بچوں نے رو رو کر گھر سر پر اُٹھا لیا ہے۔
ہم جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے بچوں کو بھابھی کے حوالے کر سب نے سکون کی سانس لی۔ بچے ماں کو پا کر خوش ہوئے اور پُرسکون ہو نیند کی آغوش میں چلے گئے۔
مَیں اور بھابھی بھی سستانے کے لئے جا ہی رہے تھے کہ کھڑکی کے قریب ایک پھنکار سنائی دی اور پھر گھر کے نوکر کی گھبرائی ہوئی آواز۔ نوکر ہماری پھوپھی امّاں سے گھبرا گھبرا کر کچھ کہہ رہا تھا۔ تجسس کے مارے ہم دونوں کمرے سے باہر آگئے۔ نوکر کہہ رہا تھا کہ دو بڑے خطرناک سانپ پھنکار پھنکار کر گھر کے اطراف چکّر لگا رہے ہیں۔ اُن کو بھگانے کی ساری کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ پھوپھی امّاں کا ماتھا ٹھنکا اور فوراً ہماری پیشی کا حکم صادر ہوا۔ انہوں نے بڑے پیار سے ہم سے پوچھا، ’’بیٹا آپ لوگوں کی واپسی کس راستے سے ہوئی ہے؟‘‘ ہم نے سچ بات بتا دی۔ پھر پوچھا گیا، ’’آپ لوگوں نے راستے میں رُک کر کوئی کارنامہ تو نہیں انجام دیا؟‘‘
سَر جھکا کر ہم نے کروندوں کی جھاڑی پر یلغار کا قصہ سنا دیا۔ وہ فوراً کہنے لگیں، ’’تو یہ آپ لوگوں کا کارنامہ ہے۔ آپ نے ان سانپوں کو دُکھایا ہے۔‘‘ حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھ ہم بول پڑے، ’’پھوپھی امّاں ہم نے تو کسی کا دل نہیں دکھایا۔‘‘
وہ ہنس کر کہنے لگیں، ’’بچّو! یاد رکھو کہ کائنات صرف انسانوں کی ملکیت نہیں ہے یہاں جانوروں، چوپایوں، پرندوں اور حشرات الارض کی بھی اپنی اپنی دُنیا ہے۔ یہ دونوں سانپ اُس جھاڑی میں آرام کر رہے تھے جہاں آپ لوگوں نے کرندوں پر دھاوا بولا تھا۔ سانپ دیکھ نہیں پاتے مگر اُن کا احساس زبردست ہوتا ہے۔ یہ دونوں سانپ آپ لوگوں کے قدموں کی آہٹ کا پیچھا کرتے ہوئے بدلہ لینے پیچھے پیچھے چلے آئے۔‘‘ پھر انہوں نے نوکر کو آواز دے کر کہا کہ وہ سلیم چاچا کے گھر جا کر اُن کو بلا لائے۔
ہم نے حیرت سے پوچھا کہ، ’’سلیم چاچا کو کیوں بلایا جا رہا ہے۔‘‘ پھوپھی امّاں نے ہمارے ناقص علم میں اضافہ کرتے ہوئے کہا، ’’کچھ لوگ سانپوں کو بھگانے کا علم جانتے ہیں۔ ہم اگر کسی ذی روح کو مارنا نہیں چاہتے تو وہ دعاؤں کے ذریعہ سانپوں کو بھگا دیتے ہیں۔ پھر وہ اُن کی دُنیا میں لوٹ جاتے ہیں۔‘‘
بہرحال سلیم چاچا کی دعاؤں کے طفیل نہ صرف اُن کی پھنکار بند ہوئی بلکہ وہ غائب ہوگئے۔ ہم نے بھی اطمینان کی سانس لی اور اس رنگ برنگی کائنات کے ہر رنگ کو دادِ تحسین دیتے ہوئے پھوپھی امّاں کی گود میں دُبک گئے۔
(افسانہ نگار برہانی کالج، ممبئی سے وابستہ رہی ہیں)