Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

افسانہ: راستے جو منزل سے بڑھ کر تھے

Updated: March 20, 2025, 11:27 AM IST | Ifra Taskeen | Mumbai

ٹرین آہستہ آہستہ چلنے لگی اور میں کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔ اسٹیشن پیچھے چھوٹ رہا تھا، جیسے میری زندگی کے وہ لمحے جو اپنوں کے ساتھ گزارے تھے۔ ابو، امی، بہن، بھائی.... سب وہیں رہ گئے، اور میں.... میں آگے بڑھ گیا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

رات کی خاموشی میں ٹرین کی سیٹی گونجی تو میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ اسٹیشن پر لوگوں کی چہل پہل تھی، قدم آگے بڑھ رہے تھے، لیکن میرا دل کہیں پیچھے رُکا ہوا تھا۔ میں اپنی زندگی کے سب سے بڑے سفر پر روانہ ہو رہا تھا.... یہ سفر صرف فاصلے کا نہیں تھا، بلکہ وقت، جذبات اور یادوں کا بھی تھا۔
’’اب تو خوش ہو نا؟‘‘ امی کی مدھم آواز میرے کانوں میں گونجی۔ میں نے زبردستی مسکرا کر ان کی طرف دیکھا، مگر میری آنکھوں میں چھپی نمی شاید وہ بھی محسوس کر چکی تھیں۔
میرا خواب تھا کہ میں بڑا آدمی بنوں، وہ سب حاصل کروں جس کا ہر کوئی خواہشمند ہوتا ہے۔ کامیابی، شہرت، دولت.... مگر اس سفر کی قیمت کیا ہوگی، یہ کبھی نہیں سوچا تھا۔
ٹرین آہستہ آہستہ چلنے لگی اور میں کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔ اسٹیشن پیچھے چھوٹ رہا تھا، جیسے میری زندگی کے وہ لمحے جو اپنوں کے ساتھ گزارے تھے۔ ابو، امی، بہن، بھائی.... سب وہیں رہ گئے، اور میں.... میں آگے بڑھ گیا۔
رات گہری تھی اور ٹرین کی رفتار کے ساتھ میرے دل کی دھڑکنیں بھی بے ترتیب تھیں۔ یادیں یوں ذہن میں گردش کر رہی تھیں جیسے بادلوں میں چھپی بجلیاں.... ایک لمحہ چمکتی، سب کچھ روشن کر دیتی اور اگلے ہی لمحے اندھیرے میں ڈوب جاتی۔
ماں کے وہ آخری الفاظ....
’’بیٹا، چاہے جتنا بھی بڑا آدمی بن جانا مگر دل کی نرمی مت کھونا۔‘‘
ابو کی وہ نصیحت....
’’کبھی ایسا نہ ہو کہ منزل کے پیچھے بھاگتے بھاگتے تمہارا راستہ ہی کھو جائے۔‘‘
بہن کے وہ آنسو....
’’بھائی، جلدی واپس آجانا، تمہارے بغیر گھر سنسان ہو جائے گا۔‘‘
کھڑکی سے باہر اندھیرے میں ڈوبے دیہات، سرسبز کھیت اور دور مدھم روشنیوں میں لپٹے چھوٹے چھوٹے گھر.... سب بچپن کی یادوں کو تازہ کر رہے تھے۔ وہ دوپہریں جب ماں کے ہاتھ کا کھانا کھاتے ہوئے میں خواب دیکھا کرتا تھا، وہ شامیں جب ابو کے ساتھ بیٹھ کر بڑی بڑی باتیں کی تھیں، وہ راتیں جب بہن کی ہنسی گونجا کرتی تھی.... سب کچھ ذہن میں چلنے والی ایک فلم کی طرح واپس آرہا تھا۔
مَیں نے اپنی مٹھی بند کی، جیسے کوئی چھوٹتی ہوئی چیز قابو میں لانا چاہتا ہوں مگر حقیقت یہ تھی کہ وقت کسی کے قابو میں نہیں آتا۔ لمحے مٹھی میں بند پانی کی بوندوں کی طرح تھے..... جتنی سختی سے پکڑو، اتنی ہی تیزی سے بہہ جاتے ہیں۔
صبح کا سورج ایک نئے سفر کی خبر لے کر آیا۔
ٹرین ایک بڑے شہر کے اسٹیشن پر رکی۔ چاروں طرف شور، ہارن، لوگوں کی بھیڑ.... سب کچھ نیا تھا، مگر میرے اندر ایک خاموشی تھی۔ میں نے گہرا سانس لیا اور اپنے خوابوں کی طرف پہلا قدم بڑھایا۔ مگر دل میں ایک عجیب سا خلا تھا.... شاید کچھ پیچھے چھوٹ گیا تھا، یا شاید میں خود کو ہی پیچھے چھوڑ آیا تھا۔
دن گزرتے رہے۔ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتا رہا۔ دولت، شہرت، عزت.... سب کچھ حاصل ہوتا گیا۔ لیکن دل میں ایک کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہی۔ وہ لمحے، وہ دعائیں، وہ ہنسی.... سب کہیں کھو گیا تھا۔
اور پھر ایک دن....
امی کی آواز فون پر کمزور لگنے لگی، ابو کی سانسیں تھکی تھکی محسوس ہونے لگیں، بہن کی ہنسی میں وہ کھنک باقی نہیں رہی، بھائی کی شوخی میں وہ چمک نہیں رہی۔
تب احساس ہوا کہ میں بہت آگے نکل آیا تھا، لیکن اپنی دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
اب پلٹنے کا وقت آچکا تھا....
وہ دروازہ جسے میں نے پیچھے چھوڑا تھا، شاید ابھی بھی کھلا تھا۔ وہ دعائیں جنہیں میں نے ان سنی کر دیا تھا، شاید ابھی بھی میرے انتظار میں تھیں۔ وہ لوگ جنہیں میں نے چھوڑ دیا تھا، شاید ابھی بھی میری راہ دیکھ رہے تھے۔
مَیں نے سامان باندھا.... اور پہلی بار احساس ہوا کہ اصل منزل تو وہی تھی جہاں سے میں نے سفر شروع کیا تھا۔
یہ سفر ختم نہیں ہوا تھا.... بلکہ اصل سفر تو اب شروع ہوا تھا۔
کیونکہ منزلوں سے زیادہ، راستے اہم ہوتے ہیں۔ خوابوں سے زیادہ، اپنوں کا ساتھ معنی رکھتا ہے۔ اور شاید، کامیابی سے زیادہ.... گھر واپس لوٹنے کی خوشی ضروری ہوتی ہے۔
’’اگر کبھی تمہیں ایسا لگے کہ تم اپنی منزل کے قریب پہنچ کر بھی خوش نہیں ہو، تو پلٹ کر دیکھنا.... شاید تم نے راستے میں وہ چیزیں چھوڑ دی ہیں جو تمہیں مکمل کرتی تھیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK