جیسے ہی صبح کا سورج اپنی کرنوں میں رات کی تاریکی اور بکھرے ہوئے ستاروں کو سمیٹنا شروع کرتا قدسیہ بیگم صحن میں بیٹھی بہو کا دروازہ تکتی رہتیں۔
EPAPER
Updated: December 26, 2024, 1:56 PM IST | Maryam Bint Mujahid Nadwi | Mumbai
جیسے ہی صبح کا سورج اپنی کرنوں میں رات کی تاریکی اور بکھرے ہوئے ستاروں کو سمیٹنا شروع کرتا قدسیہ بیگم صحن میں بیٹھی بہو کا دروازہ تکتی رہتیں۔
جیسے ہی صبح کا سورج اپنی کرنوں میں رات کی تاریکی اور بکھرے ہوئے ستاروں کو سمیٹنا شروع کرتا قدسیہ بیگم صحن میں بیٹھی بہو کا دروازہ تکتی رہتیں۔ مگر مجال ہے جو ۱۰؍ بجے سے پہلے دروازہ کھلے۔ قدسیہ بیگم بھوک سے بلبلا کر کچن کا رخ کر لیتیں۔ پھر یا تو کسی پڑوسن کے گھر چلی جاتیں، یا کوئی سہیلی آجاتی، اور یہ ملاقات دوپہر کے کھانے تک جاری رہتی۔ شام کو بہو آکر کبھی خود کھانا بناتی اور کبھی باہر سے لے آتی، لیکن قدسیہ بیگم کو باہر کا کھانا پسند نہ آتا وہ اپنے لئے کچھ انتظام کرلیتیں۔ قدسیہ بیگم کو دن بھر کوئی کام نہیں ہوتا نوکرانی آکر صفائی کرکے چلی جاتی۔ دن اسی طرح گزر رہے تھے۔
ایک مرتبہ رات کے کھانے میں نمک زیادہ ہوجانے پر قدسیہ بیگم نے اپنی بہو عارفہ کو اس کی نوکری کا طعنہ دیتے ہوئے کہا، ’’اب بھلا یہ باہر کے چونچلوں سے تمہیں فرصت ملے تو تم سوچو نا کہ کھانے میں نمک کتنا ڈالنا ہے اور کڑی میں دودھ نہیں ڈالتے۔‘‘ دراصل کچھ دن پہلے ہی امجد، عارفہ کے بیٹے نے ضد کی تھی کہ اسے کڑی کھانی ہے لیکن قدسیہ بیگم نے کہا، ’’تمہاری امی بنائیں گی اتوار کے دن۔‘‘ جب اتوار کا دن آیا تو سب دسترخوان پر انتظار میں بیٹھے تھے کہ برتن میں کڑی آتی ہے یا انہیں اپنے منہ پر کڑی لگانے کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ بدمزہ کھانے کی چیخوں کو اندر ہی روک سکیں۔ دھواں اڑاتا ہو ابرتن ان کے سامنے رکھ کر عارفہ کی حالت ایسی ہوگئی تھی جیسے ابھی ابھی جنگ لڑ کر آ رہی ہو۔ اس کی فاتحانہ مسکراہٹ کا زور تب ٹوٹا جب قدسیہ بیگم نے چمچہ پٹخ کر اور امجد نے ’ایّو‘ کی آواز نکالی اور ساجد قدسیہ بانو کے بیٹے نے صرف سر کھجانے پر اکتفا کیا۔ اس وقت کا تو منظر ہی ہولنا ک تھا اپنی چھٹی کو سو کر گزارنے کے پلان کو کینسل کرکے اتنی گرمی میں کچن میں کھڑے ہو کر کڑی بنانا اور تعریف کے بدلے بے عزتی.... اب حال کی بات کریں تو نمک کی زیادتی زیادہ بڑی بات نہیں لیکن دن بھر آفس کے کاموں میں اپنا دماغ استعمال کرنے کے بعد عارفہ نے بھی آواز بڑھا کر کہا، ’’ہاں تو آپ اگر رات کا کھانا بنا لیا کریں تو اس میں حرج ہی کیا ہے، ویسے بھی دن بھر خالی بیٹھنے کے سوا آپ کرتی کیا ہیں؟‘‘ حالت بگڑ رہی تھی اور معاملے کی سنجیدگی دیکھ کر امجد اپنی امی کو اند ر لے گیا۔ قدسیہ بیگم بھی بڑبڑاتی اٹھ گئیں اور اگلے چند دن گھر میں سرد جنگ چلتی رہی۔
ایک دن کی بات ہے، سورج کی کرنوں نے پورے صحن کو اپنے احاطہ میں لے لیا تھا اور پلنگ پر بیٹھی قدسیہ بیگم اپنے پوتے سے محو کلام تھیں۔ عارفہ نے جوتے پہنتے ہوئے امجد کو مخاطب کرکے کہا، ’’آج ہمارا اب تک کا سب سے بڑا پروجیکٹ شروع ہورہا ہے تو ہوسکتا ہے مجھے آنے میں دیر ہوجائے۔ تم روٹی اور سالن اپنے ابو کے ہاتھ سے منگوا لینا۔‘‘ سلام کرتی وہ دروازہ عبور کرگئی۔ پیچھے قدسیہ بیگم منہ میں بڑبڑاتی رہیں۔ سہ پہر وہ اپنی پڑوسن شبانہ کے پا س جانے کے لئے نکلیں جو محلے میں نئی آئی تھی اور اب تک وہ دونوں کافی اچھی سہیلیاں بن چکی تھیں۔ گھر میں داخل ہونے کے بجائے وہ سیدھا صحن میں چلی گئیں کیونکہ شبانہ وہیں ہوتی تھیں۔ کسی کے چلّانے کی آواز سن کر ان کے قدم رک گئے۔ ’’آپ سے ایک کام بھی اچھے سے نہیں ہوتا، مجھے لگتا ہے آپ جان بوجھ کر ایسا کرتی ہیں تاکہ مجھےپھر سے یہ کا م کرنا پڑے۔ آپ بس کام نہ کرنے کے بہانے ڈھونڈتی رہتی ہیں۔‘‘ تلخ، نفرت آمیز لہجہ، کوئی نوکرانی کے ساتھ بھی ایسا سلوک نہیں کرتا۔ یہ شبانہ کی بہو تھی۔ قدسیہ بیگم واپس پلٹ گئیں۔
گھر کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے انہیں اپنی بہو عارفہ کی ایک ایک بات یاد آنے لگی۔ آج شبانہ کی بہو کی حاکمانہ باتیں سن کر پہلی مرتبہ ان کے دل میں یہ احساس جاگا تھا کہ ان کی اپنی بہو نے کبھی الفاظ میں اس قدر زہر گھول کر لب کشائی نہ کی تھی۔ اس واقعہ نے ان پر یہ انکشاف کیا تھا کہ ان کی بہو جیسی بھی ہے بہت اچھی ہے۔ انہیں خیال آیا کہ آج وہ اپنی بہو کے لئے اور گھر کے دیگر افراد کے لئے کچھ اچھا کھانا بنائیں گی، تاکہ رشتوں میں پیدا ہونے والی کھٹاس کو کچھ دور کی جاسکے۔ لیکن انہی خیالات میں گم وہ راستہ پار کر رہی تھیں کہ اچانک ایک تیز رفتار گاڑی نے انہیں ٹکر مار دی۔
آنکھ کھلنے پر خود کو سرد در و دیوار والے کمرے، پٹیوں میں جکڑے سر اور پیروں میں پایا۔ سامنے عارفہ آنکھوں میں آنسو لئے انہیں دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ سر پر چوٹ آنے کی وجہ سے وہ بیہوش ہوگئی تھیں، ہاتھ پر بھی معمولی چوٹ آئی تھی مگر سردی کے موسم میں ان کے لئے اتنی چوٹ بھی ان کو حواس باختہ کرنے کے لئے کافی تھی۔ ساجد نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔وہ لمحہ جب اسے یہ خبر ملی، اس کے ہاتھ پیر پھول گئے تھے وہ کس طرح اسپتال پہنچا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔ عارفہ بھی اپنی میٹنگ چھوڑ کر یہاں پہنچی تھی۔
اپنی بہو کو اپنے لئے آنسو بہاتا دیکھ کر قدسیہ بیگم کی بھی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ اور ان کا دل چاہا کہ وہ اس قدر تکلیف کے باوجود مسکرا دیں لیکن وہ چاہ کر بھی ایسا نہیں کرسکیں۔
ایک ہی دن میں انہیں ڈسچارج مل گیا اور وہ گھر آگئیں۔ عارفہ نے دل و جان سے ان کی خدمت کی۔ اگلے دن قدسیہ بیگم دھوپ سینک رہی تھیں۔ عارفہ اپنا اتنا اہم پروجیکٹ چھوڑ کر ان کی خدمت کررہی تھی جبکہ کوئی بھی کل وقتی ملازمہ یہ کام کرسکتی تھی۔ صحن کی صفائی کرتی عارفہ پر انہیں ڈھیروں پیار آیا۔ اسے اشارے سے بلا کر اپنے پاس بٹھایا، عارفہ بھی اپنی ساس کے ساتھ اپنے سخت برتاؤ پر ندامت محسوس کر رہی تھی۔
آج اس نے ہمت جٹاکر وہ بات کہہ ہی دی جو قدسیہ بیگم کے ایکسیڈنٹ کے دن سے اس کے ذہن میں گردش کررہی تھی۔ اس نے زمین پر نظریں گاڑے کہا، ’’امی مجھے معاف کردیجئے۔ میرا مطلب کہ وہ....‘‘ وہ مناسب الفاظ ڈھونڈ رہی تھی۔
قدسیہ بیگم نے محبت آمیز لہجہ میں کہا، ’’اچھا چلو چھوڑو یہ سب، ادرک کی چائے بنا کر لاؤ، دونوں ساتھ میں بیٹھ کر پیتے ہیں۔‘‘ عارفہ کی آنکھیں خوشی سے چھلک گئیں۔ کبھی کبھی حادثے رشتے میں آئی تلخی کو دور کر دیتے ہیں۔ اس حادثے نے اس کڑوے رشتے کے درمیان کچھ مٹھاس پیدا کر دی تھی۔ جو شاید وقتی تھی لیکن بہرحال ساس اور بہو دونوں خوش تھیں۔
عارفہ جب دو پیالی چائے لے کر واپس لوٹی تو اس نے قدسیہ بیگم کو عجیب حالت میں دیکھا۔ گویا کہ وہ اچانک بے سدھ ہو کر گِر گئی ہوں۔ اس نے ان کو جگانے کے لئے آواز دی، لیکن ان کی جانب سے خاموشی تھی۔ اس نے چیخ پکار شروع کردی۔ گھر میں اس وقت صرف اس کا بیٹا امجد تھا، پاس پڑوس کے لوگ اکٹھے ہوگئے۔ ایمبولینس میں ڈال کر قدسیہ بیگم کو اسپتال لے جایا گیا، جہاں ان کی جانچ کے بعد ڈاکٹر نے ’’آئی ایم سوری!‘‘ کہا۔
قدسیہ بیگم کے چلے جانے کے کچھ دن بعد تک گھر میں مہمان موجود تھے، جب سب ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے، تب عارفہ کو تنہائی کا احساس ہوا۔
وہ آج صبح اسی پلنگ پر، اسی جگہ بیٹھی تھی جہاں اس نے تین دن پہلے قدسیہ بیگم کو کھویا تھا۔ اس کے ذہن میں وہ لمحہ تازہ ہوگیا جب وہ اپنی ساس سےکسی بات پر الجھ پڑی تھی۔ اس کو آج احساس ہو رہا تھا کہ اس نے اپنی ساس سے رشتہ نبھانے میں نہ صرف کوتاہی کی ہے بلکہ وقت رہتے وہ اپنی ساس سے معافی تلافی بھی نہ کرپائی۔
وہ انہی خیالات میں ڈوبی، آنسو بہا رہی تھی کہ اس کا بیٹا امجد اور شوہر ساجد اس کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ امجد کہنے لگا، ’’امی چار دن پہلے جب میں رات میں دادی کے پاس بیٹھا تھا، انہوں نے مجھ سے کہا تھا بیٹا، تیری امی بہت اچھی خاتون ہے۔ اس کو سمجھنے میں مجھے بڑی دیر ہوگئی۔ اب میں اپنے بچے ہوئے دن اس کے ساتھ بڑے اچھے سے گزارنا چاہتی ہوں....‘‘ امجد کا اتنا ہی کہنا کافی تھا کہ آنسوؤں کی لہر جو عارفہ کی آنکھوں میں تھی، ایک سونامی میں بدل گئی، اور وہ اپنے شوہر اور بیٹے کے سمجھانے کے باوجود کافی دیر تک روتی رہی۔
افسوس کہ انسانی رشتوں کا حال ایسا ہی ہےکہ اکثر و بیشتر وقت رہتے کوئی ان کی قدر نہیں کرتا، اور وقت گزر جانے کے بعد ان کی قدر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا!