• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ: روشنی

Updated: November 04, 2024, 2:00 PM IST | Yasmeen Bano | Mumbai

جیسے ہی بابا آئے وہ دوڑ کر ان کے پیروں سے لپٹ گئی لیکن لمحہ بھر میں اداس ہوگئی۔ بابا خالی ہاتھ تھے۔ وہ پھیکا سا مسکرائے اور اُس کا ہاتھ تھام کر اسے اندر لے گئے۔ ننھی سی ریما چہرہ جھکائے رات کو سب کے ساتھ کھانا کھا رہی تھی۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

شام کو جب ریما کے بابا گھر لوٹے تو وہ ہمک کر ان کی گود میں بیٹھ گئی اور وہی سوال دہرایا: ’’بابا آپ آکاش دیپ کب لائیں گے؟‘‘ بابا اس کے سوال پر خاموش ہوگئے پھر پیار سے اس کے نرم گالوں کی چٹکی لی اور کہا، ’’کل ضرور!‘‘ ریما یہ الفاظ کئی بار سن چکی تھی۔ چڑ کر بولی، ’’کل؟ کون سا والا کل؟ مجھے آج ہی آکاش دیپ چاہئے۔ میری ساری سہیلیوں کے گھر آکاش دیپ جل ریے ہیں لیکن میرے....‘‘ ’’ریما! بابا سے ضد مت کرو۔ جاو، جا کر آنگن صاف کرو۔ ‘‘ ماں بیچ میں بول پڑیں۔ ریما کی بات سن کر بابا کا چہرہ کسی چراغ کی طرح بجھ گیا۔ ریما سچ کہہ رہی تھی۔ ہر گھر، آنگن چراغوں اور قندیلوں سے جگمگا رہا تھا اور وہ ریما کو ہر روز وعدہ کرکے تسلی دے رہے تھے۔ 
جگمگاہٹ تو ہونا ہی تھی دیوالی کا تہوار جو تھا! ہر گھر آنگن جگمگ کر رہا تھا۔ گھروں کے باہر لٹکتے آکاش دیپ محبت و عقیدت کا مظہر تھے۔ ہر معبد کا روپ کتنا اجلا اجلا اور پاکیزہ نظر آرہا تھا! ہر دکان اور مکان میں جلتے دیوں اور آکاش دیپوں نے شہر کی زینت کو دوبالا کر دیا تھا۔ ہر طرف روشنی ہی روشنی تھی۔ 
دوسرے دن ریما شام کے وقت دہلیز پر بیٹھی بابا کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ پڑوس کا مکان ایک بڑا سا بنگلہ تھا، جس کے سیٹھ جی نے پورے بنگلے کو رنگ برنگے قمقموں کی لڑیوں سے سجا کر جیسے دلہن بنا دیا تھا اور گھر کے آنگن میں لٹکتا خوبصورت سا ستارہ نما آکاش دیپ گویا اس دلہن کے ماتھے پر پیاری سی بندیا کی طرح جھلمل کر رہا تھا۔ ریما نے حسرت بھری نگاہوں سے اس بنگلے کی طرف دیکھا، ’’وہ بھی اپنے گھر کے آنگن میں ایسا ہی آکاش دیپ لٹکائے گی پھر اس کا گھر بھی دلہن کی طرح نظر آئے گا۔ ‘‘
جیسے ہی بابا آئے وہ دوڑ کر ان کے پیروں سے لپٹ گئی لیکن لمحہ بھر میں اداس ہوگئی۔ بابا خالی ہاتھ تھے۔ وہ پھیکا سا مسکرائے اور اُس کا ہاتھ تھام کر اسے اندر لے گئے۔ ننھی سی ریما چہرہ جھکائے رات کو سب کے ساتھ کھانا کھا رہی تھی۔ اس کا ننھا سا دل اداس تھا اور اس اداسی نے ماں اور بابا کے دلوں کو بھی اداس کر دیا تھا۔ کمرے میں عجیب سی خاموشی تھی جو سبھی کے دلوں کو بوجھل کر رہی تھی۔ 
جب وہ سونے کے لئے لیٹی تو بابا نے اسے اپنے قریب کیا اور کہا: ’’کیا تم اداس ہو؟‘‘
’’نہیں تو!‘‘ وہ مدھم سا بولی۔ ’’دیکھو! اس بار تمہارے کپڑے سب سے پیارے ہوں گے اور تمہارا آکاش دیپ بھی!‘‘ وہ کچھ سوچ کر مسکرائی پھر بابا سے باتیں کرتے کرتے سو گئی۔ 
اگلی شام بازو کے بنگلے میں رہنے والی جیا، جو اس کی ہم عمر تھی، اپنی سہیلیوں کے ساتھ اپنے آنگن میں کھیل رہی تھی۔ ریما ان کی آوازیں سن کر باہر نکل آئی اور اس دیوار کی اوٹ سے دیکھنے لگی جو دونوں گھروں کے درمیان کسی سرحد کی طرح تان لی گئی تھی۔ جیا چہک چہک کر سہیلیوں کو اپنا بنگلہ دکھا رہی تھی پھر اس کی نظر اوپر لٹکتے آکاش دیپ پر پڑی تو وہ خوشی سے اترا کر بولی، ’’اور یہ دیکھو ہمارا آکاش دیپ.... کتنا پیارا ہے! رات کو یہ کسی چاند کی طرح چمکتا ہے۔ اس کے چہرے پر ایسی چمک تھی جو عارضی چیزوں کو پالینے کے بعد انسان کے چہرے پر امڈ آتی ہے۔ جیا نے اُس بڑے سے آکاش دیپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ساری سہیلیوں نے ایک ساتھ چہرے اوپر کئے اور آکاش دیپ کی خوبصورتی کو سراہا نے لگیں۔ 
ریما دیوار کے اس پار کھڑی خاموشی سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ جیا کی نظر اس پر پڑی تو بولی، ’’ارے ریما! تم بھی آو، تم بھی ہمارے ساتھ کھیلو.... دیکھو یہ آکاش دیپ کتنا پیارا ہے!‘‘ وہ سب اس آکاش دیپ کی روشنی میں نہا رہی تھیں، چڑیوں کی طرح چہچہا رہی تھیں۔ ریما نے نفی میں سر ہلایا اور آکاش دیپ کی طرف دیکھا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرایا۔ وہاں رنگ ہی رنگ تھے۔ کیف ہی کیف تھا۔ ’’آج رات بابا آکاش دیپ ضرور لائیں گے پھر وہ بھی ان سب لڑکیوں کو اپنا قندیل دیکھا کر اترائے گی۔ ‘‘ اس نے دل ہی دل میں سوچا اور گھر کے اندر آگئی۔ 
ریما کے بابا ایک نجی کمپنی میں ملازم تھے۔ کچھ ہی مہینوں پہلے وہ لوگ گاؤں سے ملازمت کی وجہ سے شہر منتقل ہوئے تھے۔ انہیں ایک بڑے سے بنگلے کے قریب ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر مل گیا تھا۔ ملازمت اچھی تھی مگر تنخواہ وقت پر نہیں دی جاتی تھی۔ اس بار ملازمین کو دیوالی کے موقع پر زیادہ تنخواہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ مگر وہ بھی ادھورے چاند کی طرح لگتا تھا۔ اسی لئے تو ریما کو تسلی پہ تسلی دی جارہی تھی۔ 
پہاڑوں کو شام نے اپنا ملگجی آنچل اوڑھا دیا تھا۔ دور نارنجی رنگ کا سورج دریائے گنگا کے مقدس پہلو میں ماتھا ٹیکے سونے لگا تھا۔ دیوالی کو ابھی دو دن باقی تھے۔ اب کے ریما کے بابا گھر آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک ستارہ نما آکاش دیپ لٹک رہا تھا۔ ریما اسے دیکھ کر کسی پھول کی طرح کھل اٹھی۔ بابا نے اس آکاش دیپ کو آنگن میں موجود درخت کی ڈال سے لٹکا دیا۔ اب وہ ستارہ جیا کے آکاش دیپ کے روبرو آہستہ آہستہ جھول رہا تھا۔ جیسے ہی وہ روشن ہوا، ریما کے چہرے پر ہزاروں رنگ امڈ آئے۔ وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔ بابا اس کی خوشی دیکھ کر کھل اٹھے۔ پیچھے کھڑی ماں بھی مسکرا رہی تھیں۔ فضا میں نور ہی نور تھا، رنگ ہی رنگ تھے۔ اب دلوں کا بوجھل پن کہیں دور جا کر مر چکا تھا۔ 
تھوڑی دیر بعد جیا پھر اپنی سہیلیوں کو لئے اپنے آنگن میں کھیل رہی تھی۔ ریما نے ان کی آوازیں سنیں تو دوڑتی ہوئی باہر آئی اور مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا، پھر آنکھوں سے اپنے آکاش دیپ کی طرف اشارہ کیا۔ ساری لڑکیاں دیوار کے پاس آکر کھڑی ہوگئیں اور درخت پر جھولتے اس دیپ کو دیکھنے لگیں۔ 
’’دیکھو! میرے بابا کتنا خوبصورت آکاش دیپ لائے ہیں۔ ‘‘ ریما نے مسکراتے ہوئے کہا۔ 
’’ہاں .... لیکن میرا دیپ اس سے زیادہ خوبصورت ہے۔ ‘‘ جیا بولی۔ 
’’اس میں کتنے سارے رنگ ہیں۔ ‘‘ ریما چہکی۔ ’’میرے آکاش دیپ میں تو اس سے بھی زیادہ رنگ ہیں اور یہ تمہارے آکاش دیپ سے بڑا بھی ہے۔ ‘‘ جیا نے مٹک کر جواب دیا۔ ریما خاموش ہوگئی۔ ساری لڑکیاں کھیل کی جگہ واپس لوٹ گئیں۔ ریما نے غور سے اپنے دیپ کو دیکھا اور دیکھتی چلی گئی۔ جیا سچ کہہ رہی تھی۔ 
رات کو جب سب سو گئے تو ریما چپکے سے اٹھ کر آنگن میں آئی۔ اس نے سر اٹھا کر اپنے آکاش دیپ کو دیکھا اور پھر جیا کے آکاش دیپ کو۔ دونوں کی قیمت، رنگت اور ہیئت میں کافی فرق تھا۔ وہ آکاش دیپ آب و تاب سے چمکتا ہوا ریما کو منہ چڑا رہا تھا۔ ریما یہ دیکھ کر اداس ہوگئی۔ اب اسے اپنا جگمگاتا ہوا آکاش دیپ حقیر لگ رہا تھا۔ 
رات گہری ہوتی چلی تھی۔ سارا شہر جگمگا رہا تھا۔ ان دو آکاش دیپوں میں واقعی بڑا فرق تھا۔ ایک کسی امیر کا جگمگاتا ہوا قندیل تھا تو دوسرا کسی غریب کا شرماتا ہوا قندیل، لیکن ایک بات دونوں میں قدرے مشترک تھی اور وہ یہ کہ.... دونوں سے روشنی پھوٹ رہی تھی جس سے آنگن روشن ہو رہا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK