• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ: سبز قدم

Updated: October 10, 2024, 2:32 PM IST | Iffat Mazhar Hussain | Mumbai

ارے بیٹا یہ سوگ اب نہ ختم ہونے کا… یہ تو میرے دل کا نا سور بن جائےگا… بیٹا ہو جاتا تو کتنا اچھا ہوتا… یہ کہہ کر وہ عصر کی نماز کے لئے وضو کرنے غسل خانے گئیں تو اچانک پاؤں پھسلا اور وہ اپنے آپ کو نہ سنبھال سکیں، دھڑام سے گر گئیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

 اللہ رحم کرے پھر لڑکی ہوگئی یہ کہہ کر اماں رونے لگیں۔ ہمارے تو نصیب ہی پھوٹ گئے۔ کتنا پوتے کا ارمان تھا۔ اب تو لگتا ہے یہ ارمان دل میں لئے قبر میں اترجاؤں گی…ہائے تین بیٹیاں !اماں بین کرکے اپنا سینہ پیٹ رہی تھی۔ 
 انیقہ اسپتال سے گھر آئی تو وہ اس کی خیریت پتہ کرنے اور بچی کو دیکھنے کمرے میں بھی نہ گئیں۔ امین نے منتیں کیں، اماں بچی کو ایک نظر دیکھ لیں پروہ بہانہ بنا کر لیٹ گئیں۔ دکھ سے بولیں، بیٹی کو کیا دیکھوں … بیٹا ہوتا تو شوق سے دیکھتی پر ہمارے نصیب میں بیٹے کی خوشی نہیں ہے۔ امین ماں کو دلاسہ دے رہا تھا۔ اماں بیٹا بیٹی انسان کے بس میں نہیں ہے۔ یہ اللہ کی دین ہے۔ ہمیں اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہئے۔ 
ارے بیٹا یہ سوگ اب نہ ختم ہونے کا… یہ تو میرے دل کا نا سور بن جائےگا… بیٹا ہو جاتا تو کتنا اچھا ہوتا… یہ کہہ کر وہ عصر کی نماز کے لئے وضو کرنے غسل خانے گئیں تو اچانک پاؤں پھسلا اور وہ اپنے آپ کو نہ سنبھال سکیں، دھڑام سے گر گئیں۔ بچیوں نے شور مچایا دادی اماں گر گئیں … امین دوڑ آیا…بڑی مشکل سے اماں کو اٹھا کر بستر پر لٹایا۔ 
امین مان نہ مان یہ تیری بیٹی بڑی سبز قدم ہے۔ آج ہی اسپتال سے آئی ہے اورآج ہی میں گر گئی۔ امین اماں کی توہم پرستی پر کچھ نہ بولا، خاموشی سے ان کی کڑوی کسیلی سنتا رہا۔ 
شام کو ابا میاں گاڑی پر دفتر سے واپس آرہے تھے کہ گاڑی ٹرالر سے ٹکرا گئی آگے کا حصہ تو بالکل ہی تباہ ہوگیا۔ ابا میاں کو بھی بہت چوٹیں آئیں۔ اماں تو ابا کے ایکسیڈنٹ کی خبر سنتے ہی بولیں … یہ لڑکی ہے ہی منحوس، اس کے آتے ہی ہمارے گھر میں بلائیں نازل ہونا شروع ہوگئیں ہیں۔ انیقہ کو حکم دیا گیا کہ بچی کو کمرے میں ہی رکھنا۔ وہ بے چاری خاموشی سے سب کچھ سنتی اور برداشت کرتی رہی۔ امین ماں کی باتوں پر کڑھتا تھا… پر خاموش رہتا تھا… ان کا بولنا اب ممکن نہ تھا، بے بس اورمجبور تھا۔ 
دوسرے دن امین کا چھوٹا بھائی یاسین دفتر گیا اور وہاں پر اس کی آفیسر سے جھڑپ ہوگئی۔ بات بڑھتے بڑھتے کافی بڑھ گئی اور نوبت استعفیٰ تک جا پہنچی۔ وہ جوش میں آکر ہوش کھو بیٹھا اور نوکری چھوڑ آیا۔ اماں تک خبر پہنچی تو اس نے دل تھام لیا کہ اب جو نہ ہو وہ تھوڑا ہے۔ یہ سب کچھ اس لڑکی کی وجہ سے ہوا ہے۔ 
اس کو اس گھر سے لے جاؤ ورنہ یہ ہمارا سکھ چین سب کچھ ہڑپ کر جائےگی۔ انیقہ سب کچھ سنتی رہتی تھی اور آنسو بہاتی تھی۔ وہ حرا کوچومتی، اس کے نرم نازک ہاتھ پکڑتی، پیار سے اسے سینے سے لگا لیتی، اپنے گال اس کے گال سے لگا کر طمانیت محسوس کرتی… دنیا کچھ بھی کہے تم میرے لئے رحمت ہو۔ میری چاہت ہو، میری دنیا اور میری زندگی ہو۔ لوگ تمہیں لاکھ سبز قدم کہیں پر تم تینوں میرے وجود کا حصہ ہو، میں تمہیں ٹوٹ کر بکھرنے نہیں دوں گی…سمیٹ لوں گی اپنے دامن میں … چھپالوں گی اپنے آنچل میں۔
وقت آگے بڑھتا رہا اور وہ سبز قدم کی چھاپ کے ساتھ جوانی کی دہلیز پر پہنچ گئی۔ انیقہ کی توجہ اور بہترین تربیت نے اس کو بھرپور اعتماد دیا۔ شروع میں تو اس کی سمجھ سے بالا تر تھا کہ دادی اسےحراکی بجائے سبز قدمی کہہ کر کیوں مخاطب کرتی ہیں لیکن پھر وقت نے اسے سب کچھ سمجھا دیا… دادی کی باتوں پر وہ دکھی ہوتی تھی۔ 
دونوں بڑی بہنوں کی شادی خاندان میں ہوگئی۔ اس کے بھی کئی رشتے آئے پر وہ کچھ کرنا چاہتی تھی۔ اپنے آپ کو منوانا چاہتی تھی۔ اسے جنون کی حد تک ڈاکٹر بننے کا شوق تھا۔ بارہویں میں نمایاں پوزیشن لے کر کامیاب ہوئی تو امی اورابو کو میڈیکل کالج میں داخلے کے منایا۔ 
دادی تک یہ خبر پہنچی تو انہوں نے ایک ہنگا مہ برپا کردیا۔ امین تو پاگل تو نہیں ہوگیا… بیٹی کی ضد کے آگے موم ہوگیا ہے… لڑکی پر اتنا خرچہ کرنے کا کیا فائدہ… سادگی سے دو بول پڑھوا کر اسے رخصت کردے… اور اپنے فرض سے سبکدوش ہوجا… سارا پیسہ اس پر لگا دے گا تو خود کیا کھائے پیئے گا… آگے تیرے کون سے لڑکے ہیں جو تجھے سنبھال لیں گے… ارے اس کی بات پر کان نہ دھر… خود ہی رو دھو کر چپ ہوجائےگی… بیٹا میری مان تو اسے گھر بٹھا… گھر داری سکھاؤ… سارا دن کتابوں میں غرق رہتی ہے… بد سلیقہ اور پھوہڑ ہے…نہ کام کی نہ کاج کی من بھراناج کی… یہ سب کام سے بچنے کے طریقے ہیں … کیا فائدہ ہوگا اسے ڈاکٹر بننے کا… صرف پیسوں کی بربادی ہوگی… دو، تین بولنے کے بعد دادی خاموش ہوگئیں۔ 
دادی کی کڑوی کسیلی باتیں تیر کی طرح اس کے دل میں پیوست ہوجاتی تھیں … آنکھیں موندے آرام سے کرسی پر بیٹھی تھی… سوچوں کی وادی میں قدم رکھا تو دور تک بھٹکتی چلی گئی… وہ اپنے آپ سے باتیں کررہی تھی… بہار کے بعد خزاں آتی ہے… پھول کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں … خوشیوں کے ساتھ غم بھی غم ہوتے ہیں … زندگی دکھ سکھ کا مجموعہ ہے… پھر دادی جان اتنی نادان کیوں ہیں کہ ہر مشکل اور مصیبت کی ذمہ دار مجھے ٹھہراتی ہیں … انہوں نے مجھے قبول کیوں نہیں کیا… میں خود تو اپنی مرضی سے اس دنیا میں نہیں آئی… بھائی کی آمد کے راستے میں نے تو بند نہیں کئے… پھر مجھ بے قصور کو قصوروار کیوں ٹھہرایا گیا… مجھے کیوں ہمیشہ دادی جان کی جھڑکیاں ملیں … کبھی دوبول ان کے منہ سے محبت کے نہ نکلے… کبھی انہوں نے مجھے میرے نام سے نہیں پکارا… اس کے اندر ایک طوفان برپا تھا… میں ثابت کرکے دکھاؤں گی کہ میں سبز قدم نہیں ، منحوس نہیں … میرا ایک اپنا وجود ہے…اچانک ماں کی آواز پر وہ چونکی…آنسو مسلسل اس کے رخساروں پر بہہ رہے تھے… ماں کو دیکھ کر ان سے چمٹ گئی…اور خوب پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ 
انیقہ اسے پیار کرتی رہی… حرا کمزور اور بزدل باتیں تمہیں ڈاکٹر نہیں بننے دیں گے… تمہیں توڈاکٹر بننا ہے…اور ڈاکٹر تو بہت مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں … بہادر ہوتے ہیں … ان کا دل اتنا چھوٹا سا تھوڑی ہوتا ہے… بس اب اپنے آنسو صاف کرو… مجھے مسکرا کر دکھاؤ… حرا ہمیشہ مسکراتی رہا کرو میں تمہیں دکھی نہیں دیکھ سکتی… اٹھو میڈیکل کالج کی تیاری کرو… تمہارا دیرینہ خواب پورا ہونے کا وقت آگیا ہے… منزل دور ہے… راستہ کٹھن ہے… پھونک پھونک کر قدم رکھنا… میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں اور وہ ماں کے سینے سے لگ گئی۔ 
دل لگا کر محنت کرتی رہی اور آگے بڑھتی رہی۔ دادی سے جب آمنا سامنا ہوتا، ضرور کچھ نہ کچھ سنا دیتیں لیکن اب اس نے ان کی باتوں پر توجہ دینا چھوڑ دی تھی۔ اپنے کام سے کام رکھتی تھی اور آخر کار اس کی محنت رنگ لائی… وہ ڈاکٹر بن گئی… وہ بے انتہا خوش تھی… امین ریٹائر ہوگئے… دادی کو بیماری اور ضعیفی کی وجہ سے کمزوری آگئی۔ حرا نے سب کچھ بھلا کر بڑی دلجمعی کے ساتھ دادی کا علاج کیا۔ اسکی خدمت رنگ لائی اور انہیں افاقہ ہوا۔ 
انور کے ساتھ جوکہ حرا کا کلاس فیلو تھا سادگی سے شادی ہوگئی… انور کو سعودی میں اچھی ملازمت مل گئی۔ دونوں وہاں چلے گئے۔ حرا نے جلد ہی وہاں کلینک کھول لیا… توقع سے بڑھ کر کامیابی ملی…والدین کو ان کے منع کرنے کے باوجود وہ ہر ماہ چیک بھیجتی… دادی کا چیک الگ ہوتا۔ 
اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس نے امی ابو کے ساتھ دادی کو حج کے لئے اپنے خرچ پر بلا لیا۔ سعودی پہنچنے کے بعد پہلی بار دادی نے اسے پیار سے چوما تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ وہ دادی سے لپٹ کر خوب روئی۔ اس کے آنسوؤں کے ساتھ اس کی ساری سبز قدمی بہہ گئی۔ 
دادی نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا… ارے تجھ جیسی بیٹی پر سو بیٹے قربان… میری شہزادی میری گڑیا… اللہ تجھے سلامت رکھے… تو تو بڑی بھاگوان ہے۔ سچ ہے بیٹیاں واقعی رحمت ہیں۔ 
حرا کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا…وہ حیرت کابت بنے سب کچھ سن رہی تھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK