• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ : فرق

Updated: January 03, 2024, 1:15 PM IST | Jannat Mahmood | Mumbai

کوریڈور کے ستون پر لٹکتے گھنٹے کو پیون نے بجایا۔ اسٹوڈنٹس اپنے اپنے کلاس کی طرف رواں دواں ہوگئے۔ دوبارہ پیون نے ایک زور دار گھنٹی بجائی۔ اسٹوڈنٹس خاموشی سے کلاس میں بیٹھ گئے۔ دور کسی دو شخص کی باتیں سنائی دے رہی تھیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

کوریڈور کے ستون پر لٹکتے گھنٹے کو پیون نے بجایا۔ اسٹوڈنٹس اپنے اپنے کلاس کی طرف رواں دواں ہوگئے۔ دوبارہ پیون نے ایک زور دار گھنٹی بجائی۔ اسٹوڈنٹس خاموشی سے کلاس میں بیٹھ گئے۔ دور کسی دو شخص کی باتیں سنائی دے رہی تھیں۔ شاید ٹیچرز آرہی تھیں۔ اسٹوڈنٹس اور خاموش ہوگئے۔ کلاس کے دروازے سے ہاتھ میں رجسٹر لئے ٹیچر اندر آنے لگیں۔
 ’’ہیپی ٹیچرز ڈے....‘‘ اسٹوڈنٹس نے باہم بلند آواز سے کہا۔
 ’’تھینک یو ڈیئر اسٹوڈنٹس۔‘‘ انہوں نے مسکرا کر انگلیوں سے چشمہ پیچھے کرتے ہوئے ٹیبل سے چمٹی کرسی کو پیچھے کیا اور اس پر بیٹھ گئیں۔ انہوں نے آہستہ سے ٹیبل پر رجسٹر رکھا اور ہولے ہولے ورق پلٹتے ہوئے کر ایک ورق پر ہاتھ رکھا۔
 ’’پین دیجئے....‘‘
 ’’اوکے میم....‘‘ مڈل سیٹ سے ایک لڑکی یونیفارم میں ملبوس دو چوٹی آگے لٹکائے بلیو پین لئے ٹیچر کے پاس آئی۔ انہوں نے حاضری لینی شروع کی اور آخر میں رجسٹر بند کرکے اسٹوڈنٹس کی طرف متوجہ ہوئیں۔
 ’’میم آج ٹیچرز ڈے ہے تو آج ہم آپ کے ساتھ کھیلنا پسند کریں گے۔‘‘
 ’’میم ٹروتھ اینڈ ڈیر۔‘‘
 ’’اچھا....‘‘ انہوں نے حیرت سے مسکرا کر کہا، ’’چلئے تو کھیلتے ہیں۔‘‘ انہوں نے پین کو ٹیبل پر ٹکٹکاتے ہوئے کہا۔ 
 ’’میم آپ کو سب سے زیادہ کون سے کلاس کے اسٹوڈنٹس پسند ہیں؟‘‘ فرسٹ سیٹ کی لڑکی نے پوچھا۔
 ’’اب سارے میرے بچے ہیں ہمیں سارے اسٹوڈنٹس اچھے لگتے ہیں۔‘‘
 ’’میم....‘‘ مڈل سیٹ سے قدرےسانولی رنگت کا لڑکا ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کئے ہوئے کھڑے کالر کے ساتھ، بغیر بیلٹ لگائے بے قاعدگی سے کھڑا ہوا۔
 ’’جی؟‘‘ آج ٹیچرز ڈے تھا ٹیچر نے اسے کچھ نہیں کہا اور مسکرا کر اس کے سوال پر متوجہ ہوئیں۔
 ’’آپ کی شادی کیوں نہیں ہوئی ہے؟ آپ سے چھوٹی فرحت میم کی شادی ہوگئی اور ان سے چھوٹی کرشمہ میم کی تو پھر آپ کی کیوں نہیں؟ اسٹوڈنٹس کے چہرے پر چھائی خوشی غائب ہوگئی۔ ٹیچر تو کچھ پل اس کا چہرہ دیکھتی رہیں پھر ہولے سے اپنی گردن جھکا کر ٹیبل پر رکھے رجسٹر کو اپنی طرف کھینچا۔
 ’’احمر.... تم پاگل ہوگئے ہو یہ کیسا سوال ہے؟‘‘ اس کے بغل میں بیٹھے ساحل نے دھیرے سے کہا لیکن کلاس میں سناٹا چھایا تھا جس کے باعث ٹیچر نے سن لیا۔
 ’’بہت اچھا سوال کیا ہے آپ نے احمر، آج ٹیچرز ڈے ہے اور میرا فرض ہے کہ میں آپ لوگوں کو کچھ نصیحتیں کروں.... کچھ بتاؤں... بیٹھ جاؤ۔‘‘
 سنو!
 آج سے ۳۸؍ سال پہلے میں پیدا ہوئی تھی۔ میرے دو بھائی اور دو بہن ہیں۔ سب سے بڑا بھائی ہے، اس کے بعد بھی بھائی، جس کے بعد میری بڑی بہن کی پیدائش ہوئی، اس وقت میرے والد میری ماں سے سخت ناراض ہوگئے تھے۔ میری بڑی بہن کو میرے والد بالکل بھی پسند نہیں تھے۔ اس کے دو سال بعد میری چھوٹی بہن کی پیدائش ہوئی۔ اس وقت میرے والد کے غصے کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے میری چھوٹی بہن کا چہرہ تک نہیں دیکھا۔ جب میری چھوٹی بہن سات اور بڑی بہن آٹھ سال کی ہوئی تو سات سال کے بعد میرے گھر میں پیدائش ہوئی تھی.... ایک بیٹی کی.... اور وہ میں تھی۔ میری پیدائش کے دو ہفتے بعد میرے والد نے میری ماں سے کہا تھا، ’’آخری بار کہتا ہوں میں تم سے آمنہ اس منحوس کو میری نظروں سے ہٹا دو ورنہ میں کچھ ایسا کر گزروں گا کہ تم سوچ بھی نہیں سکتی ایک تو پہلے سے دو منحوس سر پر سوار ہیں۔‘‘ انہوں نے بہت نفرت کی نگاہ سے چار پائی کے پاس کھڑی معصوم بچیوں کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔
 ’’ان کا کیا قصور ہے۔ ان پر کیوں بھڑک رہے ہیں؟‘‘
 ’’ان کا کیا قصور ہے.... ارے انہی کا تو سب قصور ہے۔ ان منحوس کی وجہ سے طعنے سننے پڑتے ہیں مجھے چار لوگوں میں۔ اور چلو اب ان کو پڑھاؤ لکھاؤ اس کے بعد ان کے بیاہ پر پیسے بہاؤ۔کہاں سے لاؤں گا میں اتنے خرچے؟ اور آخر میں نتیجہ کیا ہے میرا؟ ساری زندگی ان کا بوجھ میں اٹھاؤں اور پھر یہ جا کر اپنے گھر والوں کی خدمت کریں۔ان منحوس سے بہتر تو تھا میرے تین اور بیٹے ہوتے کم از کم میرے کام میں تو ہاتھ بٹاتے....‘‘ غصے کی وجہ سے ان کے چہرے سے بے اختیار پسینے بہہ رہے تھے۔ آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں۔ انہوں نے دیوار سے چمٹی پلنگ کو زور سے پٹخا پھر دروازہ کھول کر کمرے میں چلے گئے۔ چارپائی کے پاس کھڑی لڑکی اپنے آنسو کو تھام رہی تھی۔ ان کا رونا بھی اب جرم ہوگیا تھا۔ میری ماں نے گود میں لئے بچی کو بہت غور سے دیکھا جو انگوٹھے کو منہ میں ڈالیں بہت تیزی سے کھینچ رہی تھی۔ دوسرے دن میری ماں مجھے میری خالہ کے یہاں لے کر گئی اور ساری کہانی بتائی۔ میری خالہ نے مجھے اپنے پاس رکھ لیا۔جب میں ۱۲؍ سال کی ہوئی تو میری ماں کا انتقال ہوگیا تھا۔ میری دو بہنوں کی شادی ہو چکی تھی۔ میرے گھر میں صرف میرے بھائی اور میرے والد تھے۔ میری دونوں بہن اپنی شادی کے بعد بہت دور چلی گئیں بہت دور....
 ’’کہاں میم؟ اب آپ کی بہن کہاں ہیں؟‘‘ مڈل سیٹ سے ایک لڑکی نے نرم لہجے میں پوچھا۔
 ’’بڑی والی کلکتہ میں رہتی ہیں اور چھوٹی بہن بنگلور میں، وہ یہاں کبھی نہیں آتیں اور نہ ہی کسی سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق رکھتی ہیں۔ میرے دونوں بھائیوں کو میرے والد نے بہت لاڈ سے پالا تھا۔ ان کی ہر مانگ پوری کرتے، ان کے حکم کو سر آنکھوں پر رکھتے۔ جب میرے بھائی کی شادی ہوئی تو ان کی بیوی نے وہاں رہنے سے منع کر دیا۔ وہ کبھی گھر نہیں آتی تھیں انہوں نے شرط رکھی تھی کہ وہ ان کے گھر نہیں رہیں گی، میرے بھائی اپنی فیملی کے ساتھ ممبئی چلے گئے۔ میرے والد کی آس صرف ایک چھوٹے بھائی سے بندھی تھی۔ جب میرے چھوٹے بھائی کی شادی ہوئی تو وہ گھر سے نہیں نکلے اور نہ ان کی بیوی....
 خاموشی. . . آہ....
 انہوں نے لمبی آہ بھر کے اپنے چشمے کو اتار کر آنکھ سے چھلکتے آنسو کو پوچھا۔
 ’’میم تب....؟‘‘
 تب.... میرے بھائی نے میرے والد کو ہی گھر سے نکال دیا.... میرے والد بہت بوڑھے ہوچکے تھے۔ جن کی خدمت کرنے سے میرے بھائی کی بیوی نے سخت منع کر دیا۔ آج سے کچھ سال پہلے جب میں میری خالہ کے گھر پر تھی تو صبح صبح ڈور کی بیل بجی۔ میں نے دروازہ کھولا تو کافی سردیوں میں ایک ضعیف بزرگ کالی شال میں خود کو لپیٹے سامنے کھڑے تھے۔ ان کے چہرے پر جھریاں تھیں، ان کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ سردیوں کے کہرے میں ان کے ہاتھ ہل رہے تھے۔
وہ بزرگ مجھے دیکھ کر بے اختیار رونے لگے مَیں کچھ بھی نہیں سمجھی تھی۔ پیچھے سے میری خالہ آئیں جب ان کی نظر اس بزرگ پر گئی تو ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
 ’’کیا ہوا خالہ کون ہے یہ؟‘‘ میری بات پر توجہ دیئے بغیر خالہ کے منہ سے بے اختیار ’’سرور بھائی‘‘ نکلا ’’آپ....؟‘‘ وہ انہیں اندر لے آئیں اور....
 ’’وہ میرے والد تھے۔‘‘
 وہی والد جن کے دیئے رنج کے باعث میری ماں کا انتقال ہوگیا۔ وہی میرے والد جن کی وجہ سے میری بہنوں نے گھر سے سارا رشتہ ختم کر دیا۔ وہی میرے والد جنہوں نے مجھے گھر سے نکلوا دیا۔ وہی میرے والد جنہیں بیٹوں کی چاہ تھی۔ اور ان کی چاہ نے انہیں گھر سے نکال دیا۔ جب مجھے معلوم ہوا تھا کہ یہ میرے والد ہیں اس وقت میرے سینے میں موجود پتھر موم کی شکل اختیار کرکے بہہ پڑا۔ میری خالہ بھی بہت بوڑھی ہو چکی تھیں۔ حال ہی میں انہوں نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ اب میں میرے والد کے ساتھ ایک چھوٹے سے کرایے کے مکان میں رہتے ہیں۔ اور رہا آپ کا سوال احمر میری شادی نہ ہونے کی وجہ... وہ یہ تھی کہ اب میرے والد کا کوئی خدمت گار نہیں ہے۔ اور اگر میں شادی کرکے اپنے گھر چلی جاؤں تو مجھ میں یعنی ایک بیٹی میں اور ایک بیٹے کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔‘‘
 ’’اگر میں چاہتی تو آپ کو ڈانٹ کر بٹھا دیتی اور یہ قصہ نہ سناتی، لیکن ایسا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ ایک مرد ہیں! ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ آپ باپ ہوں گے، آپ کے یہاں بیٹی ہوگی۔ میں آپ کو نصیحت کرتی ہوں کہ آپ اسے پھول پر چلائیے گا، آپ شجر بن کے اپنی بیٹی کو سایہ دیجئے گا، آپ اپنے کندھے پر اسے بٹھا کر چلئے گا، اس کے ہر ناز نخرے کو اٹھائیے گا، کیونکہ بیٹی کے مقدر کا ستارہ باپ ہوتا ہے۔ وہ اپنے گھر میں رہ کر اس کو شہزادیوں کا رتبہ دے سکتا ہے۔ بیٹی کو کبھی بھی ہلکا نہیں سمجھئے گا۔ بیٹی وہ چیز ہے جو باپ جیسی ہستی کو نصیب ہوتی ہے۔ بیٹی ہیرا سے قیمتی ہوتی ہے۔ بیٹی کی مثال ایک موم بتی کی طرح ہے جو دوسروں کو روشنی دینے کیلئے دوسروں کو خوش رکھنے کیلئے اپنے سینے میں موجود دھاگے کو جلا دیتی ہے....‘‘
 ’’احمر بیٹا.... ایک بات یاد رکھو، اللہ تعالیٰ جسے چاہے اسے بیٹی اور بیٹا دیتا ہے۔ اس میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے۔ بڑے ہونے کے بعد بھی اس بات کو یاد رکھنا۔ کبھی بھی بیٹا اور بیٹی میں فرق مت کرنا۔ بیٹی کو اللہ کی رحمت کہا گیا ہے ا س لئے اسے کوئی زحمت نہ دینا۔ لوگ بیٹا اور بیٹی میں فرق کرکے بڑا ظلم کرتے ہیں۔ افسوس کہ لوگ بیٹی پیدا ہونے پر ایک بیٹی کی زندگی عذاب بنا دیتے ہیں نہ اسے موت آتی ہے اور نہ وہ زندہ رہ پاتی ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK