• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ: انتظار

Updated: November 20, 2023, 2:17 PM IST | Arfa Masood | Mumbai

جب سے وہ پارٹی سے واپس آئی تھی، مسلسل یہی سوچے جا رہی تھی کہ کیا وہ زبیر ہی تھا یا کوئی اور.... میری آنکھیں دھوکا نہیں کھا سکتیں وہ یقیناً زبیر ہی تھا تو پھر اس نے مجھے پہچانا کیوں نہیں؟ کیا مَیں اتنی بدل گئی ہوں کہ وہ مجھے نہیں پہچان سکا؟ اس سوچ کے ساتھ وہ بیڈ سے اٹھ کر آئینے کے سامنے آ کھڑی ہوئی اور اپنا عکس بغور دیکھنے لگی۔ گزرے وقت نے اس کے نقوش پختہ ضرور کر دیئے تھے مگر بدلے نہیں تھے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

جب سے وہ پارٹی سے واپس آئی تھی، مسلسل یہی سوچے جا رہی تھی کہ کیا وہ زبیر ہی تھا یا کوئی اور.... میری آنکھیں دھوکا نہیں کھا سکتیں وہ یقیناً زبیر ہی تھا تو پھر اس نے مجھے پہچانا کیوں نہیں؟ کیا مَیں اتنی بدل گئی ہوں کہ وہ مجھے نہیں پہچان سکا؟ اس سوچ کے ساتھ وہ بیڈ سے اٹھ کر آئینے کے سامنے آ کھڑی ہوئی اور اپنا عکس بغور دیکھنے لگی۔ گزرے وقت نے اس کے نقوش پختہ ضرور کر دیئے تھے مگر بدلے نہیں تھے۔ آنکھیں اب بھی شربتی تھیں اور مسکرانے سے رخساروں پر ڈمپل بھی اس طرح پڑتے تھے۔ بال اب بھی اتنے ہی گھنیرے تھے اور شب رنگ بھی۔
 ’’پھر زبیر مجھے کیوں پہچان نہ پایا؟ مجھ سے کیوں ہم کلام نہ ہوا؟‘‘ اس نے خود کلامی کی تبھی اس کے ذہن میں اپنی ہی آواز گونجنے لگی، ’’جان پہچان کی راہیں تو خود ہی مسدود کی تھیں تقدیس بی بی! اس کی صدائیں تو تم ہی نے اَن سنی کر دی تھیں۔ اس کے جذبوں کو تم ہی نے بے توقیر کیا تھا، پھر شکوہ کیسا اور کس سے؟‘‘
 وہ سرد آہ بھر کر بیڈ پر چت لیٹ گئی اور دل ہی دل میں اپنے آپ سے مخاطب ہوئی، ’’یہ سچ ہی تو ہے تقدیس! گریز کا راستہ تو تم نے اختیار کیا تھا۔‘‘ اگلے ہی لمحے اس کے اندر کی عورت وکالت کرنے لگی، ’’تمہارا فیصلہ بالکل درست تھا۔ تمہیں وہی کرنا چاہئے تھا جو تم نے کیا۔‘‘ ’’تو پھر مجھے پچھتاوا کیوں ہو رہا ہے؟ میرے دل پر بوجھ کیوں ہے؟‘‘ اس نے اپنے اندر کی عورت سے سوال کیا۔ ’’گزرے دنوں کی یادیں اپنے ذہن و دل سے نوچ کر پھینک دو تو تمہیں کوئی پچھتاوا ہوگا نہ دل پر بوجھ محسوس کرو گی۔‘‘
 لیکن یادوں سے پیچھا چھڑانا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ تو ہر جگہ اس کا تعاقب کرتی رہی تھیں۔ انہوں نے جرمنی میں بھی اسے بے کل رکھا تھا اور آج بھی اسے اپنے گرداب میں لئے ہوئے تھیں۔ ا س نے تھک ہار کر آنکھیں تو بند کر لیں لیکن یادوں کے دریچے ایک ایک کرکے کھلتے چلے گئے۔
 اسے سب سے پہلے وہ دن یاد آیا جب اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔ اس دن کتنی خوش تھی وہ! پھر وقت کے ساتھ ساتھ اپنی دلکش شخصیت، خود اعتمادی اور قابلیت کے باعث وہ اپنے ڈپارٹمنٹ میں مقبول ہوتی چلی گئی لیکن اپنے ساتھی کسی لڑکے یا لڑکی سے اس کی ذہنی ہم آہنگی نہیں ہوسکی۔ سب کے ساتھ گھلنے ملنے کے باوجود اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ساتھیوں کے انبوہ میں بھی تنہا اور تشنہ ہے۔ یہ احساس سے بڑا عجیب سا لگتا تھا انہی دنوں ڈپارٹمنٹ میں ایک گیٹ ٹو گیدر پارٹی ہوئی۔ وہ اس پارٹی میں ساتھیوں کو چائے سرو کر رہی تھی۔ انہی کے ایک سینئر ساتھی زبیر نے اس سے چائے مانگی۔ گرم گرم چائے کا کپ لیتے ہوئے زبیر کی توجہ شربتی آنکھوں اور ڈمپلز نے اپنی طرف مبذول کرا لی تو چائے چھلک کر اس کے ہاتھ پر گری۔ اس کے لبوں سے بے اختیار سسکاری نکلی۔ وہ ایک دم گھبرا گئی اور بولی، ’’اوہ سوری!‘‘ غلطی زبیر کی تھی مگر اس دن گھر جانے کے بعد وہ اپنی حساس طبیعت کے باعث زبیر کی تکلیف کے بارے میں سوچتی رہی۔ دوسرے روز ڈپارٹمنٹ میں پہنچتے ہی سب سے پہلے زبیر کے پاس آئی اور بولی، ’’آپ کے ہاتھ کا کیا حال ہے؟‘‘ ’’ٹھیک ہے۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولا، ’’لیکن آپ کو اپنی غلطی کا ازالہ کرنا ہوگا۔‘‘
 ’’میری غلطی؟‘‘ اس نے تعجب سے پوچھا۔
 ’’جی ہاں! میری توجہ کہیں اور تھی لیکن آپ تو کپ کو دیکھ رہی تھیں، لہٰذا آپ کو ایک بار پھر چائے پلا کر اس غلطی کا ازالہ کرنا ہوگا۔‘‘
 ’’یہ تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات ہوئی۔‘‘
 ’’آپ کی مرضی ہے کوتوال صاحب۔‘‘
 وہ مسکراتی ہوئی اپنی سیٹ پر چلی گئی۔
 پھر نہ جانے کیسے وہ ایک دوسرے کے قریب آتے چلے گئے اور ان میں ذہنی ہم آہنگی بڑھتی چلی گئی۔ تب اسے یوں لگا تھا جیسے وہ دھوپ میں چلتے چلتے کسی چھتنار درخت کی چھاؤں میں آگئی ہو۔ ان کے درمیان کبھی کوئی ایسی بات نہیں ہوئی تھی جو اسے کسی خوش فہمی میں مبتلا کر دے۔ وہ اسے ایک اچھا دوست سمجھتی اور دنیا جہان کے مختلف موضوعات پر باتیں کیا کرتی تھی۔
 ایک روز اس کی ایک سینئر ساتھی نے بتایا کہ زبیر کی ارم نامی کسی لڑکی کے ساتھ منگنی ہوچکی ہے۔ یہ سینئر ساتھی اس کا ردعمل دیکھنا چاہتی تھی مگر اس نے یہ بات ایک کان سنی، دوسرے کان سے اڑا دی۔ تاہم، اس نے سوچا کہ زبیر اسے یہ بات بتا سکتا تھا، پھر اس نے کیوں چھپائی؟ لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے اپنے آپ کو ملامت کی کہ اگر اس کی منگنی ہوچکی ہے تو ٹھیک ہے۔ زبیر سے اس کی کون سی جذباتی وابستگی ہے جو اسے کوئی صدمہ ہو۔
 اگلے دن اس نے کھلے دل سے زبیر کو منگنی کی مبارکباد دی تو وہ قدرے دکھ سے بولا، ’’آپ بزرگوں کے ایک غلط فیصلے پر مبارکباد دے رہی ہیں! دوستوں کے پھول غیروں کے پتھروں سے زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں۔‘‘
 وہ حیرت زدہ سی اسے دیکھتی رہ گئی۔ اس نے سوچا، کیا زبیر اس کے رویے سے کسی غلط فہمی میں تو مبتلا نہیں ہوگیا؟
 پھر وہ آہستہ آہستہ اس سے دور ہونے کی کوشش کرنے لگی مگر جلد ہی اس پر یہ حقیقت منکشف ہوگئی کہ وہ تو پور پور زبیر کی محبت میں ڈوب چکی ہے، اس نے تو دل میں سیند لگا کر اپنا نام نقش کر دیا ہے اور وہ اپنے سارے سچے اور کھرے جذبے اس کے نام کر بیٹھی ہے۔ اس ادراک کے بعد اس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی لیکن چاہت تو امربیل کی طرح ہوتی ہے جو انسان کو جکڑتی چلی جاتی ہے، پھر بھی اس نے اپنے جذبۂ محبت پر بڑی خوبصورتی سے پردہ ڈالے رکھا۔
 اسے اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ زبیر کے دل میں کیا ہے۔ وہ اس سے مسلسل گریز کئے جا رہی تھی مگر ایک روز زبیر نے اس کا راستہ روک ہی لیا اور کہا، ’’آپ کا یہ گریز میرے دل سے آپ کی محبت نہیں نکال سکے گا تقدیس بانو! آپ مجھ سے جتنا گریز کریں گی، میرے جذبوں کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ مَیں نے آپ کو یہ بات اس لئے نہیں بتائی کہ آپ میری چاہت کا جوواب چاہت سے دیں۔ اپنی مرضی کی آپ مالک ہیں۔ مَیں تو صرف اتنا بتانا چاہتا تھا کہ میرا دل آپ کو ہوچکا ہے۔‘‘
 زبیر کے اس اظہار محبت پر وہ دھک سے رہ گئی تھی۔ اس وقت اس پر خوشی کی کیفیت طاری تھی یا دکھ کی، وہ نہیں جان سکی تھی۔ بس اس کا دل بہت تیزی سے دھڑکنے لگا۔ ہر عورت اپنے محبوب سے اقرا محبت کی متمنی ہوتی ہے۔ اس نے زبیر سے اقرار محبت سن لیا تھا لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ کوئی اور لڑکی اس سے منسوب ہوچکی ہے اسی لئے وہ اپنی اس کیفیت کو کوئی نام نہیں دے سکی تھی نہ خود میں اظہار محبت کی جرأت پاتی تھی۔
 رات بھر اسے نیند نہیں آئی اور وہ اپنے آپ سے لڑتی رہی، ’’کیا تم اپنے پیار کی خاطر اس لڑکی کے خواب ریزہ ریزہ کر دو گی جو اس سے منسوب کر دی گئی ہے؟‘‘ ضمیر بار بار اس سے یہ سوال کئے جا رہا تھا۔
 ’’لیکن محبت اور جنگ میں تو سب جائز سمجھا جاتا ہے۔‘‘ اس نے ضمیر کو دلیل دی۔
 ’’یہ سب خود فریبی کی باتیں ہیں اگر ارم کی جگہ تم ہوتیں تو کیا یہ بات تسلیم کر لیتیں؟‘‘ ضمیر نے پوچھا۔
 ’’یہ تو ٹھیک ہے لیکن اگر مَیں ارم کے حق میں دست بردار ہوگئی تو میرے اپنے خواب کرچی کرچی ہوجائیں گے۔ مَیں اپنی محبت کا ماتم کرنے کیلئے زندہ رہ جاؤں گی۔‘‘
 ’’اتنی خود غرض بن کر مت سوچ تقدیس! اس لڑکی کے بارے میں بھی سوچو جس کی منگنی ٹوٹ جانے پر لوگ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کریں گے۔ اس پر سو الزام دھرے جائیں گے۔ وہ زندگی بھر ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتتی رہے گی۔ محبت تو ایثار سکھاتی ہے۔ کیا تم ایک عورت ہو کر دوسری عورت پر ظلم کرو گی؟‘‘
 بالآخر ضمیر کی سرزنش اس کے دل پر غالب آگئی۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ زبیر کو اپنے جذبوں سے کبھی آگاہ نہیں کرے گی۔ اس فیصلے کے بعد وہ مطمئن ہو کر سو گئی۔
 دوسرے دن وہ یونیورسٹی گئی تو زبیر نہیں آیا تھا تیسرے، چوتھے اور پانچویں دن بھی وہ نہیں آیا، پھر ایک ہفتہ اور گزر گیا تو وہ پریشان ہوگئی مگر اس نے اپنی پریشانی اور اضطراب کا اظہار کسی پر نہیں کیا۔ اس کا کوئی ہم راز تھا بھی نہیں جسے وہ اپنے دل کا حال بتاتی۔
 ایک روز زبیر آگیا۔ اس دوران میں وہ بیمار تھا۔ جب وقفہ ہوا تو اس کے پاس چلی گئی۔
 ’’اب طبیعت کیسی ہے؟‘‘ اس نے زبیر سے پوچھا۔
 ’’ٹھیک ہوں، آپ سنائیں۔‘‘
 ’’مَیں بھی ٹھیک ہوں۔‘‘
 ’’ایک بات پوچھوں تقدیس؟‘‘
 ’’پوچھئے۔‘‘
 ’’مَیں نے ایک بات کہی تھی۔ ان دنوں میں آپ نے اس کے متعلق سوچا ہوگا، غور کیا ہوگا۔‘‘
 ’’ہاں!‘‘ اس نے بڑے اعتماد سے جواب دیا۔
 ’’آپ نے کیا فیصلہ کیا؟‘‘
 ’’فیصلہ تو پہلے ہوچکا تھا زبیر! میری اور آپ کی راہیں اور منزل جدا جدا ہیں۔ ہم ریل گاڑی کی پٹریوں کی طرح ساتھ ساتھ چل تو سکتے ہیں مگر مل نہیں سکتے۔‘‘
 ’’ہم ریل کی پٹریاں نہیں ہیں تقدیس! ریل کی پٹریاں بے جان ہوتی ہیں اور ہمارے سینوں میں دل دھڑکتے ہیں۔ مجھ میں اتنی ہمت اور حوصلہ ہے کہ مَیں بزرگوں کے فیصلے کے سامنے ڈٹ جاؤں۔‘‘
 ’’نہیں زبیر! مَیں خود غرض نہیں بن سکتی۔ مَیں نہیں چاہتی کہ میری ذات سے کسی کو تکلیف پہنچے، مَیں کسی کے لئے دکھ، پریشانی اور اذیت کا باعث بنوں۔ آپ میری بات سمجھ رہے ہیں ناں؟‘‘
’’ہاں!‘‘ زبیر نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا، ’’مگر آپ کے اس رویے سے تو مجھے دکھ پہنچے گا ہی۔ کیا آپ مجھے دکھ پہنچا کر خوش رہ سکیں گی؟‘‘ ’’مَیں مانتی ہوں کہ آپ کو تکلیف ہوگی۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا، ’’مگر اس تکلیف کی شدت آہستہ آہستہ کم ہوتی چلی جائے گی۔ گزرتے وقت کے ساتھ آپ یہ دکھ بھول جائیں گے لیکن لڑکیاں بہت حساس ہوتی ہیں۔ ان کے دل بہت نازک ہوتے ہیں۔ ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہر لڑکی میری طرح اتنی مضبوط نہیں ہوتی کہ وہ ٹوٹ کر، بکھر کر بھی اپنے آپ کو سمیٹ سکے، پھر مَیں نے آج تک کسی سے کوئی چیز چھین کر استعمال نہیں کی۔ مَیں آپ کی منگیتر کے خواب بھی نہیں چھین سکتی۔‘‘ ’’آپ تو اسکے خواب نہیں چھین رہی ہیں۔ اس فیصلے کیخلاف بغاوت تو مَیں کروں گا۔‘‘
 ’’اس صورت میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ جذبات سے ہٹ کر سوچئے، کیا آپ مجھے اپنا کر اپنے خاندان سے وہ عزت، وہ مقام اور وہ مرتبہ دلوا سکیں گے جس کی ہر عورت متمنی بلکہ حقدار ہوتی ہے۔ نہیں، میرے حصے میں ہمیشہ طنز، طعنے اور بددعائیں ہی آئیں گی، اگر آپ کو مجھ سے واقعی محبت ہے تو وعدہ کیجئے کہ آپ ارم کو اس کے سارے حقوق دیں گے۔‘‘ زبیر، کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا، ’’پیار انسان کو خود غرض بنا دیتا ہے مگر مَیں آپ کا حکم نہیں ٹالوں گا۔‘‘ مسکراتے ہوئے بولی، ’’اب ایک درخواست اور بھی ہے۔‘‘ ’’کیا؟‘‘
 ’’آئندہ آپ مجھ سے نہیں ملیں گے۔‘‘
 ’’نہیں تقدیس!‘‘ وہ تڑپ گیا، ’’یہ مجھ پر ایسا ظلم ہوگا جو مَیں برداشت نہیں کرسکوں گا۔‘‘ ’’نہیں زبیر! آپ کو میری یہ بات ماننا ہی پڑے گی۔‘‘
 ’’مجھے اس کیلئے مجبور نہ کریں تقدیس! ورنہ میری محبت اور حوصلے دم توڑ دیں گے۔‘‘ یہ کہتے کہتے اس کی آواز بھرا گئی۔ اسے بھی ایک دھچکا سا لگا لیکن اس نے ضبط کا دامن نہ چھوڑا بولی، ’’میرا خیال تھا کہ آپ میرا مان نہیں توڑیں گے۔‘‘ ’’اگر یہ آپ کا مان ہے تو مَیں جبر کا یہ زہر بھی پی لوں گا۔‘‘ ’’بہت بہت شکریہ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ سیدھی گھر چلی گئی۔
 گھر آکر وہ بہت روئی۔ اس نے اپنے دل کو اپنے ہی قدموں تلے کچلا تھا۔ اس نے زبیر سے تو آئندہ نہ ملنے کا ایک طرح سے وعدہ لے لیا تھا مگر خود اسے اپنے آپ پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ اسے دیکھنے کے بعد وہ اس سے نہیں ملنا چاہے گی۔ دل اسے بار بار ان فیصلوں کے خلاف بغاوت پر اکسا رہا تھا۔ اس رات اس نے پھر ایک فیصلہ کیا اور دوسرے دن سے یونیورسٹی جانا چھوڑ دیا پھر اس نے اپنے والدین کو راضی کر لیا کہ اپنی بقیہ تعلیم جرمنی میں مکمل کریگی۔ وہ اپنے تایا کے ہاں جرمنی چلی گئی مگر یادوں نے اس کا تعاقب نہیں چھوڑا، کبھی کبھی اسے یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کے سارے فیصلے غلط تھے۔ تب پچھتاوے اسے ڈسنے لگے۔ کبھی ضمیر اسکے دل کے تقاضوں پر غالب آجاتا۔ پھر وہ یہ بھی سوچتی کہ اگر اس دوران میں زبیر نے ارم سے شادی کر لی ہو تو؟ اس جذباتی کشمکش میں کئی سال گزر گئے اور اس نے ڈاکٹریٹ کر لی۔ اس کے والدین چاہتے تھے کہ وہ اپنے تایا زاد سے جرمنی ہی میں شادی کر لے لیکن اس کے دل پر تو زبیر کا نام نقش ہوچکا تھا، وہ اسے مٹا کر کسی اور کا نام نہیں لکھنا چاہتی تھی، اسلئے وہ وطن واپس آگئی۔
 وہ وطن واپس آگئی تو ماضی کی یادیں پچھتاوے بن کر ڈسنے لگیں وہ بار بار خود سے پوچھتی، ’’تقدیس بانو! تم نے ایک ایثار کے بدلے عمر بھر کی تنہائی کیوں مول لے لی؟ تم نے ارم کو ظلم سے بچانے کیلئے خود پر اور زبیر پر ظلم کیوں کیا؟‘‘
 پھر اسے خیال آتا تھا کہ زبیر اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہوگا تب وہ سرد آہ بھر کر خود کلامی کرتی، ’’اگر ایسا ہوا تو بھی بہت اچھا ہے۔ کم از کم وہ تو اس تپش سے محفوظ ہوگا جو مجھے اندر ہی اندر بھسم کئے دے رہی ہے۔‘‘
 اپنی سوچوں اور یادوں کی یلغار سے نجات حاصل کرنے کیلئے اس نے اسی یونیورسٹی میں ملازمت کر لی جہاں اس کے دل میں محبت کی پہلی کونپل پھوٹی تھی۔ اب وہ اس یونیورسٹی میں طالبہ کی نہیں بلکہ استاد کی حیثیت سے آئی تھی اور ڈپارٹمنٹ والوں نے اس کے اعزاز میں پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔ اسی پارٹی میں اسے وہ دشمن ِ جاں زبیر بھی دکھائی دیا تھا جس کا نام وہ اپنے دل کی دیوار سے اب تک نہیں مٹا سکی تھی مگر اس کی آنکھوں میں تو شناسائی کی ہلکی سی چمک بھی نہیں ابھرتی تھی۔ اسلئے پارٹی سے واپسی پر وہ مسلسل یہی سوچے جا رہی تھی کہ زبیر نے اسے کیوں نہیں پہچانا اور پہچانا تو ہم کلام کیوں نہیں ہوا تھا؟
 ’’کیا مَیں اس کے لئے ریت پر لکھا ہوا نام تھی جسے وقت کے ایک ہی جھونکے نے مٹا دیا؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا لیکن اس سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
 رات بھر وہ کروٹیں بدلتی اور نیند کو آوازیں دیتی رہی لیکن نیند نے بھی جیسے زبیر کا سا رویہ اپنا لیا تھا۔ صبح وہ تیار ہو کر یونیورسٹی آگئی اور کلاس لینے کے بعد اپنے کمرے میں آکر بیٹھی ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے ’’یس، کم ان۔‘‘ کہا اور دروازہ کی طرف دیکھنے لگی۔ دروازہ کھلا اور زبیر اندر داخل ہوا تو وہ ایک دم گھبرا کر کرسی سے اٹھ گئی۔ ’’زبیر!‘‘ اس کے لبوں سے صرف ایک ہی لفظ نکلا۔ ’’ہاں!‘‘ وہ مسکراتا ہوا آگے بڑھا اور اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی تو زبیر نے کہا، ’’کیا بیٹھنے کو نہیں کہو گی؟‘‘
 ’’ارے ہاں، بیٹھئے ناں۔‘‘ ’’شکریہ!‘‘ اس نے بیٹھتے ہوئے کہا، ’’کیسی ہیں آپ؟‘‘ ’’آپ کو کیسی نظر آتی ہوں؟‘‘ اس نے بھی مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’بالکل پہلے جیسی، اسمارٹ اینڈ چارمنگ۔ اس عرصے میں کوئی فرق آیا ہے تو صرف اتنا ہے کہ گریس بڑھ گیا ہے۔‘‘ اس نے ان الفاظ کی سچائی کا اندازہ لگانے کیلئے زبیر کی آنکھوں میں دیکھا تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے ان میں آج بھی وہی پرانے جذبے ہلکورے لے رہے تھے۔ اس نے نظریں نیچی کرتے ہوئے پوچھا، ’’آپ کیسے ہیں؟‘‘ ’’ٹھیک ہوں۔ آپ کے کمرے کے باہر جو نیم پلیٹ لگی ہے اس پر مس تقدیس بلگرامی لکھا ہے، اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ابھی تک شادی نہیں کی۔‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
 ’’کیوں؟‘‘ زبیر نے سوال کیا۔
 ’’بس فرصت ہی نہیں ملی۔‘‘
 زبیر گہری نگاہوں سے چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا، پھر بولا، ’’آپ کی طرح مَیں نے بھی نفسیات پڑھی ہے تقدیس بانو! آپ یہ کیوں نہیں مان لیتیں کہ اب تک اپنے جذبوں کو کچلتی آرہی ہیں۔‘‘ ’’چھوڑیئے یہ باتیں۔ یہ بتایئے ارم کیسی ہے؟ آپ کتنے بچوں کے باپ بن چکے ہیں؟‘‘ زبیر نے قہقہہ لگایا، ’’ارم، ہم دونوں سے بھی زیادہ بہادر تھی تقدیس بانو! اس نے اپنے جذبے کچلنے کے بجائے اپنے بزرگوں کے فیصلے کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ اس نے انہیں صاف بتا دیا تھا کہ وہ کسی اور کو چاہتی ہے۔ مذہب نے اسے اپنی رائے کے اظہار کا جو حق دیا ہے، وہ اسے استعمال کر رہی ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ اسے اپنے فیصلے کی سولی پر لٹکانا چاہتے ہیں تو وہ روایات کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔‘‘
 ’’تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ارم سے شادی نہیں کی؟‘‘ ’’مَیں نے صرف آپ کا انتظار کیا ہے تقدیس!‘‘
وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی مگر آج اسے اپنی اس کیفیت کا بخوبی علم تھا۔ وہ جانتی تھی کہ کبھی کبھی اچانک مل جانے والی خوشیاں آنکھوں میں آنسو بھر دیتی ہیں اور یہ آنسو ماضی کی محرومیوں کا سارا غبار دھو دیتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK