• Thu, 19 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ: ’’جنہیں راستے میں خبر ہوئی....‘‘

Updated: November 20, 2023, 2:27 PM IST | Shaaziya Salim | Mumbai

فہد کو خود کے گھر کا ماحول جب سے سمجھداری آئی تھی ناپسند تھا،اسے جدید طرزِ زندگی کی خواہش تھی۔ اونچی سوسائٹی کا رہن سہن اپنانا چاہتا تھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

فہد کو خود کے گھر کا ماحول جب سے سمجھداری آئی تھی ناپسند تھا،اسے جدید طرزِ زندگی کی خواہش تھی۔ اونچی سوسائٹی کا رہن سہن اپنانا چاہتا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ بے حد پر کشش جاب کی تلاش میں تھا جو اسے مل نہیں رہی تھی اور چھوٹی جاب کرنا اسے اپنی شان کے خلاف لگتا تھا۔ اپنے ابا کی کپڑے کی دکان پر اسے بیٹھنا پسند نہ تھا، اسے اپنے بھائیوں کی طرح گھر سے دکان تک والی محدود زندگی نہیں گزارنی تھی۔ اس کے خواب ہی کچھ الگ تھے جبکہ گھر کا ماحول نارمل تھا مگر وہ اُکتایا ہوا رہتا جس کی وجہ سے اس کی گھر والوں سے سرد جنگ جاری رہتی۔ ایسے میں جب اس کا ایک دوست کا بھائی امریکہ سے لوٹا تو اس کے اندر بھی اُمنگ جاگی۔ دوست کے بھائی کے ساتھ سارے معاملات طے کرکے اس نے گھر والوں کے سامنے اپنی خواہش ظاہر کی اور اپنے والد سے رقم مانگی تو انہوں نے صاف انکار کردیا تو ناراض ہوکر اس نے گھر چھوڑ دیا اور اپنے بل بوتے پر رقم جمع کرکے اپنے خواب مکمل کرنے کا عزم کر لیا۔ اور اس کے لئے بدل بدل کر اپنے دوستوں کے گھر رہنا بھی گوارا کر لیا اور چھوٹی سی نوکری کرنا بھی۔ پھر اچانک اسے ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع مل گیا۔ اسے فخر تھا کہ اس کی قسمت اس کا ساتھ دے رہی ہے۔ اس نے رقم جمع کرنی شروع کردی تھی۔
 کمپنی کے مالک انصار احمد مخلص انسان تھے۔ اس کی قابلیت معترف تھے اس لئے اس پر خاص توجہ دیتے تھے، اس لئے بھاپ لیا کہ وہ پریشان ہے۔ پوچھنے پر اس نے بتا دیا کہ ’’وہ جس شخص کے ساتھ روم شیئر کر رہا ہے، اس کی فیملی گاؤں سے آرہی ہےاور وہ اتنی جلدی خود کے لئے کوئی انتظام نہیں کر پارہا ہے۔‘‘
 انہوں نے کہا کہ ’’کیا تمہارے کوئی رشتے دار نہیں ہیں یہاں؟‘‘ تو اس نے کہا کہ ’’سر میرا اپنا گھر اسی شہر میں موجود ہے۔‘‘ تب وہ حیران ہوگئے پھر اس نے انہیں مختصراً وجہ بتلائی وہ بغور سنتے رہے۔
 ’’میں اپنوں کو مس کرتا ہوں لیکن واپس لوٹنے میں میری ہار ہوگی جو زندگی میں چاہتا ہوں وہ اپنے گھر والوں کے لئے بھی چاہتا ہوں۔‘‘
 ’’خیر تمہاری رہنے کی پرابلم حل ہوگئی، میرے بنگلے کی انیکسی خالی ہے تم وہاں جب تک چاہو رہ سکتے ہو، رمضان المبارک کی آمد ہے تمہیں وہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔‘‘ انہوں نے مخلصانہ پیشکش کی اور کچھ سوچ کر اس نے پیشکش قبول کرلی اور اگلے دن ہی وہ وہاں شفٹ ہوگیا۔ ایک ہفتہ بعد ہی رمضان المبارک کی شروعات ہوگئی۔ انصار احمد نے اپنے ساتھ سحری کرنے کے لئے کہا تو وہ جھجھک گیا کہ ان کی جوان بیٹیاں تھیں مگر انہوں نے ایک نہ مانی اور سحری کے وقت اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ انصار احمد کے علاوہ کوئی بھی نہ تھا۔ ملازم کو بھی سحری کرنی تھی تو اسے اپنے لئے تکلیف کرنے سے منع کرکے خود ہی سب کچھ کر رہے تھے۔ اس کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی انہوں نے خود ہی بتادیا کہ ان کی بیوی کی طبیعت ناساز رہتی ہیں اور بچّے روزے کی حالت میں اسٹڈی نہیں کر سکتے۔ پھر افطار میں بھی وہی منظر تھا ان کی بیوی نک سک سے درست ہوکر کہیں افطار پارٹی کے لئے نکل گئیں اور بچے اپنی مصروفیات میں الجھے ہوئے۔ ایسے میں فہد کو اپنے گھر والوں کی بہت یاد آئی۔ اپنے گھر کی سحری کی ہلچل اور عبادت اور پورے دن کے روزے کے ساتھ افطاری کی تیاریاں اور پھر مل بیٹھ کر افطاری کا وہ خوش کن منظر یاد آیا۔ اس کی ماں بہن بھابھیاں سب کیسے اتفاق کی چادر تلے گھر کے کام انجام دیا کرتی تھیں تھکن کا شائبہ تک ان کے چہرے پر نہ ہوتا۔ یہاں تو دن بیت جاتے ہوں گے ایک دوسرے کی شکل دیکھے ہوئے۔ پورا مہینہ گزر گیا چاند رات آگئی۔ چاند رات رونق سے نا آشنا تھا۔
 انصار احمد کا گھر اور اس گھر کے ماحول نے اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔ اس گھر کے لوگ ایک دوسرے سے ہی نہیں مذہب سے بھی دور تھے۔ وہ اپنے خواب کو پورا کرنے کے بہت قریب تھا لیکن ایک خالی پن اس کے اندر اتر آیا تھا۔ اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ بہت کچھ کھونے جا رہا تھا۔ اب اسے احساس ہوا تھا کہ رشتے کتنی بڑی دولت اور گھر کتنی بڑی نعمت جس ماحول کو نا پسند کرتا تھا اس کا وہ ایک اٹوٹ حصہ تھا اور وہ لوٹنے کا فیصلہ کرکے انصار احمد کو خدا حافظ کہنے چلا آیا، ’’جارہے ہو؟‘‘ وہ بغیر کسی حیرت کے بولے، ’’مَیں خوش ہوں کہ جو فیصلہ میں اپنے وقت پر نہ کر سکا وہ تم نے وقت رہتے کر لیا۔ آج تمہارے لوٹتے قدم مجھے منزل پرپہنچتے نظر آرہے ہیں۔ منزل سے ہٹ کر انسان صرف بھٹکتا رہ جاتا ہے۔ مَیں بھی تمہاری طرح ہی سوچتا تھا۔ گاؤں سے شہر آگیا ترقی کے زینے کیسے طے کئے.... لمبی کہانی ہے آج پوری طرح زندگی بدل گئی ہے یہ سب پانے میں کیا کھو چکا ہوں تم سمجھ ہی چکے ہو۔ تمہیں یہاں لانے کے پیچھے یہی مقصد تھا کہ تمہیں احساس دلا سکوں کہ جو میں نے کھویا ہے وہ تم مت کھونا۔ والدین کے دلوں میں بہت وسعت ہوتی ہے وہ تمہیں گلے سے لگا لیں گے۔‘‘
 فہد ان کے گلے لگ گیا، ’’مَیں آپ کا احسان مند ہوں۔ ‘‘ ’’احسان نہیں مَیں نے اپنا فرض نبھایا ہے، دعا کرو کہ میرے بچوں کو بھی کوئی خضر راہ مل جائے۔‘‘
 فہد ’’ان شاءاللہ....‘‘ کہتا ہوا جانے کے لئے پلٹ گیا اور ان کے لبوں پر ایک شعر تھرک گیا؎
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK