• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ: جو لوٹ نہ سکے....

Updated: December 19, 2023, 12:28 PM IST | Aasiya Raees Khan | Mumbai

خط میں دل کھولنا آسان تھا۔ فون یا ویڈیو کال پر دعا سلام اور رسمی بات ہی بمشکل ہو پاتی تھی۔ خط کیا تھا.... وہ بھولی بسری یادوں کی پٹاری ہوگئی تھی۔ دونوں دوست چن چن کر اس میں یادیں ڈالتے اور نکالتے، ایک خط کئی دن تک لکھتے رہتے پھر ایک دن پوسٹ کر دیتے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اکمل حسین آج بھی معمول کی طرح اپنے کمرے کی کھڑکی کے قریب کرسی پر بیٹھے سڑک کی دوسری طرف جھیل کو دیکھ رہے تھے۔ ماحول میں بتدریج بڑھتی حرارت اس بات کی نوید تھی کہ عنقریب ویران سی جھیل کا منظر بدلنے والا ہے۔ وہ یہاں کنیڈا میں ہر سمت پھیلی برف کی سفیدی کے لئے کبھی کوئی خوش کن استعارہ اور تشبیہ نہیں ڈھونڈ پائے تھے۔
 کئی بار کوشش کی کہ اس میں کپاس کے کھیت دیکھیں یا بچپن کی عید کا وہ سفید کرتا پاجامہ جس پر داغ دھبے نہ لگانے کی ماں کی ہدایت پر کبھی عمل نہ ہوسکا تھا لیکن سیکڑوں خوشگوار استعارے اور تشبیہات سوچنے کے باوجود یہ انہیں کبھی بیوہ کا سفید آنچل لگتی تو کبھی کفن کی یاد دلاتی، کبھی محبت کی حدت اور قربت کی تپش سے خالی کوئی بد بخت چہرہ لگتی۔ بہار کی دستک سن کر برف کے منظر سے غائب ہوتے ہی جیسے ان کے اندر پھیلی وحشت بھی اب معدوم تھی۔
 ’’اور کچھ دن دادو پھر سارے سی گُلز لوٹ آئیں گے۔‘‘ ندا نے چائے کا کپ ان کے آگے رکھتے ہوئے مسکرا کر جیسے حوصلہ دیا۔ بوڑھے افراد کی مصروفیات بظاہر بڑی لایعنی نظر آتی ہیں لیکن چند ہی خوش بخت ہوتے ہیں جو ان مصروفیتوں میں ان کے جھریوں زدہ جذبات اور موتیا اتری امید محسوس کر پاتے ہیں۔ ندا ایسی ہی خوش بخت پوتی تھی جو ان مہاجر پرندے کے انتظار میں دادا کا کربِ ہجرت اور کبھی تو اپنی مٹی تک لوٹ جانے کی اُمید پڑھ لیتی تھی۔
 ’’یہ پرندے انسانوں سے زیادہ نصیب والے ہیں کہ ان کی ہجرت دائمی نہیں ہوتی۔‘‘ انہوں نے کپ اٹھاتے ہوئے بہت آہستہ سے کہا۔
 گردشِ دوراں کی دھول سے اٹی ان کی آنکھوں میں حسرت کی مکڑی اب بھی جالے بنتی رہتی تھی۔ زندگی کی مٹھی سے پھسلتی عمر کی ریت نے قویٰ کمزور کئے تھے لیکن یہ مکڑی اب بھی توانا تھی۔ اپنی خوشی سے ہجرت کوئی نہیں کرتا۔ یہاں ان پرندوں کو مہاجر بنانے کا الزام رگوں میں گردشِ دم منجمد کر دینے والی ٹھنڈ کے سر تھا۔ دسمبر سے گرم علاقوں میں ہجرت کرچکے پرندے مارچ اپریل میں لوٹ آتے تھے۔
 اسے اب بھی یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی کہ انہوں نے ۷۵؍ سال کی عمر کے فقط ۱۹؍ سال اپنے وطن میں گزارے تھے پھر بھی اتنے سارے برس جہاں بسر ہوئے اس سے زیادہ رغبت انہیں ۱۹؍ سال والے ملک سے تھی۔ وہ جب یہی بات ان سے کہتی تو وہ کہتے: ’’تم نے مٹی دیکھی ہی کہاں جو مٹی کی محبت جان سکو!‘‘ اور وہ ہنس پڑتی۔ یہ مٹی دیکھی نہیں والی بات اسے ہمیشہ مذاق ہی لگتی تھی۔
 وہ خاندان کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ ان کے والد غریب اور شریف آدمی تھے۔ ذریعہ معاش صرف کھیتی تھا اس میں بھی تایا اور چاچا زور زبردستی سے زمین کا بڑا حصہ ہتھیا چکے تھے۔ باپ کو بے انتہا محنت کے بعد بھی بس گزر بسر لائق کماتے دیکھ کم عمری میں ہی مستقبل کے لئے ان کا لائحہ عمل واضح اور تیار تھا۔ انہیں اس چھوٹے سے دیہات سے نکلنا تھا۔ نئے آسمان تلاش کرنے تھے اور پرواز بلند سے بلند ترکرنا تھی۔ ان دنوں ملک سے باہر جانا اتنا عام نہ تھا لیکن وہ لگن کے پکے تھے۔ پہلے دبئی گئے، وہاں سے یورپ اور آخر میں کنیڈا۔ انہوں نے مزدوری اور صفائی سے لے کر ہر چھوٹا بڑا کام کیا اور محنت کو اپنا شعار بنایا۔ اپنے پیر جمتے ہی دونوں بھائیوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا۔ انہوں نے اپنے گاؤں میں اکثریت کو سسک سسک کر زندگی گزارتے دیکھا تھا۔ انہیں ملک سے باہر کمانے والوں کے گھر کے حالات کا بخوبی اندازہ تھا اس لئے بہنوں کی شادیاں بھی مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والے لڑکوں سے کی تھیں۔ اتنے برس بعد اب ان کی بہنوں کے خاندان بھی شارجہ اور دبئی میں بس چکے تھے۔ ان تینوں بھائیوں کی شادیاں وطن میں ہی ہوئی تھیں۔ کچھ عرصہ بعد ہی بیوی ان کے پاس آگئی تھی جبکہ دونوں بھابھیاں وہیں ان کے والدین کے ساتھ تھیں۔ آخر کئی برسوں کی جدوجہد کے بعد کنیڈا میں اِنڈین ریستوراں کھول کر وہ مستقل یہیں کے ہوگئے۔ ۵؍ سال پہلے بیوی فوت ہو گئی تھی اور کاروبار اب ان کے بچے سنبھال رہے تھے۔
 والد کے انتقال کے بعد انہوں نے ماں کو بھی اپنے پاس بلا لیا تھا۔ چھوٹے بھائیوں کے بیوی بچے بھی ماں کے ساتھ دیار غیر آگئے اور آبائی مکان کا قفل لگا دیا گیا۔ ان کی اماں کچھ دن اس رنگین، صاف و شفاف دنیا میں بڑی خوش رہیں پھر جلد ہی اپنے گھر کی دہلیز، صحن کا نلکا، چھت کی کڑیاں ، پڑوسیوں کی آوازیں اور گلی کی ہلچل کی یادیں اور کمی انہیں بے کل رکھنے لگیں۔ آخری وقت میں تو وہ باقاعدہ رونے لگ جاتیں۔ چھوٹا بھائی انہیں چند دنوں کیلئے وطن لے گیا کہ ایک بار گھر کی زیارت شاید انہیں لمبے عرصے کیلئے پُرسکون کر دے اور وہاں کی دھول مٹی انہیں دیارِ غیر کی روشنیوں کی قدر سکھا دے لیکن یہ زیارت انہیں ہمیشہ کیلئے پُرسکون کر گئی اور وہ اس زمین میں ہی رہ گئیں۔ ان کی تدفین میں بھی وہ بمشکل شریک ہو پائے تھے اور ماں کو اس کے آخری سفر پر روانہ کرنے والا سفر ان کا آخری سفر ثابت ہوا۔ اس کے بعد وہ کبھی وہاں نہ جا سکے۔ مکان بھی بند پڑا تھا۔ ترقی کے باوجود گاؤں میں اس خستہ حال مکان کی معقول قیمت نہ تھی۔ ایک دو بار انہوں نے گاؤں جانے کی بات کی لیکن سب کا ردّعمل دیکھ کر چپ ہوگئے۔
 ’’کیا سوچنے لگے دادو؟‘‘ ان کی طویل چپ پر ندا نے ٹوکا۔
 ’’تم نے لیٹر باکس چیک کیا؟‘‘
 ’’جی دادو، آپ کا کوئی لیٹرنہیں تھا۔‘‘ پچھلے کچھ ماہ سے پرانے دوست کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ جاری تھا جو ان کے ساتھ ہی دبئی میں کام کرتا تھا اور معاشی حالات بہتر ہوتے ہی وہ وطن لوٹ گیا تھا۔ پہلے وہ فون پر بات کیا کرتے تھے لیکن کچھ دنوں سے دوست کی قوت سماعت میں مسئلہ پیدا ہوگیا تو انہوں نے خط لکھنا شروع کیا اور پھر ان دونوں کو اس میں مزہ آنے لگا۔ خط میں دل کھولنا آسان تھا۔ فون یا ویڈیو کال پر دعا سلام اور رسمی بات ہی بمشکل ہو پاتی تھی۔ خط کیا تھا.... وہ بھولی بسری یادوں کی پٹاری ہوگئی تھی۔ دونوں دوست چن چن کر اس میں یادیں ڈالتے اور نکالتے، ایک خط کئی دن تک لکھتے رہتے پھر ایک دن پوسٹ کر دیتے۔
 ’’جھیل تک چلیں ؟‘‘ اچانک ندا نے پوچھا۔ ’’ان پرندوں کو قریب سے دیکھتے ہیں ، سی گُلز کے علاوہ دوسرے پرندے بھی ہیں وہاں۔‘‘ 
 باقی گھر والوں کی اپنی مصروفیت تھی۔ ندا تعلیم کے بعد فارغ تھی اور کچھ اسے دادا سے انسیت اور محبت بھی باقیوں سے زیادہ تھی۔
 ’’چلو۔‘‘ وہ خالی کپ رکھ کر کھڑے ہوگئے۔
 ذرا دیر بعد دادا پوتی جھیل پر پہنچ گئے تھے۔ بڑے دنوں بعد ہلکی سنہری دھوپ کا سائبان سر پر تنا تھا۔ اس خوشگوار موسم کا لطف اٹھانے اور بھی لوگ وہاں موجود تھے۔ ندا اپنے موبائل کیمرے سے تصویریں کھینچتے ہوئے انہیں مختلف پرندوں کے نام بھی بتاتی جا رہی تھی۔
 ’’یہ امیریکن رابن ہے دادو.... مَیں سوچ رہی ہوں ہم اس بار اسپرنگ برڈ فیسٹول دیکھنے چلتے ہیں .... ویسے امیزنگ ناں کہ یہ اتنا لمبا سفر کرتے ہیں اور بھٹکتے نہیں ....‘‘
 ’’یہ اصول تمہیں دنیا کی کوئی سائنس نہیں بتائے گی کہ ہر ذی نفس کے وجود کی کونپل جس مٹی سے پھوٹتی ہے، اس مٹی اور وجود کی روح کے درمیان بھی کشش ثقل سے زیادہ طاقتور کشش ہوتی ہے جو ہمیشہ اسے اپنی طرف کھینچتی ہے، اسے بھٹکنے نہیں دیتی۔‘‘ اکمل حسین کی بات تھی یا ان کے لہجے کی یاسیت، ندا نے موبائل کوٹ کی جیب میں ڈالا اور ان کا ہاتھ تھام لیا۔
 ’’چلیں ایک راؤنڈ لگاتے ہیں۔‘‘
 پرندے تو لوٹ آئے تھے لیکن اکمل حسین کے دوست کا خط نہیں آیا۔
 ’’کبھی اتنے دن نہیں لگائے فیروز نے۔‘‘ آج پھر لیٹر باکس سے مایوس لوٹتے ہوئے انہوں نے دروازے میں کھڑی ندا سے کہا۔
 ’’آپ فون کر لیں۔‘‘
’’نہ اس کی آواز ڈھنگ سے سنائی دیتی ہے نہ اسے میری بات سمجھ آتی ہے۔‘‘ انہیں لیٹر کا ہی انتظار تھا۔
 ’’آجائے گا کچھ دن میں ان شاء اللہ۔‘‘ وہ پُر امید تھی۔
 ’’ہممم....‘‘ ان کی ہممم بھی مثبت تھی۔
 پھر ایک رات روز بے قراری اور نئی امید سے لیٹر باکس کھولتے دادا کی سانسوں کی گنتی مکمل ہوگئی۔ ان کی امید نہیں ٹوٹی تھی لیکن زندگی کی ڈور ٹوٹ گئی۔ مالک کی موت پر ریستوراں ایک ہی دن بند رہا پھر دوبارہ سب مصروف ہوگئے کہ زندگی کہاں رکتی ہے۔ ندا کو یہ بات تسلی دیتی کہ انہوں نے پرندوں کا لوٹنا دیکھ لیا تھا۔ جھیل پر لوٹی رونق، سر اٹھاتی ہریالی اور گردن ہلاتے پھول ان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتے تھے۔ اکمل حسین کے انتقال کے دس دن بعد ان کے نام کا پارسل موصول ہوا۔
 ’’دیکھیں لیٹر آگیا دادو، آپ کو ہی جانے کی جلدی تھی!‘‘ ندا نے سب سے اوپر رکھا کاغذ کھولا۔
’’السلام علیکم!
 جس رات میرے نانا فیروز احمد نے مجھے یہ پارسل دیا تھا کہ صبح پوسٹ کردینا، اسی رات ان کی طبیعت بگڑ گئی اور انہیں اسپتال ایڈمٹ کرنا پڑا جہاں دو دن بعد ان کاانتقال ہو گیا۔ مجھے کئی دن بعد آج اس کی یاد آئی اور میں یہ آج ہی پوسٹ کر رہا ہوں ۔ اس کے ساتھ کچھ کاغذات بھی تھے، جانے وہ پوسٹ کرنے تھے یا نہیں پھر بھی میں وہ ساتھ ہی بھیج رہا ہوں ۔ آپ کے دوست اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان کیلئے دعا کریں ۔ 
مخلص،
تیمور احمد!‘‘
 ندا کے ہاتھ میں وہ کاغذ کانپ گیا۔
 ’’کیا ستم ظریفی ہے!‘‘ وہ اب اس پر شاکر تھی کہ اچھا ہوا وہ یہ خبر سنے بغیر ہی چلے گئے۔
 اس نے پارسل کے ساتھ آئے دیگر کاغذات اٹھائے۔ وہ اکمل حسین کے لکھے خط تھے۔ پرانے قصے، کچھ پچھتاوے، کٹھی میٹھی یادیں ، اپنا گھر، گاؤں اور آنگن دیکھنے کی حسرت، وقت کو پیچھے لے جانے والے کئی کاش سے بھرے خطوط۔ ان کا سب سے آخری خط پڑھتے ہوئے آخر میں اس کی آنکھیں چھلک پڑیں ۔
 ’’فیروزے! انہیں اس بھاگتی دوڑتی مشینی دنیا میں میں ہی لایا ہوں اس لئے اب جذبات، احساسات اور ذرا رکنے کی بات کرتے ہوئے ڈرتا ہوں ۔ کس منہ سے کہوں ؟ ان کی عمر میں میں بھی تو ایسا ہی تھا۔ اونچے خواب، نئے آسمان، آسائشیں ، ترقی، سارے سراب وہی ہیں ۔ لیکن سن! مجھے لگتا ہے میری روح کو سکون اس مٹی سے مل کر ہی ملے گا۔ یہ بے قراری، یہ خلا قبر میں تبھی ختم ہوگا جب میں اپنی مٹی اوڑھ کر سوؤں گا۔ میرے گاؤں کی، گھر کی، آنگن کی مٹی جو میری روح میں حلول ہے۔ جسم کی آسائشوں اور تقاضوں سے روح کہاں سیراب ہوتی ہے میرے یار! میری یہ خواہش پوری کر دے میں .....‘‘
 ندا نے خط سے نظر ہٹا کر اس بند ڈبے کو دیکھا۔ خط میز پر رکھ کر اس نے ڈبہ اٹھایا اور ضبط کھو کر اسے سینے سے لگا کر رو پڑی۔ بنا کھولے ہی وہ جانتی تھی اندر کیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK