میرے ساتھ وہ بظاہر بالکل معمولی باتیں کر رہی تھی.... ایک مڈل پاس لڑکی بلکہ چھوٹی سی عمر میں چھ بچوں کی ماں لڑکی ان باتوں کے علاوہ اور باتیں ہی کون سی کرسکتی تھی؟
EPAPER
Updated: November 20, 2023, 2:23 PM IST | Mosarrat Leghari | Mumbai
میرے ساتھ وہ بظاہر بالکل معمولی باتیں کر رہی تھی.... ایک مڈل پاس لڑکی بلکہ چھوٹی سی عمر میں چھ بچوں کی ماں لڑکی ان باتوں کے علاوہ اور باتیں ہی کون سی کرسکتی تھی؟
میرے ساتھ وہ بظاہر بالکل معمولی باتیں کر رہی تھی.... ایک مڈل پاس لڑکی بلکہ چھوٹی سی عمر میں چھ بچوں کی ماں لڑکی ان باتوں کے علاوہ اور باتیں ہی کون سی کرسکتی تھی؟
وہ دو کوٹھیاں چھوڑ کر ہمارے ہمسائے انجم صاحب کی بھانجی ثریا بانو تھی۔ کبھی کبھار کاموں سے تھک ہار کر اپنے آدھ درجن بچوں کو سلا کر میرے پاس آن بیٹھی تھی۔ وہ حد درجہ بد صحت تھی مگر اسے بدصورت ہرگز نہیں کہا جاسکتا تھا کیونکہ اس کے حسن کے باقیات ابھی بھی اس کے چہرے کے نقوش میں سے جھانکتے رہتے تھے۔ خاوند نے اسے ایک سے سات وجود کرکے چھوڑ دیا تھا یا خدا جانے وہ خود ہی اسے چھوڑ آئی تھی بہرحال آج کل وہ اپنے ایک بے حد امیر ماموں کے گھر میں پناہ گزین تھی اور جس طرح ہر امیر آدمی اخلاق اور دل کا فقیر ہوتا ہے اسی طرح اس کے ماموں کا بھی تقریباً یہی حال تھا۔ البتہ ثریا بانو کے بیان کے مطابق اس کی ممانی دل کی بری نہیں تھی۔ انسانی بنیادوں پر اس کی عزت کرتی تھی اور اس کے بچوں پر بھی بچوں والی نظر ڈالتی تھی! مَیں نے اس کی کہانی کریدنا چاہی تو اس نے آسانی سے اتنی بڑی بڑی کریہہ حقیقتیں بیان کر دیں کہ مَیں دم بخود ہو کر اس کا منہ دیکھتی رہ گئی۔ وہ ایک کھلی کتاب کی طرح میرے سامنے تھی اور مَیں بغیر کسی دقت کے اسے پڑھ رہی تھی بلکہ اس کی باتیں سن سن کر پہلی بار مجھے اعتبار آیا کہ واقعی طوفان اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے۔ اس کے اندر رنج اور غصے کا جو وحشی طوفان چھپا ہوا تھا جاہل ہونے کے باوجود وہ اس کو بڑے مناسب زاؤئیوں سے راستہ دے رہی تھی۔ وہ ہر بات کے دوران میرے احساسات اور دل و دماغ پر صحیح صحیح نشانے لگا رہی تھی۔ ہوسکتا ہے وہ خود نہ جانتی ہو کہ وہ کیا کہہ رہی ہے مگر میں خوب اچھی طرح جان رہی تھی کہ وہ کیا کہہ رہی ہے یا کیا کہنا چاہتی ہے؟ وہ بڑی معصومیت کے ساتھ معصوم سے الفاظ میں اپنا مطلب بیان کر رہی تھی جسے میں اپنے الفاظ میں ڈھال کر سمجھتی چلی جا رہی تھی!
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں نے اس سے یہ کہا کہ بانو بی بی اپنا گھر پھر اپنا گھر ہوتا ہے اسے توڑ پھوڑ کر کیوں آگئی ہو؟ تو اس کے چہرے پر ایسی وحشت و نفرت ابھری تھی کہ ایسا منظر نہ میں نے پہلے کبھی دیکھا تھا نہ کسی نے دیکھا ہوگا وہ ایک آتش فشاں پہاڑ کی طرح پھٹ پڑی تھی۔ اس کا بس چلتا تو یہ بات سن کر وہ میرے منہ سے میری زبان کھینچ لیتی مگر مَیں نے دیکھا وہ انتہائی تحمل سے بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔ تھوڑی دیر وہ سر جھکائے رہی پھر شدید نفرت اور بے یقینی کے کھا جانے والے احساس کے ساتھ میری طرف دیکھا اور بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں میری معمولی سی بات کا جواب دینے لگی:
بیگم صاحبہ یہ آپ کہہ رہی ہیں؟ عورت ہو کر بھی یہ کہہ رہی ہیں؟ میرے کلیجے میں آپ نے چھرا مار دیا ہے.... بھلا عورت بھی کبھی اپنا گھر چوکھٹ چھوڑتی ہے؟ غیر کے گھر جانے کے بعد لمحہ لمحہ بے غیرتی اور بے عزتی کے کالے غار میں اترتی رہتی ہے مگر چپ رہتی ہے.... یہ خدا کا اور لوگوں کا اور ساری دنیا کا ظلم نہیں تو اور کیا ہے کہ عورت ہے تو سارا الزام اسی پر آجاتا ہے کوئی ا س کے مالک سے جا کر کیوں نہیں پوچھتا کہ یہ سب کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ میرا میاں نکھٹو تھا چرسی تھا لوگوں کے گھروں میں کام کر کرکے جب میں اپنی ہڈیوں کا ست نچوڑ کر آتی تھی تو میری انہی ہڈیوں پر مارتا تھا پیسے چھین لیتا تھا مگر میں منہ سے کچھ نہیں بولتی تھی کہ ایک پردہ جو خدا نے رکھا ہوا تھا وہ نہ اترے.... اس طرح مَیں دو جسمانی اور ایک روحانی تین ماریں کھا رہی تھی۔ آخری بچہ ہوا تو مجھے یرقان ہوگیا بستر سے لگ گئی.... نشی کا نشہ ٹوٹ گیا وہ قہر بن گیا۔ ایک دن میں نے کہا کچھ کما کر لاؤ مجھ سے بھوکے بچے بلکتے ہوئے نہیں دیکھے جاتے۔ بس اتنی سی بات کی تھی مَیں نے.... مجھے بتاؤ بیگم صاحبہ اس بات میں میرا کتنا قصور نکلتا ہے؟ جتنا آپ کہیں گی مان لوں گی کیونکہ مَیں عورت ہوں اور عورت وہ قصور بھی مان لیتی ہے جو وہ کرتی تک نہیں ہے.... اب مجھے دیکھئے ماں باپ نے مجھے پیدا کرکے چھوڑ دیا ہے، میری پیدائش میرا قصور نہیں ہے پھر بھی اپنا قصور مانتی ہوں زندگی ایک قصور ہے ناں؟ جس کی سزا وار در بدر دھکے کھا کر پوری کر رہی ہوں۔‘‘
’’ایسا مت کہو ثریا بی بی ایسا مت سوچو۔‘‘ مَیں نے کہا، ’’لیکن تم نے کمانے کی بات کی تو تمہارے شوہر نے کیا کیا؟‘‘ مَیں بات کی تہہ تک پہنچنا چاہتی تھی۔
مَیں نے دیکھا وہ دونوں گھنٹوں میں سر رکھے دھاروں دھار رو رہی تھی پھر سسکی جیسے لہجے میں کہنے لگی، ’’بیگم صاحبہ آپ وہ کچھ نہ پوچھیںا ور نہ سنیں جو اس نے کہا تھا اور جس کو سننے کے بعد مَیں ماموں کے گھر میں آکر نوکرانی ہوگئی ہوں۔‘‘
’’پھر بھی کچھ تو بتاؤ۔‘‘ مَیں نے اسے تسلی دیتے ہوئے پوچھا۔
’’اگر آپ مجبور کرتی ہیں تو سنیں.... اس نے کہا تھا نکل جاؤ یہاں سے....! عورتوں کے کمانے کے کئی طریقے ہیں میری طرف سے تمہیں ہر طریقے کی اجازت ہے.... بس اس کی یہ بات میرے لئے آخری تھی.... مَیں اٹھ کر چلی آئی.... بتاؤ بیگم صاحبہ مَیں نے ٹھیک کیا ناں؟‘‘ وہ مجھ سے براہ راست مخاطب تھی اپنے راست اقدام کی مجھ سے تصدیق چاہتی تھی مگر مَیں گم سم بیٹھی تھی.... مَیں کسی بھی قسم کا جواب دینے کی حالت میں نہیں تھی.... میری نظریں جھکی ہوئی تھیں اور وہ خود ہی بڑ بڑا رہی تھی.... مَیں نے سنا وہ کہہ رہی تھی:
’’بیگم صاحبہ اچھا کیا اس نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ بھلا وہ میرا کیا لگتا تھا؟ لگتا تو وہ اپنے بچوں کو بھی کچھ نہیں تھا تبھی تو انہیں صبح کی گندی تھوک کی طرح زمین پر پھینک دیا ہے.... وہ ہر صبح میرےلئے بھی اجنبی بن جاتا تھا.... لیکن میں کیا کرسکتی تھی؟ کیا کہہ سکتی تھی یا کوئی بھی بیوی کیا کرسکتی ہے؟ بیگم صاحبہ میں حرف حرف سچ کہہ رہی ہوں.... آپ خود بتائیں میں کیسے آپ کو اعتبار دلاؤں؟‘‘
’’اعتبار دلانے کیا ضرورت ہے ثریا بی بی....‘‘ مَیں نے کہا۔
’’تمہارا سچا کھرا لہجہ ہی تمہاری بات کا اعتبار ہے مگر ایک بات بتاؤ آخر وہ ایسا کیوں تھا؟ کوئی وجہ تو ہوگی!‘‘ تب وہ پھٹ پڑی، ’’لے پوچھتی ہے کہ وہ فلاں کام کیوں کرتا ہے؟ مرد کی ذات سے کون پوچھ سکتا ہے کہ وہ کیا کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے؟‘‘ وہ مسلسل بول رہی تھی اور رو رہی تھی۔
وقتی طور پر میرے ذہن میں ایک حل آیا، مَیں نے کہا، ’’چلو ثریا چھوڑو ان دکھوں کو.... تم یوں کرو اگلے ہفتے میرے ساتھ گھومنے چلو، مَیں بہن کو ملنے جا رہی ہوں۔ صرف چھوٹے کو لے چلنا باقی بچوں کو تمہاری بیٹی سنبھال لے گی.... جہاز پر جائیں گے۔‘‘ جہاز کا سن کر وہ سارےغم بھول گئی خوش ہو کر بڑی حیرت سے پوچھا، ’’جہاز کیا بہت اونچا اڑتا ہے بیگم صاحبہ؟‘‘ ’’ہاں بہت اونچا....‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’رب سے بھی اونچا چلا جاتا ہے؟‘‘ اس کے معصوم سوال پر مجھے ہنسی آگئی۔ ’’نہیں....‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’رب تو بہت اونچائی پر رہتا ہے.... جہاز بہت نیچے ہوتا ہے فرض کرو رب کے برابر بھی چلا جائے تو پھر کیا کرو گی؟ ڈر کے مارے کود نہ جانا جہاز سے....‘‘ وہ بڑے اعتماد سے بولی۔
’’واہ! مَیں کیوں ڈروں گی رب سے.... مَیں نے کون سے گناہ کئے ہیں کہ منہ چھپاؤں گی اس سے.... بلکہ مَیں تو اپنے جہاز کے دونوں پر اس کے تخت کے ساتھ جا کر لگا دوں گی۔‘‘
’’پھر کیا کرو گی؟‘‘ مجھے اس کی باتیں انوکھی اور دلچسپ لگ رہی تھیں۔
’’پھر اس سے چار باتاں کروں گی۔ مجھے بہت شوق ہے اس سے باتیں کرنے کا۔‘‘
’’کیا باتاں کروں گی؟ مجھے بھی تو کچھ پتہ چلے۔‘‘ اب کے مَیں اس کا جواب سننے کے لئے سنبھل کر بیٹھ گئی!
ٹھنڈی سانس بھر کر بولی، ’’سب سے پہلے تو کہوں گی دیکھو اللہ تعالیٰ مجھے لالچی نہ سمجھ لینا.... مجھے نہیں جانا تیری جنت میں.... مَیں تو دو باتیں پوچھنے آئی ہوں صرف اتنا بتا دے کہ برے کو اچھا بدلہ کیوں دیتا ہے اور اچھے کو سزا کیوں ملتی ہے؟ ایک ایک نیکی پر کلیجہ کٹ جاتا ہے بیگم صاحبہ! اچھا بننے کو بڑا زور لگتا ہے مگر ا س نے تو نیکی کا بدلہ ہی قیامت پر چھوڑ دیا ہے خبر نہیں کب قیامت آئیگی اور مجھے بدلہ ملے گا.... ملے گا بھی یا نہیں؟ سنا ہے قیامت تو لکھوکھا سال بعد آئیگی! کیوں بیگم صاحبہ؟‘‘
مَیں نے کہا، ’’مجھے معلوم نہیں کب آئے گی قیامت.... مگر تم مجھے بتاؤ میرے ساتھ چلنا ہے کہ نہیں؟ یہ اچھے برے کی بات کیوں لے بیٹھی ہو؟‘‘
وہ بولی، ’’لو اچھے برے کی بات کیوں نہ لے بیٹھوں۔ مجھے دیکھو میں ’الف‘ سے ’یے‘ تک اچھی ہوں۔ چودہ سال کی تھی تو بیاہ ہوگیا اپنی ذات کا ہوش ہی نہیں تھا مجھے.... برا بننے کا وقت کہاں سے آتا میرے پاس؟ جاتے ہی تو سال بہ سال بچوں کی لکیر لگ گئی میرے پیچھے.... مجھے بتائیں مَیں کس کئے کی سزا بھر رہی ہوں؟‘‘
مَیں اسے یہ کہہ کر جھوٹی تسلی دینا چاہتی تھی کہ یہ سب کیا کرایا ہمارے اعمال کی وجہ سے ہوتا ہے مگر مَیں اسے یہ کیسے کہہ دیتی کیونکہ وہ مجھے اپنے اعمال کے بارے میں ساری تفصیل بنا چکی تھی.... مَیں نے ا س کی وجہ بدلنے کو کہا:
’’ثریا یہ تیرے بچے کو بخار کب سے ہو جاتا ہے؟ جاتے وقت مجھ سے دوائی لیتی جانا۔‘‘
میری بات کرنے کی دیر تھی کہ وہ بے حد ذہین لڑکی ایک بار پھر چلا اٹھی، ’’ناں بی بی ناں، دوائی نہ دینا مجھے.... میرا بچہ یونہی دوا کا عادی ہو جائے گا مَیں کہاں سے اسے دوائیاں لا کر دیا کروں گی.... خدا کے حکم سے بیمار پڑتے ہیں اسی کی مرضی سے ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں... مَیں انسانوں سے رحم کی بھیک نہیں مانگوں گی.... جب اللہ تعالیٰ کو خود میرے معصوموں پر رحم نہیں آتا تو آپ کیوں رحم کریں....‘‘
’’بیگم صاحبہ میں کسی کی ریس کی نہیں کرتی مگر بچے تو سب کے برابر ہوتے ہیں.... دیکھیں اب آپ کے بچے بیمار پڑیں تو اٹھارہ قسم کی دوائیاں آجاتی ہیں.... اعلیٰ خوراک ملتی ہے پھل زمین پر پڑے رلتے ہیں.... میرے معصوموں کا کیا قصور ہے؟ بچے تو گنہگار نہیں ہیں میرے! بس بیگم صاحبہ آپ ایک بھلا کریں میرے ساتھ.... کاغذ کے ایک ٹکڑے پر دو حرف لکھ کر دے دیں آج مقصود گھر پر نہیں ہے.... مَیں صبح اندھیرے منہ جا کر ایک دیوار پر رکھ آؤں گی جہاں سب سے پہلے سورج کی روشنی پڑتی ہے.... سورج جب یہ پیغام پڑھے گا تو مقصود کا بخار ٹل جائے گا۔ گرمی کا تاپ ہے بیگم صاحبہ سورج دو دن ناغہ دے دے تو بس بچے کو ٹھیک سمجھو....‘‘
مجھے ہنسی آگئی.... مَیں نے کہا، ’’سورج کوئی پڑھا لکھا ہے کہ تمہارا پیغام پڑھ لے گا؟‘‘
’’کیوں نہیں پڑھے گا.... آپ لکھ کر دینا نہیں چاہتیں....‘‘ وہ غصہ منا گئی پھر کہنے لگی، ’’ٹھیک ہے مَیں کسی غریب سے لکھوا کر رکھ دوں گی.... شکر کرتی ہوں سورج امیر لوگوں کی ملکیت نہیں ہے ورنہ تو مجھے ایک کرن بھی ادھار نہ دیتے جس کی روشنی میں دو حرف رکھنے ہیں مَیں نے...!‘‘
’’نہیں.... نہیں، یوں نہ کہو ثریا بی بی.... مجھے تمہاری یہ بات سن کر دکھ ہوا ہے.... سورج تو کیا ساری دُنیا سب انسانوں کی ہے، دنیا کی ہر چیز پر تمہارا حق ہے بلکہ سب کا برابر کا حق ہے....‘‘
میری منطق سن کر وہ رونے کے مشابہہ ہنس پڑی، ’’لو اور سنو بیگم صاحب کیسی باتیں کرتی ہیں آپ؟ یہ دنیا میری ہے؟ اس کی نعمتیں میری ہیں؟ کس چیز کی برابر ہے یہاں؟ نعمتوں اور سکھوں کی برابری کو تو چھوڑ ہی دو.... امیروں نے تو اپنی مرضی سے ہوا بھی اب مشینوں میں قید کر لی ہے وہ چاہیں تو گرمی سے بچ جائیں چاہیں تو سردیوں میں لحاف ہی نہ لیں.... یہ ہم ہیں جو ساری دوپہر گھر کی پشت پر بنے ہوئے ننگے برآمد کی دھوپ میں سڑتے ہیں اور سردی میں ٹھٹھرتے ہیں.... ہمارے بچے اکڑ کر مر جاتے ہیں جل بھن کر سرسام ہوگیا ہے۔ میرے مقصود کو.... برف ملا ٹھنڈا پانی مانگتا ہے۔ ڈاکٹر بھی کہتا ہے سر پر برف کی پٹی رکھو.... لو حلق میں ڈالنے کو تو برف نہیں اور بے جان بالوں کو کہاں سے ٹھنڈا کروں گی؟‘‘ وہ سانس لینے کو رکی مَیں نے اسے بولنے دیا.... وہ شاید دل کا تمام بخار آج نکالنے پر تلی ہوئی تھی اس پر مجھے ترس آگیا.... سوچا اس کی ہر خواہش پر پابندی ہے.... ہر نعمت پر پہرے ہیں ہر ذائقہ ہر خوشی قید ہے تو کم از کم بول کر ہلکی تو ہو جائے.... مَیں نے اسے کہا، ’’تیری باتیں تو بڑی عقل والی ہیں ثریا۔ آج سب کچھ مجھے بتا دے ہلکی ہو جائے گی بتا تیرے ماں باپ کہاں ہیں؟‘‘
’’مر کھپ گئے ہیں....‘‘ وہ نفرت سے بولی، ’’ایک ماموں بچ گیا ہے۔ معمولی پڑھا لکھا ہے مگر دنیا کی ساری چالیں سمجھتا ہے تبھی تو پیسہ کمایا ہے۔ جو چال چلتا ہے منافع ہی منافع ہے.... جو پتا پھینکتا ہے سب سمیٹ لیتا ہے مَیں تو کہتی ہوں امیر بننے کو پڑھائی کی کیا ضرورت ہے؟ آدمی کمینہ ہو، بے ایمان ہو، بدمعاش ہو اور بے ضمیر ہو تو پھر سب کچھ اسی کا ہے.... میرا باپ مجھے اپنے چرسی بھانجے کے حوالے کرکے مر گیا ہے.... لیکن میرے لئے تو بڑی لمبی کہانی پڑ گئی ہے ناں بیگم صاحبہ....؟‘‘
’’تم حوصلہ رکھو خدا ضرور دکھ کاٹ دے گا۔‘‘ مَیں نے اسے پیار سے کہا جس کے جواب میں اس نے میری دونوں باتوں کا جواب دینا ضروری نہ سمجھا جیسے میں نے بکواس کی ہو.... وہ پھر گویا ہوئی۔
’’آپ خود سوچیں بیگم صاحبہ.... میرے بچوں کا باپ برا تھا وہ بھی برے نکلیں گے ناں؟ پتہ نہیں لوگ ہم غریبوں سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ ہمارے ساتھ یہ سب کچھ تو خدا کی مرضی سے ہوتا ہے پھر لوگوں کا عتاب ہم پر کیوں ہو؟ شبیرا اکثر یہی کہتا تھا کہ مَیں خدا سے پوچھوں گا ایسا کیوں ہے؟ مگر وہ کیسے پوچھ سکتا تھا اس کے پاس تو جہاز کا کرایہ ہی نہیں تھا ہاں مَیں اب خود پوچھوں گی خدا سے.... پوچھوں گی یہ کیسا ظلم ہے؟ تقدیر تو لکھتا ہے مار انسانوں کو پڑتی ہے آخر کیوں؟‘‘ مَیں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’مگر دیکھ لینا تیرے جیسے اچھے اور نیک لوگ جنت میں بھی تو جائیں گے.... برے جہنم میں سڑیں گے....‘‘
اور مَیں ہکا بکا رہ گئی.... وہ تڑ سے بولی، ’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے بیگم صاحبہ.... برے لوگ یہاں عیش کرتے ہیں اگلے جہان میں دوزخ میں جلیں گے.... بات برابر ہوگئی.... میری نیکی کا بدلہ کہاں گیا؟ مَیں تو کہتی ہوں خدا خود ہی سب کے ساتھ انصاف کر دیتا تو سارا لفڑا ہی کیوں ہوتا؟ بندے کی بات بندے پر ڈال کر اس نے اچھا نہیں کیا ہے....‘‘ وہ عجیب عجیب باتیں کرنے لگی تھی تب مَیں نے اس کی توجہ ہٹانے کے لجے دوسری بات چھیڑ دی، ’’اچھا تم مجھے شبیر کے بارے میں بتاؤ.... وہ کیا بدسلوکی کرتا تھا تمہارے ساتھ؟‘‘
رو کر کہنے لگی، ’’آپ سنیں گی تو ہنسیں گی بیگم صاحبہ.... آپ کے نزدیک میری ساری باتیں بہت معمولی اور چھوٹی چھوٹی ہوں گی.... مگر میرا جگر تو ابھی تک ٹکڑے ٹکڑے ہے۔ میرے لئے تو ان سے زیادہ بڑی کاٹ دار باتیں اور ہو ہی نہیں سکتیں۔ دو بڑے ملکوں کی بڑی بڑی جنگوں سے بھی زیادہ خون خرابے والی باتیں ہیں یہ.... وہ ہر رات دو بجے آتا تھا بچے اس کے پیار کے لئے بلکتے ہوئے سو جاتے تھے.... جب آتا تھا مجھے بالوں سے پکڑ کر جگا دیتا تھا اور کہتا تھا تم بیٹھ کر مجھے پنکھا جھلو اور جب تک مجھے نیند نہ آئے بیٹھی رہو اس لئے کہ تم عورت ذات ہو.... مَیں پوری رات سسک سسک کر جاگتی تھی.... کبھی بیمار پڑ جاؤں تو ٹھٹھ اڑاتا تھا کہ بہانہ کرتی ہو کبھی دوا لے کر نہیں دیتا تھا.... صبح غسل خانے نہیں جانے دیتا تھا کہ مرد پہلے جائے گا.... اسی طرح کھانا پہلے خود کھاتا تھا پھر بچوں کو دیتا تھا اور مجھے کہتا تھا عورت آخر میں ہانڈی چاٹ پونچھ لیتی ہے.... میری ماں بیمار تھی اگلے دن مر گئی.... مَیں جانا چاہتی تھی مجھے نہ جانے دیا کہنے لگا تم کیا اور تمہاری ماں کیا.... بڑی دیکھی ہیں مرتی ہوئی تیری ماؤں جیسی.... مَیں رو رو کر بے دم ہوگئی تھی.... اور بس چھوڑو بیگم صاحبہ کیا کیا بتاؤ؟ ظلم اور دکھ گزر جانے کے بعد اس کا ذکر کرنے سے دوسروں کو وہ بہت معمولی لگتا ہے مگر جس پر بیتتی ہے وہی جانتا ہے مَیں تو وہاں سے قیمہ قیمہ ہو کر نکلی ہوں کوئی کیسے کسی کے درد گن سکتا ہے؟ سر کے بالوں برابر درد ہیں میرے....‘‘ یہ کہہ کر جیسے وہ ہار گئی اور زور زور سے رونے لگ گئی.... مَیں اٹھی اس بے حد دکھی اور سچی لڑکی کو سینے سے لگایا اور اندر جا کر تین سو روپے مقصود کے علاج کے لئے لائی اور اسے کہا، ’’جاؤ ثریا بانو اپنے بچوں کے پاس جاؤ تم تھک گئی ہو.... جا کر آرام کرو جب اٹھو گی تو شام کو میرے پاس آجانا مَیں مزید بھی تمہاری مدد کروں گی.... تم مجھے بہن جیسی پیاری ہو.... خدا تمہیں سکھ دے!‘‘
اس نے میری کسی بات کا کوئی جواب نہ دیا سر جھکائے بیٹھی رہی جیسے کوئی ماتم کی چٹائی پر بیٹھا ہو.... مَیں رقم اس کے پلو میں باندھ کر کمرے میں چلی آئی اور کمرے میں آتے ہی بے دم ہو کر پلنگ پر گر پڑی اتنے بڑے بڑے سچ اور اتنی بڑی بڑی قبیح حقیقتیں سن کر شاید مَیں ضبط کرکے کھڑی رہی تھی کیونکہ مَیں کمرے میں آکر ایک تار ایک دھار رو رہی تھی آج میرا دل، میرا دماغ، میرے حوصلے تمام تر علم اس چھوٹی سی جاہل اور حقیر لڑکی کے سامنے قطعی طور پر ہیچ تھا۔ مَیں مکمل طور پر شکست کھا چکی تھی۔ مَیں اس کی کسی بات کا کسی سوال کا جواب نہ دے سکی تھی!
شام کو مَیں ایک ہارے ہوئے مہرے کے برابر تھی۔ تھکے ہوئے قدموں سے اٹھی اور جاکر اس برآمدے میں جھانکا جہاں کچھ گھنٹے پہلے ثریا بانو بیٹھی تھی اور مَیں اگلے ہی لمحے ہکا بکا کھڑی تھی میرے سو سو کے تین نوٹ گلاس کے پیندے کے نیچے رکھے تھے اور ثریا جا چکی تھی.... وہ شاید ٹھیک کہتی تھی جس غیرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ یہاں سے بھی خالی ہاتھ اٹھ گئی تھی وہ کہتی تھی خدا خود براہ راست اس پر رحم کرے وہ انسانوں سے بالواسطہ رحم قبول نہیں کرے گی.... اور مَیں سوچ رہی تھی ہاں وہ سچی تھی کہ دنیا کے لئے اس کی تمام باتیں بہت معمولی اور یہ خبر بہت چھوٹی ہوگی کہ ایک غریب بے کس عورت کو اس کے مالک نے چھ بچوں سمیت چھوڑ دیا ہے.... دنیا کا نظام اسی طرح چلتا رہے گا.... خدا جانے ثریا کہاں گئی ہوگی؟ اپنی جوانی اور چھ وجودوں کو کیسے سنبھالے گی؟ یہ ساری بات میرے لئے معمولی بات نہ تھی....
میرا جی چاہنے لگا اے کاش آج مجھ میں کہیں سے اتنا ڈھیر سارا حوصلہ آجائے کہ خود سے کہہ سکوں.... چلو چھوڑو زہرہ بیگم اٹھو جا کر وی سی آر پر کوئی عمدہ سی فلم دیکھ لو.... کیوں ہلکان ہوتی ہو؟ یہ باتیں تو معمولی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں لیکن اس دن سے لے کر آج تک یہ معمولی سی بات میں خود سے نہیں کہہ سکی ہوں.... نہ ہی وی سی آر پر فلم دیکھ کر خود کو بہلا سکتی ہوں۔ میری خوشیوں اور مسکراہٹ کو تالے لگا گئی ہے وہ.... معمولی باتیں کرنے والی!