• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : شکوہ

Updated: November 21, 2023, 12:42 PM IST | Khan Shaista Aqeel | Mumbai

’’امی چاچی دیکھیں تو وہاں اس دکان پر اتنی بھیڑ کیوں ہے؟ لگتا ہے دکان والا ڈسکاؤنٹ دے رہا ہے۔‘‘ آمنہ نے تجسس سے کہا۔ ’’نہیں، آمنہ لگتا ہے کسی کا جھگڑا ہو رہا ہے۔‘‘ رشیدہ نے دکان کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ارے بچے کہاں ہیں؟‘‘

Photo: INN
تصویر : آئی این این

’’گلابی والی میری۔‘‘ زینب نے ’اس‘ پر نگاہ پڑتے ہی ایک سیکنڈ کی بھی دیری کئے بغیر جھٹ سےکہا۔ ’’نہیں پہلے میری نگاہ اس پر پڑی تھی۔‘‘ زینب کے کہنے کے ٹھیک آدھے سیکنڈ بعد حیا نے حق جتاتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن پہلے میں نے دل میں سوچا تھا کہ گلابی والی میں لوں گی۔‘‘ زینب نے چڑ کر کہا۔ ’’اور پہلے میرے دماغ نے مجھ سے کہا تھا کہ گلابی والی مجھے لینا چاہئے۔‘‘ حیا نے خفگی سے کہا۔ ’’دل، دماغ اور آنکھوں سے زیادہ زبان اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور پہلے مَیں نے زبان سے کہا تھا کہ گلابی والی مَیں لوں گی.... تو بس گلابی والی میری مطلب میری....‘‘ زینب نے جیسے فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
٭ ٭ ٭
 ’’امّی.... امّی.... سنيں تو....‘‘ تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی میمونہ کے پیچھے تقریباً بھاگتی ہوئی آمنہ نے زور سے پکارا۔ میمونہ رک گئی اور ہانپتے ہانپتے مڑ کر اپنے پیچھے آتی ہوئی آمنہ اور رشیدہ کو دیکھا۔ ’’بیٹا! اب سننے اور رکنے کا وقت ہی کہاں ہے۔ صرف پانچ دن رہ گئے ہیں اور تیاریاں ہیں کہ مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔‘‘ میمونہ نے اپنے چہرے پر آتے ہوئے پسینے کو صاف کرتے ہوئے کہا، ’’بس بھابھی! آپ نے تو آمنہ کی شادی کو سر پر ہی سوار کرلیا ہے۔ اپنی حالت تو دیکھیں ، آپ نے تو شادی کی تیاریوں میں اپنی حالت ہی خراب کرلی۔ آپ یوں لگ رہی ہو جیسے کئی دنوں کی بیمار۔‘‘ رشیدہ نے فکر مند اور پریشان ہوتے ہوئے میمونہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ’’بالکل صحیح کہا آپ نے۔ رشیدہ چاچی میں بھی امّی کو کئی دن سے یہی سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن امی سمجھتی ہی نہیں ہے۔‘‘ آمنہ نے کہا۔ ’’بیٹا! جب تم ماں بن جاؤگی نا اور جب تمہاری بیٹی کی شادی ہوگی تب تمہاری سمجھ آئے گی کہ ایک ماں کے لئے بیٹی کی شادی کیسا پہاڑ ہوتی ہے اور اگر میں زندہ رہی تو تب تم سے پوچھو گی کہ بیٹا آمنہ اب آئی سمجھ....‘‘ وہ تینوں کھلکھلا کر ہنس دیں ۔ اور میمونہ کے چہرے پر اب بڑھاپا دستک دینے لگا تھا اور پچھلے کئی ہفتوں سے فکر اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ آمنہ نے جب ماں کو یوں کھلکھلا کر ہنستا دیکھا تو ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی جسے چھپانے میں وہ جلد ہی کامیاب ہو گئی۔
٭ ٭ ٭
 ’’السلام علیکم! میمونہ بھابھی، السلام علیکم رشیدہ اور بیٹا آمنہ کیسی ہو؟‘‘ شہناز نے ایک ہی سانس میں تینوں کی خیر خبر لے لی۔ ’’وعلیکم السلام، آپ کیسی ہو؟‘‘ رشیدہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’بس اللہ کا کرم ہے۔‘‘ شہناز نے کہا۔ بازار میں خریداری کرتے ہوئے وہ تینوں اب تھک چکی تھیں اس لئے ایک درخت کے سائے میں بنے بینچ پر بیٹھی ہی تھیں کہ وہاں ان کی پرانی پڑوسن شہناز انہیں دیکھ کر ان کے پاس آگئی۔ ’’اور محلے میں سب ٹھیک ہے؟‘‘ شہناز نے میمونہ کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ ’’جب سے تم نے محلہ چھوڑا ہے، محلے سے تو جیسے رونق ہی چلی گئی۔‘‘ میمونہ نے شہناز کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔ ’’اب کیا کرے وہ گھر ہی اتنا چھوٹا تھا کہ بدلنا پڑا ورنہ تو ہمارا بالکل دل نہ تھا وہ محلہ چھوڑنے کا۔‘‘ شہناز نے عذر بیان کرتے ہوئے کہا۔ ’’اور آپ لوگ سنائیں ، لگتا ہے آج تینوں خریداری کرنے نکلی ہیں ۔‘‘ شہناز نے ان کے ہاتھوں میں تھمے ہوئے شاپرز دیکھ کر پوچھا۔ ’’ہاں ، ہماری آمنہ کی شادی کی تیاریاں چل رہی ہیں ۔‘‘ رشیدہ نے مسکرا کر جواب دیا۔ ’’ماشاء اللہ....‘‘ شہناز نے مسکرا کر آمنہ کی طرف دیکھا اور آمنہ نے شرما کرنظر یں جھکا کر مسکرا دی۔ ’’اچھا، کب ہے ہماری آمنہ بیٹی کی شادی؟‘‘ شہناز نے پوچھا۔ ’’۱۳؍ اکتوبر کو ہے اور دیکھو آج ۸؍ تاریخ آگئی، صرف پانچ دن رہ گئے ہیں اور تیاریاں باقی ہیں ۔‘‘ میمونہ نے پھر پریشان ہوتے ہوئے کہا۔ ’’بھابھی، آپ اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھئے، ان شاء اللہ سب اچھے سے ہو جائیگا۔‘‘ رشیدہ نے میمونہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ’’ٹھیک ہے، بھابھی میں چلتی ہوں ۔‘‘ شہناز نے اجازت چاہی اور خدا حافظ کہتی ہوئی چلی گئی۔ ’’دیکھا! امی میں آپ سے کہہ رہی تھی نا کہ مجھے بازار ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں ۔ اب شہناز خالہ سب کو کہتی پھریں گی کہ دلہن خود اپنی شادی کی خریداری کرتی پھر رہی ہے اس لئے مَیں آپ لوگوں کے ساتھ آنے سے منع کر رہی تھی۔‘‘ آمنہ نے ماں سے شکوہ کیا۔ ’’جسےجو کہنا ہے کہنے دو، لوگوں کا تو کام ہی ہے کہنا، میں تو صرف یہ چاہتی ہوں کہ ہر چیز میری بیٹی کی پسند کے مطابق ہو میرے لئے تمہاری خوشی سب سے زیادہ اہم ہے۔‘‘ ماں کے چہرے کی جھریوں پر سے پھسلتے پسینے کو دیکھ کر اس بار آمنہ اپنی آنکھوں کی نمی چھپا نہ سکی۔
٭ ٭ ٭
 آمنہ دس سال کی تھی، جب ایک شام محمود صاحب انہیں ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ گئے۔ میمونہ نے اپنی بیوگی کے غم کو اپنے بچوں کی پرورش میں بھلانے کی کوشش کی۔حسن نے بڑا بھائی ہونے کا فرض خوب نبھایا۔حفصہ اور آمنہ کو کبھی باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ محمود صاحب کے انتقال کے بعد حفصہ اور حسن دونوں بہن بھائیوں کی شادیاں ہو گئیں اور ان سب کی زندگی اب معمول پر آگئی تھی۔ اللہ نے حسن کو ماں اور بہنوں کی دعاؤں کے بدلے دو کلیاں زینب اور حیا کی صورت میں عطا فرمائی تھیں ۔ وہ دن ان کے گھر میں جیسے دنیا جہان کی خوشیاں سمیٹ لایا تھا جب شادی کے چھ سال بعد حسن اور اسماء کو اللہ نے جڑوا بیٹیوں سے نوازا تھا۔ میمونہ ان کی بلائیں لیتی نہ تھکتی تھیں ۔ اب وہ دونوں ہی اس کی زندگی کا مقصد بن گئی تھی۔ وہ انہیں دیکھ کر اپنے سارے غم بھول جاتی اور آمنہ کی تو جان تھی ان دونوں میں ۔
 وہ دونوں بلا کی خوبصورت تھیں ۔ بڑی بڑی سیاہ آنکھوں پر پہرہ دیتی ہوئی لمبی لمبی گھنی پلکیں ، نازک سے ہونٹ اور سنہرے بال۔ یوں جیسے دو پھو ل ہوں ان کی ہر چیز بالکل ایک جیسی ہوتی۔ ان کے کھلونے، ان کے کپڑے،ان کے جوتے ہر چیز۔ جب وہ دونوں چار سال کی ہوئیں تو انہیں اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ زینب حسن اور حیا حسن دونوں نہایت ذہین ثابت ہوئیں ۔ لیکن ذہانت کے ساتھ ساتھ شرارت بھی ان دونوں میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی، پورا محلہ ان سے بیزار تھا۔ دونوں کی صرف ایک ہی کمزوری تھی ’’گلابی رنگ‘‘ انہیں ہر وہ چیز پسند تھی جو گلابی رنگ کی ہو جب وہ دونوں گھر سے نکلتی تو محلے کے بچے ان کے خوف سے گھروں میں گھس جاتے، ان کے ڈر سے محلے کے بچوں نے گلابی رنگ کی چیزیں اور کپڑے وغیرہ استعمال کرنا چھوڑ دیا تھا۔ گلی کی عورتیں میمونہ اور اسماء کے پاس ان کی شکایتیں لاتیں اور وہ دونوں سر پکڑ کر رہ جاتیں ۔
٭ ٭ ٭
 ’’امی چاچی دیکھیں تو وہاں اس دکان پر اتنی بھیڑ کیوں ہے؟ لگتا ہے دکان والا ڈسکاؤنٹ دے رہا ہے۔‘‘ آمنہ نے تجسس سے کہا۔ ’’نہیں ، آمنہ لگتا ہے کسی کا جھگڑا ہو رہا ہے۔‘‘ رشیدہ نے دکان کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ارے بچے کہاں ہیں ؟‘‘ اچانک میمونہ کو زینب اور حیا کا خیال آیا جو ان سے تھوڑی دیر پہلے کہہ کر گئی تھی کہ آگے والی دکان پر گڑیا دیکھنے جا رہی ہیں ۔
٭ ٭ ٭
 وہ تینوں بھیڑ کو چیرتی ہوئی آگے بڑھیں ۔ سامنے کا منظر دیکھ کر سارا ماجرہ سمجھ گئی گلابی رنگ کی وہ ’گڑیا‘ کبھی زینب کے تو کبھی حیا کے ہاتھ میں جھول رہی تھی۔ ’’میں لوں گی....‘‘ ’’نہیں میں لوں گی۔‘‘ ’’میں ....‘‘ ’’میں ....‘‘ وہ دونوں ایک ہی بات پر اڑی ہوئی تھی اور اپنی دادی کو دیکھا تو کچھ شرمندہ سی ہوگئی اور ایک دوسرے کی شکایت کرنے لگی۔ چھ سالہ زینب اور حیا گلابی رنگ کی فراک پہنے گلابی گھڑی، گلابی ہیئر بیلٹ اور گلابی رنگ کے وہ پرس دونوں کے کندھوں پر جھول رہے تھے ساتھ ہی گلابی رنگ کے جوتے ان کے پیروں کی زینت بنے ہوئے تھے۔ جوتوں کو دیکھ کر آمنہ کو پچھلے مہینے کی وہ بات یاد آگئی جب دونوں نے اسکول سے واپسی پر گھر کے پاس کی کسی دکان پر گلابی رنگ کے جوتے دیکھ کر انہیں حاصل کرنا ہی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا۔ وہ شام میں حسن کے آتے ہی ان جوتوں کی فرمائش کرتے ہوئے اسے دکان پر ہاتھ پکڑ کر لے گئی لیکن اتفاق ہوا یوں کہ ان کے ناپ کے گلابی رنگ کے جوتوں کا صرف ایک ہی جوڑ اس دکان میں موجود تھا۔یعنی ایک انار اور دو بیمار، پھر ہوا وہی جو ہمیشہ ہر گلابی چیز کو دیکھ کر دونوں کے درمیان ہوتا تھا۔ آخر کار ایک گھنٹے کی طویل جنگ کے بعد فتح حیا کو نصیب ہوئی اور دکان والے نے زینب سے وعدہ کیا کہ دو چار روز میں وہ ایسا ہی جوڑ اسے بھی لا کر دے گا۔ لیکن دکان والے کو کیا پتا تھا کہ اس نے زینب سے وعدہ نہیں کیا بلکہ اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری تھی۔

اب دوسرے دن دکان کے کھلتے ہی زینب وہاں پر موجود تھی اور ہاتھ باندھے یوں کھڑی تھی جیسے اپنا دیا ہوا قرض وصول کرنے آئی ہو ۔دکاندار نے تو یوں ہی دو چار روز کا وعدہ کر لیا تھا اسے کیا پتہ تھا کہ اس کی شامت آئی ہے۔ اس نے مسکرا کر زینب سے کہا کہ ان شاء اللہ کل اسے جوتے مل جائیں گے اور اب تیسرے دن بھی زینب وہاں موجود تھی اور ان تین دنوں میں زینب اس دکان پر کئی مرتبہ حاضری دے چکی تھی۔ اور آخر کار تیسرے دن سولہویں مرتبہ جب زینب دکان میں داخل ہوئی تب دکاندار نے گھبرا کر گلابی رنگ کے جوتوں کا جوڑ اس کے سامنے رکھ دیا اور انہیں پہنے حسن کا ہاتھ پکڑے وہ گھر میں یوں داخل ہوئی جیسے اس نے دنیا فتح کر لی ہو۔
 کسی کے دھکے سے آمنہ ماضی سے حال میں آئی۔ اب وہاں کھڑا ہر شخص اس بات کا منتظر تھا کہ آخر اس گلابی گڑیا والے مقدمے کا فیصلہ کس کے حق میں ہوتا ہے۔ ہر کوئی تجسس اور دلچسپی سے یہ سارا معاملہ دیکھ رہا تھا آخر کار میمونہ کے بہت سمجھانے پر حیا نے پیلی گڑیا پر اکتفا کر لیا اور فیصلہ زینب کے حق میں ہوا۔ وہ خوشی سے پھولی نہیں سمائی۔ اب لوگوں کا مجمع چھٹنے لگا تھا جیسے کسی سرکس کے شو کے ختم ہونے کے بعد کا منظر ہوتا ہے۔
 ’’مجھے پتہ تھا کہ یہ گلابی گڑیا مجھے ہی ملنی تھی کیونکہ مَیں بڑی ہوں اس لئے اس پر میرا زیادہ حق ہے۔‘‘ زینب نے رعب سے کہا۔
 ’’شاید، تم بھول رہی ہو زینب کہ ہماری عمروں میں صرف پانچ منٹ کا فرق ہے پانچ صدیوں کا نہیں ۔‘‘ حیا نے چڑ کر کہا۔
 ’’جو بھی ہو فرق تو ہے نا۔‘‘ زینب نے اترا کر کہا۔ ’’ویسے گلابی اتنی اچھی نہیں لگ رہی جتنی پیلی۔‘‘ حیا نے منہ بناتے ہوئے کہا جیسے وہ اس جملے کا استعمال اپنے زخموں پر مرہم لگانے کیلئے کر رہی ہو۔ ’’انگور کھٹے ہیں ، گلابی والی گڑیا زیادہ اچھی لگ رہی ہے۔‘‘ زینب نے ہنس کر کہا۔
٭ ٭ ٭
 اب وہ دکان میں لگی ہوئی ٹی وی کی طرف متوجہ ہوئیں جس میں خبریں آرہی تھیں اور بتایا جا رہا تھا کہ گزشتہ کل یعنی ۷؍ اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر ہونے والے حملے کے جواب میں اسرائیل انتقامی کارروائی کرسکتا ہے۔ اور عوام کو آگاہ کیا جا رہا تھا کہ اسرائیل جوابی حملوں کی صورت میں بمباری کر سکتا ہے۔
 ’’دادی کیا بم گرنے سے سب اللہ کے پاس چلے جاتے ہیں ۔‘‘ زینب نے میمونہ کا برقع پکڑتے ہوئے پوچھا۔ ’’نہیں بیٹا بم سے کچھ نہیں ہوتا اللہ کے پاس تو وہی جاتے ہیں جن کا وقت دنیا میں ختم ہو جاتا ہے اور جنہیں اللہ اپنے پاس بلانا چاہتا ہے۔‘‘ میمونہ نے اپنے چہرے کی دہشت کو چھپاتے ہوئے کہا۔ ’’بھابھی اب وقت بہت ہو گیا ہے۔ اب گھر چلتے ہیں ۔‘‘ رشیدہ پریشان ہوتے ہوئے بولی۔
٭ ٭ ٭
 وہ پانچوں اب اپنی منزل مقصود کی طرف جا رہی تھی۔ زینب اور حیا اب ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے دنیا جہان سے بیگانی کل اسکول میں کی جانے والی نئی شرارتوں کی پلاننگ کر رہی تھیں ۔ ان کی یہ عادت سب سے اچھی تھیں یہ جتنی جلدی ایک دوسرے سے روٹھتی تھیں اتنی ہی جلدی مان بھی جاتی تھیں ۔ میمونہ اور رشیدہ شام کے کھانے کے بارے میں مشورہ کر رہی تھیں اور آمنہ آج خریدی جانے والی ہر چیز کو لے کر نئے خواب بننے میں مشغول تھی۔ فون کی آواز نے آمنہ کے خیالوں کے تسلسل کو توڑا۔ حسن کی کال تھی آمنہ نے ریسیو کی۔ ’’تم لوگ کہاں ہو؟ وقت بہت ہو گیا ہے، اب گھر آ جاؤ۔ باقی خریداری کل کر لینا۔‘‘ حسن نے کہا۔ ’’ہاں بھائی بس ہم لوگ آ ہی رہے ہیں ۔‘‘ اچانک ایک دھماکہ ہوا پھر دوسرا.... پھر تیسرا... ایک کے بعد ایک لگاتار کئی بم اسرائیل کی طرف سے غزہ پر داغے گئے تھے۔ وہ بازار جو تھوڑی دیر پہلے سیکڑوں کھلکھلاہٹ، ہزاروں حسرتیں اور لاکھوں مسکراہٹیں سمیٹے ہوئے تھا، اب آہ و بکا کا مقام بن گیا تھا۔ ہر طرف بھاگ دوڑ مچ گئی اور چیخیں بلند ہونے لگیں ۔ گھبراہٹ، خوف، دہشت، بدحواسی، بے بسی، بے یقینی، حیرانی اور پتہ نہیں کیا کیا تھا جو زینب کی آنکھوں سے آنسوؤں کی شکل میں بہہ رہا تھا۔ ’’حیا، حیا.... دادی، دادی.... آمنہ پھو پھو.... کہاں ہیں آپ سب لوگ....‘‘ زینب اپنے زخمی وجود کو سمیٹے ہوئے، اپنی گلابی گڑیا کو پوری قوت سے تھامے ہوئے دیوانہ وار اپنے عزیزوں کو تلاش کر رہی تھی لیکن اسے کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ گھبراتے ہوئے ادھر سے ادھر بھاگ رہی تھی تب ہی اس کی نظر ایک ملبے کے نیچے دبے ہوئے گلابی جوتوں پر پڑی وہ پاگلوں کی طرح بھاگ کر وہاں پہنچی اور اپنے لرزتے وجود اور زخمی ہاتھوں سے ملبے کے پتھروں کو ہٹانے لگی جن کے نیچے حیا کا وجود خاموش پڑا تھا۔ ’’حیا، اٹھو حیا....‘‘ وہ حیا کو جھنجوڑ رہی تھی۔ حیا کے ہونٹوں سے خون نکل رہا تھا۔ اس کی ایک آنکھ میں حرکت ہوئی جبکہ دوسری آنکھ کی جگہ صرف جما ہوا خون تھا، وہ بری طرح زخمی تھی اور تکلیف سے کراہ رہی تھی۔ حیا نے ایک آنکھ سے زینب کو دیکھتے ہوئے مسکرایا۔ زینب کے بے جان وجود میں جیسے جان آگئی۔ اب حیا کی وہ ایک آنکھ بھی بار بار بند ہو رہی تھی اور حیا ہر بار اسے کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔ زینب کی دھڑکن اب تیز ہونے لگی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ ’’حیا چلو، ہم اسپتال چلتے ہیں ۔‘‘ ’’نہیں زینب اب اسپتال جانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ تمہیں یاد نہیں دادی نے کیا کہا تھا کہ جس کا وقت اس دنیا میں ختم ہو جاتا ہے وہ اللہ کے پاس چلا جاتا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ میرا وقت اب پورا ہو گیا ہے۔‘‘ حیا نے نم آنکھوں سے کہا۔ زینب کا وجود اب کانپنے لگا تھا۔ ’’میری تمام گلابی چیزیں ، کھلونے، کپڑے اور ہر وہ چیز جو تمہیں پسند ہو اب تم لے لینا۔‘‘ حیا نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔ ’’زینب تم سچ کہتی ہو گلابی گڑیا پیلی گڑیا سے زیادہ پیاری ہے۔‘‘ زینب کی گود میں رکھی ہوئی اس گلابی گڑیا کو دیکھتے ہوئے حیا نے کہا اور اب حیا نے اس گلابی گڑیا کو ہاتھ میں لیا اور حسرت سے اسے دیکھتے ہوئے اپنے سینے سے لگا لیا اور ہنستی، کھلکھلاتی،زندہ دل، ماں باپ کے دل کا سکون اور دادی کی آنکھوں کی ٹھنڈک اب پوری طرح سرد ہو چکی تھی۔ زینب پاگلوں کی طرح بار بار اسے آوازیں دینے لگی، ’’حیا.... حیا.... اٹھو حیا.... تم یہ گڑیا لے لو، میرے سارے کھلونے لے لو، میری ساری گلابی چیزیں لے لو، مگر آنکھ کھولو حیا.... پلیز حیا.... آنکھ کھولو....‘‘
٭ ٭ ٭
 ہرطرف ایمبولنس کے سائرن بج رہے تھے، سورج ڈوبنے کو تیار کھڑا تھا اور چاند اس کے ڈوبنے کا منتظر تھا۔ اب دھیرے دھیرے اندھیرا گہرا ہو رہا تھا۔ زینب کتنی ہی دیر سے وہاں حیا کا سر اپنی گود میں رکھی بیٹھی تھی۔ زینب بار بار کہہ رہی تھی کہ، ’’مَیں بڑی ہوں نا حیا.... مَیں تم سے پورے پانچ منٹ بڑی ہوں ۔ تم اللہ کے پاس پہلے کیسے پہنچ گئی پہلے مجھے جانے دیا ہوتا۔‘‘ وہ اس ملبے کے ڈھیر پر بیٹھے حیا کے بے جان وجود کے ساتھ نہ جانے کیا کیا باتیں اور کیا کیا شکوے کر رہی تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK