کسی نے چپت لگائی تھی اسمارہ کے سر پر۔ اسمارہ نے سر اٹھا کے پیچھے دیکھا تو عاصم کھڑا اُسے کہہ رہا تھا، ’’پھر کیا پتہ ہے تمہیں.... مس اسمارہ بجھا ہوا تارہ۔‘‘ ’’تم نے مجھے مارا کیوں عاصم کے بچے۔‘‘ اسمارہ نے غصے سے بولا۔ ’’تو کیا تمہیں ایوارڈ دوں لا علمی کا....‘‘ عاصم نے جواب دیا۔ ’’لاعلمی کا؟‘‘ اسمارہ نے بات دہرائی۔
اسمارہ کی نیند صبح الارم کی آواز سے بیدار ہوئی تھی۔ اُس نے الارم بند کرنے کے لئے فون اٹھایا تو عاصم کی تین مسڈ کال اور ایک ایس ایم ایس پڑا ہوا تھا۔ اُس نے چیک کیا تو بے اختیار منہ سے نکلا ’’بدتمیز نہ ہوتا تو....‘‘ فون بیڈ پر پھینکتے ہوئے اٹھی اور باتھ روم میں چلی گئی۔ واپس آئی تو یونیورسٹی جانے کے لئے تیار تھی۔ آئینے کے آگے ہمیشہ کی طرح خود کو تیار کیا بال بنائے۔ بیگ میں کتابیں ، فائل، کاپیاں وغیرہ رکھا اور ایک نظر خود کو اچھی طرح دیکھا اور مسکرا دی ’’بہت خوصورت....‘‘
زینہ اترتے ہوئے نیچے آگئی۔ ’’امی ناشتہ دے دیں جلدی، دیر ہو رہی ہے۔ امی! کہاں ہیں آپ.... امی!‘‘ امی کچن سے ہاتھ میں ناشتہ لاتے ہوئے کہتی ہیں ، ’’اتنی ہی دیر ہو رہی ہے تو جلدی اٹھنا تھا نا تب تو پڑی سو رہی تھی۔ نماز پڑھی ہے تم نے اج؟‘‘ ’’جی امی! آپ تو جانتی ہیں مَیں نماز پڑھ کے سو جاتی ہوں ۔ کیا کروں نیند ہی نہیں پوری ہوتی....‘‘ اسمارہ نے بیچارہ سا منہ بنا کر کہا۔ ’’رات رات بھر جاگ کر پروجیکٹ بناؤ گی تو یہی ہوگا نا۔‘‘ ’’جانے دیں امی! شکر خدا کا مکمل تو ہو گیا ہے۔ آپ دعا کریں کہ پروجیکٹ اچھا جائے۔‘‘ ’’ہاں کیوں نہیں اتنی محنت کی ہے میری بیٹی نے۔ تمہاری محنت ضرور رنگ لائے گی، ان شاء اللہ۔‘‘ ` امی نے پیار کرتے ہوئے کہا ۔ ’’اچھا امی خیال رکھئے گا اور دعا کیجئے گا، اللہ حافظ۔‘‘ امی سے گلے لگتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا اچھا خیر سے جاؤ.... سب اچھا ہوگا۔‘‘ امی نے دعا دیتے ہوئے کہا۔
اسمارہ یونیورسٹی پہنچی تو اس کے دوست اکٹھے ہی بیٹھے تھے شاید اسی کا انتظار کر رہے تھے ۔ اُن میں سے عاصم نے سب سے پہلے اسے دیکھ لیا تھا آتے ہوئے۔ دیکھتا بھی کیوں نا.... بڑی بے صبری سے انتظار کر رہا تھا اس کا۔ اٹھا اور بھاگتا ہوا اُس کے سر پر سوار ہو گیا۔ ’’فون کہاں ہے تمہارا؟‘‘ ’’کیوں ، کیوں چاہئے تمہیں میرا فون؟‘‘ اسمارہ نے جواب دیا۔ ’’کال کی تھی اٹھایا کیوں نہیں تم نے، کیا کر رہی تھی؟‘‘ خبر لینے والے انداز میں عاصم نے سوال کیا۔ ’’تم سے مطلب، کچھ بھی کروں ۔‘‘ اسمارہ نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔ عاصم نے نچلا لب کاٹتے ہوئے گھور کے دیکھا۔ اسمارہ نے بڑی خاموشی سے بیگ سے فائلیں نکالی اور اس کی طرف بڑھا دیں ۔ عاصم نے فائلیں لیتے ہوئے اسے کہا، ’’آئندہ مجھ سے اس طرح بات نہیں کرنا، نہیں تو پھوپھو کو شکایت لگا دوں گا مَیں ۔‘‘ اور تم بھی آئندہ اپنا کام خود کرنا ورنہ مَیں ماموں کو شکایت لگا دوں گی۔‘‘ ’’اچھا تم یہ کر سکتی ہو؟‘‘ عاصم نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے کہا۔ ’’جی ہاں ! مَیں کرسکتی ہوں ۔‘‘ اسمارہ نے ٹھیک اسی طرح جواب دیا۔ ’’کرکے دکھاؤں ؟‘‘ ’’ٹھیک ہے تمہیں میرے کام کرنا نہیں پسند تو تم بول دو مَیں کسی اور کو ڈھونڈ لوں گا۔‘‘ عاصم نے فائل چیک کرتے ہوئے کہا۔ ’’مَیں نے یہ تو نہیں کہا۔‘‘ اسمارہ نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا ۔ ’’اچھا تو کیا کہا آپ نے وہی بتا دیں ....‘‘ عاصم نے اُس کے آگے جھکتے ہوئے کہا۔ اسمارہ نے ایک نظر اُس کو دیکھا اور بغل سے گزرتی ہوئی چلی گئی۔ عاصم اس کو جاتے ہوئے دیکھ کر مسکرا دیا۔
اسمارہ کلاس سے نکلی تو سامنے ہی عاصم کسی سے بات کرتے ہوئے نظر آگیا۔ اسمارہ نے سوچا، ’’ایسا کون ہے جسے اتنی خوش اخلاقی سے بات کی جا رہی ہے، مجھ سے تو کبھی اتنے نرم لہجے میں بات نہیں کرتا۔‘‘ کچھ دیر دیکھتی رہی پھر انہی سوچوں میں گم آگے بڑھ گئی۔
انابیہ کے ساتھ گراؤنڈ میں بیٹھی نوٹس بنا رہی تھی تبھی وہاں سے عاصم کسی لڑکی کے ساتھ بات کرتے ہوئے گزرا۔ اسمارہ نے دیکھا مگر نظر انداز کر دیا۔ یہ وہی لڑکی تھی جو کلاس سے نکلتے وقت اُس کے ساتھ تھی۔ انابیہ نے اسمارہ کو ہلاتے ہوئے کہا، ’’اسمارہ دھیان کہاں ہے تمہارا؟ کہاں گم ہو، کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ چلو کلاس کا وقت ہوگیا۔ اسمارہ نے ادھر اُدھر دیکھا چہرے سے بال ہٹائے۔ اسی الجھن میں سامان سمیٹ کے کھڑی ہو گئی۔ کلاس میں عاصم کافی پیچھے بیٹھا تھا۔ مگر وہ لڑکی....؟ اس کی نظریں اسی کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔ مگر شاید وہ کہیں پر بھی نہیں تھی۔ کلاس ختم ہوگئی اور وہ گھر چلے گئے۔
آئندہ کچھ روز بھی يوں ہی گزر گئے۔ عاصم نے اسمارہ سے بات نہیں کی نہ ہی اسمارہ نے کوشش کی۔ وہ تھا بھی ایسا ہی۔ کبھی کبھار بات ہو جاتی تھی وہ بھی کسی کام کی وجہ سے، ورنہ کئی کئی دن ان کی بات ہی نہیں ہوتی تھی۔ عاصم ہمیشہ اس کو چھیڑتا رہتا تھا کسی نہ کسی بات پر۔ اسمارہ کو کوئی شکوہ بھی نہیں تھا جانتی تھی وہ ایسا ہی ہے۔
ایک روز انابیہ نے یوں ہی پوچھ لیا، ’’تم لوگ کا کیا بنا اسمارہ؟‘‘ اسمارہ نے نا سمجھی سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا، ’’کیا مطلب کیا بنا؟‘‘ ’’ارے مطلب تمہاری شادی نہیں ہونے والی تھی عاصم کے ساتھ....‘‘ اسمارہ نے منہ نیچے کرکے ہاں میں سر ہلایا۔ ’’تو کیا ہوا پھر، بات آگے نہیں بڑھی؟‘‘ انبیاء نے سوال کیا۔ ’’پتا نہیں کیا بنا اور کیا بنے گا، مجھے خود نہیں پتا۔ ایسے ہی ایک دفعہ بات ہوگئی تھی ہمارے گھر والوں کے درمیان، پتہ نہیں شاید یوں ہی ہو گئی ہو غیر ارادہ۔‘‘
کسی نے چپت لگائی تھی اسمارہ کے سر پر۔ اسمارہ نے سر اٹھا کے پیچھے دیکھا تو عاصم کھڑا اُسے کہہ رہا تھا، ’’پھر کیا پتہ ہے تمہیں .... مس اسمارہ بجھا ہوا تارہ۔‘‘ ’’تم نے مجھے مارا کیوں عاصم کے بچے۔‘‘ اسمارہ نے غصے سے بولا۔ ’’تو کیا تمہیں ایوارڈ دوں لا علمی کا....‘‘ عاصم نے جواب دیا۔ ’’لاعلمی کا؟‘‘ اسمارہ نے بات دہرائی۔ ’’ہاں لاعلمی کا....‘‘ عاصم نے اسمارہ کی پونی کھینچتے ہوئے کہا۔ اسمارہ نے اپنے بال ٹھیک کرتے ہوئے بولا، ’’اب تم کروا لینا اپنا کوئی بھی کام، کر دوں گی مَیں اچھے سے....‘‘ اسمارہ کو شدید غصہ آیا۔ ’’تم دونوں بس کرو گے یا مَیں جاؤں ؟‘‘ انابیہ نے تنگ آ کر کہا۔ ’’تم پاگل ہو جاؤ عاصم نیاز بیگ اور تمہارا پورا....‘‘ اسمارہ کہتے کہتے رك گئی۔ ’’ہاں ہاں ... بولو نا، رک کیوں گئی، میں پاگل ہو جاؤں میرا پورا خاندان پاگل ہو جائے ۔ یہی کہنا چاہ رہی ہو نا تم.... اسمارہ عباس نقوی....‘‘ عاصم نے بھی ویسے ہی جواب دیا تھا۔ ’’بس کرو عاصم میرا وہ مطلب نہیں تھا۔‘‘ اسمارہ نے اُسے چپ کرواتے ہوئے کہا۔ ’’کیوں بس کروں مَیں ....‘‘ ’’تمہارا جو دل چاہے تم بولو اور مَیں بس کروں ۔ وائے اسمارہ بجھا ہوا تارہ....‘‘ ’’عاصم! میں کہہ رہی ہوں چپ ہو جاؤ۔ تماشا نہ بناؤ یہاں ، سب ہمیں ہی دیکھ رہے ہیں ۔‘‘ عاصم پھر بھی چپ نہ ہوا تو اسمارہ نے زور سے اس کا کالر پکڑ کے دھکا دیتے ہوئے دیوار سے لگایا، اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ’’مَیں کہہ رہی ہوں چپ کر جاؤ عاصم، تمہیں سمجھ کیوں نہیں آ رہی ہے ایک بات....‘‘ عاصم واقعی میں چپ ہو گیا، بالکل چپ۔ جیسے وہ ابھی ہی ہوش میں آیا تھا۔ وہاں واقعی میں تھوڑی دیر میں مجمع لگ گیا تھا جسے انابیہ ہٹا رہی تھی اور ان دونوں کو بھی تماشا ختم کرنے کے لئے کہہ رہی تھی۔ اسمارہ نے اس کا کالر چھوڑ دیا پیچھے ہٹ گئی۔ اُس نے اپنا سامان سمیٹا اور انابیہ کے ساتھ چل دی۔ وہ اُس سے دور جا رہی تھی اور وہ اسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ عاصم کو اُس کے اس رویے پر حیرانی ہو رہی تھی۔
اسمارہ چائے پی رہی تھی گھر کے لان میں تبھی دروازہ پر دستک ہوئی۔ اس نے اٹھ کے گیٹ کھولا تو عاصم کھڑا تھا ۔ اُسے حیرانی ہوئی کافی دنوں بعد گھر آیا تھا مگر آج؟ ’’کیا کوئی بھوت دیکھ لیا ہے جو اتنا بھیانک منہ بنا رہی ہو۔ اندر آنے کے لئے نہیں کہوگی؟‘‘ اسمارہ پھر بھی اُسے ایک ٹک دیکھے جا رہی تھی۔ ’’ایسا ہے تم مورت بنی کھڑی رہو، مَیں خود ہی چلا جاتا ہوں ۔‘‘ کہتے ہوئے اندر آ گیا۔ ’’کون ہے بیٹا؟‘‘ امی نے پوچھا۔ ’’مَیں ہوں پھوپھو آپ کا بھانجا۔ السلام علیکم پھوپھو کیسی ہیں آپ؟‘‘ کہتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گیا۔ ’’وعلیکم السلام، ٹھیک ہوں بیٹا الحمدللہ! بہت دنوں کے بعد آئے؟‘‘ پیچھے مڑ کے دیکھا تو اسمارہ آرہی تھی۔ ’’جاؤ، عاصم کے لئے بھی چائے لے آؤ۔‘‘ امی نے کہا۔ ’’جی امی لاتی ہوں ۔‘‘ کہتی ہوئی اسمارہ یونہی سوچوں میں گم آہستہ آہستہ جانے لگی۔ ’’ساتھ میں اسنیکس وغیرہ بھی.... اچھا!‘‘ یہ آواز عاصم کی تھی۔ اُس نے مڑ کے دیکھا اور حیران ہوئی جتنا ہوسکتی تھی۔ یہ شخص بالکل وہ نہیں تھا جسے یونیورسٹی میں اس نے چپ کروایا تھا۔ ’’کیا دیکھ رہی ہو کبھی اتنا ہینڈسم لڑکا نہیں دیکھا کیا؟‘‘ عاصم نے اُسے ہمیشہ کی طرح تنگ کیا تھا اور وہ پلٹ کر پیر پٹکتی ہوئی چلی گئی۔ اسمارہ سوچوں میں گم تھی کہ آج کے رویے کے لئے اُس سے معافی مانگے یا....؟تبھی وہاں عاصم آ پہنچا، ’’ تمہاری چائے نہیں بنی ابھی تک۔‘‘ اُس نے طنز کیا۔ ’’نہیں کوئی مسئلہ ہے؟‘‘ اسمارہ نے بھی اسی انداز میں کہا۔ ’’نہیں اب تک تو نہیں ہے، آگے کا پتہ نہیں ۔‘‘ عاصم نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’کیا کہنا چاہ رہے ہو؟ صاف صاف کہو۔‘‘ اسمارہ نے جواب مانگا۔ ’’سن سکوگی صاف صاف....‘‘ عاصم اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ’’ہاں بولو، کیوں نہیں سنوں گی۔‘‘ اسمارہ نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’سوچ لو پچھتانا نہ پڑ جائے۔‘‘ عاصم نے ایک قدم اور بڑھایا اس کی طرف۔ ’’ہاااااااں .... سوچ لیا....‘‘ الفاظ ادا کرنے میں دشواری ہو رہی تھی اسمارہ کو۔ ’’مگر تمہاری آواز کو کیا ہو گیا؟‘‘ عاصم نے اس کی طرف جھکتے ہوئے کہا۔ ’’کچھ تو.... کچھ تو نہیں ۔‘‘ بہت ہمت کرکے دھیمی آواز میں اسمارہ نے پیچھے ہوتے ہوئے بولا۔ ’’کیا.... کیا کہا، سنا نہیں میں نے، تم پیچھے کیوں جا رہی ہو؟‘‘ عاصم نے اُس کے قدموں پر نظریں ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’کیونکہ تم....‘‘ بہت مشکل سے الفاظ جوڑ کے ادا ہوئے۔ ’’ہاں مَیں ....‘‘ ایک قدم اور آگے بڑھایا عاصم نے۔ ’’کیونکہ تم....‘‘ پیچھے ہوتے ہوئے اُس نے کہا، ’’کیونکہ تم آگے آ رہے ہو۔‘‘ اور یہ کہہ کر وہ نکل آئی وہاں سے۔ اس کی سانسیں اُکھڑی ہوئی تھیں ۔ خود کو نارمل کر کے لان تک آئی۔ ’’مَیں اس سے معافی مانگوں گی، اس سے معافی مانگے میری جوتی....‘‘عاصم نے یہ سب جان بوجھ کے کیا تھا اس سے بدلہ لینے کیلئے۔ اِدھر عاصم زور سے ہنسا تھا۔ ’’کیا یہ وہی یونیورسٹی والی لڑکی تھی... نُو وَے۔‘‘ خود ہی عاصم نے چائے نکالی اور اسنیکس کے ساتھ لان کی جانب بڑھ گیا۔ ’’یہ کیا عاصم.... اسمارہ کہاں ہے؟ اُس نے نہیں دیا۔‘‘ راستے میں پھوپھو نے پوچھا۔ ’’کیا کروں پھوپھو اسمارہ کچن میں تھی ہی نہیں تو خود ہی لے لی۔ کوئی بات نہیں ، پھوپھو میرا ہی تو گھر ہے۔‘‘ عاصم نے بڑے ہی پیار سے اور تیز آواز میں اسمارہ کو سناتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں میرا بچہ.... یہ کوئی کہنے کی بات ہے۔ بالکل تمہارا ہی گھر ہے۔‘‘ پھوپھو نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ اسمارہ اُن دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ جانتی تھی عاصم جان بوجھ کر یہ سب کر رہا ہے اُسے چڑانے کے لئے، غصہ دلانے کیلئے۔ ’’یہ پھوپھو بھانجا اور ان کی محبت اُف! عاصم بچپن سے امی کا لاڈلا تھا اور وہ بھی امی کو اتنا ہی پیار کرتا تھا۔ دونوں آکر لان میں بیٹھ گئے۔ ’’اسمارہ تم نے عاصم كو چائے کیوں نہیں دی؟‘‘ امی نے بیٹھتے ہوئے اسمارہ سے پوچھا۔ ’’آپ کا بھانجا خود لے کے پی سکتا ہے تو مَیں کیوں دوں ! آخر اس کا بھی تو گھر ہے۔ کیوں عاصم صاحب کیا غلط کہہ رہی ہوں مَیں ؟‘‘ اسمارہ نے معصومانہ انداز میں کہا۔ ’’نہیں اسمارہ میڈم!‘‘ ’’آپ کہاں کچھ غلط کہتی ہیں ، آپ تو جانتی بھی نہیں ہیں غلط ہوتا کیا ہے!‘‘ عاصم نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’چپ کرکے چائے پئو اپنی....‘‘ اسمارہ نے منہ بنا کر کہا۔ ’’جو حکم میرے....‘‘ عاصم نے اُسے دیکھتے ہوئے کپ سے ایک گھونٹ لیا۔
آج آخری پرچہ تھا۔ اسمارہ اور انابیہ امتحان گاہ سے باہر نکلیں ۔ ’’سکون کی سانس لی مَیں نے آج.... کم از کم پیپر تو ختم ہوئے۔‘‘ انابیہ نے شکر ادا کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں ! ختم تو ہو گئے۔‘‘ اسمارہ نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ ’’کیا ہوا تمہیں کوئی خاص خوشی نہیں ہو رہی ایگزام ختم ہونے کی؟ کیا بات ہے؟‘‘ انابیہ نے اُس سے پوچھا۔ ’’ہاں زیادہ تو نہیں ، بہت مس کروں گی!‘‘ ابھی اسمارہ نے بات مکمل بھی نہیں کی تھی کہ، ’’کیوں بھئی.... ایسا کیا ہے یہاں جو تم اتنا اُداس ہو رہی ہو! کسے اتنا مس کرو گی۔ مجھے بھی تو بتاؤ؟‘‘ اس بار سوال عاصم نے کیا تھا۔ اسمارہ جل کے خاک ہوگئی۔ ’’یہ کہاں سے ہر جگہ نازل ہو جاتا ہے! میرے خدایا....‘‘ اسمارہ نے پریشان ہوتے ہوئے بال کان کے پیچھے کئے تھے۔ اسمارہ نے اُسے دیکھا مگر بولا کچھ نہیں ۔ ’’بولو نا کسے مس کروگی ہاں ؟‘‘ عاصم اس کے پیچھے پڑ گیا۔ ’’کسی کو نہیں ....‘‘ اسمارہ کہتے ہوئے دوسری طرف گھوم گئی۔ عاصم گھوم کے دوسری طرف سے آکر اُس کے سامنے کھڑا ہوا۔ ’’عاصم تنگ نہیں کرو۔‘‘ اسمارہ نے تنگ آکر کہا۔ ’’کہیں تم یہ تو نہیں کہنا چاہ رہی کہ تم مجھے مس کروگی؟ تمہیں میں بہت یاد آؤں گا ہاں ؟‘‘ عاصم نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا۔ اس بات پر انابیہ بہت زور سے ہنسی تھی۔ عاصم نے تو نہیں مگر اسمارہ نے اُسے گھور کے دیکھا تھا۔ ’’اوکے، اوکے....‘‘ انابیہ نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا۔ ’’مَیں کسی سے نہیں کہوں گا، تم مجھے بتاؤ؟‘‘ اسمارہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا مانو چوری پکڑی گئی ہو۔ اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ اُسے پتہ نہ چلے مگر شاید.... اُس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل سکا اور وہ اسے دیکھے گئی اور وہ اسے آنکھیں چھوٹی کر کے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ جیسے اُس کی خاموش میں ہی سارا جواب مل گیا تھا عاصم کو۔ ’’فضول باتیں کروا لو بس....‘‘ اچانک ہی اسمارہ ہوش میں آئی تھی۔ اُس نے انابیہ کا ہاتھ تھاما اور جانے لگی۔ ’’ایک سیکنڈ محترمہ ابھی کہاں ؟‘‘ وہ اُس کے راستے میں کھڑا ہوگیا۔ ’’عاصم میرا راستہ چھوڑو....‘‘ اسمارہ نے اُسے دیکھے بغیر کہا۔ ’’آپ کا؟ نہیں ، دراصل راستے میں مَیں نہیں آپ کھڑی ہیں ۔ مس اسمارہ بجھا ہوا تارہ....‘‘ اُس نے مڑ کر دیکھا تو واقعی وہ کیمپس کے راستے میں کھڑی تھی جو اسمارہ کا راستہ نہیں تھا۔ ’’ارادہ تو نہیں بدل دیا آپ نے اسمارہ میڈم۔‘‘ ’’مجھ سے اُلجھا نہ کرو بیکار میں ....‘‘ اسمارہ نے انگلی دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں تو کیا.... کیا کر لیں گی آپ سوائے میرے گھر آ کر شکایت کرنے کے۔‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہہ رہا تھا۔ ’’دور رہا کرو مجھ سے عاصم تم....‘‘ انگلی دکھاتے ہوئے اسمارہ نے کہا تھا۔ ’’نہیں رہوں گا کیا کر لو گی....‘‘ اُس نے ایک جھٹکے سے قریب آتے ہوئے کہا تھا۔ ’’عاصم تم!‘‘ آگے اُس کے لفظ ادا نہ ہوسکے۔ جیسے برف کی مانند جم گئی ہو۔ ’’ہاں مَیں .... اُس کے آگے مَیں سن رہا ہوں بولو اسمارہ....‘‘ اُس نے اُس کے چہرے کے آگے ہاتھ ہلایا، ’’ہیلو میڈم! آپ کہاں گم ہو جاتی ہیں ۔‘‘ ’’ہاں ، نہیں ، کچھ نہیں ، مجھے جانا ہے دیر ہو رہی ہے۔‘‘ اسمارہ نے پریشانی میں بہت کچھ چھپانے کی کوشش میں کہا۔ ’’آپ پچھلے دس منٹ سے یہیں کھڑی ہیں ۔ لگ تو نہیں رہا کہ دیر ہو رہی ہے۔‘‘ اسمارہ جانے کیلئے مڑی ہی تھی کہ عاصم نے اُسے روکا ’’بات سنو....‘‘ اسمارہ رکی مگر مڑی نہیں ۔ ’’آج امی ابّا پھوپھو سے ملنے جائیں گے۔ بول دینا پھوپھو کو!‘‘ اسمارہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے کیلئے کچھ لب کھولے ہی تھے.... عاصم نے اس کو ہاتھ کے اشارے سے چپ کروایا اور جانے کیلئے کہہ دیا۔وہ خاموشی سے جانے لگی، ’’پتہ نہیں کیا ہوگا میرا اس لڑکی کے ساتھ میرے اللہ!‘‘ عاصم نے کہا۔
شام کو ماموں کی فیملی گھر پر تھی۔ ممانی بڑے اہتمام کے ساتھ آئی ہوئی تھی۔ پھلوں کا ٹوکرا، مٹھائی وغیرہ اور بہت سارے سامان۔ بات سمجھ تو آرہی تھی پر یقیں کرنا مشکل تھا۔ وہ کمرے میں تیار ہو رہی تھی ساتھ میں حیران پریشان بھی ہو رہی تھی۔ کیا ہو رہا تھا۔ کیوں ہو رہا تھا۔ کیسے اور نہ جانے کتنے ہی سوال اُس کے دماغ میں چل رہے تھے۔ آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی تو کھڑی ہی رہی کچھ ہوش ہی نہیں تھا۔ کسی نے سر پر چپت لگائی تو ہوش آیا کوئی اور بھی موجود ہے وہاں ۔ کب وہاں عاصم آیا اور آ کے اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ ’’تم.... تم یہاں کیا کر رہے ہو عاصم؟ تم یہاں کیسے آگئے؟‘‘ اسمارہ نے چونکتے ہوئے اس سے کہا۔ ’’اپنے پیروں پر چل کے اور سنو مَیں یہاں کیوں نہیں آ سکتا؟‘‘ عاصم نے جواب مانگا۔ ’’تم کیوں آئے ہو؟ کسی نے دیکھ لیا تو....‘‘ اسمارہ نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’اگلی مہینے میری فلائٹ ہے۔ تم جانتی ہو نا مَیں بیرون ملک جا رہا ہوں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے اور ویسے بھی منگنی میری ہے تو مَیں یہاں نہیں رہوں گا تو اور کون ہوگا؟ مس اسمارہ بجھا ہوا تارہ۔‘‘ ’’عاصم تم باز نہیں آؤ گے نا!‘‘ اسمارہ نے چڑ کر کہا۔ ’’نہیں ، کوئی مسئلہ ہے؟ اگر ہے تو بتائیں ؟‘‘ عاصم نے بہت محبت سے اُس سے پوچھا تھا۔ اسمارہ اُسے دیکھتی رہی پھر مسکراتے ہوئے ’’ناں ‘‘ میں سر ہلا دیا۔ ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے عاصم نے اُس سے اس کا ہاتھ مانگا، ’’تو پھر لائیں ہاتھ....‘‘ اور اسمارہ نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ بہت اعتماد اور یقین کے ساتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔
بھینی بھینی سی خوشبو تھی کوئی جو فزا میں گھل رہی تھی، مان تھا جو رکھ لیا گیا تھا، یقین تھا جو وہ مکمل ہوگیا تھا، کوئی رشتہ تھا ادھورا سا آج مکمل ہو رہا تھا، کوئی نام ملنے جا رہا تھا اس رشتے کو۔ خوشیوں کی چادر پھیلی تھی آسماں پر، جو لاحاصل تھا وہ حاصل ہو گیا تھا، اسمارہ اور عاصم ایک ہونے جا رہے تھے۔
یقین اور محبت کی یہ داستاں مکمل ہو گئی تھی۔